پاکستانی ثقافت پر مغربی ثقافت کی فکری یلغار

عائشہ بابر

کسی بھی معاشرے کے افراد کا طرز زندگی یا راہ عمل جس میں اقدار، عقائد، رسم و رواج اور معمولات شامل ہیں ثقافت کہلاتا ہے۔ ہر قوم کا اپنا ایک تہذیبی و ثقافتی تشخص ہوتا ہے اگرچہ اس تشخص کے بعض پہلو دوسری تہذیبوں سے بھی ملتے جلتے ہیں لیکن بعض انفرادی خصوصیتیں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ جو ایک قوم کی تہذیب کو دوسری تہذیبوں سے الگ اور ممتاز کرتی ہیں اور ہر قومی تہذیب اپنی ان ہی انفرادی خصوصیات سے پہچانی جاتی ہے۔

ثقافت کسی معاشرے کے طرز فکر و احساس کا جوہر ہوتی ہے کسی قوم کو جسمانی طور پر غلام بنانا تو آسان ہوتا ہے مگر ذہنوں کو مسخر کرلیا جائے تو حاکم اور محکوم کا رشتہ ہوتے ہوئے بھی محکوم اس احساس سے عاری ہوجاتا ہے یہی حال مسلمانوں کے ساتھ ہوا مسلمان انگریز سامراج سے سیاسی طور پر آزاد ہوگئے مگر ذہنی غلامی کے اثرات ہنوز مسلمانوں کے فکرو عمل، اجتہاد، تحقیق اور قیادت کو مفلوج کئے ہوئے ہیں۔

کیونکہ ایک قوم دوسری قوم پر غلبہ صرف دو صورتوں میں ہی غلبہ حاصل کرسکتی ہے یا تو سیاسی غلبہ یا ذہنی غلبہ، ذہنی غلبہ اس صورت میں حاصل کرسکتی ہے، اگر ایک قوم دوسری قوم کے افکار و نظریات پر ایمان لے آئے اور دوسری قوم کے تخیلات، معتقدات، اپنے اذہان پر نقش کرے اور اپنے فکرو نظریات کو بھلا بیٹھے اور سیاسی غلبہ اس صورت میں کہ کوئی قوم مادی قوتوں میں ترقی کرجائے اور دوسری قومیں اس کے سامنے اپنی سیاسی آزادی برقرار نہ رکھ پائیں۔

کیونکہ قانون فطرت یہی ہے کہ جو قوم عقل و فکر سے کام لیتی ہے اور تحقیق و انکشاف کی راہ میں پیش قدمی کرتی ہے اس کو ذہنی ترقی کے ساتھ مادی ترقی بھی نصیب ہوتی ہے اور جو قوم فکرو تدبر کے میدان میں مسابقت کرنا چھوڑ دیتی ہے وہ ذہنی انحطاط کے ساتھ مادی تنزل میں بھی مبتلا ہوجاتی ہے۔

ڈاکٹر برہان احمد فاروقی لکھتے ہیں:

’’انسانی تہذیب کی چار ہزار برس کی تاریخ کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ صرف گذشتہ ڈیڑھ سو برس سے انسانیت جدید مغربی تصورات کے زیر اثر آتی ہے اس سے پہلے تمام نوع انسانی کے ذہن پر مشرقی تصورات کی حکومت تھی۔‘‘

ڈاکٹر برہان احمد فاروقی، قرآن اور مسلمانوں کے زندہ مسائل، ص 84

لہذا جب مشرقی تہذیب مغربی تصورات کے زیر اثر آئی تو نہ صرف معاشی و اقتصادی ، معاشرتی و سیاسی اور زندگی کے جملہ شعبہ جات میں جہاں زوال کا شکار ہوئی وہاں آج علمی و فکری اعتبار سے بھی زوال کا شکار ہوچکی ہے۔ لوگوں کو ذہنی و فکری جمود کا شکار کرنے کا مقصد اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنا اور اسلام کے خلاف اہل مغرب کی دیگر سازشوں کا مقصد مغربی تہذیب کو اسلامی تہذیب پر غالب کرنا اور اسلامی تہذیب کو ختم کرنا ہے اور اس کے لیے وہ خصوصاً تعلیم اور ذرائع ابلاغ کا سہارا لے رہے ہیں۔

ایک مستشرق ’’ہملٹن گب‘‘ نے اپنے جذبات کا اظہار یوں کیا ہے:

’’مسلمانوں کو مغربی تہذیب کی طرف مائل کرنے کی کوششوں کا مقصد اسلامی تہذیب کا خاتمہ ہے کیونکہ مسلمانوں کی ملی وحدت کی بنیاد یہی تہذیب ہے۔ ہمارا مقصد یہ ہے کہ تعلیمی، ثقافتی اور ابلاغی ذرائع سے کام لے کر اس تہذیب میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں عمل میں لائیں اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ مسلمانوں کو ان کا اپنا عمل اپنے دین سے بے بہرہ قوم ظاہر کرے گا اور خود ان کو اس کا احساس تک نہ ہوگا۔‘‘

