ڈاکٹر ابوالحسن الازہری
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ.
(الشعراء، 26: 215)
’’اور آپ اپنا بازوئے (رحمت و شفقت) ان مومنوں کے لیے بچھا دیجیے جنہوں نے آپ کی پیروی اختیار کر لی ہے‘‘۔
اسی طرح دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:
فَـلَا تُزَکُّوْٓا اَنْفُسَکُمْ ط هُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰی.
(النجم، 53: 32)
’’پس تم اپنے آپ کو بڑا پاک و صاف مَت جِتایا کرو، وہ خوب جانتا ہے کہ (اصل) پرہیزگار کون ہے‘‘۔
خلق تواضع اور افکار قرآن
لا تزکوا انفسکم کا معنی ہے لا تمدحوھا تم از خود ہی اپنے نفس کو برا بناکر پیش نہ کیا کرو اور اپنی تعریفیں، اپنی صفتیں، اپنی شانیں خود ہی اظہار تفاخر کے لئے بیان نہ کیا کرو، خود ستائشی کے عمل کو اختیار نہ کیا کرو اپنی فضیلت کا ہر وقت خواہ مخواہ اظہار نہ کیا کرو، یوں تکبر و غرور سے اعراض کیا کرو، خود کو سرکش و باغی بنایا نہ کرو بلکہ تواضع و انکساری اور عاجزی و بندگی اختیار کیا کرو۔
واحفض جناحک کے الفاظ اور فلا تزکوا انفکسم کے کلمات خلق تواضع و انکساری کو بیان کرتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ خلق تواضع کیا ہے اور اس کا مفہوم کیا ہے۔ قرآن نے تواضع کے تصور اور خلق کو سورہ فرقان میں بھی واضح کیا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِيْنَ يَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ هَوْنًا وَّاِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًاo
’’اور (خدائے) رحمان کے (مقبول) بندے وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب ان سے جاہل (اکھڑ) لوگ (ناپسندیدہ) بات کرتے ہیں تو وہ سلام کہتے (ہوئے الگ ہو جاتے) ہیں‘‘۔
(الفرقان، 25: 63)
اسی طرح ارشاد فرمایا:
وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِلْمُؤْمِنِيْنَ.
(الحجر،15: 88)
’’اور اہلِ ایمان (کی دلجوئی) کے لیے اپنے (شفقت والتفات کے) بازو جھکائے رکھئے‘‘۔
ان آیات کی روشنی میں ہم تواضع کا معنی و مفہوم جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
تواضع کے معانی و مفاہیم
تواضع یہ ہے کہ انسان اعلیٰ رتبہ ہوکر ادنیٰ رتبہ کے افراد کے ساتھ گھل مل جائے، انسان صاحب فضیلت ہوکر عام لوگوں سے نہ دور ہو اور نہ ان کو خود سے دور کرے، تواضع شان رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے باب میں یہ ہے کہ آب افضل البشر ہونے، سیدالمرسلین ہونے، خاتم النبیین اور شفیع المذنبین ہونے اور رحمۃ للعالمین ہونے کے باوجود اور عالم انسانیت پر اپنی فضیلت کے مسلم ہونے کے باوجود خود کو دوسرے لوگوں کی مثلیت میں مساوی کریں اور خود کو ایک عام بشر ہونا ظاہر کریں اور تواضع کی بناء پر اپنی افضلیت کا ان کو احساس نہ ہونے دیں۔ اگر کوئی آپ کے علو مرتبت کا اظہار بھی کرے تو آپ اس سے اعراض کریں تو اس طرز عمل کا نام اور خلق کے اس سلوک کا نام تواضع وانکساری ہے۔
غرضیکہ تواضع یہ ہے کہ ہر ممکن اپنی فضیلت و برتری کو چھپایا جائے۔ افضل ہوکر خود کو معمولی ظاہر کیا جائے، اعلیٰ ہوکر خود کو ادنیٰ ظاہر کیا جائے، عالم ہوکر خود کو طالب علم بتایا جائے۔ نیک و پارسا اور متقی و پرہیزگار ہوکر خود کو گنہگار ظاہر کیا جائے۔ فرمانبردار ہوکر بھی خود کو سیاہ کار بتایا جائے تو اس کو تواضع کہتے ہیں۔
