مرتبہ: نازیہ عبدالستار
علم کے مقررہ مقاصد کے حصول کے لئے اساتذہ کا رول بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اچھے اساتذہ کبھی بھی صرف نصابی کتب پر اعتماد نہیں کرتے بلکہ وہ اپنی تخلیق اور مطالعہ کی وجہ سے بچوں میں نصاب کے علاوہ بہت ساری مہارتیں پیدا کرتے ہیں۔ وہ اساتذہ جو صرف طے شدہ نصاب ہی پڑھاتے ہیں یا سطر در سطر نصاب پر ہی انحصار کرتے ہیں وہ بچوں میں مقبولیت حاصل نہیں کرتے۔ طالبات ان کے اوقات تدریس میں بیزاری ظاہر کرتے ہیں۔ بچوں کو اپنے تدریسی عمل میں شامل کر کے ان کی دلچسپی بڑھا کر ان میں تعلیم کا جذبہ پیدا کیا جا سکتا ہے۔ اس معزز پیشہ میں اساتذہ کی ایمانداری‘ سوچ‘ تدریس کے نئے اور دلچسپ انداز، وقت کی پابندی بچوں میں علم کی خاطر جذبہ پیدا کرتی ہے۔ استاد کی نظر بچوں کے نمبروں کے علاوہ ان کی شخصیت پر ہونی چاہیے۔ صرف سوالوںکے جوابات یاد کر لینا‘ خالی جگہ‘ طوطے کی طرح تمام نصاب کو ہضم کر لینے سے تعلیم کا حق ادا نہیں ہوتا۔ اس حق کو ادا کرنے کے لئے حق گوئی اور حقائق کی تعلیم اور طالبات کی تربیت بہت ضروری ہے ورنہ وہ پڑھ لکھ کر ایک نئی مصیبت کھڑی کر سکتی ہیں جس سے والدین کے لئے باعث شرمندگی بن سکتی ہیں۔ صرف مقررہ نصاب کو پڑھانا کافی نہیں بلکہ اخلاقیات کا نمونہ بھی پیش کرنا ضروری ہے۔ اس لئے ایسے بدلتے معاشرے میں اساتذہ کی ذمہ داری کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ا ن کی پوری توجہ کے بغیر طالب علم کی شخصیت کی مکمل نشوونما نہیں ہو سکتی۔ تعلیم ہی وہ وسیلہ ہے جو انسان کو شرف آدمیت بخشتا ہے۔ کردار کے بغیر علم صرف دماغ کا تعیش ہے اور دل کا نفاق ہے۔ اگر اخلاق اور عمل کی خوبیاں پیدا نہ ہوں تو علم کا درخت بے ثمر اور بے فیض ہے۔ اس لئے بدلتے ہوئے معاشرے میں استاد کا کردار بہت اہم ہے۔ انہیں طالب علم کے لئے حسن اخلاق کا نمونہ ہونا چاہیے۔ قابلیت بہت اہم چیز ہے لیکن قابلیت کافی نہیں ہے۔ شرافت اور حسن اخلاق بھی ضروری ہے۔ قابلیت کے ذریعے تعلیم کا معیار بلند ہو گا اور شرافت اور اخلاق کی وجہ سے تعلیم بارآور ہوگی اور طالب علم سرخرو ہو گا۔ استاد درختوں کی طرح ہونا چاہیے جو معاشرے کو آکسیجن فراہم کرتے ہیں اور مسموم مادے کو جذب کر لیتے ہیں۔ اسلام کے نزدیک معیاری تعلیم و ہ ہے جس کے نتیجہ میں انسان خود شناسی اور خدا شناسی سے ہمکنار ہو ورنہ تعلیم اس کے رویے کو تبدیل نہیں کر سکتی۔بچوں کو ہمیشہ پیار سے پڑھانا اور سمجھانا چاہیے کیونکہ بچے اکثر پیار کی زبان ہی سمجھتے ہیں۔ بچوں کو اس وقت مارا یا سختی کی جائے جب طالب علم ہر طریقے سے ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہو۔ کلاس روم میں ہر طالب علم پر نظر رکھنی چاہیے۔ اکثر نالائق طالب علم پیچھے والی لائن میں جا بیٹھتے ہیں تاکہ استاد کی نظر اس پر نہ پڑے۔ اچھے طالب علموں کی پوری کلاس کے سامنے حوصلہ افزائی کرنی چاہیے تاکہ دوسرے بچے بھی یہ دیکھ کر محنت کرنا سیکھیں۔
نسل انسانی کی بہترین پرورش کی ذمہ داری بنیادی طور پردولوگوں پر ڈالی گئی ہے، والدین اور اساتذہ۔ یہ ذمہ داری اس قدر اہمیت کی حامل ہے جسے نظر انداز نہیں کی جاسکتا۔
