سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں عورتوں کے حقوق

نغمہ پروین (مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ)

تاریخ گواہ ہے کہ ایک عرصہ دراز سے عورت مظلوم چلی آرہی تھی۔ یونان، مصر، عراق، ہند، چین غرض ہرقوم میں ہر خطہ میں کوئی ایسی جگہ نہیں تھی، جہاں عورتوں پر ظلم کے پہاڑ نہ ٹوٹے ہوں۔ لوگ عیش وعشرت کی غرض سے اس کی خریدوفروخت کرتے اور ان کے ساتھ حیوانوں سے بھی بْرا سلوک کیاجاتاتھا، حتی کہ اہلِ عرب عورت کے وجود کو موجبِ عار سمجھتے تھے اور لڑکیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے۔ ہندوستان میں شوہر کی چتا پر اس کی بیوہ کو جلایا جاتا تھا۔ واہیانہ مذاہب عورت کو گناہ کا سرچشمہ اور معصیت کا دروازہ اور پاپ کا مجسم سمجھتے تھے۔ اس سے تعلق رکھنا روحانی ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے تھے۔ دنیا کی زیادہ تر تہذیبوں میں اس کی سماجی حیثیت نہیں تھی۔ اسے حقیر وذلیل نگاہوں سے دیکھاجاتا تھا۔ اس کے معاشی وسیاسی حقوق نہیں تھے، وہ آزادانہ طریقے سے کوئی لین دین نہیں کرسکتی تھی۔ پہلے باپ کی، پھر شوہر کی اور اس کے بعد اولادِ نرینہ کی تابع اور محکوم تھی۔ اس کی کوئی اپنی مرضی نہیں تھی اور نہ ہی اسے کسی پر کوئی اقتدار حاصل تھا، یہاں تک کہ اسے فریاد کرنے کا بھی حق حاصل نہیں تھا۔

اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ بعض مرتبہ عورت کے ہاتھ میں زمام اقتدار بھی رہا ہے اور اس کے اشارے پر حکومت وسلطنت گردش کرتی رہی ہے، یوں تو خاندان اور طبقے پر اس کا غلبہ تھا، لیکن بعض مسائل پر مرد پر بھی ایک عورت کو بالادستی حاصل رہی۔ اب بھی ایسے قبائل موجود ہیں، جہاں عورتوں کا بول بالا ہے، لیکن ایک عورت کی حیثیت سے ان کے حالات میں زیادہ فرق نہیں آیا، ان کے حقوق پر دست درازی جاری رہی اور وہ مظلوم کی مظلوم ہی رہی۔

(مسلمان عورت کے حقوق اور ان پر اعتراضات کا جائزہ، سید جلال الدین عمری، مطبع ادارہ تحقیق وتصنیفِ ا سلامی)

لیکن اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس نے عورت پر احسان عظیم کیا اور اس کو ذلت وپستی کے گڑھوں سے نکالا جب کہ وہ اس کی انتہا کو پہنچ چکی تھی، اس کے وجود کو گوارا کرنے سے بھی انکار کیا جارہا تھا تو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ للعالمین بن کر تشریف لائے اور آپ نے پوری انسانیت کو اس آگ کی لپیٹ سے بچایا اور عورت کو بھی اس گڑھے سے نکالا۔ اور اس زندہ دفن ہونے والی عورت کو بے پناہ حقوق عطا فرمائے اور قومی وملی زندگی میں عورتوں کی کیا اہمیت ہے، اس پہلو کو سامنے رکھ کر اس کی فطرت کے مطابق اس کو ذمہ داریاں سونپیں۔

مغربی تہذیب بھی عورت کوکچھ حقوق دیتی ہے، مگر عورت کی حیثیت سے نہیں، بلکہ یہ اس وقت اس کو عزت دیتی ہے، جب وہ ایک مصنوعی مرد بن کر ذمہ داریوں کابوجھ اٹھانے پر تیار ہوجائے، مگر نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کالایا ہوا دین عورت کی حیثیت سے ہی اسے ساری عزتیں اور حقوق دیتا ہے اور وہی ذمہ داریاں اس پر عائد کرتا ہے جو خودفطرت نے اس کے سپرد کی ہیں۔

(اسلام میں عورت کامقام، مرتبہ: ثریابتول علوی، اسلامک بک فاؤنڈیشن، نئی دہلی)

