مذہب... انسانی زندگی کی بنیادی ضرورت

ام حبیبہ

اللہ تعالیٰ نے انسان کی رشد و ہدایت کے لیے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء مبعوث کیے۔ جنکی بعثت کا مقصد انسان کو اس کے دنیا میں بھیجے جانے کے مقصد سے روشناس کروانا تھا۔ پیدائش کے ساتھ انسان نے ارتقائی مراحل طے کرنا شروع کیے جوں جوں وہ ارتقائی منازل طے کرتا چلا گیا اس کی طرز معاشرت میں بھی تبدیلی آنا شروع ہو گئی۔ پہلے اس نے پتوں کا لباس پہنا، تھوڑا شعور آیا تو چمڑے کا لباس پہننے لگا یہاں تک کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لباس میں جدت آتی چلی گئی یہی حال مذہب کے ساتھ ہوا پہلے اس نے آباء پرستی شروع کی پھر بتوں کی بوچا کرنے لگ گیاپھر علم کی ترقی کے ساتھ ساتھ اس نے خدا کو ماننا شروع کیا اسی ارتقائی منازل میں انبیاء کی بعثت کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ مذہب ہر دور میں انسان کی بنیادی ضرورت رہا ہے کیونکہ اسے زندگی گزارنے کیلئے جن رہنما اصولوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ اسے مذہب ہی دے سکتا ہے یہی وجہ سے اگر ماضی سے حال تک کی تاریخ کا جائزہ لیں تو ہر انسان کسی نہ کسی مذہب سے متاثر نظر آتا ہے۔ احمد عبد اللہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں۔

دنیا میں انسان کی دو بنیادی ضرورتیں ہیں ایک طرف جسم اور روح کے رشتے کو قائم رکھنے کیلئے مادی اور جسمانی وسائل درکار ہیں اور دوسری طرف انفرادی و اجتماعی زندگی کو صحت کی بنیاد پر قائم رکھنے کیلئے اخلاقی و تمدنی اصولوں کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی ان دونوں ضروریات کو پورا کیامادی و جسمانی ضروریات کی تسکین کیلئے وسائل کا نہ ختم ہونے والا خزانہ زمین اور آسمان میں ودیعت فرما دیا ہے اور اخلاقی و تمدنی رہنمائی کیلئے انبیاء بھیجے جنہوں نے انسانی زندگی گزارنے کا طریقہ سیکھایا وہ کائنات کی روحانی تعمیر، فرد کی روحانی آزادی اور عالمگیر اہمیت کے بنیادی اصول ہیں۔

(السدوسی، 8591ء، مذاهب عالم ایک معاشرتی و سیاسی جائزه ص: 43)

ہمارے معاشرے میں چونکہ مطالعہ کا رجحان بہت کم ہو چکا ہے لہذا مذاہب کی تاریخ اور ارتقاء سے متعلق بہت کم لوگ معلومات رکھتے ہیں۔ اس وقت دنیا میں دو قسم کے مذاہب ہیں۔ ایک سامی مذاہب جنہیں الہامی مذاہب بھی کہتے ہیں اور دوسرے غیر سامی مذاہب ہیں۔ ، سامی مذاہب میں یہودیت، عیسائیت اور اسلام شامل ہیں جبکہ غیر سامی مذاہب میں بدھ مت، ہندومت اور زرتشت مت اور سکھ مت، تاوازم، کنفویشس ازم وغیرہ شامل ہیں۔ یعنی دنیا میں موجود ہر شخص کسی نہ کسی مذہب سے متاثر چلا آرہا ہے چاہے وہ سامی مذاہب ہوں یا غیر سامی مذاہب چونکہ مذہب زندگی کے ہر معاملے میں انسان کی مکمل رہنمائی کرتا ہے اس لئے اس کے وجود سے کبھی انکار نہیں کیا جا سکا۔ مگر بدقسمتی سے عصر حاضر میں مذہب سے دوری کا رجحان تیزی سے فروغ پا رہا ہے اور لوگ (لادینیت) سیکولرازم کی طرف جا رہے ہیں۔ اس کی وجہ ان کے نزدیک یہ ہے کہ کسی ایک مذہب کے پیروکار بننے کی بجائے جس مذہب کی جو بات اچھی لگے اپنا لینی چاہیے اس لیے کسی ایک مذہب کا ماننا ضروری نہیں مذہب کے بغیر بھی انسان زندگی بہتر طریقے سے گزار سکتا ہے جبکہ حقیقت اسکے برعکس ہے انسان کو ہمیشہ سے زندگی گزارنے کے رہنما اصول مذہب نے ہی فراہم کیے ہیں۔ بدھ مت، زرتشت ازم یہ مذاہب قبل مسیح سے اپنا وجود رکھتے تھے مگر وقت کے ساتھ ساتھ ان کی مقبولیت میں کمی واقع ہوئی جسکی وجہ یہ تھی کی وہ زندگی گزارنے کے لئے مکمل شریعت فراہم نہ کر سکے ا س دوران انبیاء کی آمد کا سلسلہ بھی جاری رہا دنیا میں اس وقت سامی ادیان کے پیروکاروں کی تعداد سب سے ذیادہ ہے ۔

