نسلِ انسانی کیلئے وجودِ مرد و زن ناگزیر

تحریر: شِیبا طراز

تخلیقِ آدم کے ساتھ ہی تخلیقِ حوا بذاتِ خود اسی بات کی دلیل ہے کہ نسلِ انسانی کے لئے دونوں کا وجود نا گزیر ہے ۔ یہاں تک سوچنے سے پہلی بات جو ذہن میں آتی ہے وہ یہی ہے کہ خالق نے کچھ نہ کچھ کام دونوں کو سونپے ہوں گے ۔ کچھ کام لازمی کسی ایک کی ذمہ داری اور کچھ کام خود اختیاری نوعیت کے ہیں۔ یعنی قدرت نے بھی یہ اختیار دونوں صنفوں کو عطا کیا کہ اپنی مرضی سے اگر کوئی اضافی ذمہ داری اٹھانا چاہیں تو دونوں اتنی قابلیت رکھتے ہیں کہ بآسانی اپنے اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے ذمہ داریوں میں ردو بدل کر سکتے ہیں۔

دنیا ارتقاء کے اعلیٰ درجوں تک پہنچ چکی ہے لیکن ہم دنیا کے جس خطے سے تعلق رکھتے ہیں وہ ابھی پسماندہ اور ترقی پذیر ہے۔ ہمارا معاشرہ بہت سارے سماجوں اور ان سماجوں کی ریتوں اور روایات سے جڑا ہے۔ اس خطے میں اسلام سے پہلے ہندو ، بدھ ، بت پرست اور آتش پرست جیسی قومیں آباد رہی ہیں اور انہوں نے اپنے اثرات یہاں کی مٹی میں چھوڑے ہیں۔ اسلام بھی یہاں مختلف راستوں سے داخل ہوتا رہا ہے، کبھی یہ آریاؤں کی آماجگاہ رہا اور کبھی محمد بن قاسم نے اسے فتح کیا کبھی افغانستان کی جانب سے اسے فتح کیا جاتا رہا اور کبھی کراچی کے سمندر کی طرف سے کبھی منگول یہاں آن بسے تو کبھی یہ عیسائی غلبے میں چلا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کے رواجوں میں بہت سی قوموں کی جھلک ملتی ہے ۔ ان عوامل نے عورت اور اس کی ذمہ داریوں پر بھی اپنے گہرے اثرات چھوڑے ہیں اور اسی وجہ سے ہمارا معاشرہ کسی حد تک ایک پیچیدہ معاشرے میں ڈھل گیا ہے ۔

سن سینتالیس کی ہجرت کے بعد اس خطے میں پاکستان نام کی جو مملکت ابھری وہ اسلام کے نام پر حاصل کی گئی ۔ پاکستان کے مضافات میں عورتیں ہمیشہ سے کام کاج کی عادی رہی ہیں ۔ وہ کھیتوں میں ہل بھی چلاتی ہیں اور مردوں کے لئے کھانا بھی پکاتی ہیں اور انہیں یہ کھانا کھیتوں تک پہنچاتی بھی ہیں ۔ گھر کی تعمیر میں بھی حصہ لیتی ہیں اور کھیتوں کی کٹائی میں بھی مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں ۔ تناسب کے اعتبار سے عام کام کاج کرنے میں تو وہ برابری کی حیثیت میں کام کر رہی ہیں ۔ تعلیم کے میدان میں آئیں تو لڑکیاں آج اولین درجوں میں کھڑی نظر آتی ہیں لیکن چونکہ تعلیم یافتہ طبقے کا تناسب ہی پاکستان میں بہت کم ہے اس لئے دنیا کے مقابلے میں ہم بہت پیچھے کھڑے نظر آتے ہیں ۔

وقت کی ضرورت اور عصرِ حاضر کا تقاضہ یہی ہے کہ تعلیم کا معیار بلند کرنے کی کوششیں تیز کی جائیں ۔ انفرادی طور پر بھی چھوٹے چھوٹے سیمینارز تشکیل دیے جائیں اور ہر درجے کی عورتوں اور لڑکیوں کو ان میں شامل کرنے کی کوشش کی جائے۔ عمومی طور پر گھر کی تشکیل کرتے ہوئے مائیں بچوں کو بہت سی معلومات فراہم نہیں کرتیں ، کبھی مصروفیت کی وجہ سے کبھی سُستی کی وجہ سے جبکہ بچے میں نئی باتیں معلوم کرنے کا تجسس ہوتا ہے ۔ اسے جب گھر سے معلومات نہیں ملتیں تو وہ باہر سے یہ معلومات حاصل کر لیتا ہے ۔ اس صورت میں ملنے والی معلومات بعض مرتبہ غیر ضروری اور خطرناک بھی ہوتی ہیں اسی لئے اچھی ماؤں کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ اپنے بچوں کو خود معلومات فراہم کریں ۔بالکل اسی طرح مذہب میں بھی جب ہم ایک معاشرہ تشکیل کرتے ہیں تو صنفِ نازک کو معلومات فراہم کرتے ہوئے کتراتے ہیں ۔ اب جب صنفِ نازک وہ معلومات باہر سے حاصل کرتی ہے اور اس میں آگہی کا شعور پیدا ہوتا ہے تو وہ اپنے معاشرتی نظام کے خلاف مزاحمت کرتی ہے اور یہ کشمکش معاشرے میں مزید بگاڑ پیدا کر دیتی ہے۔ عورت کو جو مقام اسلام میں حاصل ہے وہ بھی اسی بات کی گواہی دیتا ہے کہ عورت کے لئے تعلیم ، آگہی اور شعور کا ہونا بہت ضروری ہے ۔ ایک عورت اگر ایک اچھی ماں بن جاتی ہے تو ہم ایک پوری نسل کے شعور کی پختگی کی ضمانت دے سکتے ہیں۔

عورت کو قدرت کی جانب سے زیادہ حساس صابر، محنتی بنایا گیا ہے اور معاشرے کی تشکیل میں جتنا مثبت کردار عورت ادا کر سکتی ہے اتنا اور کوئی نہیں کر سکتا وہ اور کچھ بھی نہ کرے صرف اپنے بچوں کی تربیت احسن طریقے پر کر لے تو معاشرہ یقیناً چند قدم آگے اٹھانے کے قابل ہو سکتا ہے ۔

زندگی اللہ تعالیٰ کی جانب سے دی جانے والی وہ نعمت ہے جس کی حفاظت کی ذمہ داری بھی ہماری ہے اور اس خوب صورت بوجھ کو کندھوں پر اٹھا کر آخری منزل تک پہنچنا اور تمام راستے میں قربانیاں پیش کرتے رہنا بھی انسان کا وصف ہے ۔ اور عورت وہ واحد ہستی ہے جو اگر بیدار ہو جائے تو اپنی حیثیت بھی منوا سکتی ہے اپنے گردو پیش پر نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ کرۂ ارض پر اسلام سے وابستہ عورت ابھی تک زبوں حالی کا شکار ہے اور ان حالات سے اسے صرف اور صرف تعلیم ہی باہر نکلوا سکتی ہے۔ جس کے لیے مناسب و موثر حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے ہماری حکومتوں کی ترجیحات میں تعلیم بہت نچلے درجے پر ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارا معاشرہ روز بروز اخلاقی گراوٹ کی طرف جارہا ہے۔

ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، مارچ 2018

تبصرہ