اور شاید یہ ایک واحد کام ہے جس میں ایک سے زیادہ لوگوں کی رہنمائی درکار ہے۔ پیدائش سے لے کر اپنے قدموں پر کھڑے ہونے تک ہر بچہ ماں باپ اور اساتذہ کی رہنمائی کاطلب گاررہتا ہے۔ ایک کامیاب انسان بنانے میں والدین اور خاص طور پر ماں کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے، لیکن دنیا میں ہمارے ارد گرد بعض بچے ایسے بھی موجود ہوتے ہیں کہ جن کو والدین کی نعمت میسر نہیں ہوتی، اس لیے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ بچے جو اس صورتِ حال کاشکار ہیں یا پھر اگر کسی بھی وجہ سے والدین اپنے بچے کی پرورش نہ کرسکیں، تو پھر آخر ان بچوں کی تربیت کس کی ذمہ داری ہے؟ تو اس کا عمومی جواب ہو گا اساتذہ، تو ایسی صورت میں اساتذہ کی اہمیت اور ان کے کندھوں پر نسلوں کی پرورش کی بھاری ذمہ داری کااندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
عام طور پر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ ٹیچر بننا کوئی نہیں چاہتا۔ جب ڈاکٹر یا انجینئر بننے کی ساری کوششیں ناکام ہوجاتی، ہیں تو لوگ تنگ آکر ٹیچر بن جاتے ہیں۔ جتنے ٹوٹے ہوئے دل سے اساتذہ اپنا کام کرتے ہیں ویسے ہی نتائج کے حامل ان کے طالب علم ہوتے ہیں۔ خاص طور پر ہمارے ہاں پرائمری سطح پر بالکل غیر تربیت یافتہ اساتذہ کے ہاتھوں میں معصوم ذہنوں کی باگ ڈور سونپ دی جاتی ہے۔ جبکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ زندگی کے پہلے سات سال ہی ذہن کی شعوری اورغیر شعوری نشوونما میں نہایت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ اچھے معلم کے لیے ضروری ہے کہ صرف نصابی کتب پڑھانے کے ساتھ بچوں کی اخلاقی تربیت پر بھی توجہ دیں۔ ہمارے ہاں اخلاقیات پر بہت کہانیاں لکھی گئی ہیں، چھوٹے بچوں کو کہانیاں سننے کاشوق بھی بہت ہوتا ہے، استاد خود بھی موقع کی مناسبت سے چھوٹی چھوٹی کہانیاں بنا کر سنا سکتے ہیں۔
بڑی کلاسز کے بچوں کے لیے حقیقی دنیا کی باتیں بہت دلچسپ ہوتی ہیں۔ ہمارے اردگرد ہر وقت نئی نئی کہانیاں جنم لیتی ہیں اور معجزات رونما ہوتے ہیں۔ ایک اچھا استاد بڑی آسانی سے اپنے طالب علموں کو حالات سے آگاہ بھی رکھ سکتا ہے اور اچھے برے کی پہچان بھی کرواسکتا ہے۔ بچوں کو خواب دیکھنے اور بڑی بڑی باتیں کرنے سے کبھی نہ روکیں۔ خواب دیکھنے والے بچے ہی زندگی میں کامیاب ہوتے ہیں۔ ایک واقعہ اس معاملے کی وضاحت کے لیے کافی ہے کہ خواب دیکھنے سے کیا مراد ہے۔ ایک دس سال کا بچہ جس کاباپ ایک بہت بڑے اصطبل کا رکھوالہ تھا، گھوڑے پالنے کا بڑا شوق رکھتا تھا۔ ایک روز کلاس میں خاتون استاد نے بچوں سے اپنی زندگی گزارنے کے بارے میں مضمون لکھنے کو کہا۔
اس بچے نے اپنے ایک خواب کو خوبصورت ڈرائنگ کی شکل دے کر کاغذ پر اتارا۔ ٹیچر نے دیکھ کر اسے بہت ڈانٹا کہ کیوں خوابوں کی دنیا میں رہتے ہو، اتنے غریب ہو کر تمہیں یہ سب سوچنا بھی نہیں چاہیے۔ یہ کہہ کر ٹیچر نے بچے کو ٹیسٹ میں فیل کردیا اور کہا ایک ہفتے کے اندر اندر نیا مضمون لکھ کر لائو ورنہ اسکول نہ آنا۔ وہ بچہ بڑا پریشان ہوا لیکن اس نے مضمون نہ بدلا اور ایک ہفتے کے بعد وہی مضمون لے کر دوبارہ ٹیچر کے پاس گیا اور کہا میں مضمون نہیں تبدیل کروں گا اور اسکول چھوڑ دیا۔ 20 سال بعد وہی ٹیچر کسی دعوت پر اپنی کلاس کے بچوں کو لے کر ایک زرعی فارم پر گئی۔ استقبال کرنے کے لئے ان کاوہی طالب علم کھڑا تھا جس نے کبھی یہ خواب دیکھا تھا اور وہ زرعی فارم ایسا ہی تھا، جیسے اس نے تصویر میں بنایا تھا۔ فرق صرف یہ تھا کہ ٹیچر بہت شرمندہ تھی کیوں کہ اس کامیابی میں اْس کا حصہ نہیں تھا۔