عام طور پر کمزور کو اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے کافی محنت وکوشش کرنی پڑتی ہے۔ تب کہیں جاکر ان کو ان کے جائز حقوق ملتے ہیں، ورنہ تصور بھی نہیں کیا جاتا۔ موجودہ دور نے اپنی بحث وتمحیص اور احتجاج کے بعد عورت کے کچھ بنیادی حقوق تسلیم کیے اوریہ اس دور کا احسان مانا جاتا ہے، حالاں کہ یہ احسان اسلام کا ہے، سب سے پہلے اسی نے عورت کو وہ حقوق دیے جس سے وہ مدتِ دراز سے محروم چلی آرہی تھی۔ یہ حقوق اسلام نے اس لیے نہیں دیے کہ عورت اس کامطالبہ کررہی تھی، بلکہ اس لیے کہ یہ عورت کے فطری، پیدائشی اور انسانی حقوق تھے۔ اسلام نے عورت کا جو مقام ومرتبہ معاشرے میں متعین کیا، وہ جدید وقدیم کی بے ہودہ روایتوں سے پاک ہے، نہ تو عورت کوگناہ کا پْتلا بنا کر مظلوم بنانے کی اجازت ہے اور نہ ہی اسے یورپ کی سی آزادی حاصل ہے۔

(اسلام میں عورت کامقام، مرتبہ: ثریابتول علوی، اسلامک بک فاؤنڈیشن، نئی دہلی)

یہاں پر ان حقوق کاذکر کیاجاتا ہے جو اسلام نے عورت کو دیے، بلکہ ترغیب و ترہیب کے ذریعہ اسے ادا کرنے کا حکم بھی صادر کیا۔

عورتوں کو زندہ رکھنے کاحق:

عورت کا جو حال عرب میں تھا وہی پوری دنیا میں تھا، عرب کے بعض قبائل لڑکیوں کودفن کردیتے تھے۔ قرآن مجید نے اس پر سخت سرزنش کی او راسے زندہ رہنے کا حق دیا اور کہا کہ جو شخص اس کے حق سے روگردانی کرے گا، قیامت کے دن خدا کو اس کاجواب دینا ہوگا۔ فرمایا:

’’اچس وقت کو یاد کرو جب کہ اس لڑکی سے پوچھا جائے گا جسے زندہ دفن کیاگیا تھا کہ کس جرم میں اسے مارا گیا‘‘۔

(التکویر، 81: 8۔9)

ایک طرف اس معصوم کے ساتھ کی گئی ظلم وزیادتی پر جہنم کی وعید سنائی گئی ہے تو دوسری طرف ان لوگوں کوجنت کی بشارت بھی دی گئی جن کادامن اس ظلم سے پاک ہو او رلڑکیوں کے ساتھ وہی برتاؤ کریں جو لڑکوں کے ساتھ کرتے ہیں اور دونوں میں کوئی فرق نہ رکھیں۔ چنانچہ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ

’’جس شخص کی لڑکی ہو وہ نہ تو اسے زندہ درگور کرے اور نہ اس کے ساتھ حقارت آمیز سلوک کرے اور نہ اس پر اپنے لڑکے کو ترجیح دے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا‘‘۔

(ابو داؤد، باب فضل من عال یتامی، ابوداؤد سلیمان بن الاشعث السجستانی، مکتبہ معارف للنشر والتوزیع)

عورت بحیثیتِ انسان:

اسلام نے عورت پر سب سے پہلا احسان یہ کیا کہ عورت کی شخصیت کے بارے میں مرد وعورت دونوں کی سوچ اور ذہنیت کو بدلا۔ انسان کے دل ودماغ میں عورت کا جو مقام ومرتبہ اور وقار ہے اس کو متعین کیا۔ اس کے سماجی، تمدنی اور معاشی حقوق برابر قرار دے۔ قرآن میں ارشاد ربانی ہے :

’’اللہ نے تمہیں ایک انسان (حضرت آدم) سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی کو بنایا‘‘۔

(النساء : 1)

