سمعیہ اسلام
میں خود بھی نہیں اپنی حقیقت کا شناسا
گہرا ہے میرے بحرِ خیالات کا پانی
اِنَّ مِنْ الشِّعْرِ حِکْمَةٌ.
بے شک بعض اشعار حکمت ہیں۔
بخاری و مسلم و ترمذی
شاعری کی مختلف اصناف میں سے پہلی صنف جس کا یہا ں ذکر کیا جارہا ہے ’’حمد‘‘ کہلاتی ہے۔حمد ایک عربی لفظ ہے،جس کے معنی‘‘تعریف‘‘ کے ہیں۔ حمد باری تعالیٰ، کئی زبانوں میں لکھی جاتی رہی ہے۔ عربی، فارسی اور اردو زبان میں اکثر دیکھی جاسکتی ہے۔ رب کی تعریف ہر زبان میں اور ہر مذہب میں پائی جاتی ہے۔وہ نظم جس میں اللہ تعالیٰ کی تعریف کی جائے اللہ کی صفات اس کی عظمت کا ذکر کیا گیا ہو۔یہ نظم کسی بھی ہیت میں ہو سکتی ہے۔
وَلَو اَنَّمَا فِی الْاَرْضِ مِن شَجَرَة اَقْلٰم وَالْبَحْر یَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةَ اَبْحُر مَا نَفِدَتْ کَلِمٰاتُ اللّٰهِ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰی کُلِّ شَیء قَدِیْرO
’’زمین میں جتنے درخت ہیںاگر وہ قلم بن جائیںاورسمندر اور اس کے بعدسات سمندروں کاپانی سیاہی ہو جائے تب بھی اللہ کی باتیں (حمد و ثنا)ختم نہ ہوں گی۔‘‘
سوره لقمان: 27
اللہ کی تعریف و توصیف ہر زمانے میں ہوتی رہی ہے۔ یہ ایک لامتناہی سلسلہ ہے۔عربی کا لفظ ’’حمد‘‘ اللہ تعالیٰ کی تحمید و تمجید کے لیے مختص ہو گیا ہے۔ جس کے لیے حمدیہ شاعری نے ایک مستقل صنف سخن کی صورت اختیار کر لی ہے۔ صرف عربی، فارسی ہی نہیں دیگر زبانوں میں بھی اس کا ذخیرہ موجود ہے۔
حمد کی دینی و ادبی قدر و قیمت:
دنیا کی ہر زبان کے شاعروں نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کو پیش نظر رکھا ہے اور اسے یاد کیا ہے۔ اردو زبان میں جب سے شاعر ی کاآغاز ہوا تبھی سے حمد لکھی گئی لیکن حمد سے زیادہ توجہ نعت پر دی گئی ہے۔حمد کی دینی اور ادبی قدر و قیمت کی وجہ سے یہ صرف ہمارے مضطرب جذبات کی تسکین کا سامان، تفنن طبع، احساس جمال، انفرادی لذت کوشی، خوف خدا، بصیرت و بصارت کی توثیق یا شاعر ی برائے شاعر ی نہیں ہے بلکہ ادب میں اس کی مستقل صنفی حیثیت ہے۔ یہ صحیح ہے کہ عروض و بلاغت اور اصناف سخن کی قواعد کی کتابوں میں حمد و مناجات کی صنفی حیثیت کا ذکر نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ غزل گو، مرثیہ گو، رباعی گو یا مثنوی و قصیدہ نگار شعرا نے حمد پر باضابطہ یا خصوصی توجہ نہیں دی بلکہ عقیدت اور بسم اللہ کے طور پر رسم پوری کرتے رہے ہیں حالانکہ حمد و مناجات کے لئے والہانہ عشقیہ جذبے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ اظہار و افعال و اعمال اس سے وابستہ ہیں۔ مہارت و محاربت، متانت و سنجیدگی اور جوش ربانی کی فراوانی کے بغیر کوئی بھی شاعر حمد میں اظہار عقیدت نہیں کر سکتا۔
مختلف ادوار میں حمد کے فکری اور اسلوبیاتی تجربے یقیناً ہوتے ہیں اور اسلوبیاتی تغیر بھی محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ مثلاً حمد کے یہ اشعار ملاحظہ کیجئے:
کامل ہے جو ازل سے وہ ہے کمال تیرا