بچوں کی نشوونما پر ایک استاد کا کیا اثر ہوسکتا ہے؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لئے ایک اسکول میں تجربہ کیا گیا۔ کلاس میں بچے بڑی اچھی طرح اپنا کام کرتے تھے، ان کی ٹیچر ان کو ہر وقت یہ احساس دلاتی تھی کہ وہ بہت اچھے بچے ہیں۔ دوسری طرف اسی طرح کی ایک کلاس کے بچے کچھ سست واقع ہوتے تھے، کیوں کہ ان کی ٹیچر کہتی تھی کہ تم کچھ کرہی نہیں سکتے۔ تجربے کے طور پر پہلی ٹیچر کو دوسری کلاس کے بچے دے دئے گئے اور دوسری ٹیچر کو پہلی کلاس کے بچے دیئے گئے۔ کچھ عرصے کے بعد پتہ چلا کہ اچھا کام کرنے والے بچوں نے ٹیچر بدلنے کے بعد پڑھائی پر توجہ دینا کم کر دی جس سے وہ ہر ٹیسٹ میں بری طرح ناکام ہونے لگے جبکہ دوسری طرف صورت حال کچھ یوں تھی کہ نالائق بچے ٹیچر کی طرف سے حوصلہ افزائی کرنے کے باعث بہترین نتائج کا مظاہرہ کرنے لگے۔ اس تجربہ کی روشنی میں اس بات کا خوب اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایک استاد کی حوصلہ افزائی بچوں پر کیا اثر ڈال سکتی ہے۔
جب اساتذہ اپنا فرض مکمل انصاف سے پورا کرتے ہیں، تو جو عزت واحترام ان کے حصے میں آتی ہے، اس کااندازہ صرف وہ استاد ہی لگا سکتا ہے(اس موقع پر وہ واقعہ قابلِ بیان ہے) جب خلیفہ ہارون رشید اپنے دونوں بیٹوں کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھنے مسجد گئے تو وہاں ان کے بیٹوں کے استاد بھی نماز پڑھنے آئے ہوئے تھے۔ جیسے ہی نماز ختم ہوئی دونوں لڑکے بھاگے کہ دیکھتے ہیں استاد کے جوتے کون اٹھا کر لاتا ہے۔ خلیفہ ہارون رشید کی آنکھیں عقیدت سے بھر آئیں جب اْنہوں نے دیکھا کہ ایک بیٹے نے ایک جوتا اْٹھایا ہوا ہے اور دوسرے نے دوسرا جوتا اْٹھایا ہوا تھا اور وہ دونوں استاد کاانتظار کررہے تھے۔ یقیناً اگر ہم نے اس معاشرے کو اچھے استاد دئیے تو یہ معاشرہ بھی ہمیں ایسے ہی طالب علم دے گا۔
استاد علم کا سرچشمہ ہوتا ہے۔ قوموں کی تعمیر و ترقی میں اساتذہ کا رول اہمیت کا حامل ہوتاہے۔تعمیر انسانیت اور علمی ارتقاء میں استاد کے کردار سے کبھی کسی نے انکار نہیں کیا ہے۔ ابتدائے آفرینش سے نظام تعلیم میں استاد کو مرکزی مقام حا صل ہے۔اساتذہ کو نئی نسل کی تعمیر و ترقی،معاشرے کی فلاح و بہبود ،جذبہ انسانیت کی نشوونما اور افرادکی تربیت سازی کی وجہ سے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔استاد اپنے شاگردوں کی تربیت میں اس طرح مگن رہتا ہے جیسے ایک باغبان ہر گھڑی اپنے پیڑپودوں کی نگہداشت میں مصروف رہتا ہے۔ تدریس وہ پیشہ ہے جسے صرف اسلام ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر مذہب اور معاشرے میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ لیکن یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ دنیائے علم نے استاد کی حقیقی قدر و منزلت کو کبھی اس طرح اجاگر نہیں کیا جس طرح اسلام نے انسانوں کو استاد کے بلند مقام و مرتبے سے آگاہ کیا ہے۔ اسلام نے استاد کو بے حد عزت و احترام عطاکیا۔ اللہ رب العزت نے قرآن میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان بحیثیت معلم بیان کی ہے۔