مرتبہ: ام حبیبہ
’’اسلام میں احکام، فرائض اور واجبات کے ساتھ حقوق پر بھی خاص زور دیا گیا ہے اسلامی معاشرہ حقوق و فرائض کے حسین امتزاج سے نمو پاتا ہے دین کی کل تعلیمات کا 10 فیصد مواد حقوق اللہ جبکہ %90 مواد حقوق العباد سے متعلق ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ بندے کا اللہ کے ساتھ جو رشتہ ہے اسے قائم و برقرار رکھنا بہ نسبت بندے کا بندوں سے صحیح طرز پر رشتہ استوار رکھنے سے زیادہ آسان ہے۔ مثال کے طور پر اگر بندہ کی نیت ہو کہ وہ اللہ سے رشتہ استوار کرنے کا خواہشمند ہے تو اس کی نیت و ارادہ سے ہی اللہ تعالیٰ سے اس کا اچھا رشتہ قائم ہوجاتا ہے۔ لیکن اس بندے کا اپنی تنظیم کے اندر اپنے کولیگز کے ساتھ جو رشتہ ہے اسے استوار کرنا مشکل ہے‘‘۔
لہذا حقوق العباد میں بندے کا بندوں سے تعلق آتا ہے اور اس پر اس لیے اتنا زور دیا گیا ہے کہ یہ مشکل امر ہے مگر اس میں کوئی شک نہیں اسی میں سارا کچھ ہے یہی ولایت کا بیج ہے اور ولایت کا جو راستہ ہے وہ اسی بیج سے شروع ہوتا ہے کہ آبندے کا دوسروں کے ساتھ تعلق کیسا ہے۔ بندے کا اللہ تعالیٰ اور لوگوں سے تعلق استوار کرنا کس طرح مختلف ہے۔
بندے کا اللہ تعالیٰ سے تعلق استوار کرنا:
بندے کا اللہ سے تعلق بنانا کیسے آسان ہے کہ انسان اللہ سے تعلق قائم کرنے کے لیے اس کے احکام پر عمل کرتا ہے اپنی طاقت و استطاعت کے مطابق اس کے حکم کو سن کر اس کی اتباع کرتا ہے یہ تو رشتہ بنانے کا طریقہ ہے مگر یہ رشتہ خراب کیسے ہوتا ہے جب ہم بندگی کے تقاضوں کو توڑتے ہیں اس کی بات دھیان سے نہیں سنتے یا دل و دماغ سے مانتے ہیں مگر عمل نہیں کرتے تو اللہ سے یہ تعلق بندگی ٹوٹ جاتا ہے اب جب بندہ محسوس کرے کہ اللہ سے اس کا رشتہ کمزور پڑ رہا ہے تو وہ تین کام کرے تو رشتہ چلتا رہتا ہے۔
ایک تو یہ کہ اس کو احساس ہو کہ میں نے اللہ کے حکم کو توڑا ہے۔ ایسا کام کیا ہے جو وہ پسند نہیں کرتا یا اس کی نافرمانی کی ہے جب بندہ یہ محسوس کرے تو شرمندہ ہوجائے اس کو احساس ہو کہ میں نے غلطی کی ہے۔ احساس کے بعد دوسری چیز گناہ پر شرمندگی ہے جب بندہ شرمندہ ہوگا تو اللہ سے معافی مانگ لے گا۔ اب اس سارے عمل میں بندے کو کوئی مشقت نہیں کرنی پڑ رہی بس تین کام کئے گناہ کا احساس، شرمندگی اور توبہ یہ تو بندے کا عمل ہوگیا جواباً اللہ تعالیٰ کیا کرتا ہے کہ جونہی بندہ گناہ پر شرمندہ ہوکر معافی مانگتا ہے اللہ تعالیٰ اسے معاف کردیتا ہے۔
