آثارِ قلم: ذبح اسماعیل سے ذبح حسین تک

مرتبہ: ماریہ عروج

زیر مطالعہ کتاب کا عنوان ذبح عظیم ہے۔ یہ کتاب شخصیات کے زمرہ میں آتی ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی یہ کتاب اقبال کے اس شعر کی ترجمان و شارح ہے کہ:

غریب و سادہ و رنگیں ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسین ابتداء ہے اسماعیل

تاریخ انسانی کے ہر دور میں مسند اقتدار پر براجمان ظالم حکمران انسانی کھوپڑیوں کے مینار تعمیر کرکے اپنی انا کی تسکین کرتے رہے ہیں۔ یہ روایت آج کی نام نہاد مہذب اور جمہوری دنیا میں ظلم، بربریت، درندگی اور وحشت کی انتہاؤں کو چھوتے ہوئے نہ صرف زندہ ہے بلکہ پوری قوت اور شدت کے ساتھ متحرک بھی ہے۔ جنگل کا قانون آج بھی کسی نہ کسی صورت میں اولاد آدم پر مسلط ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ اب توسیع پسندی کے پیمانے بدل گئے ہیں، اب جسمانی غلامی کی جگہ سیاسی اور معاشی غلامی کے نئے نئے انداز متعارف ہوگئے ہیں۔ ریاستی دہشت گردی ہمارے پورے عہد کی پہچان بن گئی ہے۔

تاریخ عالم شاہد عادل ہے کہ حاکم اور محکوم طبقات کے درمیان صدیوں پر محیط سیاسی اور طبقاتی کشمکش دراصل انسان کے بنیادی حقوق کی پامالی کا نتیجہ ہے اور یہ کشمکش اس وقت تک جاری رہے گی جب تک دنیا ابن آدم کو قانون اور حقوق دینے والے پیغمبر امن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دہلیز سے اپنی غلامی کا رشتہ استوار کرکے افق عالم پر دائمی امن کی بشارتوں کے نزول کو یقینی نہیں بناتی۔

سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے آتش نمرود میں بے خطر کود کر کلمہ حق کہنے کی جس پیغمبرانہ روایت کو آگے بڑھایا تھا وہ عظیم روایت ذبح اسماعیل علیہ السلام سے ذبح حسین علیہ السلام تک تسلیم و رضا اور ایثار و قربانی کی کائناتی سچائیوں کی امین ہے۔ تاریخ اسلام حریت فکر کے امین انہی لمحات جاوداں کی عینی شاہد ہے۔ زیر مطالعہ کتاب میں اس تاریخی حقیقت کو علمی و تحقیقی انداز میں بیان کیا گیا ہے۔

سبب تالیف

عالم اسلام میں دو قربانیوں کا تصور پایا جاتا ہے ایک حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی، جس کو موخر کرکے ایک مینڈھا ذبح کیا گیا اور دوسری قربانی حضرت امام حسین علیہ السلام کی جنہوں نے اپنے پورے خانوادے کے ساتھ کربلا میں ایک نئی تاریخ رقم کی۔ بظاہر ان دونوں قربانیوں میںکوئی ربط نظر نہیں آتا لیکن اس کتاب میں شیخ الاسلام نے ذبح اسماعیل کا ذبح حسین کے ساتھ تعلق بیان کیا ہے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کے واقعہ کی وجہ سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو شرف امامت عطا کیا گیا۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی زندگی محفوظ رہی کہ ان کی نسل سے نبی آخرالزماں کی ولادت ہونی تھی۔ حکمت خداوندی یہ تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد چونکہ کوئی نبی نہیں آئے گا اس لیے شہادت کے لیے ان کے لخت جگر کا انتخاب عمل میں آئے گا اور ذبح اسماعیل علیہ السلام کو مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لخت جگر سیدنا امام حسین علیہ السلام سے ذبح عظیم بنادیں گے۔

