25 جولائی 2018ء عام انتخابات کے نتیجے میں نئی حکومت تشکیل پا چکی ہے اور چاروں صوبائی اسمبلیوں نے بھی باضابطہ طور پر اپنے کام کا آغاز کردیا ہے، پاکستان میں گزشتہ چار دہائیوں پر پھیلی ہوئی دو جماعتوں کی سیاست اس بار ثمربار نہ ہو سکی اور عوام نے ایک نئی جماعت تحریک انصاف کو مینڈیٹ دیا، تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بطور وزیراعظم اپنے کام کا آغاز کر چکے ہیں اور عوام کی نظریں ان کی پہلے 100 دن کی کارکردگی پر ہیں، ہر جماعت جب بھی اقتدار میں آتی ہے تو وہ بڑے بڑے بلند و بانگ دعوے کرتی ہے، عوام کے مسائل حل کرنے، خواتین کی امپاورمنٹ اور غربت کے خاتمے کے پلان مرتب کرنے کاعزم ظاہر کرتی ہے مگر جب بھی ماضی میں کسی حکومت کے اقتدار کا دورانیہ مکمل ہوا تو اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ غربت پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہے، تعلیم صحت کی سہولتیں پہلے سے کم ہو گئی ہیں، انصاف کی فراہمی اور عدم تحفظ کے مسائل ناگفتہ بہ ہو چکے، جدیددنیا کے جمہوری نظام میں منشور کو ایک خاص اہمیت حاصل ہوتی ہے، وہاں کے پڑھے لکھے عوام ہر جماعت کے منشور کو بغور پڑھتے اور پھر ووٹ دینے کافیصلہ کرتے ہیں اور وہ کسی بھی حکومت کی کارکردگی کا جائزہ منشور میں کیے گئے وعدوں پر عملدرآمد سے لیتے ہیں، بدقسمتی سے پاکستان میں منشور کو محض بیانات کی حد تک اہمیت دی جاتی ہے، تحریک انصاف نے تبدیلی کا نعرہ لگایا، دیکھتے ہیں اس تبدیلی کے اثرات اور ثمرات سے خواتین کس طرح مستفید ہوتی ہیں، 21 ویں صدی میں بھی پاکستان کی خواتین کو بعض حوالوں سے زمانہ غار والے مسائل اور مشکلات کا سامنا ہے، آج بھی خواتین کو وٹے سٹے، کم عمری اور جبری شادیوں کے مسائل کا سامنا ہے، سٹریٹ کرائم میں سب سے زیادہ نشانہ خواتین بنتی ہیں، شرح خواندگی میں خواتین سب سے نچلے درجے پر ہیں، روزگار کی فراہمی کے حوالے سے بھی خواتین کو نظر انداز کیا جاتا ہے، تیزاب سے جلائے جانا اور سرکاری اداروں بالخصوص پولیس کی طرف سے چادر اور چار دیواری کے تقدس کی پامالی کے واقعات میں بھی ہوشربا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، خواتین کی امپاورمنٹ ایک اہم ایشو ہے اور نئی حکومت سے خواتین یہ توقع رکھتی ہیں کہ ایسی قانون سازی کی جائے گی جو خواتین کو ترقی کے مواقع فراہم کرنے میں معاون ثابت ہوگی، خواتین کی امپاورمنٹ میں خشت اول انہیں تعلیم فراہم کرنا ہے، نئی حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ سوسائٹی کے جملہ کمزور طبقات بالخصوص خواتین کو بنیادی، تکنیکی اور اعلیٰ تعلیم کی فراہمی کیلئے پالیسیاں مرتب کرے، بچیوں کو گھر کی دہلیز کے قریب ترین بنیادی تعلیم کی فراہمی یقینی بنائے اور پھر میرٹ کے شفاف نظام کے تحت خواتین کو بھی ملازمتوں کے مواقع ملنے چاہئیں، پسند اور ناپسندکی بجائے میرٹ کے تحت فیصلے ہوئے تو یقینا چار دہائیوں پر پھیلے ہوئے خواتین کے استحصال اور مسائل کو کم کرنے میں مدد ملے گی، دوسرے نمبر پر سب سے بڑا سماجی مسئلہ غربت ہے، غربت کے منفی اثرات بھی کسی نہ کسی شکل میں سب سے زیادہ خواتین پر مرتب ہوئے ہیں۔ غربت، موجودہ مسائل کی جڑ ہے، غربت کی وجہ سے لوگ قانون ہاتھ میں لیتے ہیں، غربت کی وجہ سے ہی سوسائٹی میں انتہا پسندی اور دہشتگردی پروان چڑھتی ہے، غربت کے خاتمے کیلئے ماضی میں زکوٰۃ کی تقسیم، بیت المال سے مالی مدد کی فراہمی یا بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے نقد مالی مدد جیسے اقدامات نظر آتے ہیں، ہم سمجھتی ہیں یہ اقدامات بھکاری بنانے کیلئے تو مفید ہو سکتے ہیں مگر غربت کے خاتمے کیلئے یہ سارے پروگرام مفید ثابت نہ ہو سکے، آج بھی پاکستان کی 50 فیصد سے زائد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے، چین کی ایک مشہور کہاوت ہے کہ کسی کو مچھلی خرید کر دینے کی بجائے اسے مچھلی پکڑنے والا کانٹا خرید کر دیں کہ وہ خود مچھلی کا شکار کرے تو غربت کے خاتمے کیلئے موجودہ حکمرانوں کو فنی تعلیم کو عام کرنے کی طرف توجہ دینا ہو گی اور فنی تعلیم میں خواتین کیلئے زیادہ سے زیادہ منصوبہ جات تشکیل دئیے جانے چاہئیں۔ہم دعا گو ہیں کہ موجودہ حکمران عوامی خدمت میں کامیاب ہوں اور عوام نے جو توقعات وابستہ کی ہیں ان پر وہ پورا اتریں۔
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، ستمبر 2018ء
تبصرہ