باقی ہے ابد تک وہ ہے جلال تیرا
حالی
حرف آغاز تو حرف آخر بھی تو
دو جہاں تیری قدرت ہیں قادر بھی تو
(ابراہیم اشک)
حمد سے بے توجہی کی وجہ ماحول بھی رہا ہے۔ اردو میں حمدیہ شاعر ی کا پہلا مجموعہ غلام سرور لاہوری کا ہے جو ’’دیوان حمد ایزدی‘‘ کے نام سے 1881ء میں مطبع نول کشور، لکھنو سے شائع ہوا۔
زباں پر ذکر حمد ایزدی ہر دم رواں رکھنا
فقط یاد الٰہی سے غرض اے مری جاں رکھنا
حمدیہ شاعر ی کا دوسرا مجموعہ مضطر خیر آبادی کا ’’نذر خدا‘‘ 1291ء میں شائع ہوا۔ سرورق پریہ شعر درج ہے:
مبارک اے زباں دنیا میں جو کچھ بھی کہا تو نے
وہ میں نے لکھ لیا اور کر دیا نذر خدا تو نے
حمد باعث تسکین قلب ہے۔ اس سے فرحت اور روحانی سکون حاصل ہوتا ہے۔ آفاقی اور ابدی حقیقتوں کی آگہی سے بھرپور اس صنف کی طرف نعت کے مقابلے میں توجہ کم دی گی ہے اور سس کا مواد بکھرا پڑا ہے۔
قدیم حمدیہ شاعر ی میں شعر ی محاسن:
’’حمد ثنائے جمیل ہے‘‘ اس ذات محمود کی جو خالق سماوات و الارض ہے۔ جس کی کارفرمائی کے ہر گوشے میں رحمت و فیضان کا ظہور اور حسن و کمال کا نور ہے۔ پس اس مبدء فیض کی خوبی و کمال اور اس کی بخشش و فیضان کے اعتراف میں جو بھی تحمیدی و تمجیدی نغمے گائے جائیں گے ان سب کا شمار حمد میں ہو گا۔ حمد دراصل خدا کے اوصاف حمیدہ اور اسمائے حسنیٰ کی تعریف ہے۔
اردو شعرا ء نے اپنی عقیدت و ایمان کے گل ہائے معطر حمدیہ اشعار کی لڑیوں میں پرو کر باری تعالیٰ کے اوصاف حمیدہ اور اسمائے حسنیٰ کے گیسو ہائے معتبر سجائے ہیں۔ خدائے عزوجل کی تحمید و تمجید کے یہ نقش ہائے دل پذیر اور ثنا و توصیف کے یہ دریائے بے نظیر شعر ی پیکر میں ڈھل کر ادبی سرمائے میں اضافہ کرتے رہے ہیں۔ دیگر اصنافِ سخن کے ساتھ ساتھ حمدیہ شاعر ی کے سلسلے میں بھی اردو شعرا نے ایرانی شعراء کے اس قبیل کے نمونوں کو اپنے سامنے رکھا لیکن قابل غور امر یہ ہے کہ ان کے خلاق تخیل نے دیگر اصناف کی طرح اس صنف میں بھی اپنے ہی دلی جذبات کی اپنے مخصوص انداز میں ترجمانی کی ہے۔
میرے لب پہ ورد ہے لا الٰہ
یہی ورد ہے جو عظیم ہے
تو غفور ہے تو رحیم ہے
تیری رحمتوں کی حدیں نہیں
تیری کائنات کے درمیاں
میں تھا ایک نقطۂ نا تمام
مرے مہربان!ترا شکریہ
مجھے دے کے وصفِ الٰہیہ
تو نے کیا سے کیا ہے بنا دیا
تو نے بندگی مجھے کی عطا
مری بندگی بڑی بات ہے
یہ تو عکس ہے تری ذات کا
تری ذات سے مری ذات ہے
ترے در پہ سر بسجود ہوں
مجھے آگہی سے نواز دے
مجھے رنگ فقرو نیاز دے
حمد گوئی کی روایت کو آگے بڑھانے اور اس کی ترویج و ترقی کے لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ کثرت سے حمد تخلیق کی جائے، تزک و احتشام کے ساتھ حمدیہ محفلیں منعقد کی جائیں اور اخبارات و رسائل کے مدیران معتبر قلم کاروں سے حمدیہ مضامین و مقالے بھی لکھوائے جائیں۔ تاکہ ہمارا حمدیہ ادب بھی دوسرے ادب پاروں کے بالمقابل بھرا بھرادکھائی دے۔
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، اگست 2018ء
تبصرہ