ڈاکٹر ابوالحسن الازہری
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِنَّآ اَعْطَيْنٰـکَ الْکَوْثَرَ.
(الکوثر، 108 :1)
’’بے شک ہم نے آپ کو ہر خیرو فضیلت میں بے انتہاء کثرت بخشی ہے‘‘۔
اس آیت کریمہ میں کوثر سے مراد ائمہ تفسیر نے مختلف معانی مراد لئے ہیں اور وہ درحقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مختلف شانیں اور فضیلتیں ہیں۔ کوثر سے مراد حوض کوثر بھی مراد لی گئی اور کوثر سے مراد نہر جنت بھی سمجھی گئی ہے اور کوثر کا معنی قرآن بھی لیا گیا ہے اور کوثر کا مفہوم نبوت و حکمت کا عطا کیا جانا بھی سمجھا گیا ہے اور کوثر سے مراد فضائل کی کثرت بھی مراد لی گئی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر شان میں صاحب فضیلت ہیں
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہر ہر شان میں صاحب فضیلت بنایا گیا ہے کہ آپ کو جو شان بھی ہم نے عطا کی ہے وہ فضیلت کی حیثیت کے ساتھ عطا کی ہے۔ اس شان کا رنگ ہی فضیلت کے غلبے کا ہے اور وہ شان ایسی ہے کہ آپ ہی اس میں صاحب کمال ہیں اور کوثر سے مراد معجزات رسول بھی مراد لئے گئے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اتنے معجزات ہم نے عطا کئے ہیں جن کی مثال نہیں ہے کسی بھی نبی کو اتنے معجزات عطا نہیں کئے گئے جتنے آپ کو عطا کئے گئے ہیں یا کوثر سے مراد آپ کے اصحاب اور اتباع ہیں کہ ہم نے آپ کو اصحاب اور اتباع میں اتنی کثرت عطا کی ہے جو کہ بے مثال ہے اسی طرح کوثر سے مراد آپ کی امت کی کثرت بھی مراد لی گئی ہے کہ ہم نے مختلف زمانوں میں مختلف نبیوں اور رسولوں کو بھیجا سب کو ایمان لانے والی امت عطا کی ہے مگر آپ پر ایمان لانے والے اور آپ کی امت میں شامل ہونے والے سب سے زیادہ کثرت کی شان کے ساتھ ہیں یاکوثر سے مراد آپ کی شان رفعت ذکر ہے ہم نے آپ کا ذکر اس قدر بلند کیا ہے اپنے ذکر کے ساتھ آپ کے ذکر کو شامل کردیا ہے۔ جہاں ذکر الہٰی ہوگا وہاں ذکر رسول بھی ہوگا جہاں شہادت توحید کی بات ہوگی وہاں شہادت رسالت کی بات بھی ضرور ہوگی۔ جہاں الہ اور معبود و مطلق اور حق کا ذکر ہوگا وہاں عبد کامل، محمد رسول اللہ کا ذکر بھی ہوگا۔
اس لئے آپ کے ذکر کی رفعت اور کثرت کا ذکر کرتے ہوئے باری تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا:
وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ.