خود رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ’’انمابعثت معلما‘‘(مجھے معلم بنا کر بھیجا گیاہے ) فرما کر اساتذہ کو رہتی دنیاتک عزت و توقیر کے اعلی منصب پر فائز کردیا ہے۔ اسلام میں استاد کا مقام و مرتبہ بہت ہی اعلی و ارفع ہے۔ استاد کو معلم و مربی ہونے کی وجہ سے اسلام نے روحانی باپ کا درجہ عطا کیا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’انماانا لکم بمنزل و الوالد،اعلمکم‘‘ (میں تمہارے لئے بمنزلہ والد ہوں،تمہیں تعلیم دیتا ہوں)۔ امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ سے پوچھا گیا کہ اتنی بڑی اسلامی مملکت کے خلیفہ ہونے کے باوجود آپؓ کے دل میں کوئی حسرت باقی ہے۔آپؓ نے فرمایا’’کاش میں ایک معلم ہوتا۔‘‘ استاد کی ذات بنی نوع انسان کے لئے بیشک عظیم اور محسن ہے۔باب العلم خلیفہ چہارم حضرت علیؓ کا قول استاد کی عظمت کی غمازی کرتا ہے۔’’جس نے مجھے ایک حرف بھی بتا یا میں اس کا غلام ہوں۔ وہ چاہے تو مجھے بیچے ،آزاد کرے یا غلام بنائے رکھے۔‘‘شاعر مشرق مفکر اسلام علامہ اقبال معلم کی عظمت یو ں بیان کرتے ہیں۔’’استاد دراصل قوم کے محافظ ہیں کیونکہ آئندہ نسلوں کو سنوارنا اور ان کو ملک کی خدمت کے قابل بناناانہیں کے سپرد ہے۔سب محنتوں سے اعلیٰ درجے کی محنت اور کارگزاریوں میں سب سے زیادہ بیش قیمت کارگزاری ملک کے معلموں کی کارگزاری ہے۔معلم کا فرض سب فرائض سے زیادہ مشکل اور اہم ہے۔کیونکہ تمام قسم کی اخلاقی ،تمدنی اور مذہبی نیکیوں کی کلید اس کے ہاتھ میں ہے اور ہر قسم کی ترقی کا سرچشمہ اس کی محنت ہے۔‘‘ معاشرے میں جہاں ایک ماں کی آغوش کو بچے کی پہلی درس گاہ قرار دینے کے ساتھ ایک مثالی ماں کو ایک ہزار اساتذہ پر فوقیت دی گئی ہے وہیں ایک استاد کو اپنی ذات میں ساری کائنات کو بچے کے لئے ایک درس گاہ بنانے کی طاقت رکھنے کی وجہ سے روحانی والد کا درجہ دیا گیا ہے۔باپ بچے کو جہاں اپنی انگلی پکڑ کر چلنا سکھاتا ہے وہیں استاد بچے کو زندگی میں ہمیشہ آگے بڑھنے کی تلقین کرتا ہے۔سکندر اعظم سے کسی نے پوچھا کہ وہ کیوں اپنے استاد کی اس درجہ تعظیم کرتا ہے۔سکندر اعظم نے کہا کہ اس کے والدین اسے آسمانوں سے زمین پر لے آئے ہیں جب کہ استاد اس کو زمین سے آسمانوں کی بلندیوں تک پہنچاتا ہے۔بطلیموس استا دکی شان یوں بیان کرتاہے ’’استاد سے ایک گھنٹہ گفتگو دس برس کے مطالعے سے مفید ہے۔‘‘
تدریس کا دیگر شعبہ جات زندگی سے تعلق ہوتا ہے۔ زندگی کے تمام پیشے پیشہ تدریس کی کوکھ سے ہی جنم لیتے ہیں۔زندگی کا کوئی بھی شعبہ خواہ عدلیہ ،فوج،سیاست ،بیوروکریسی ،صحت ،ثقافت،تعلیم ہو یا صحافت یہ تمام ایک استاد کی صلاحیتوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ اگر مذکورہ شعبہ جات میں عدل ،توازن اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے تو یہ صالح اساتذہ کی تعلیمات کا پرتو ہے اور اگر اساتذہ کی تعلیمات میں کہیں کوئی نقص اور کوئی عنصر خلاف شرافت و انسانیت آجائے تب وہ معاشرہ رشوت خوری ،بدامنی اور فتنہ پروری کی منہ بولتی تصویر بن جاتا ہے۔ استاد کو ایک صالح معاشرے کی تعمیر میں کلیدی کردار کی انجام دہی کی وجہ سے ہی معمار قوم کا خطاب عطا کیا گیا ہے۔ استاد معاشرے کی عمدہ اقدار کا امین و نگہبان ہونے کے ساتھ ساتھ ان اقدار کو آنے والی نسلوں تک منتقل کرنے کا ذریعہ بھی ہوتا ہے۔ اساتذہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں اگر ذرہ برابر بھی چوک جائیں تب معاشرہ کی بنیادیں اکھڑ جاتی ہیں اور معاشرہ حیوانیت، نفس پرستی اور مفاد پرستی کی تصویر بن کر جہنم کا نمونہ پیش کرتا ہے۔تعلیم انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کر تی ہے اور انسان کو معاشرے کا ایک فعال اور اہم جزو بننے میں مدد فراہم کرتی ہے۔
استاد کو افراد سازی کے فرائض کی ادائیگی کے سبب معاشرے میں اس کا جائزہ مقام فراہم کیا جانا ضروری ہے۔معاشرتی خدمات کی ادائیگی کے سبب معاشرہ نہ صرف استادکو اعلیٰ اور نمایا ں مقام فراہم کرے بلکہ اس کے ادب اور احترام کو بھی ہر دم ملحوظ خاطر رکھے۔ہر معاشرے اور مذہب میں استاد کو ملنے والی اہمیت اساتذہ سے خود کو ایک رول ماڈل کے طور پر پیش کرنے کا تقاضا کرتی ہے۔امام اعظم ابوحنیفہؒ سے ان کی عزیز شاگرد حضرت امام یوسفؒ نے پوچھا کہ ’’ استاد کیسا ہوتا ہے؟‘‘۔ آپؒ نے فرمایا ’’استاد جب بچوں کو پڑھا رہا ہوتو غور سے دیکھو ،اگر ایسے پڑھا رہا ہو جیسے اپنے بچوں کو پڑھاتا ہے تو استاد ہے اگر لوگوں کے بچے سمجھ کر پڑھا رہا ہے تو استاد نہیں ہے۔‘‘امام اعظمؒ کے اس قول کی روشنی میں اگر اساتذہ کو پرکھا جائے تو معاشرے میں مادیت پرستی کا غلبہ ہمیں واضح نظر آئے گا۔استاد معاشرے میں اخلاقی اقدار کو فروغ دینے والا ہوتا ہے لیکن صد افسوس کہ آج یہ پیشہ( چنداستشنات کے) اپنی عظمت اور وقار کو تقریبا کھو چکا ہے۔پیشہ تدریس آج صرف ایک جاب (نوکری)، اسکیل (تنخواہ) اور ترقی کی حد تک محدود ہوچکا ہے۔ استاد اور شاگرد کامقدس رشتہ کہیں کھو گیا ہے۔ تاریخ عالم شاہد ہے کہ اس قوم کو عروج اور ترقی نصیب ہوئی جس نے اپنے اساتذہ کی قدر و منزلت کی۔ مشہور پاکستانی ادیب ،دانشور ماہر تعلیم جناب اشفاق احمد صاحب مرحوم جب اٹلی میں اپنی تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے تب ٹریفک قانون کی خلاف ورزی کی پاداش میں ان کا چالان کیا گیا۔اپنی مصروفیت کی وجہ سے جب انھوں نے چالان ادانہ کیا تب ان کو چالان کی عدم ادائیگی اور عدم حاضری کے سبب عدالت میں پیش کیا گیا۔جج نے چالان کی ادائیگی میں تاخیر کی وجہ دریافت کی تو اشفاق احمد نے بتایا کہ وہ ایک ٹیچر ہیں اور اپنی تدریسی سرگرمیوں کی وجہ سے چالان کی بروقت ادائیگی سے قاصر رہے۔ جج کو جب پتہ چلا کہ وہ ایک ٹیچر ہیں تب وہ اپنی کرسی سے احتراما کھڑا ہو گیا اور حیرت و استعجاب سے کہنے لگا A teacher in the Court ( ایک استاد عدالت میں)، یہ کہتے ہوئے ان کا چالان معاف کردیا۔ اٹلی میں بھی ہمارے وطن عزیز کی طرح اساتذہ کی تنخواہیں دلکش نہیں ہیں لیکن وہاں آج بھی تمام رتبے جج، بیوروکریٹس، تجار،پولیس،سیاستدان وغیرہ سب استاد کے پیچھے یو ں چلتے ہیں جیسے ماضی میں غلام اپنے آقاؤ ں کے پیچھے چلتے تھے۔ استاد کی یہی تعظیم مغربی معاشر ے کی عروج کی داستان ہے۔ وہیں مشرقی معاشرے جو اساتذہ کے ادب و احترام کی بناء بام عروج پر تھے اساتذہ کے ادب و احترام کے اعراض کے سبب تنز ل کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔استاد کا مقام مادیت پرستی سے بالاہے۔اس سے یہ مراد ہر گز نہ لی جائے کہ اساتذہ کی اپنی ضروریا ت نہیں ہوتی ہیں۔اساتذہ کے ہاتھوں میں معاشرے کے بناؤ اور بگاڑ کی کلید ہونے کی وجہ سے ان کا مقام نمایا ں و بلند ہوتا ہے۔معاشرہ استاد کو ایسے نمایا ں مقام پر فائز کرتے ہوئے یہ مطالبہ بھی کرتا ہے کہ وہ دنیا کے باقی شعبوں کی طرح اپنے ہاتھ دنیوی مراعات کے لالچ میں آلودہ نہ کریں۔