سامی مذاہب سے کیا مراد ہے؟

سامی مذاہب سے متعلق یہ سوال اکثر ذہن میں اْبھرتا ہے کہ سامی کا مطلب کیا ہے ؟اسکی چند تعریفات درج ذیل ہیں:

:’’سام حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹوں میں سے پہلے بیٹے تھے ان کے باپ نے مرتے وقت انہیں اپنا جانشین مقرر کیا اور خاص فرائض اس کے سپرد کیے ان کی یہ افضلیت اْن کے اخلاق میں بھی شامل ہوئی، انہی کی اولاد حسن و وجاہت کے معاملے میں بھی ممتاز ہے عربوں کو ہمیشہ سام کی اولاد بتایا جاتا ہے۔ ‘‘

(اردو دائره معارف اسلامیه، 3791، 01: 916-816)

اسی طرح سے بائیبل میں درج ہے۔

’’نوح کے بیٹے جو کشتی سے نکلے سمِ(سام)، حام اور یافت تھے اور حام کنعان کا بیٹا تھا۔ یہی تینوں نوح کے بیٹے تھے اور ان ہی کی نسل ساری زمین پر پھیلی۔ ‘‘

(کتاب پیدائش)

سام کی اولاد سے ہی حضرت ابراہیم پیدا ہوئے۔ بائیبل میں حضرت ابراہیم کا سلسلہ نسب درج ذیل ہے۔

’’ابرام بن تارح بن نحور بن سروج بن رعو بن فلج بن عبر بن سلح بن ارفکسد بن سام۔ ‘

(کتاب پیدائش، 11: 92-21)

یوں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد سے حضرت اسماعیل اور حضرت اسحق پیدا ہوئے ان کی اولاد سے آگے تین مذاہب (یہودیت، عیسائیت اور اسلام معرض وجود میں آئے۔ سامی مذاہب میں سب سے پہلا اور قدیم مذہب یہودیت ہے۔

یہودیت۔ سامی ادیان کا پہلا مذہب

یہودیت کا لفظ حضرت یعقوب کے بیٹے یہودا کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔

  • یہودیت کی اصطلاح قدیم سلطنت یہودا کے باشندوں یا یہودا بن یعقوب علیہ السلام کی اولاد یا مذہب یہود پر عامل شخص کیلئے مخصوص ہوتی ہے۔
  • عام طور پر اس سے مراد حضرت موسیٰ کی شریعت کو ماننے والے لوگ ہیں مگر چونکہ یہودی مذہب کی تعلیمات فقط اولاد یعقوب تک محدود رہیں۔ اس لیے یہ لفظ ایک نسلی گروہ کیلئے مخصوص ہو کر رہ گیا ہے۔

(اردو دائره معارف اسلامیه (9891ء)، 553: 32)

قاموس الکتاب جو کہ کتاب مقدس (بائیبل )کا اشاریہ تصور کی جاتی ہے اْس میں یہودا کی تعریف یوں کی گئی ہے۔

’’یہ اس عبرانی قبیلہ کا نام ہے جو یعقوب کے بیٹے یہودا سے شروع ہوا جب یہ قبیلہ ملک کنعان ( فلسطین )میں داخل ہوا تو اس نے جنوبی فلسطین میں بیت لحم سمیت بہت سے علاقے پر قبضہ کر لیا۔ اس قبیلے نے ساؤل بادشاہ اور داود بادشاہ کا ساتھ دیا۔ ‘‘

(قاموس الکتاب)

’’حضرت سلیمان علیہ السلام کے بعد جب بنی اسرائیل کی سلطنت دو ٹکڑوں میں تقسیم ہو گئی تو یہ خاندان اس ریاست کا مالک ہوا جو یہودیہ کے نام سے موسوم ہوئی اور بنی اسرائیل کے دوسرے قبیلوں نے اپنی الگ ریاست قائم کر لی جوکہ سامریہ کے نام سے مشہور ہوئی اورپھر اسریہ نے نہ صرف یہ کہ سامریہ کو برباد کیا بلکہ ان اسرائیلی قبیلوں کا نام و نشان بھی مٹا دیا۔ ‘‘

مودودی، (8002ء)، یہودیت قرآن کی روشنی میں، ص: 32)

اس کے بعد صرف ایک قبیلہ یہودا ہی بچا یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ انبیاء کی اآمد کا سلسلہ تو حضرت آدم علیہ السلام سے جاری رہا مگر حضرت یعقوب کی اولاد جو بنی اسرائیل کے نام سے موسوم ہوء سامی مذاہب کا باقاعدہ اآغاز تب ہوا ب درج بالا تعریفوں سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہودیت کی کوئی ایک معین تعریف نہیں ہے لیکن عام طور پر انہیں شریعت موسوی پر عمل پیرا قوم تصور کیا جاتا ہے۔ لفظ یہودیت سے مراد اس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پیروکار ہیں جن پر تورات نازل ہوئی۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہودیت کو عام طور پر بنی اسرائیل کی طرف موسوم کیا جاتا ہے اس ابہام کا زالہ بھی ضروری ہے کیونکہ بنی اسرائیل سے مراد تمام آل یعقوب ہے جس میں ان کے بارہ بیٹوں کی اولادیں شامل ہیں۔ اس لحاظ سے بنی اسرائیل ایک جامع لفظ ہے جبکہ یہودیت کو چونکہ صرف حضرت یعقوب کے بیٹے یہودا کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اس لیے یہ ایک جزوی نام ہے۔

