خواتین کے خلاف سب سے زیادہ جرائم پڑھے لکھے پنجاب اور سب سے کم
پسماندہ صوبے بلوچستان میں ہوتے ہیں
خواتین پر تشدد کے خلاف عالمی دن کے موقع پر فرح ناز، افنان بابر، ام حبیبہ، زینب ارشد
کا اظہا رخیال
خواتین پر تشدد صرف نفسیاتی مریض اور پاگل مرد کرتے ہیں، ان کا علاج ضروری ہے: خواتین
رہنما
لاہور (25 نومبر 2016) پاکستان عوامی تحریک ویمن لیگ کی مرکزی صدر فرح ناز نے خواتین پر تشدد کے خلاف عالمی دن کے موقع پر منعقدہ خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہر سال 1 ہزار خواتین غیرت کے نام پر قتل کر دی جاتی ہیں اور ہر سال 10 ہزار سے زائد خواتین گھریلو تشدد سمیت دیگر سنگین جرائم کا شکار ہوتی ہیں۔ خواتین پر تشدد صرف نفسیاتی مریض اور پاگل مرد کرتے ہیں ان کا علاج ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ 74 فیصد کیسز پنجاب میں ہوتے ہیں۔ خواتین کے خلاف سنگین جرائم کے ارتکاب میں پڑھا لکھا پنجاب سب سے آگے او رپسماندہ صوبہ بلوچستان سب سے پیچھے ہے۔ سندھ دوسرے جبکہ خیبرپختونخوا تیسرے نمبر پر ہے۔
اجلاس میں افنان بابر، ام حبیبہ، زینب ارشد و دیگر نے شرکت کی۔
فرح ناز نے کہا کہ 2014 ء سے 2016ء کے درمیان 3 سالوں میں خواتین کے خلاف سنگین جرائم میں 28 فیصد اضافہ ہوا جو لمحہ فکریہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کو تعلیم، روزگار کی فراہمی کے حوالے سے تعصب برقرار ہے۔ ناخواندہ آبادی میں 59 فیصد خواتین ہیں۔ مرکزی و صوبائی حکومتیں خواتین کی فلاح و بہبود کے ضمن میں صرف زبانی جمع خرچ سے کام لیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے خواتین کے خلاف جرائم میں کمی کی بجائے اضافہ ہورہا ہے۔
افنان بابر نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا اسلام کے سچے پیروکار کبھی کسی بیٹی پر ہاتھ نہیں اٹھاسکتے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے 14 سو سال قبل خواتین کے استحصال کی ہر شکل کو رد کیا۔ بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے کی جاہلانہ اور ظالمانہ روش کو سختی سے ختم کیا۔ اسلام نے خواتین کو ماں، بہن، بیٹی، بہو کے روپ میں عزت و توقیر سے نوازا۔ انہوں نے کہا کہ باوقار انسانی اقدار کے حامل اسلامی ملک میں خواتین پر تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات لمحہ فکریہ ہیں۔ خواتین پر تشدد کی روک تھام کیلئے گریٹ ڈیبیٹ کی ضرورت ہے۔
ام حبیبہ نے کہا کہ اگر صوبہ پنجاب میں خواتین سب سے زیادہ تشدد اور ظلم و جبر کا شکار ہیں تو یہ اچنبھے کی بات نہیں ہے کیونکہ خواتین کے ساتھ بربریت اور انہیں ناحق قتل کرنا پنجاب حکومت کی پالیسی ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت سانحہ ماڈل ٹاؤن ہے جہاں دن دیہاڑے وزیراعلیٰ پنجاب کی ناک کے نیچے پولیس نے خواتین پر تشدد کیا اور ہماری 2 بہنوں شازیہ مرتضیٰ اور تنزیلہ امجد کو سرکاری رائفلوں سے چہروں پر گولیاں مار کر شہید کیا۔ اگر اس سانحہ میں پنجاب حکومت ملوث نہ ہوتی تو اب تک خواتین کو قتل کرنے والے اہلکار اور افسران ضرور کیفر کردار کو پہنچ چکے ہوتے۔
زینب ارشد نے کہا کہ پنجاب میں خواتین کس کرب سے دوچار ہیں یہ جاننے کیلئے حکمران عورت فاؤنڈیشن اور دیگر غیر جانبدار سماجی اداروں کی رپورٹس کا مطالعہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب سنگین جرائم میں گزشتہ 8 سال سے نمبرون صوبہ ہونے کا اعزاز برقرار رکھتے ہوئے ہے۔
تبصرہ