تواضع انسان کے اندر موجود کبر و غرور کی ضد ہے۔ تواضع کے عمل سے انسان کے اندر موجود کبرو غرور کی سرکشی اور باغی صفت دم توڑتی ہے۔۔ تواضع انسان کی معاشرتی زندگی میں ایک لطافت پیدا کرتی ہے اور انسان کو خاکسار بناتی ہے اور اپنی چال ڈھال میں عاجزی کو فروغ دیتی ہے۔ تواضع کے عمل سے انسان دوسروں کو قابل احترام و اکرام جانتا ہے۔ دوسروں کی عزت و توقیر کرتا ہے تواضع کے عمل میں انسان وضعیت کو اختیار نہیں کرتا، وضع اور وضعیت یہ ہے انسان اپنی کسی غرض کی تکمیل کے لئے اپنی خود داری کھودے، اپنی عزت نفس کا سودا کرلے، اپنے مقام و مرتبے کو اپنی گھٹیا اور خصیص خواہش کی تکمیل کے لئے نظر انداز کردے۔ تواضع کا خلق اور عمل انسان کو اللہ کی بندگی میں پختہ کرتا ہے، تواضع انسان کو اللہ کے حضور جھکادیتی ہے۔
تواضع کی حقیقت اور رفعت
اس لئے حضرت عیاض بن حمار روایت کرتے ہیں:
ان رسول الله قال ما نقصت صدقة من حال وما زاد الله عبدا بعضوا الا عزا وما تواضع احد لله الا رفعه الله. (رواه مسلم)
(رياض الصالحين، ج1، ص319)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مال سے صدقہ دینا مال میں کمی نہیں کرتا اور بندے کا معاف کرانا اور معذرت خواہ ہونے سے اللہ اس کی عزت کو بڑھاتا ہے اور اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے بندے کی تواضع و انکساری سے اللہ اسے درجہ فضیلت میں بلند کرتا ہے۔
اس حدیث نے ہماری زندگی میں پائے جانے والے تین تصورات کی اصلاح کی ہے، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ لوگوں پر خرچ کرنے اور صدقہ و خیرات کرنے سے مال میں کمی ہوجائے گی اور صدقہ و خیرات کا عمل مال کو گھٹادے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: صدقہ مال کو گھٹاتا نہیں بلکہ بڑھاتا ہے۔ اسی طرح دوسرا تصور ہم کسی کو معاف کرنا اپنی بزدلی اور کم ہمتی اور ذلت و پستی جانتے ہیں اور اسی طرح ہم سے کوئی غلطی ہوجائے تو اسے تسلیم کرنے میں عار سمجھتے ہیں۔ یوں ہم سمجھتے ہیں معاف کرنا ذلت ہے اور معذرت خواہ ہونا ندامت ہے اور بے عزت ہونا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں ہر گز ہر گز نہیں۔ معاف کرنا اور معذرت طلب کرنے کا خلق و عمل انسان کی عزت کو بڑھاتا ہے۔
اسی طرح تیسرا تصور ہمارا یہ ہے ہم اعلیٰ مقام و مرتبہ پر ہونے کی وجہ سے کسی قسم کی عاجزی و انکساری نہیں کریں گے، یہ عمل اور یہ رویہ اور یہ خلق ہماری عزت کو خاک میں ملائے گا، عاجزی ہمیں رسوائی دے گی انکساری ہمیں خواری کی کیفیت سے دوچار کرے گی۔ اس لئے ہم اپنے اسٹیٹس کو قائم رکھنے میں کبرو غرور کا اظہار کریں گے تاکہ ہماری حیثیت اور فضیلت میں کمی نہ آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
تواضع و انکساری کا عمل انسان کے درجے اور مقام اور سٹیٹس کو کم نہیں کرتا بلکہ تواضع و انکساری کی وجہ سے انسان کا درجہ و فضیلت کو اللہ رب العزت نہ صرف اپنے حضور بڑھاتا ہے بلکہ لوگوں کے دلوں میں اس کی عزت و تکریم میں مزید اضافہ کردیتا ہے اسے عاجزی و انکساری کی بنا پر وہ رفعت، وہ فضیلت اور وہ بلندی عطا کرتا ہے جس کا وہ پہلے کبھی تصور بھی نہیں کرسکتا۔
رسول اللہ کا خلق تواضع کو اپنانا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو باری تعالیٰ نے جلیل المنصب بنایا۔ سیدالمرسلین اور خاتم النبین اور رحمۃ للعلمین بنایا مگر ان سارے رفیع المرتبت اعزازات کے باوجود آپ دوسرے لوگوں کے زندگی کے جملہ معاملات میں متواضع رہے اور منکسر المزاج رہے، تکبر و غرور کا دور دور تک آپ سے کوئی تعلق و ناطہ نہ تھا۔ آپ لوگوں میں سے سب سے زیادہ متواضع الخلق تھے۔
یہی وجہ ہے جب آپ کو اختیار دیا گیا کہ اگر آپ چاہیں ’’نبی ملک‘‘ ایسا نبی جو بادشاہ بھی ہو اور اپنی عبد وہ نبی جو صرف بندہ ہی ہو ان دونوں میں سے جو چاہیں اپنے لئے اپنی شان کا انتخاب کرلیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وقت ان دونوں میں سے اپنی عبد کی شان کو منتخب کیا۔ مسند امام بن حنبل میں یہ روایت کچھ اس طرح آئی ہے۔
انه خير بين ان يکون نبيا ملکا او نبيا عبدا فاختار ان يکون نبيا عبدا.