استا د کی ذمہ داریاں دیکھی جائیں استاد نسل نو کی تربیت کا اہم کام انجام دیتا ہے۔ہر قوم و مذہب میں استاد کو اس کے پیشے کی عظمت کی وجہ سے اہمیت حاصل ہے۔استاد طلباء کو نہ صرف مختلف علوم و فنون کا علم دیتاہے بلکہ اپنے ذاتی کردار کے ذریعہ ان کی تربیت کا کام بھی انجام دیتا ہے۔معاشرے کی زمام کار سنبھالنے والے افراد خواہ وہ کسی بھی شعبے اور پیشے سے وابستہ ہوں اپنے استاد کی تربیت کے عکاس ہوتے ہیں۔استاد کا اہم اور بنیادی فریضہ انسان سازی ہوتا ہے۔ اگرچہ اس کام میں نصاب تعلیم اور تعلیمی اداروں کے اثرات بھی شامل ہوتے ہیں لیکن یہ ایک نا قابل تردید حقیقت ہے کہ پورے تعلیمی نظام کا مرکز و محور ایک استاد ہی ہوتا ہے۔نصاب تعلیم جو بھی لیکن استاد اسے جس طرح چاہے پڑھا سکتا ہے۔ایک مسلمان معلم پر عام اساتذہ سے دوگنی ذمہ داری عائد ہوتی ہے چونکہ وہ پہلے تو ایک مسلمان ہے اوردوسرا ایک مدرس بھی۔فلسفہ اسلام کی رو سے استاد ایک مربی اور رہنما و رہبر ہوتاہے جو نہ صرف نسل نو کی تربیت کرتا ہے بلکہ نسل نو کو اسلامی نظریہ حیات اور اسلامی تعلیمی نظریا ت سے وابستہ بھی کرتا ہے۔ کیونکہ نظریہ کے بغیر کوئی بھی قوم حمیت سے عاری بے تربیت افراد کا مجموعہ بن جاتی ہے۔ مسلم معلمین کے لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سخت وعید ہے ’’جو کوئی بھی مسلمانوں کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنا پھر ان کے لئے ایسی خیر خواہی اور کوشش نہ کی جتنی وہ اپنی ذات کے لئے کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کو منہ کے بل جہنم میں ڈال دیں گے۔‘‘ اس فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں اگر مسلم اساتذہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں ذرہ بھر بھی کوتاہی برتیں گے تو روز قیامت ان کا سخت مواخذہ کیا جائے گا۔ روز قیامت عدم ساز گار حالات ،مادی وسائل کی کمی،والدین اور طلباء کی عدم توجہی و دیگر عذر مسلم اساتذہ کے لئے کسی کام نہیں آئیں گے۔اساتذہ اپنی اہمیت اور ذمہ دار ی کو محسوس کریں خاص طور پر مسلم اساتذہ اپنے مقام کو پہچانے کہ اول تو وہ مسلمان ہیں اور پھر ا سلامی طرز معاشرت اوردین فطرت کے نفاذ کے لئے نئی نسل کو تیار کرنے والے معلم، استاد، مربی او ر رہبر ہیں۔ نامساعد حالات میں بھی مسلم اساتذہ کا منشاء و مقصد نسل نو کی اسلامی تعلیم و تربیت ہوتا ہے۔پیشہ تدریس سے وابستہ افراد کے لئے چار عملی میدان ہوتے ہیں:
- تعمیر ذات
- اپنے علم میں مسلسل اضافہ
- طلباء کی شخصیت و کردار سازی
- تعلیم گاہ اور استاد