اس بناء پر انسان ہونے میں مرد وعورت سب برابر ہیں۔ یہاں پر مرد کے لیے اس کی مردانگی قابلِ فخر نہیں ہے اور نہ عورت کے لیے اس کی نسوانیت باعثِ عار۔ یہاں مرد اور عورت دونوں انسان پر منحصر ہیں اور انسان کی حیثیت سے اپنی خلقت اور صفات کے لحاظ سے فطرت کا عظیم شاہکار ہے۔ جو اپنی خوبیوں اور خصوصیات کے اعتبار سے ساری کائنات کی محترم بزرگ ترین ہستی ہے۔ قرآن میں ا شاد ہے کہ:

’’ہم نے بنی آدم کو بزرگی وفضیلت بخشی اور انھیں خشکی اور تری کے لیے سواری دی۔ انھیں پاک چیزوں کا رزق بخشا اور اپنی مخلوقات میں سے بہت سی چیزوں پر انھیں فضیلت دی‘‘۔

(سورہ بنی اسرائیل: 7)

اورسورہ التین میں فرمایا:

’’ہم نے انسان کو بہترین شکل وصورت میں پیدا کیا‘‘۔

(التین: 4)

چنانچہ آدم علیہ السلام کو جملہ مخلوقات پر فضیلت بخشی گئی اور انسان ہونے کی حیثیت سے جو سرفرازی عطا کی گئی اس میں عورت برابر کی حصے دارہے۔

(اسلام میں عورت کا مقام ومرتبہ، ثریا بتول علوی، اسلامک بک فاؤنڈیشن، نئی دہلی)

عورتوں کی تعلیم کا حق:

انسان کی ترقی کا دارومدار علم پر ہے کوئی بھی شخص یاقوم بغیر علم کے زندگی کی تگ ودو میں پیچھے رہ جاتاہے۔ اور اپنی کْند ذہنی کی وجہ سے زندگی کے مراحل میں زیادہ آگے نہیں سوچ سکتا اور نہ ہی مادی ترقی کا کوئی امکان نظر آتاہے، لیکن اس کے باوجود تاریخ کا ایک طویل عرصہ ایسا گزرا ہے جس میں عورت کے لیے علم کی ضرورت واہمیت کو نظر انداز کیاگیا اور اس کی ضرورت صرف مردوں کے لیے سمجھی گئی بلکہ ان میں بھی جو خاص طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں صرف وہی علم حاصل کرتے تھے جبکہ عورت علم سے بہت دور جہالت کی زندگی بسر کرتی تھی۔

لیکن اسلام نے علم کو فرض قرار دیا اور مرد وعورت دونوں کے لیے اس کے دروازے کھولے اور جو بھی اس راہ میں رکاوٹ وپابندیاں تھیں، سب کو ختم کردیا۔اسلام نے لڑکیوں کی تعلیم وتربیت کی طرف خاص توجہ دلائی اور اس کی ترغیب دی، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: طلب العلم فریضۃ اور دوسری جگہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’جس نے تین لڑکیوں کی پرورش کی، ان کو تعلیم تربیت دی، ان کی شادی کی اور ان کے ساتھ (بعد میں بھی) حسنِ سلوک کیا تو اس کے لیے جنت ہے‘‘۔

(ابوداؤد، باب فضل من عال فی یتامی، مکتبہ معارف للنشر والتوزیع)

اسلام مرد وعورت دونوں کو مخاطب کرتا ہے اور اس نے ہر ایک کو عبادت، اخلاق اور شریعت کا پابند بنایا ہے جو کہ علم کے بغیر ممکن نہیں۔ علم کے بغیر عورت نہ تو اپنے حقوق کی حفاظت کرسکتی ہے اور نہ ہی اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرسکتی ہے جو کہ اسلام نے اس پر عائد کی ہیں، اس لیے مرد کے ساتھ ساتھ عورتوں کی تعلیم بھی نہایت ضروری ہے۔

جیسا کہ گزشتہ دور میں جس طرح علم مردوں میں پھیلا، اسی طرح عورتوں میں بھی عام ہوا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان قرآن وحدیث میں علم رکھنے والی خواتین کافی تعداد میں ملتی ہیں، قرآن وحدیث کی روشنی میں مسائل کا استنباط اور فتویٰ دینا بڑا ہی مشکل اور نازک کام ہے، لیکن پھر بھی اس میدان میں عورتیں پیچھے نہیں تھیں، بلکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے شانہ بشانہ تھیں، جن میں کچھ کا ذکر کیا جاتاہے۔ مثلاً: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا، حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا، حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا، حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا، اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہا، ام شریک رضی اللہ عنہا، فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہ نمایاں تھیں۔