اس بندے نے اب اللہ کی طرف سے کیا ہوتا ہے کہ وہ جونہی معافی مانگتا ہے معاف کردیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے معافی کے لیے عدد کی شرط نہیں رکھی کہ بندے نے دس بار توبہ کرلی اب میں معاف نہیں کروں گا یہ ہر بار توبہ کرکے مکر جاتا ہے، 70 بار توبہ کرلی اب معافی نہیں دوں گا اللہ نے یہ شرائط نہیں رکھیں بندہ جب بھی گناہ کرکے اسی عمل کو دہراتا ہے جس کا پہلے ذکر کیا گیا اللہ ہر بار اسے معاف کرتا ہے چاہے بندہ زندگی میں سیکڑوں مرتبہ یہ عمل کرتا رہے بشرطیکہ اسے احساس ہو اور وہ سچے دل سے معافی مانگ لے۔
اس طرح اللہ کے ساتھ رشتہ بنانا اور برقرار رکھنا آسان ہے کہ بندے کو جھجک اور شرم نہیں ہوتی گناہ کے احساس میں شرمندہ ہونے میں اور اللہ سے معافی مانگنے میں اسے کوئی جھجک نہیں اور اللہ کو معاف کردینے میں ہر بار معاف کردینے میں کوئی رکاوٹ نہیں اس لیے اللہ کے ساتھ رشتہ استوار آسان ہے اور وہ لوگ جو اللہ کے بندے ہوجاتے ہیں ان کے اندر اللہ کا حیا آجاتا ہے پھر وہ یہ کوتاہی کرتے نہیں ہیں وہ بدرجہ گناہوں سے پاک ہوجاتے ہیں۔
بندے کا بندے سے تعلق:
اوپر بندے کا اللہ سے تعلق بیان ہوا لیکن بندے کا بندے سے تعلق مختلف نوعیت کا ہے مثلاً ایک تنظیم میں کوئی صدر، ناظمہ، ناظمہ دعوت، ناظمہ رفاقت، ناظمہ تنظیمات ہوتیں ہے یا کوئی دوسرا شعبہ ہو جیسے مردوں کی تنظیم MSM ہے یہ سارے تنظیمی ڈھانچے ہوتے ہیں جن میں آپس میں مختلف رشتے ہوتے ہیں جیسے کوئی سینئر ذمہ داران ہیں اور کوئی تنظیمات کا فرد ہے یا کارکنان یہ سب رشتے ہیں اب بندوں کا بندوں سے رشتہ و تعلق اس لیے مشکل ہوتا ہے کہ دوسروں کی حق تلفی کرتا ہے اور پھر اسے احساس نہیں ہوتا کہ میں نے حق تلفی کی ہے اس کو احساس نہیں ہوتاکہ میں نے کوئی زیادتی کی ہے۔ مثلاً تلخ بول دینا، سخت کلامی کرنا، غیبت کرنا، چغلی کرنا، چھوٹے کے ساتھ زیادتی کرنا، سینئر کی بات نہ ماننا، کولیگ کی حق تلفی کرنا وغیرہ وغیرہ۔ یہ ہے وہ بنیادی جڑ جہاں سے بندوں کا رشتہ توڑ پھوڑ کا شکار ہوتا ہے۔
لہذا اس تعلق میں مشکل اس لیے آتی ہے کہ جب بندہ بندہ کے ساتھ زیادتی کرتا ہے تو اپنی غلطی کا اسے احساس نہیں ہوتا یہاں سے مسائل شروع ہوں گے ذہن جامد ہوجاتا ہے کہ آگے کیا کریں جب غلطی کرنے والے کو احساس ہی نہیں ہوتا اور اگر کوئی احساس دلائے تو اس سے بھی غصہ کرنا ہے لڑائی کرتا ہے اس کو بھی غلطی پر سمجھنا ہے یعنی ہمیشہ بندہ دوسرے کو ہی غلطی پر سمجھتا ہے اپنی غلطی کا ادراک ہی نہیں کرنا تو سمجھانا بھی فضول ہے۔
بندوں کے رشتوں میں یہ مسئلہ ہے کہ جب احساس نہیں ہوگا تو شرمندہ بھی نہیں ہوگا اور جب شرمندہ نہیں ہوگا تو دوسرے سے معافی بھی نہیں مانگے گا۔ یہاں سے خرابی شروع ہوجاتی ہے اب اس نے پھر کسی سے زیادتی کی اسے احساس نہیں ہوا پھر شرمندہ نہیں ہوا پھر معافی نہیں مانگی تو سیاہ نقطہ پڑتا رہا طبیعت میں سختی آتی گئی گویا نفرت کا بیج بودیا گیا۔ کیونکہ جس کے ساتھ زیادتی ہوئی اس کے دل میں نفرت، ملال، رنج، دکھ، غصہ آیا جو بڑھتے بڑھتے نفرت، عداوت، غیض و غضب تک جاپہنچا پھر یہ اثرات بڑھتے چلے جاتے ہیں کیونکہ بندہ جب بندے سے زیادتی کرتا ہے تو نہ اپنی غلطی کا احساس کرتا ہے نہ شرمندہ ہوتا ہے نہ معافی مانگتا ہے بلکہ ان سب چیزوں کو وہ سمجھتا ہی نہیں ہے اور معافی مانگنے میں حیا محسوس کرتا ہے۔ اپنی بے عزتی محسوس کرتا ہے جبکہ وہ اللہ سے معافی مانگنے میں بے عزتی محسوس نہیں کرتا۔ وہ رشتہ ایسا ہے جبکہ یہاں برابری کا تصور ہے کہ ہم ایک جیسے ہیں میں کیوں معافی مانگوں یہاں معافی مانگنے میں اس کی انا، اس کا نفس آڑے آجاتا ہے۔ اس میں ساس بہو کا رشتہ، نندوں کا، دیوارنیوں کے رشتے، اعزاء و اقارب کے رشتے اور سہیلیوں، دوستوں اور سوسائٹی کے لوگوں کے رشتے آجاتے ہیں۔ تنظیم اور اداروں میں کولیگز کے سارے رشتے اس کے اندر آتے ہیں یہ حقوق العباد ہیں۔ اب ایک طرف تو بندہ زیادتی کا احساس نہیں کرتا دوسری طرف اگر وقت پر ایک بندے کو احساس ہو بھی جائے اور احساس کے ساتھ وہ شرمندہ ہوا اس نے معافی بھی مانگ لی تو دوسرے طرف جو اس کی بہن ہے، اس کی رشتہ دار، کولیگ یا دوست ہے وہ مجال ہے معاف کردے وہ معافی مانگ بھی لے تو دوسروں نے معاف نہیں کرنا۔ اب اللہ نے یہ نہیں پوچھا کہ تمہیں سو مرتبہ معاف کیا ہر روز تم معافی مانگتے ہو۔ ہر روز ہی معاف کرتا جائوں بلکہ جونہی بندے نے معافی مانگی اللہ نے معاف کردیا۔
بندہ ایسا نہیں کرتا اول تو معافی مانگنے والے نے معافی نہیں مانگنی ہی نہیں اور اگر کبھی ایسا ہوگیا اور اس نے معافی مانگ لی تو دوسری طرف بھی بندہ ہے اس کا بھی اسی طرح نفس ہے اس نے معاف ہی نہیں کرنا منہ بنالینا ہے۔ آئیں بائیں شائیں کرے گا ٹال مٹول سے کام لے گا یا سوچے گا یہ ہر دفعہ معافی مانگ کے مکر جاتا ہے یہ منافق ہے یہ سوچ کر یا تو معاف نہیں کرے گا اگر کر بھی دیا تو زبان سے رسمی لفظ ادا کردے گا دل میں غصہ برقرار رہتا ہے جو مرتے دم تک نہیں جائے گا۔
اس سے انسانوں کے تعلقات خراب ہوتے ہیں جنہیں درست کرنا ہی اصل ریاضت اور مجاہدہ ہے۔ اس کے لیے دل کا کھلا ہونا نفس کا صاف ستھرا ہونا اور دلوں کا وسیع ہونا اور طبیعت کا خیر خواہ ہونا ضروری ہے اس پر انسان کو محنت کرنی چاہئے۔ یہ طریق اپنالیا جائے تو اور یہ خوبیاں اگر جمع کرلیں کہ نفس کسی کے بارے میں برائی نہ سوچے نہ کسی سے برائی کرے نہ کہے یعنی برائی کا سوچنا بہت نچلے درجے کی چیز ہے کہ بندہ ذہنی طور پر دوسرے کے لیے برائی سوچے اس سے ہلکے درجے کی صورت ہے کہ دوسرے کے ساتھ برائی کریں۔