نیز اس کتاب کی تالیف سے لوگوں کو یہ پیغام دینا مقصود تھا کہ ہر پیغمبر کے دور میں وقت کا نمرود یا فرعون لوگوں پر مظالم ڈھاتا رہا ہے لیکن تمام انبیاء کی روایت رہی کہ انہوں نے ظالم کے سامنے گردن نہیں جھکائی۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا تو آپ کے بعد آپ کے نواسے حضرت امام حسین علیہ السلام کا ٹکراؤ بھی یزید کے ساتھ ہوا۔ آپ علیہ السلام نے بھی پیغمبرانہ سیرت کی پیروی کی۔ اس کے سامنے گردن نہیں جھکائی بلکہ جام شہادت نوش کرگئے۔ آپ کی شہادت قیامت تک کے آنے والے لوگوں کے لیے یہ پیغام ہے کہ کبھی ظالم کے سامنے مت جھکو۔ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور سامراجی طاقتوں کا سامنا اتحاد سے کرو۔ اگر امت مسلمہ نے اس پیغمبرانہ روایت کی حقیقت کو پہچان لیا تو کبھی بھی عالم کفر سے مغلوب نہیں ہوں گے۔

کتاب کا خلاصہ

جتنے بھی انبیاء کرام اس دنیا میں تشریف لائے، اللہ تعالیٰ نے ان کو قرب و وصال کی نعمتوں سے بھی نوازا اور اس کے ساتھ ساتھ آزمائشوں سے بھی گزارا۔ جملہ انبیاء کرام اپنی شان اور بندگی میں بے مثال تھے لیکن سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی داستان عزیمت قابل رشک ہے۔ ان کے لیے بیٹے کی قربانی کے حکم میں بہت بڑی آزمائش تھی لیکن وہ اس آزمائش میں پورا اترے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی زندگی محفوظ رہی کہ ان کی نسل پاک سے نبی آخرالزماں کی ولادت باسعادت ہونا تھی۔

اللہ تعالیٰ نے وفدیناہ بذبح عظیم کہہ کر اسماعیل علیہ السلام کے ذبح کو ذبح عظیم کا فدیہ قرار دیا۔ اگر شہادت حسین علیہ السلام کا تعلق ذبح اسماعیل علیہ السلام سے نہ جوڑا جائے تو بات ادھوری رہ جاتی ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کو صرف ذبح کے لفظ سے ذکر کیا گیا، ان کی جگہ مینڈھے کی قربانی ہوئی تو اسے ذبح عظیم کہا گیا۔ فرزند پیغمبر کی قربانی بعثت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر موقوف ہوئی۔ حکمت یہ تھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد چونکہ کوئی نبی نہیں آئے گا اس لیے شہادت کے لیے ان کے لخت جگر کا انتخاب عمل میں آئے گا۔ قطع نظر اس کے کہ نبی اور صحابی کے مرتبے میں بہت فرق ہوتا ہے لیکن نسبت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نسبت ابراھیمی سے یقینا ارفع و اعلیٰ ہے۔ امام حسین علیہ السلام کو نسبت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ساتھ نسبت ابراھیمی بھی حاصل ہے۔ نیز شہادت امام حسین علیہ السلام چونکہ سیرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہی ایک باب ہے اس لیے کائنات کی اسی منفرد قربانی کو ذبح عظیم ہونے کا شرف حاصل ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر کعبہ کے دوران دو دعائیں مانگی تھیں، ایک یہ کہ باری تعالیٰ میری ذریت سے خاتم الانبیاء پیدا فرما۔ دوسرے میری ذریت کو منصب امامت عطا فرما۔ چنانچہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شکل میں نبی آخرالزماں تشریف لے آئے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نبوت ختم ہوجانے کے بعد اب یہ لازمی تقاضا تھا کہ حضور رحمت کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کا فیض اب امامت و ولایت کی شکل میں آگے چلے۔ حضرت ابراھیم علیہ السلام کی ذریت میں ولایت بھی آگئی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنا صلبی بیٹا نہ تھا سو اب نبوت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیض، امامت و ولایت مصطفوی کا مظہر تھا، اس لیے ضروری تھا کہ یہ کسی مقدس اور محترم خاندان سے چلے۔ ایسے افراد سے چلے جو حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صلبی بیٹا تو نہ ہو مگر ہو بھی جگر گوشہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، چنانچہ اس منصب عظیم کے لیے حضرت علی علیہ السلام اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لاڈلی بیٹی خاتون جنت سیدہ فاطمۃ الزہرائ سلام اللہ علیہا پر قدرت کی نگاہ انتخاب پڑی۔

اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

انت منی وانا منک. (صحیح بخاری)

’’اے علی تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں۔‘‘

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ فاطمہ سے کائنات میں کسی کو افضل نہیں دیکھا۔ (رواہ الطبرانی)