محمد کرم شاہ الازہری، ضیاء النبی، ج: 6، ص: 250

آج مسلمان انہی شکوک و شبہات اور اہل مغرب کی فکر سے متاثر ہوکر یہ بھول گئے کہ جس دور میں بغداد، قرطبہ اور غرناطہ کی یونیورسٹیاں علم و معرفت کے موتی لٹارہی تھیں اس وقت یورپ مدرسے کے تصور سے بھی ناآشنا تھا۔ جب مسلمان علماء کے قلم سے ہزاروں علمی شاہکار نکل رہے تھے اس وقت یورپ نے کاغذ کی شکل بھی نہ دیکھی تھی اور جب مسلمانوں کے شہر اپنی روشنی، صفائی، خوبصورتی اور حسن انتظام کی وجہ سے دور جدید کی متمدن دنیا کو بھی شرما رہے تھے، اس وقت مغرب میں تاریکی، گندگی، جہالت اور بدنظمی کے سوا کچھ نہ تھا۔

لیکن جب مسلمانوں کی کتب سے انہوں نے استفادہ کیا تو ان میں ایک ایسی سوچ نے پروان چڑھی جس کی بنیاد پر مسلم سکالرز اور مسلم سائنس دانوں کے نظریات تھے آج یورپ اور امریکہ کے کتب خانوں میں مسلمان اکابر کی کثیر تعداد میں تصنیفات اور مخطوطے محفوظ ہیں۔ ہزاروں یورپی اور امریکی علماء نے اپنی زندگیاں اسلامی علوم کے مطالعے کے لیے وقف کررکھی ہیں۔ وہ ان کتابوں کی فہرستیں مرتب کررہے ہیں ان پر حاشیے لکھ رہے ہیں نیز ان کی تشریحات کررہے ہیں۔

حتی کہ اگر آج مسلمانوں کو اپنی علمی میراث تک رسائی کی ضرورت پڑتی ہے تو انہیں اہل مغرب کی مساعی سے استفادہ کرنا پڑتا ہے۔ بڑے بڑے علمی شاہکار جو مسلم علماء کے قلم سے نکلے تھے ان کی اشاعت کا فریضہ اہل مغرب ادا کررہے ہیں۔ مگر افسوس!

گنوادی ہم نے اسلاف سے جو میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پہ آسماں نے ہم کو دے مارا

ہمارے علمی ورثہ کے چھن جانے سے ہم پر علمی و فکری زوال بھی آیا آج ہم پاکستان میں رائج نظام تعلیم پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہی وہی نظام تعلیم ہے جو اہل مغرب کی سوچ کی عکاسی کرتا ہے اور اس نظام تعلیم نے طلباء کو اپنے اسلاف سے بیگانہ کردیا ہے۔ یہ نظام تعلیم اس نظام تعلیم کی عکاسی کرتا ہے جس کا بانی لارڈ میکالے تھا۔ لارڈ میکالے نے جب نظام تعلیم کے مقاصد بیان کئے تو اس کے نزدیک اس نظام تعلیم کو رائج کرنے کا سب سے بڑا مقصد یہ تھا کہ ہندوستان کے باشندوں بالخصوص مسلمانوں کو اپنے سارے تہذیبی ورثے کے بارے میں شدید احساس کمتری کا شکار بناکر ان کے دلوں پر مغرب کی ہمہ گیر بالادستی کا سکہ بٹھا دیا جائے۔ نئی نسل کو ہر ممکن طریقے سے یہ یقین کرلینے پر مجبور کردیا جائے کہ اگر دنیا میں ترقی اور سربلندی چاہتے ہو تو اپنی فکر، فلسفہ، تہذیب و معاشرت اور سارے ماضی پر ایک حقارت بھری نظر ڈال کر مغرب کے پیچھے پیچھے چلے آئو اور اپنی زندگی کا ہر راستہ اس کے نقش قدم پر تلاش کرو۔

آج یہ مغربی مقاصد پورے ہوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کیونکہ پاکستان کے تعلیمی ادارے اس نظام تعلیم کی اندھی تقلید کررہے ہیں وہ نظام تعلیم جو کہ لادینیت، زمانہ پرستی، قوم پرستی اور دیگر مادی بنیادوں پر قائم ہے۔

یہ ادارے ایسے افراد تیار کررہے ہیں جو پیدا تو مسلمان گھرانوں میں ہوئے ہیں لیکن بدقسمتی سے میکالے کے نظام تعلیم کے زیر اثر تعلیم پاکر اگر عیسائی نہیں بنتے تو مسلمان بھی نہیں رہتے۔ دین اسلام کے بارے میں انگریز کی عطا کردہ معلومات نے ان کے دلوں میں علمی، فکری اور شعوری کمتری پیدا کرکے دین اسلام کے پیش کردہ نظام کی آفاقیت مشکوک کرنے کی کوشش کی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستانی عوام مغربی تعلیم و تہذیب کے سامنے شدید احساس کمتری کا شکار ہیں وہ مغربی نظام تعلیم کو ہی ترقی و عروج کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ مغرب کی ترقی اور عروج کی بنیادوں میں ہمارے اسلاف کی سوچ کارفرما ہے۔