اس کا طریقہ یہ ہے کہ برائی دیکھیں ہی نہ یعنی کسی میں سو برائیاں بھی ہوں دوسرا اس سے بے نیاز ہوجائے وہ نظر ہی نہ رکھے۔ اگر ایسی آنکھیں انسان کی ہوجائیں تو کیا بات ہے اس کا کیا درجہ ہوجائے گا۔ جب یہ چیز ہوجائے تو انسان کا نفس اس چیز سے پاک ہوجاتا ہے۔ اس کے ساتھ دل میں وسعت و فراخی آجاتی ہے دل کھول جاتا ہے اور جب دل کھل جاتا ہے۔ ایک اور چیز جو اہم ہے وہ یہ کہ ہر ایک کے لیے بھلائی سوچیں۔ ہر ایک کے ساتھ بھلائی کریں اگر کسی کی اچھائی بیان کرنے کی ہمت نہیں پڑ رہی تو چلو برائی نہ کہیں خاموش رہیں۔ دل میں بھی نہ سوچیں، زبان پر بھی نہ لائیں اور عمل میں بھی نہ لائیں۔ اگر یہ خوبیاں بندہ اپنے اندر جمع کرے تو ایک بیج بنتا ہے جس کا نام ولایت ہے۔ یعنی دوسروں کی برائیوں سے بے نیاز ہوجانے سے وہ تقویٰ حاصل ہوتا ہے جو انسان کے اندر ولایت کی بنیاد رکھ دیتا ہے اور بندہ ولایت کے درجہ میں داخل ہوجاتا ہے۔
غرض ولایت کی ابتداء حقوق اللہ کی طرف سے نہیں ہوتی بندہ حقوق العباد کی طرف سے ہوتی ہے۔ حقوق اللہ میں فرائض و واجبات و وامر و نواہی میں کوتاہی نہ کرنا شامل ہیں یہ بنیادی چیزیں ہیں جو یہ تو ہر مومن و مسلمان کے لیے فرض ہیں۔ فرائض و واجبات کا تارک نہ ہونا اوامر ونواہی پر عمل میںکوتاہی نہ کرنا یہ مومن کی شرائط ہیں مگر اوامر و نواہی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے جو محنت ہے وہ حقوق العباد پر ہے اسی سے اللہ کی ولایت کا راستہ کھلتا ہے۔ جب راستہ کھلتا ہے تو ولایت کے دو درجے ہیں۔ ایک چھوٹا درجہ اور ایک بڑا درجہ ہے۔
چھوٹا درجہ ولایت کا یہ ہے کہ بندہ ان خوبیوں کے ساتھ اللہ کے تمام احکام کی نگرانی کرتا ہے۔ بڑے درجے کا ولی وہ ہوتا ہے کہ اللہ اس بندے کے معاملات کی نگرانی کرتا ہے بندہ ہمہ وقت اللہ کے احکام کی نگرانی کرنے یہ ولایت صغریٰ ہے۔ اور اس کے نتیجے میں اگر اللہ بندے کے معاملات کی نگرانی اپنے ذمہ لے تو اللہ اس کا نگران بن جائے یہ ولایت کبریٰ ہے۔ مگر دونوں صورتوں میں ابتداء فرائض و واجبات اور اوامر و نواہی کو پورا عمل پیرا ہوتے ہوئے ابتداء حقوق العباد کے حسن سے شروع ہوتی ہے۔
اللہ رب العزت نے جنہیں یہ موقع دیا ہو کہ اس کے دین کی خدمت کررہے ہیں جیسے تحریک منہاج القرآن کے جملہ رفقاء و وابستگان یہ ایسا کام ہے کہ اس کے بارے میں سوچنا اس کے بارے میں بولنا کام کرنا حتی کہ میٹنگ تک کرنا بھی عبادت ہے کیونکہ یہ کام اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اور دین کے احیاء و ترویج کا ہے۔
مگر یہ اجر تب خراب ہوتا جب آپس کے تعلقات خراب ہوتے ہیں لہذا ہمیں چاہئے کہ اس پر محنت کریں جب آپس کے تعلقات اچھے ہوں تو دل وسیع ہوجائے پھر کوئی بھی تنظیم ہو یا ادارہ ترقی پر گامزن ہوجاتا ہے یعنی حقوق العباد احسن انداز سے سرانجام دیئے جائیں تو دنیا میں بھی خیر ہوگی اور آخرت میں بھی اجر ملے گا۔ ان شاء اللہ
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، جولائی 2018ء
تبصرہ