(قائد ڈے کے حوالے سے خصوصی تحریر)
ڈاکٹر ابوالحسن الازہری
اس دنیوی زندگی کی عظمت اور رفعت اس کے عظیم رہبروں سے وابستہ ہے۔ اس لئے کہ ان کی زندگی کا ہر ہر پہلو اور ہر ہر عرصہ حیات عظمتوں اور رفعتوں سے بھرپور اور معمور ہوتا ہے۔ ان ہی عظیم رہبروں کی لڑی میں سے عصر حاضر کا ایک عظیم رہبر جس نے اسلام کو عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق پیش کیا تو لوگوں نے اسے شیخ الاسلام کے نام سے پکارا اور جب اس نے فکر اسلام کو عصر رواں کے قالب میں ڈھالا تو لوگوں نے اسے مفکر اسلام کے لقب سے یاد کیا۔ جب وہ سیاست اور تبدیلی نظام کے خار زاروں میں اترا اور اس نے وقت کے ظالم و جابر اور باطل کو للکارا اور وقت کے فرعون و یزید اور نمرود و قارون کو دھمکایا اور ڈرایا تو لوگوں نے اسے قائد انقلاب کے اعزاز سے نوازا، جس نے قرآن کے معانی اور معارف پر غورو فکر کیا تو لوگوں نے اسے مفسر قرآن کہا اور جب اس نے حدیث کے اسرار و رموز پر گفتگو کی اور اس کے اصول و قواعد اور شروح و غوامض کو بیان کیا تو لوگوں نے اسے محدث اعظم جانا اور جب اس نے علوم القرآن پر لکھا اور اس موضوع پر بولا اور اس ایک موضوع پر اپنی قوم کو 26 عدد کتابیں عطا کردیں، جن میں ترجمہ قرآن، عرفان القرآن سے تفسیر منہاج القرآن تک کتابیں شامل ہیں اور یوں وہ ماہر علوم القرآن کہلایا اور متخصص علوم القرآن جانا گیا اور جس نے علم حدیث کے موضوع پر لکھا اور اس پر بولا تو ان کی آفاقی شہرت پانے والی کتاب المنہاج السوی کا ذکر ہر کوئی کرنے لگا اور ھدایۃ الامۃ علی منہاج القرآن والسنۃ کا تذکرہ زبانوں پر آنے لگا اور جامع السنۃ فیھا یحتاج الیہ الامۃ کا ذکر ہر علمی مجلس میں ہونے لگا۔
یوں وہ اپنی اس حیثیت کے حوالے سے محدث ہوا علم احادیث میں ہی اصول حدیث کے موضوع پر وہ امت کو الخطبۃ السدیدہ دیتے ہیں تو اس رو سے وہ اصولی محدث ہوئے، وہ علم حدیث میں امت کو فضائل و خصائل نبوی پر 12 کتابیں دیتے ہیں اور علم حدیث ہی میں مناقب و فضائل کے موضوع پر 15 کتابیں رقم کرتے ہیں اور علم حدیث میں عقائد و عبادات کے موضوع پر 11 کتابیں امت کے سامنے پیش کرتے ہیں اور وہ علم حدیث میں ہی مختلف شخصیات کی مرویات کے موضوع پر آٹھ کتابیں امت کی نذر کرتے ہیں اور وہ علم حدیث کے موضوع پر ہی اربعینات کے عنوانات سے 32 کتب تالیف کرتے ہیں اور علم حدیث میں اس قدر وسیع ذخیرہ علم دینے پر وہ عہد رواں کے محدث عصر، شیخ العصر، امام العصر اور عالم کبیر ٹھہرتے ہیں۔
ایمانیات و عبادات کے موضوع پر امت کو 12 کتب ہدیہ کرتے ہیں ان کتابوں کے مندرجات کے تناظر میں وہ مصلح امت ٹھہرتے ہیں۔ اعتقادیات و فروعات کے موضوع پر 33 کتب امت کے نام کرتے ہیں یوں وہ ایک امام العقیدہ اور متکلم عصر دکھائی دیتے ہیں اور سیرت و فضائل نبوی کے عنوان پر 50 کتابیں لکھ کر امت کو اسوہ رسول میں ڈھالنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ سیرت میں اس کثرت نگاری کی بنا پر وہ ایک عظیم سیرت نگار ٹھہرتے ہیں اور ان کی مطبوعہ دس سے زائد جلدوں پر سیرت الرسول ان کو عصر حاضر کے سیرت نگاروں میں ممتاز اور منفرد کرتی ہے۔