مسیحیت۔ سامی ادیان میں دوسرا مذہب

مسیحی عام طور پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیرو کاروں کو کہا جاتا ہے لیکن ابتداء میں حضرت عیسی علیہ السلام کے پیروکاروں کو حواریین کہا جاتا تھا قرآن پاک میں ان کیلئے نصاریٰ کا لفظ بھی استعمال ہوا غرض حضرت عیسیٰ کے پیروکاروں کو مسیحی، عیسائی، نصاری کہا جاتا ہے۔

علامہ غلام رسول سعیدی تفسیر تبیان القرآن میں لکھتے ہیں کہ:

’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اصحاب کو حواری کہا جاتا ہے۔ ‘‘

(سعیدی، 6002ء، تفسیر تبیان القرآن 961: 2)

ان ہی حواریین کو قرآن میں نصاریٰ کا نام دیا گیا ہے۔ حضرت عیسی علیہ السلام نے اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچایا لیکن مسیحیت مذہب کا لفظ کبھی استعما ل نہیں کیا بلکہ ہر نبی کی طرح اپنے بعد آنے والے نبی کی پیشین گوئی بھی کی مگر دیگر انبیاء کی اقوام کی طرح بنی اسرائیل نے اْنھیں بھی جھٹلایا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد جدید مسیحیت کا بانی سینٹ پال بنا جو کہ ایک یہودی تھا جسے بائیبل میں پولس رسول کا نام دیاگیا۔

پولس نے مذہب عیسوی میں تبدیلی کی اور غیر قوموں کے لوگوں سے شریعت موسوی کی پابندی اٹھا کر مذہب عیسوی میں داخل کرنا شروع کیا تو اْن نو عیسائیوں کو امتیاز کیلئے مسیحی کہا جانے لگا یہ نام وسیع معنوں میں پہلی بار دوسری صدی عیسوی میں مروج ہوا بنابرین نام کی تبدیلی فکرو خیال کی تبدیلی کا مظہر بھی ہے لہذا پال کے ذیر اثر عیسائی مذہب نے جو رنگ اختیار کیا تھا وہ حضرت عیسیٰ کے اپنے خیالات و افکار سے مختلف ہے اسی بنا پرنام کی تبدیلی ضروری خیال کی گئی۔

(اردو دائره معارف اسلامیه، 1002ء، 22: 392)

یوں عیسائیت کے پیروکاروں کیلئے مسیحی، ناصری، عیسائی کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ اس وقت دنیا کے بڑے مذاہب میں سے ایک مذہب ہے جس کے پیروکار دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔

اسلام: سامی ادیان میں آخری مذہب

سامی مذاہب میں تیسرا اور آخری مذہب اسلام ہے جو نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لے کر آئے چونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آخری نبی ہیں لہذا آپ کا لایا ہوا دین اسلام بھی آخری الہامی مذہب ہے جو کہ تاقیامت انسان کی رشد و ہدایت کرتارہے گا اسی طرح خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایک محل کی سی ہے جسے کسی نے خوب آراستہ و پیراستہ کیا، لیکن ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی، لوگ آکر مکان کو دیکھنے لگے اور اس کی خوبصورت تعمیر سے خوش ہونے لگے سوائے اس ایک اینٹ کی جگہ کہ وہ اس کے علاوہ اس محل میں کوئی کمی نہ دیکھتے پس میں ہی وہ آخری اینٹ رکھنے کی جگہ تھا میری بعثت کیساتھ انبیاء ختم کر دیئے گئے۔

(بخاری، الصحیح البخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النبین، 031: 3، رقم: 1433)

غرض انبیاء کی اآمد کا جو سلسہ حضرت آدم سے شرو ع ہوا وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ختم ہوا لہذا اسلام آخری مذہب ہونے کے ناطے سے جامع اور ایک خاص طبقہ یا گروہ کی بجائے تمام عالم کیلئے رشدو ہدایت کا باعث ہے۔ ان مذاہب نے ارتقائی سفر کیسے طے کیا یہ ایک الگ بحث ہے ہاں ان تین مذاہب کے تناظر میں یہ بتانا مقصود تھا کہ کوی بھی دور مذہب کے وجود سے خالی نہیں رہا۔ ا س میں کوئی شک نہیں کہ سوائے اسلام کے باقی مذاہب اپنی حقیقی تعلیمات سے منحرف ہو گئے مگر مذہب کا وجود قائم رہا ہے۔

ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، جولائی 2018ء

تبصرہ