(مسلمان عورتوں کے حقوق اور ان پر اعتراضات کا جائزہ: سید جلال الدین عمری، ادارہ تحقیق وتصنیفِ اسلامی)

معاشرتی میدان:

جس طرح دیگر معاشروں نے عورت کو کانٹے کی طرح زندگی کی رہ گزر سے ہٹانے کی کوشش کی تو اس کے برعکس اسلامی معاشرہ نے بعض حالتوں میں اسے مردوں سے زیادہ فوقیت اور عزت واحترام عطا کیا ہے۔ وہ ہستی جو عالمِ دنیا کے لیے رحمت بن کر تشریف لائی (حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اس نے اس مظلوم طبقہ کو یہ مژدہ جانفزا سنایا:

’’مجھے دنیا کی چیزوں میں سے عورت اور خوشبو پسند ہے اور میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز میں رکھ دی گئی ہے‘‘۔

(نسائی، ابی عبدالرحمن احمد بن شعیب بن علی الشہیر (النسائی)، مکتبہ معارف للنشر والتوزیع)

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت سے بیزاری اور نفرت کوئی زہد وتقویٰ کی دلیل نہیں ہے، انسان خدا کا محبوب اس وقت ہوسکتاہے جب وہ اللہ کی تمام نعمتوں کی قدر کرے جن سے اس نے اپنے بندوں کو نوازا ہے، اس کی نظامت اور جمال کا متمنی ہو اور عورتوں سے صحیح ومناسب طریقے سے پیش آنے والا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ مرد اور عورت دونوں کے لیے نکاح کو لازم قرار دیا گیا ہے، اس سلسلے میں آپ کا ارشاد ہے:

’’نکاح میری سنت ہے جس نے میری سنت سے روگردانی کی اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں‘‘۔

(بخاری، کتاب النکاح، کتب خانہ رشیدیہ، دہلی)

چنانچہ ایک عورت بیوی کی حیثیت سے اپنے شوہر کے گھر کی ملکہ ہے اور اس کے بچوں کی معلمہ ومربیہ ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے :

’’عورتیں تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا‘‘۔

(البقرہ: 187)

یعنی کہ تم دونوں کی شخصیت ایک دوسرے سے ہی مکمل ہوتی ہے۔ تم ان کے لیے باعثِ حسن وآرائش ہو تو وہ تمہارے لیے زینت وزیبائش۔ غرض دونوں کی زندگی میں بہت سے تشنہ پہلو ہوتے ہیں جو کہ ایک دوسرے کے بغیر پایہ تکمیل تک نہیں پہنچتے۔

(اسلام میں عورت کا مقاموم ومرتبہ: ثریا بتول علوی، اسلامک بک فاؤنڈیشن، نئی دہلی)

معاشی حقوق:

معاشرہ میں عزت معاشی حیثیت کے لحاظ سے ہوتی ہے۔ جو جاہ وثروت کامالک ہے، لوگ اس کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور جس کے پاس نہیں ہے لوگ اس کے قریب سے گزرنا بھی گوارا نہیں کرتے، عزت کرنا تو دور کی بات ہے۔ دنیا کے تمام سماجوں اور نظاموں نے عورت کو معاشی حیثیت سے بہت ہی کمزور رکھا، سوائے اسلام کے، پھر اس کی یہی معاشی کمزوری اس کی مظلومیت اور بیچارگی کا سبب بن گئی۔ مغربی تہذیب نے عورت کی اسی مظلومیت کا مداوا کرنا چاہا اور عورت کو گھر سے باہر نکال کر فیکٹریوں، دفتروں اور دوسری جگہوں پر کام پر لگادیا۔ دوسرے لفظوں میں عورت پر ذمہ داریوں کا بوجھ بڑھادیا۔ اب وہاں عورت امورِ خانہ داری کے ساتھ ساتھ کسبِ معاش میں بھی یکساں ذمہ دار بنادی گئی ہے۔ ان حالات میں اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس نے راہِ اعتدال اختیار کیا۔