ختم نبوت اور تقابل ادیان میں وہ 6 عدد کتب رقم کرتے ہیں، یوں وہ سارا دن نبوت کے محافظوں میں شمار ہوتے ہیں۔ فقہیات کے موضوع پر وہ 16 عدد کتب رقم کرکے فقیہ عصر کا اعزاز پاتے ہیں۔ اخلاق و تصوف کے موضوع پر وہ 37 کتب تحریر کرکے وہ عظیم عارف اور صوفی عصر ٹھہرتے ہیں۔ اقتصادیات و معاشیات کے موضوع پر وہ دس کتابوں کو لکھ کر ایک ماہر اقتصاد اور ایک معیشت داں دکھائی دیتے ہیں، فکر اسلام کے باب میں وہ 43 کتابیں لکھ کر مفکر اسلام ٹھہرتے ہیں، دستور و قانون کے موضوع پر 11 عدد کتب لکھ کر ایک عظیم قانوں داں نظر آتے ہیں، وہ مختلف شخصیات کے احوال پر 25 عدد کتب لکھ کر ایک مورخ دکھائی دیتے ہیں، اسلام اور سائنس کے موضوع پر 5 عدد کتب لکھ کر وہ ایک سائنس داں بھی نظر آتے ہیں۔ حقوق انسانی اور اس کے متعلق موضوع پر 13 عدد کتب لکھ کر ایک سچا انسان اور حقوق انسانی کا محافظ اور سفیر حقوق انسانی دکھائی دیتے ہیں۔ وہ انگلش زبان میں 50 کے قریب کتب لکھ کر ایک بین الاقوامی زباں کو جاننے کے حوالے سے زباں داں نظر آتے ہیں۔
غرضیکہ کسی ایک شخصیت میں اس طرح کی بے شمار صفات و اوصاف کا جمع ہوجانا، اس کے وجود کو اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے امت کے حق میں ایک عظیم نعمت ہونا ثابت کرتے ہیں۔ ان کی قدر دانی امت اور قوم پر لازم ہوجاتی ہے، نعمت سے منفعت کا احساس قدر دانی کے عمل کے ذریعے ظاہر ہوتا ہے، ایسی ہی شخصیت کے لئے کہا جاتا ہے۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
دیدہ ور کوئی کوئی ہوتا ہے اور وہ دیدہ ور ہی قوم اور امت کا مسیحا ہوتا ہے قوم کو ہر لحظہ اس کی تلاش میں ہونا چاہئے۔ اب تک اس نابغہ عصر شخصیت کی صفاتِ علم و تحقیق کا اظہار کیا گیا ہے۔ یہ ان کی شخصیت کا ایک گوشہ ہے۔ دوسرے پہلوئوں کو دیکھیں تو اس شخصیت نے اپنے مشن اور اپنی فکر پر دنیا میں تنظیمات کا ایک بہت بڑا نیٹ ورک قائم کیا ہے۔ 100 سے زائد ممالک میں پھیلا ہوا اور باہم مربوط و منظم تنظیمی نیٹ ورک اس کی بے پناہ تنظیمی و انتظامی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ وہ اس قوم کے نونہالوں، نوجوانوں اور اس کے مستقبل کے معماروں کی تعلیم و تربیت کا معاملہ ہو تو پاکستان بھر میں تعلیمی اداروں کا ایک جال منہاج ایجوکیشن سوسائٹی کے ذریعے پھیلا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ جسمیں ہزاروں منہاج ماڈل اسکولز اور سینکڑوں کالجز اور ایک بین الاقوامی یونیورسٹی اور بین الاقوامی سطح پر اسلامک اور کلچرل سنٹرز ایک بہت بڑا لامتناہی سلسلہ ہے جو تحقیق علم کے فروغ میں نمایاں کردار اد اکررہا ہے۔
علم و تربیت کا یہ گلستاں اس شخصیت کی علمی خدمات کا پرتو ہے یوں وہ ایک ماہر تعلیم کے روپ میں ظاہر ہوتے ہیں۔ اگر اس شخصیت کی فلاحی و رفاعی خدمات کو دیکھیں تو منہاج ویلفیئر فائونڈیشن کا شعبہ دنیا بھر میں اپنی فلاحی سرگرمیوں کے ذریعے اپنے نام اور اپنے کام کو منوا چکا ہے۔
