پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے مرکزی سیکرٹریٹ میں پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دھاندلی، کرپشن اور ریاست کے خلاف اعلان جنگ کرنے والے جرائم پیشہ عناصر کو تحفظ دینے والے اس نظام انتخاب کا حصہ نہیں بنیں گے ، عوامی تحریک حصہ لے گی اور نہ کسی عہدیدار کو ٹکٹ جاری کرے گی، انہوں نے پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ جن عہدیداروں نے کاغذات جمع کروائے وہ واپس لے لیں، جیتنے والے گھوڑے ہی ناگزیر ہیں تو پھر دھرنوں کی کیا ضرورت تھی؟ یہ نظام عوام کا نہیں ’’الیکٹیبلز‘‘ کا ہے، الیکشن کے بعد شر کے ساتھ مایوسی بھی بڑھتے ہوئے دیکھ رہا ہوں، چور، ڈاکو، لٹیرے اور جرائم پیشہ عناصر اور ان کے سرپرست مختلف رنگوں کے ساتھ اسمبلی پہنچیں گے۔یہ نظام پڑھے لکھے مڈل کلاس کے شرفاء کو قبول نہیں کررہا، ہم اپنے موقف اور نظریے سے کسی صورت پیچھے نہیں ہٹیں گے، کرپشن ہوائی جہاز اور احتساب بیل گاڑی پر سوار ہے، انہوں نے کہا کہ کرپشن اور مختلف سکینڈلز پر نوٹس تو بہت ہوئے مگر فیصلے نہیں آئے، اصغر خان کیس بھی کئی بار میڈیا کی زینت بنا، سوئس بنکوں میں پڑی دولت واپس لانے کے نوٹس بھی لیے گئے، قرضہ معاف کروانے والوں کی لسٹیں بھی کئی بار مانگی گئیں، بیرون ملک بنک اکائونٹس اور املاک پر بھی نوٹس ہوئے مگر نتیجہ کچھ نہیں نکلا، انہوں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ اڑھائی ماہ قبل چیف جسٹس پاکستان نے کہا تھا سانحہ ماڈل ٹائون کی لاہور ہائیکورٹ میں زیر سماعت اپیلوں کے فیصلے 15 دنوں کے اندر کیے جائیں، آج تاریخ بھی نہیں مل رہی ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ انتخابی اصلاحات کی پارلیمانی پارٹی نے بھی قوم سے اجتماعی دھوکہ کیا۔ اس کمیٹی میں داڑھی والی اور بغیر داڑھی والی پارٹیاں بھی شامل تھیں، سب نے مل کر کاغذات نامزدگی سے آرٹیکل 63، 62 کے مطابق اہلیت کے متعلق جملہ کالم ختم کیے اس کے ساتھ ختم نبوت کا حلف نامہ بھی تبدیل کیا، بند کمرے میں ہونے والے اس پارلیمانی کمیٹی کے اجلاسوں میں کچھ اور ڈسکس ہوتا رہا جبکہ ٹی وی چینل پر آ کر کچھ اور کہا جاتا رہا۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس دھن، دھونس، دھاندلی، کرپشن زدہ نظام کا حصہ نہیں بنیں گے۔ عوامی تحریک اصلاحات اور تبدیلی کی سب سے بڑی محرک ہے، سربراہ عوامی تحریک نے کہا کہ میں کروڑوں عوام کے دلوں کی دبی ہوئی آواز ہوں اور ہم اپنا یہ فریضہ آخری سانس تک انجام دیتے رہیں گے، انہوں نے کہا کہ دسمبر 2012ء میں سیاست نہیں ریاست بچائو کی بات کی، لانگ مارچ کیا، قوم کو آرٹیکل 63,62 کا سبق پڑھایا، عوامی شعور بیدار کیا، گزشتہ ایک سال سے احتساب کے حوالے سے کچھ شور اٹھا مگر فیصلہ کوئی نہیں آیا اور اب احتساب میں سنجیدگی بھی نظر نہیں آرہی، کرپشن کے بعض کیسز میں حتمی دلائل بھی ہو چکے مگر فیصلے رکے ہوئے ہیں، اب بھی ایک ہی موقف ہے کہ اصلاحات، احتساب اور پھر انتخاب، انہوں نے کہا کہ ایک ہزار سے زائد قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر 21 ہزار سے زائد افراد نے کاغذات جمع کروائے ، ایف بی آر، سٹیٹ بنک، ایف آئی اے، نادرا کے ذرائع سے رپورٹس چھپ رہی ہیں کہ جن 27 سو امیدواروں کے کاغذات منظور ہوئے ان پر قتل، کرپشن، بھتہ خوری، منی لانڈرنگ، قرض خوری، ریپ، انسانی سمگلنگ سمیت اخلاقی نوعیت کے سنگین الزامات ہیں، سانحہ ماڈل ٹائون کے قتل عام میں شریف برادران کوکلین چٹیں دینے والے پولیس افسر ’’شفاف الیکشن ‘‘کیلئے لاہور میں تعینات کر دئیے گئے، کارکنان کو تفصیلی گائیڈ لائن دے رہے ہیں، جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں مگر اس جمہوریت پر جو عوام اور ریاست کے مفاد کی محافظ ہو، یہ جمہوریت چوروں، ڈاکوئوں کے مفادات کی محافظ ہے۔ سربراہ عوامی تحریک نے پریس کانفرنس میں اس نظام کا کھوکھلا پن ایک بار پھر قوم کے سامنے رکھ دیا۔’’نوٹا‘‘ کا مطلب تھا کہ بیلٹ پیپر میں ایک خانہ شامل کیا جائے کہ اگر ووٹر کسی بھی امیدوار سے مطمئن نہیں تو وہ ’’نوٹا‘‘ والے خانے میں سٹیمپ لگا دے۔ اگر الیکشن کمیشن کی اس تجویز کو منظور کر لیا جاتا تو امیدواروں کو اپنی اصل حقیقت اور مقبولیت کا اندازہ ہو جاتاہے۔
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، جولائی 2018ء
تبصرہ