(1) عورت کا نان ونفقہ ہر حالت میں مرد کے ذمہ ہے۔ اگر بیٹی ہے تو باپ کے ذمہ۔ بہن ہے تو بھائی کے ذمہ، بیوی ہے تو شوہر پر اس کانان و نفقہ واجب کردیا گیا اور اگر ماں ہے تو اس کے اخراجات اس کے بیٹے کے ذمہ ہے، ارشاد باری تعالی ہے کہ:

’’خوشحال آدمی اپنی استطاعت کے مطابق اور غریب آدمی اپنی توفیق کے مطابق معروف طریقے سے نفقہ دے‘‘۔

(البقرہ: 236)

(2) عورت کا حقِ مہر ادا کرنا مرد پر لازم قرار دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ:

’’عورتوں کا ان کا حقِ مہر خوشی سے ادا کرو اگر وہ اپنی خوشی سے اس میں سے کچھ حصہ تمہیں معاف کردیں تو اس کو خوشی اور مزے سے کھاؤ‘‘

(النساء: 4)

(3) بعض مذہب میں وراثت میں عورت کا کوئی حق نہیں ہوتا، لیکن ان مذاہب اور معاشروں کے برعکس اسلام نے وراثت میں عورتوں کو باقاعدہ حصہ دلوایا۔ اس کے لیے قرآن میں ارشاد ہوا ہے یعنی عورت کاحصہ مرد سے آدھا ہے، اسی طرح وہ باپ سے، شوہر سے، اولاد سے، اور دوسرے قریبی رشتہ داروں سے باقاعدہ وراثت کی حق دار ہے۔

(4) اس طرح عورت کو مہر سے اور وراثت سے جو کچھ مال ملے، وہ پوری طرح سے اس کی مالک ہے، کیوں کہ اس پر کسی بھی طرح کی معاشی ذمہ داری نہیں ہے، بلکہ وہ سب سے حاصل کرتی ہے، اس لیے یہ سب اس کے پاس محفوظ ہے۔ اگر مرد چاہے تو اس کا وراثت میں دوگنا حصہ ہے، مگر اسے ہر حال میں عورت پر خرچ کرنا ہوتا ہے، لہٰذا اس طرح سے عورت کی مالی حالت (اسلامی معاشرہ میں) اتنی مستحکم ہوجاتی ہے کہ کبھی کبھی مرد سے زیادہ بہتر حالت میں ہوتی ہے۔

(5) پھر وہ اپنے مال کو جہاں چاہے خرچ کرے، اس پر کسی کا اختیار نہیں، چاہے تو اپنے شوہر کو دے یا اپنی اولاد کو یا پھر کسی کو ہبہ کرے یا خدا کی راہ میں دے یہ اس کی اپنی مرضی ہے اور اگر وہ از خود کماتی ہے تو اس کی مالکہ بھی وہی ہے، لیکن اس کا نفقہ اس کے شوہر پر واجب ہے، چاہے وہ کمائے یا نہ کمائے۔ اس طرح سے اسلام کا عطا کردہ معاشی حق عورت کو اتنا مضبوط بنادیتا ہے کہ عورت جتنا بھی شکر ادا کرے کم ہے، جب کہ دیگر معاشروں میں عورت ان معاشی حقوق سے کلیتاً محروم ہے۔

تمدنی حقوق:

شوہر کاانتخاب : شوہر کے انتخاب کے سلسلے میں اسلام نے عورت پر بڑی حد تک آزادی دی ہے۔ نکاح کے سلسلے میں لڑکیوں کی مرضی اور ان کی اجازت ہر حالت میں ضروری قرار دی گئی ہے۔ ارشاد نبوی ہے:

عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک کہ اس سے مشورہ نہ لیاجائے اور کنواری عورت کا نکاح بھی اس کی اجازت حاصل کیے بغیر نہ کیا جائے۔

(مشکوٰۃ، باب عشرۃ النساء، کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند)

اگر بچپن میں کسی کا نکاح ہوگیا ہو، بالغ ہونے پر لڑکی کی مرضی اس میں شامل نہ ہو تو اسے اختیار ہے کہ اس نکاح کو وہ رد کرسکتی ہے، ایسے میں اس پر کوئی جبر نہیں کرسکتا۔