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیض دو طریق سے عام ہوا۔ مشابہت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیض اور روحانیت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیض۔ ایک فیض کے عام ہونے کا ذریعہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ بنے اور دوسرے فیض کے عام ہونے کا اعزاز حضرت فاطمہ الزہرائ سلام اللہ علیہا کے حصہ میں آیا۔ فیض کے یہ دونوں دھارے حسین ابن علی علیہما السلام کی ذات میں آکر مل گئے کیونکہ حسین علیہ السلام کو ذبح عظیم بنانا مقصود تھا۔ ذبح اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں تو حضرت ابراھیم علیہ السلام کو خواب میں حکم ملا لیکن ذبح حسین کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خواب میں نہیں بلکہ عالم بیداری میں وحی کے ذریعہ مطلع کیا گیا۔ ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مجھے جبرائیل امین نے (عالم بیداری میں) بتایا کہ میرا یہ بیٹا حسین عراق کی سرزمین میں قتل کردیا جائے گا۔

امامت و ولایت کی دعائے ابراہیمی کا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت کے بعد علی اور فاطمہ سلام اللہ علیہا کے ذریعے اجراء ہورہا تھا۔ اب اس وجود مسعود کی شہادت کا وقت قریب آگیا تھا۔ جسے ذبح اسماعیل کا مظہر بنایا گیا تھا۔ امام حسین علیہ السلام نے اپنے خون سے افق عالم پر حریت فکر کا نیا عہد نامہ تحریر کیا۔ حسین علیہ السلام نے اپنے نانا، بابا اور والدہ کی لاج رکھ لی۔ حسینیت زندہ ہوگئی۔ اس دن سیدنا ابراھیم علیہ السلام کی روح بھی رشک کررہی تھی کہ یہ شرف بھی ان کی نسل کے ایک فرد فرید کے حصے میں آیا۔ حسین علیہ السلام راہ خدا میں جان کا نذرانہ پیش کرکے اور ملوکیت و آمریت کے اندھیروں میں اپنے خون کے چراغ روشن کرکے ذریت ابراھیمی کی محافظت کی علامت بن گئے۔ شہادت عظمیٰ نے انہیں ولایت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نشان بنادیا۔ شہادت حسین کے بعد کائنات انسانی کو دو کردار مل گئے۔ یزیدیت جو بدبختی، ظلم، استحصال، جبر، تفرقہ پروری، قتل و غارت گری اور خون آشامی کا استعارہ بن گئی اور حسینیت جو عدل، امن، وفا اور تحفظ دین مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی علامت ٹھہری۔قیامت تک حسین بھی زندہ رہے گا اور حسینیت کے پرچم بھی قیامت تک لہراتے رہیں گے۔ یزید قیامت تک کے لیے مردہ ہے۔ امام حسین علیہ السلام سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ حسینی کردار کو اپنے قول و عمل میں زندہ کیا جائے۔ اسلامی اقدار کو پھر سے زندہ کیا جائے اور وقت کے یزیدوں اور فرعونوں کے خلاف حسین علیہ السلام کی سنت پر عمل کرتے ہوئے غلبہ دین حق کے لیے کاوشیں کی جائیں۔

واقعہ کربلا سے متعلق یہ کتاب بہت منفرد انداز کی حامل ہے۔ اس کتاب میں واقعہ کربلا اور ذبح اسماعیل کے باہمی تعلق کو بہت خوبصورت انداز میں دلائل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ تمام قارئین سے گزارش ہے کہ اپنے علم و فکر میں توسیع کے لیے اس کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔

مشمولات کتاب

  1. ذبح اسماعیل اور شہادت امام حسین علیہ السلام کا باہمی تعلق
  2. ذبح عظیم کا مفہوم اور اس کے لیے نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انتخاب کی حکمت
  3. صاحبزادگان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ذبح عظیم کے لیے منتخب نہ کرنے اور ان کی بچپن میں وفات کی حکمت
  4. فیض نبوت کی بقا بذریعہ ولایت و امامت
  5. ولایت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نقطہ آغاز حضرت علی علیہ السلام ، حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا اور حسنین کریمین کے مناقب باالدلائل
  6. داستان حریت فکر، داستان کربلا کے درد ناک مناظر کی تصویر کشی اور پیغام شہادت حسین علیہ السلام

ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، ستمبر 2018ء

تبصرہ