ان کی سیاسی خدمات ہوں تو پوری قوم ان کو حرف تحسین کے ساتھ اور کردار کی عظمت و بلندی کے ساتھ اور حق اور سچ کی نشانی اور جرات و بہادری کی ایک عظیم علامت کے طور پر دیکھتی ہے۔ غرضیکہ ان کی ذات و شخصیت سے صادر ہونے والی خدمات دینی ہوں یا مذہبی ہوں، علمی و تحقیقی ہوں یا معاشی و سیاسی ہوں، فکری و اصلاحی ہوں یا تحریکی و انقلابی، دعوتی و تنظیمی ہوں یا امن پروری و سلامتی کی ہوں اگر ان کی صرف ایک ہی خدمت کو پیش نظر رکھا جائے جس کا جواب دنیا آج تک نہ دے سکی اور آپ نے اکیلئے اور تنہا اس کا جواب دیا ہے کہ جب اسلام کا چہرہ مسخ کئے جانے لگا اور اس کی تعلیمات کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑا جانے لگا تو اس موقع پر بین الاقوامی سطح پر اکیلی آپ ہی کی آواز اسلام کے دفاع میں گونجی اور پوری امت مسلمہ کو دہشت گردی سے محفوظ کرنے اور دہشت گردی کو حرام قرار دیتے ہوئے اور بین الاقوامی سطح پر دہشت گردی کے خلاف فتوی آپ ہی جاری کرتے ہیں اور اسلام کے پرامن اور سلامتی والے چہرے کو ساری دنیا میں آپ ہی متعارف کراتے ہیں۔
وہ شخصیت جس نے نوجوان نسل کو اسلام کی حقیقی تعلیمات سے متعارف کرایا اور اسلام کی تعلیمات اعتدال و توازن سے ان کو آگاہ کیا اتحاد امت کا تصور دیا۔ فرقہ واریت کا انسداد کیا۔ قرآن و سنت سے متمسک ہونے کی فکر دی۔ دین میں اجارہ داری کے تصور پر ضرب کاری لگائی۔ قوم کو تحمل و برداشت کی تعلیم دی اور قوم کو دہشت گردی اور انتہا پسندی اور تشدد پسندی کے تصورات سے بچنے کی تاکید کی۔ دین سے تعلق اخلاص و صدق والا قائم کرنے کی تعلیم دی، دین کو تجارت اور کاروبار بنانے سے روکا، دین داروں کے لئے اصلاح ظاہر اور تطہیر با طن کی تاکید کی۔
مسلمان کو مسلمان سے محبت کرنے کی نصیحت کی، فرقہ واریت کو اتحاد امت میں بدلنے کا تصور دیا، مسلمان کو عقیدہ بالقرآن والسنہ کی تعلیم دی اور نصیحت کی، عمل صالح کی اپنی شخصیت میں لازمی پہچان کی تربیت دی، جس نے اپنے عمل سے فروغ علم کو اپنا وظیفہ حیات بنایا، وہ شخصیت جس نے اپنے مذہبی اور سیاسی مخالفین کو نہ صرف برداشت کیا بلکہ انسانی ذات کی حد تک ان کی بھی انسانی توقیر کی اور جس نے قوم کو ظلم سہنے کی بجائے ظالم کے سامنے ڈٹ جانے کی تعلیم دی، جس نے منتشر وجودوں کو قومی وحدت و یکجہتی کی تعلیم دی ہے۔ جس نے قرآنی فلسفہ انقلاب کے ذریعے قوم کو اپنی تقدیر بدلنے کی ترغیب دی ہے۔
وہ ذات و شخصیت جو اپنے ان تصورات اور افکارات کے ذریعے نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن بن گئی ہے امت و قوم کے مستقبل کی ایک آس بن گئی ہے جو اپنے نظریے اور فکر کی بنا پر نوجوانوں کے دلوں کی آواز بن گئی ہے اور جس کا چہرہ اسلام کا چہرہ دکھائی دے، جس کا کردار اسلام کا کردار، عصر حاضر میں عیاں کرے اور جس کا چہرہ اسلام کی تعلیمات کا آئینہ دار دکھائی دے۔
کون ہے جو اس کے ساتھ اپنے تعلق کو استوار نہ کرے، کون ہے جو اس کو جان کر بھی انجان رہے، کون ہے جو اس کی قدر دانی سے محروم رہے یقینا ایک سلیم الفطرت شخص اور ایک صائب الرائے فرد اور ایک دانا زیرک اور ذہین و فطین شخص کا یہی قول ہے اور یہی فیصلہ ہے۔
تو ہے میرے لئے حاصل زندگی
میں نے تیرے سوا کچھ کمایا نہیں
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، فروری 2017
تبصرہ