یہاں تک کہ آج لباس معاشرتی آداب اور رہن سہن میں بھی مغرب کی نقالی مطلوب ہوتی ہے۔ ان کا نقطہ نظر ان کا نصب العین ان کے معاشرتی رویے تک بدل گئے ہیں اور وہ مغربی تہذیب و تعلیم کو ہی اپنا مرکز و محور سمجھ رہے ہیں۔

جبکہ مغربی تہذیب و تعلیم ایک تجارت یعنی کاروبار اور مادیت پرستی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ تعلیم کی تجارتی بنیاد پر استواری اس ایجنڈے کا اہم نقطہ ہے ہمارے ملک میں مغربی ممالک کی جامعات و کلیات کے کیمپس اور مقامی اداروں کے مغربی ممالک کی جامعات کے ساتھ الحاق کی وباء نے اس ملک سے جتنا سرمایہ منتقل کیا ہے اس کے تصور سے ہی گھبراہٹ ہوتی ہے۔ اس نظام تعلیم میں تمام حقائق، واقعات کا تعلق مغرب سے ہے۔ طلبہ جو کچھ پڑھتے ہیں ان کا تعلق طلبہ کے ماحول سے نہیں ہوتا بلکہ دور دراز مغربی ماحول سے ہوتا ہے۔ آزادی اور مسابقت کی مغربی قدریں تعلیم کا اساسی نظریہ ہیں اور Global Consumer Culture کا فروغ مغرب کا منتہا و مقصود ہے۔

اس مقصد کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ آج مغرب میڈیا کے ذریعے ذہن و فکر پر حکمرانی کررہا ہے اور اس نے ہمیں ذہنی طور پر غلام بنالیا ہے کیونکہ میڈیا غیر محسوس انداز میں سامعین و ناظرین کے رویوں، سوچوں اور مزاجوں کو متاثر کرتا ہے یہاں تک کہ ماہرین ابلاغیات کا خیال ہے کہ جدید ذرائع ابلاغ سے جو آگاہی حاصل ہوتی ہے اس میں سائنسی افکار کی واقفیت، جدید سہولیات و ایجادات سے شناسائی اور سیاسی و معاشرتی حالات کے علم سمیت کئی چیزیں حاصل ہوتی ہیں اسی وجہ سے پاکستانی عوام مغربی ثقافت سے متاثر ہوکر اپنی اسلامی ثقافت سے بیگانہ ہوچکی ہے۔

ان سب وجوہات کی بنیادی وجہ اپنی اسلامی تعلیمات سے دوری ہے۔ جب اپنی اسلامی تہذیب و ثقافت کو لوگوں نے فراموش کیا اور اسلام کی بنیادی ideology کو صحیح معنی میں سمجھ نہ پائے تو انہوں نے غیروں کی طرف دیکھنا شروع کردیا تو پھر وہ فکری و علمی صلاحیتیں جن کو اسلامی نقطہ نظر کے مطابق کام کرنا چاہئے تھا اور اپنے اسلاف اور بزرگوں کی کاوشوں کا تسلسل ہونا چاہئے تھا۔ آج وہ کاوشیں جمود کا شکار نظر آتی ہیں اور محض اغیار کی اندھی اور بے مقصد تقلید کرتی ہوئی نظر آتی ہیں یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے سکولوں میں مستقبل کے معمار اسلاف سے بیگانہ اور غیر تہذیب و ثقافت کی عکاسی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ Session کے اختتام پر ایک دوسرے پر رنگ پھینکنا، نیز اسلامی تہذیب کے بنیادی اصولوں سے منافی Functions کا انعقاد پذیر ہونا یہ سب اسلامی تہذیب و ثقافت کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ حال ہی میں پرائمری کلاس کے لیے بنائے جانے والے نصاب میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث مبارکہ کو ایک مشہور مقولہ ہے لکھ دیا گیا جو کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومتی سطح پر بھی لوگ اپنی اسلامی ثقافت کو بھلا بیٹھے ہیں۔

لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ انفرادی سطح پر والدین بچوں کو اپنی اسلامی ثقافتی تعلیمات سے آگاہ کریں اور دوسری طرف اجتماعی سطح پر حکومت ایسے پروگرامز پر پابندی عائد کرے جو اسلامی ثقافتی تعلیمات کے منافی ہیں اور ایسے پروگرامز کا انعقاد کروائے جو اسلامی ثقافت کو اجاگر کریں۔

نیز ہمارے علماء حضرات ہماری ثقافت کو دینی تعلیمات سے ہم آہنگ کرکے اس طرح سے پیش کریں کہ نوجوان نسل کا زیادہ سے زیادہ رجحان اسلامی ثقافتی تعلیمات کی طرف ہو تاکہ نوجوان نسل کا اپنی ثقافت پر اعتماد بڑھے اور علمی و فکری پختگی حاصل ہو۔

ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، مئی 2018

تبصرہ