نئی نسل کی تعمیر کا کام انجام دینے والے استاد کے لئے سب سے پہلے اپنی ذات کی تعمیر ضروری ہوتی ہے۔طلباء کے لئے استاد کی ذات افکار و اقدار کا اعلی معیار ہوتی ہے۔اساتذہ اپنی شخصیت کی تعمیر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کو پیش نظر رکھیں۔ہر انسان کے لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پاک بہترین نمونہ ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معلم اعظم ہیں اسی لئے اساتذہ اپنے پیشے سے انصاف کرنے کے علاوہ درس و تدریس میں اثر و تاثیر پیدا کرنے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ کی لازمی پیروی کریں۔ایک معلم کا قلب جب رب حقیقی کی عظمت و کبریائی سے معمور ہوگا ،احکام خداوندی کا پابند اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عامل ہوگا تب اس کا درس شاگردوں کے لئے باران رحمت اور زندگی کی نوید بن جائے گا۔معلم کا خوش اخلاق ،نرم خو،خوش گفتار،ملنسار،ہمدرد،رحمدل،غمگسار و مونس اور مدد گار ہونابہت ضروری ہوتا ہے۔استاددرس و تدریس کو صرف حصول معاش کا ذریعہ نہ سمجھے بلکہ اس کو رضائے الہی کا ایک ذریعہ مانے۔اسلامی نقطہ نظر سے حصول علم کا مقصد خو دآگہی اور خدا آگہی ہے ہمیشہ یہ نظریہ اساتذہ کے ذہنوں میں پیوست رہے۔علوم کی ترویج و تدریس کو ذریعہ معاش نہ سمجھیں بلکہ علوم کی تدریس، ترویج و اشاعت کو اخلاق کی بلندی اور کردار کی تعمیر کے لئے استعمال کریں۔ایک حقیقی استاد اسلاف سے حاصل شدہ علوم (نظریات، تہذیب، عقائد، افکار، عادات ،رجحانات،اور خصائل) کو بالکل اسی طر ح بغیر کسی کم و کاست اگلی نسلوں کو صحت و عمدگی سے منتقل کر ے۔استاد کمرہ جماعت یا مدرسہ کی چار دیواری تک ہی استاد نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ ہر پل اپنی رفتار،گفتار،کردار غرض ہر بات میں معلم ہوتا ہے۔معلم کی ہر بات و حرکت طلبا پر اثر انداز ہوتی ہے۔طلباء صرف استاد سے کتاب یا اسباق ہی نہیں پڑھتے ہیں بلکہ وہ استاد کی ذات اور شخصیت کا بھی مطالعہ کرتے ہیں۔استاد مدرسہ ،کھیل کا میدان، گھر اور بازار ہر جگہ طلباء کے لئے ایک زندہ نمونہ ہوتا ہے۔طلباء کو فسق و فجور سے منع کرنے والا استاد اگر خود ان افعال میں ملوث ہو تب اس کے اعمال طلباء کو ان افعال کی خاموش تعلیم دیتے ہیں۔ایک بے صبر اور بدمزاج استاد اگر صبر و تحمل کی تعلیم دے تب اس کاعمل طلباء کوچڑچڑے پن اور عدم تحمل کی طرف مائل کرتا ہے۔ایک عظیم استاد اپنی شخصیت کو نہ صرف نکھار تا ہے بلکہ اپنی شخصیت کے ذریعہ معاشرے کوبہتر ین انسان فراہم کرتا ہے۔ایک استاد کوصبر و تحمل ،معاملہ فہمی،قوت فیصلہ،طلبہ سے فکری لگاؤ،خوش کلامی اور موثر اندازبیان جیسے اوصاف سے متصف ہونا چاہیے۔ایک استاد کی شخصیت اور بھی دلکش ہوجاتی ہے جب وہ اخلاص ،لگن ،ہمدردی ،دلسوزی اور اصلاح کے جذبے سے نظم و ضبط قائم کرے۔
انگریزی کا معروف قول ہے کہ ’’Teaching is nothing but learning‘‘ (تدریس صرف سیکھنے کا نام ہے) یہ بالکل حقیقت ہے کہ تدریس کے ذریعہ کئی تعلیمی راز عیا ں ہوتے ہیں اور تدریس ہر پل اساتذہ کے علم میں اضافہ کا باعث ہوتی ہے۔اس کے باوجود اساتذہ بہتر تدریسی خدمات کی انجام دہی کے لئے جدید معلومات کے حصول کو یقینی بنائیں تاکہ درس و تدریس کے دوران کسی خفت اور تحقیر سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکیں۔اپنے علم میں اضافے کے ذریعہ اساتذہ نہ صرف اپنی شخصیت کو بہتر بنا سکتے ہیں بلکہ اپنی تدریس کو بھی بااثر بنانے میں کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔عربی کا مقولہ ہے کہ ’’علم حاصل کرو گود سے گور تک ‘‘اساتذہ کو اس قول پر ہمیشہ کار بند رہنا چاہیئے۔استاد میں علمی لیاقت ،تدریسی صلاحیتوں کے ساتھ بچوں کی نفسیات اور طریق تعلیم سے واقفیت بے حد ضروری ہے۔