(مسند امام احمد، 2/ 231) (دلائل النبوة، 2/ 369)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اختیار دیا گیا کہ آپ نبی بادشاہ ہونا پسند کرتے ہیں یا نبی بندہ ہونا، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نبی بندہ ہونا پسند کیا۔
رسول اللہ کی اسی تواضع و انکساری کی بناء پر باری تعالیٰ قیامت کے دن اولاد آدم کی سرداری آپ کو عطا فرمائے گا اور آپ ہی قیامت کے دن وہ پہلے شخص ہوں گے جو اللہ کے حضور لوگوں کے لئے شفاعت کریں گے۔
حضرت ابو امامہ بیان کرتے ہیں:
قال خرج علينا رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم متولئا علی عصا فقمنا له فقال لا تقوموا کما تقوم الا عاجم بعظهم بعضهم بعضا وقال انما انا عبد اکل کما ياکل العبد واجلس کما يجلس العبد.
(سنن ابی داؤد، 5/ 398) (سنن ابن ماجه، 2/ 1661)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عصا مبارک کا سہارا لئے ہوئے ہمارے پاس تشریف لائے تو ہم سب آپ کے لئے کھڑے ہوگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا عجمیوں کی طرح اس طرح نہ کھڑے ہوا کرو اس لئے وہ یونہی ایک دوسرے کی تعظیم کرتے ہیں۔ اس منع کرنے کی وجہ یہ بیان کی میں تو ایک بندہ ہوں میں اسی طرح کھاتا ہوں جیسے کوئی عام آدمی کھاتا ہے اور اسی طرح بیٹھتا ہوں جیسے کوئی عام آدمی بیٹھتا ہے۔
آپ نے اس حدیث مبارکہ میں اپنی ذات کے لئے کھڑے اور قیام کرنے کے عمل سے اپنی صفت تواضع اور اپنے خلق عاجزی و انکساری کی بنا پر منع کردیا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اسی عمل کو دوسرے افراد کے لئے اختیار کرنے کا حکم دیا۔ جب آپ کی خدمت میں ایک قبیلے کا سردار آتا ہے تو آپ اپنی مجلس میں موجود تمام صحابہ کرام کو حکم دیتے ہیں:
قوموا ليسيدکم.
سب کھڑے ہوکر اپنے سردار کا استقبال اور احترام بجا لاؤ۔
اب دونوں احادیث مبارکہ سے امت کو یہ تعلیم میسر آتی ہے کوئی بھی داعی ہو، مربی ہو، معلم و قائد ہو، راہنما و رہبر ہو اس کی ذاتی خواہش نہ ہو کہ لوگ اس کے لئے کھڑے ہوں، اس کا احترام بجا لائیں، ہاں اگر وہ از خود کھڑے ہوکر اس کا استقبال کریں اور اس کا احترام کریں اور اس کی عزت افزائی کریں تو یہ دونوں عمل احادیث مبارکہ سے ثابت ہیں۔
(جاری ہے)
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، جنوری 2017
تبصرہ