ہاں اگر عورت ایسے شخص سے شادی کرنا چاہے جو فاسق ہو یا اس کے خاندان کے مقابل نہ ہو تو ایسی صورت میں اولیاء ضرور دخل انداز ی کریں گے۔

خلع کا حق:

اسلام نے عورت کو خلع کاحق دیا ہے کہ اگر ناپسندیدہ ظالم اور ناکارہ شوہر ہے تو بیوی نکاح کو فسخ کرسکتی ہے اور یہ حقوق عدالت کے ذریعے دلائے جاتے ہیں۔

حسن معاشرت کا حق:

قرآن میں حکم دیا گیا:

’’عورتوں سے حسن سلوک سے پیش آؤ‘‘

(النساء: 19)

چنانچہ شوہر کو بیوی سے حسن سلوک اور فیاضی سے برتاؤ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے حق میں اچھے ہیں اور اپنے اہل وعیال سے لطف ومہربانی کاسلوک کرنے والے ہیں‘‘۔ (مشکوٰۃ، کتاب النکاح، کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند)

بیویوں کے حقوق:

اسلام کے آنے کے بعد لوگوں نے عورتوں کو بے قدری کی نگاہوں سے دیکھا، اس بے قدری کی ایک شکل یہ تھی کہ لوگ عبادت میں اتنے محو رہتے تھے کہ بیوی کی کوئی خبر نہیں۔ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ اور حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کا واقعہ بڑی تفصیل سے حدیث میں مذکور ہے کہ کثرتِ عبادت کی وجہ سے ان کی زوجات کو ان سے شکایت ہوئی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو بلا کر سمجھایا اور فرمایا کہ تم پر تمہاری بیویوں کا بھی حق ہے، لہٰذا تم عبادت کے ساتھ ساتھ اپنی بیویوں کا بھی خیال رکھو۔

بیویوں کے حقوق کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا:

’’لوگو! عورتوں کے بارے میں میری وصیت قبول کرو وہ تمہاری زیر نگین ہیں تم نے ان کو اللہ کے عہد پر اپنی رفاقت میں لیا ہے اور ان کے جسموں کو اللہ ہی کے قانون کے تحت اپنے تصرف میں لیا ہے تمہارا ان پر یہ حق ہے کہ گھر میں کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں جس کا آنا تمھیں ناگوار ہے اگر ایسا کریں تو تم ان کو ہلکی مار مار سکتے ہو اور تم پر ان کو کھانا کھلانا اور پلانا فرض ہے۔

(مشکوٰۃ بروایت صحیح مسلم، فی قصۃ حجۃ الوداع، کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند)

آپ نے ایک جگہ اور فرمایا:

’’تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنی بیویوں کے لیے بہترین ثابت ہو جبکہ میں اپنے اہل وعیال کے لیے تم سب سے بہتر ہوں‘‘

(مشکوٰۃ، باب عشرۃ النساء، کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند)

ایک اور مقام پر فرمایا:

’’کامل ترین مومن وہ ہے جو اخلاق میں اچھا ہو اور اپنے اہل وعیال کے لیے نرم خو ہو‘‘۔

(مشکوٰۃ، عن ترمذی، کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرامین سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مردوں کو بیویوں کے حق میں سراپا محبت وشفقت ہونا چاہیے اور ہر جائز امور میں ان کی حوصلہ افزائی اور دلجوئی کرنی چاہیے۔ کچھ لمحوں کے لیے دوسروں کے سامنے اچھا بن جانا کوئی مشکل کام نہیں حقیقتاً نیک اور اچھا وہ ہے جو اپنی بیوی سے رفاقت کے دوران صبروتحمل سے کام لینے والا ہو اور محبت وشفقت رکھنے والا ہو۔

(اسلام میں عورت کامقام، مرتبہ: ثریا بتول علوی، اسلامک بک فاؤنڈیشن)

عورتوں کا معاشرتی مقام اسلام کی نظر میں:

اسلام میں معاشرتی حیثیت سے عورتوں کو اتنا بلند مقام حاصل ہے کہ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر مرد کو مخاطب کرکے یہ حکم دیا ہے کہ ان کے ساتھ معاشرت کے باب میں ’’معروف‘‘ کاخیال کیا جائے، تاکہ وہ معاشرت کے ہر پہلو اور ہر چیز میں حسن معاشرت برتیں۔ ارشاد ربانی ہے کہ:

’’اور ان عورتوں کے ساتھ حسنِ معاشرت کے ساتھ زندگی گزارو اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو ممکن ہے کہ تم کوئی چیز ناپسند کرو اور اللہ اس میں خیر کثیر رکھ دے‘‘۔

(النساء: 19)

معاشرت کے معنی ہیں، مل جل کر زندگی گزارنا، اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک تو مردوں کو عورتوں سے مل جل کر زندگی گزارنے کا حکم دیاہے۔ دوسرے یہ کہ ’’معروف‘‘ کے ساتھ اسے مقید کردیا ہے، لہٰذا امام ابوبکر جصاص رازی (المتوفی 07ھ) معروف کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس میں عورتوں کا نفقہ، مہر، عدل کا شمار کرسکتے ہیں۔

اور معروف زندگی گزارنے سے مراد یہ ہے کہ گفتگو میں نہایت شائستگی اور شیفتگی سے کام لیا جائے باتوں میں حلاوت ومحبت ہو حاکمانہ انداز نہ ہو اور ایک بات کو توجہ کے ساتھ سنیں اور بے رخی بے اعتنائی نہ برتیں اور نہ ہی کوئی بدمزاجی کی جھلک ظاہر ہو۔

(اسلام میں عورت کامقام، مولوی عبدالصمد رحمانی، دینی بک ڈپو اردوبازار، دہلی)

آزادیِ رائے کا حق:

اسلام میں عورتوں کی آزادی کا حق اتنا ہی ہے جتنا کہ مرد کو حاصل ہے خواہ وہ دینی معاملہ ہو یا دنیاوی۔ اس کا پورا حق ہے کہ وہ دینی حدود میں رہ کر ایک مرد کی طرح اپنی رائے آزادانہ استعمال کرے۔

ایک موقع پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ :’’تم لوگوں کو متنبہ کیاجاتا ہے کہ عورتوں کے مہر زیادہ نہ باندھو، اگر مہرزیادہ باندھنا دنیا کے اعتبار سے بڑائی ہوتی اور عنداللہ تقویٰ کی بات ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے زیادہ مستحق ہوتے۔(ترمذی)

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کواس تقریر پر ایک عورت نے بھری مجلس میں ٹوکا اور کہا کہ آپ یہ کیسے کہہ رہے ہیں، حالاں کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

’’اور دیا ہے ان میں سے کسی ایک کو ڈھیر سا مان تو اس میں سے کچھ نہ لو‘‘۔

(النساء: 20)

جب خدا نے جائز رکھا ہے کہ شوہر مہرمیں ایک قنطار بھی دے سکتا ہے تو تم اس کو منع کرنے والے کون ہوتے ہو۔ حضرت عمر نے یہ سن کر اس عورت کی آزادیِ رائے کو مجروح قرار نہیں دیا کہ حضرت عمر کو کیوں ٹوکا گیا اور ان پر کیوں اعتراض کیا گیا، کیوں کہ حضرت عمر کی گفتگو اولیت اور افضیلت میں تھی۔ نفس جواز میں نہ تھی۔

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عورتوں کو اپنی آزادیِ رائے کا پورا حق ہے، حتی کہ اسلام نے لونڈیوں کو بھی اپنی آزادانہ رائے رکھنے کاحق دیا۔ اور یہ اتنی عام ہوچکی تھی کہ عرب کی لونڈیاں اس پر بے جھجھک بناتردد کے عمل کرتی تھیں حتی کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس رائے سے جو بحیثیت نبوت ورسالت کے نہیں ہوتی تھی، اس پر بھی بے خوف وخطر کے اپنی رائے پیش کرتی تھیں اور انھیں کسی چیز کاخطرہ محسوس نہیں ہوتا تھا اور نہ ہی نافرمانی کا۔

(اسلام میں عورت کامقام، مولوی عبدالصمد، رحمانی،دینی بک ڈپو، اردوبازار دہلی)

اس آزادیِ رائے کا سرچشمہ خود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تربیت نے ازواجِ مطہرات میں آزادیِ ضمیر کی روح پھونک دی تھی، جس کااثر تمام عورتوں پر پڑتا تھا۔

ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، اکتوبر 2017

تبصرہ