تعلیم میں کیرئیر سازی کے رجحان نے طلباء کو علم کے عین مقصد سے دور کردیا ہے۔طلباء کی کردار سازی میں اور شخصیت کے ارتقاء میں معلم کا بہت بڑا دخل ہوتاہے۔ایک اچھا استاد اپنے شاگردوں کی کردار سازی کے لئے ہمہ وقت فکر مند رہتا ہے۔اپنے طلباء کے دلوں سے کدورتوں،آلودگیوں اور تمام آلائشوں کو دور کرتے ہوئے اس کو ایمان، خوف خدا ،اتباع سنت اور آخرت کی جواب دہی کے احساس سے معمور کرتا ہے۔طلباء کی کرداری سازی کے لئے خود بھی تقوی و پرہیز گاری کو اختیار کرتا ہے اور اپنے شاگردوں کو بھی اس پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کرتا ہے۔ایک اچھا معلم اپنے شاگردوں میں مقصد سے لگن و دلچسپی پیدا کرتا ہے اور طلباء کوبیکار و لایعنی مشاغل سے دور رکھتا ہے۔دنیا سے بے نیازی اور مادہ پرستی سے اجتناب کی تلقین کرتا ہے۔اپنے شاگردوں کو محنت اور جستجو کا عادی بناتا ہے۔ کاہلی، سستی اور تضیع اوقات سے طلباء کو باز رکھتا ہے۔
آج اسکول ،کالجز، یونیورسٹیز تعلیم کی اصل غرض و غایت سے انحراف کرتے ہوئے مادہ پرستی کے فروغ میں پیش پیش نظر آرہے ہیں۔یہ ادارے ڈاکٹرز، انجینئرز، سائنسدان، سیاست دان، پروفیسرز، ٹیچرزاور فلاسفرز بنانے میں تو کامیابی حاصل کر رہے ہیں لیکن ایک آدمی کو انسان بنانے میں (جو کہ تعلیم کا اہم مقصد ہے ) ناکام ہورہے ہیں۔تعلیمی ادارے انسان سازی کے کار حمیدہ سے آج عاری نظر آرہے ہیں۔ اساتذہ کی ان حالات میں ذمہ داری اور بڑھ جاتی ہے کہ وہ طریقہ تعلیم اور نظام تعلیم میں تبدیلی کی سعی و کوشش کریں۔مادہ پرست نصاب تعلیم و تعلیمی ادارہ جات میں دانشوری سے وہ افعال انجام دیں جس سے طلباء میں دہریت اور مادہ پرستی جیسے جذبات سر نہ اٹھا سکیں۔ اپنے عمل و کردار سے تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کو مثبت تعلیمی نظام کی طرف راغب کریں۔ ہنر مندی کے ساتھ دیانت داری اور امانت پسندی کا ایک اعلی نمونہ قائم کریں تاکہ تعلیمی ادارہ جات دھوکے باز سیاست دانو ں کی بجائے باکردار و امانت دار سیاست دان پیدا کریں۔ایسے انجینئر اور ڈاکٹر تیار کریں جو لوگو ں کے علاج کو نہ صرف اپنا ذریعہ معاش بنائیں بلکہ اس خدمت کو عباد ت کے درجہ تک پہنچادیں۔اساتذہ اپنے شاگردوں کی اس طرح تربیت کر یں کہ وہ اپنے پیشوں میں مہارت پیدا کرنے کے ساتھ انسان بھی باقی رہیں۔اساتذہ تعلیمی ادارجات اور نصاب تعلیم کو بلند مقصد حیات اور فکر سازی کے رجحان سے آراستہ کریں۔
نوجوان نسل کی کوتاہیاں اپنی جگہ ،والدین کا تغافل، نصاب تعلیم اور تعلیمی اداروں کی خامیاں بھی اپنی جگہ مگرکار پیغمبری سے وابستہ ہونے کی وجہ سے اور قوم و ملت کے ایک ذمہ دار منصب پر فائز ہونے کی بناء پر اساتذہ اس بحران کا جائزہ لیں اور خود اپنی کمیوں اور کوتاہیوں کا تعین کریں۔اگراساتذہ سینکڑوں مسائل اور اسباب و علل کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف اپنی کوتاہیوں کا تھوڑا سابھی ادارک کر لیں تب یقینا یہ احساس قوم و ملت کی ترقی کی جانب پہلا قدم ہوگا۔
ماخوذ از ماہنامہ دختران اسلام، اکتوبر 2017
تبصرہ