(الم نشرح، 94: 4)
اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر (اپنے ذکر کے ساتھ ملا کر دنیا و آخرت میں ہر جگہ) بلند فرمادیا ہے۔
لفظ الکوثر کے مختلف معانی
یا کوثر سے مراد دنیا و آخرت کی نعمتیں بھی ہیں۔ ہم نے آپ کو دنیا و آخرت کی ساری نعمتیں عطا کردی ہیں۔ ہر دنیوی نعمت اور ہر اخروی نعمت کی کثرت آپ کو عطا کی گئی ہے۔ آپ صاحب نعمت ہیں، آپ ان نفوس قدسیہ میں سے ہیں جن پر انعمت علیہم کی عطا سب سے زیادہ شان کوثر کے ساتھ ہوئی ہے۔ یاکوثر سے مراد نصرت الہٰیہ ہے کہ اللہ نے آپ کی مدد سب سے زیادہ کی ہے اور اپنی نصرت آپ کو شان کوثر کے ساتھ عطا کی ہے اور اس کے زندہ مظاہر کثرت فتوحات کی صورت میں قرآن بیان کرتا ہے۔
حتی کہ الکوثر کا ایک معنی خود کثرت فتوحات بھی ہے۔ اللہ رب العزت نے اپنی نصرت اس قدر کثرت کے ساتھ عطا کی کہ ملائکہ کو آپ کا لشکری و سپاہی اور مجاہد فی سبیل اللہ بنادیا۔ انہوں نے صحابہ کرام کے ساتھ شانہ بشانہ کافروں کا مقابلہ کیا، قرآن کے مطابق میدان بدر میں ایک ہزار فرشتے اترتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لشکر میں شامل ہوجاتے ہیں اور کافروں و مشرکوں کا مقابلہ کرتے ہیں۔
الکوثر سے مراد مقام محمود کا اعزاز
یا کوثر سے مراد روز قیامت آپ کا مقام محمود پر فائز ہونا مراد لیا گیا ہے کہ مقام محمود پر قیامت کے دن باری تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے اور اپنے بندوں میں سے اور اپنے نبیوں اور رسولوں میں سے اسی کو فائز کرے گا اور اسی کو اس شرف عظیم سے مزین کرے گا جو جملہ صفات و کمالات ہیں جو جملہ جہات اور حیثیات میں شان کوثر کا مالک ہوگا۔
اِنَّآ اَعْطَيْنٰـکَ الْکَوْثَرَ ہم نے آپ کو یہ مقام محمود قیامت کے روز شان کوثر کی بنا پر عطا کردیا ہے۔ یاکوثر سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قیامت کے روز اللہ رب العزت کے اذن سے شفاعت عظمی کے عظیم منصب پر فائز ہونا مراد ہے۔ جب روز حشر بپا ہوگا قیامت قائم ہوگی۔ کل عالم انسانیت اللہ کے حضور پیش ہوگا، حساب و کتاب کا آغاز رسول اللہ کی اللہ کی بارگاہ میں التجاء اور دعا سے ہوگا۔ قیامت کے روز سب سے پہلے سارے انسان حضرت آدم علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور عرض کریں گے کہ آپ اللہ کے حضور حساب و کتاب کے آغاز کی التجاء دعا کریں وہ فرمائیں گے: اذهبوا الی غيری ’’میرے علاوہ کسی اور کے پاس جاؤ‘‘ اور ہر نبی یہی کہے گا اذھبوا الی غیری ’’یہاں کل عالَم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے گا‘‘۔ آپ فرمائیں انا لہا یہ شرف اور اذن اللہ مجھے ہی دیا ہے۔ صحیح بخاری میں ہے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں:
ان الناس يصبرون يوم القيامة جثا کل امة تتبع نبيها يقولون يا فلان اشفع يا فلان اشفع حتی تنهی الشفاعة الی النبی صلی الله عليه وآله وسلم فذلک يوم يبعثه الله المقام المحمود.
(رواه البخاري، کتاب التفسير، باب مقام المحمود، 4/ 1748، الرقم: 4441)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ روز قیامت لوگ گروہ در گروہ ہوجائیں گے۔ ہر امت اپنے اپنے نبی کے پیچھے ہوگی اور عرض کرے گی شفاعت فرمایئے، شفاعت کیجئے یہاں تک کہ شفاعت کی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آکر ختم ہوگی پس اس روز شفاعت کے لئے اللہ تعالیٰ آپ کو مقام محمود پر فائز فرمائے گا۔
الکوثر سے مراد خلق عظیم
اور کوثر سے مراد آپ کا خلق عظیم بھی مراد لیا گیا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کے ہر خلق کو عظیمت فضیلت اور کثرت عطا فرمائی ہے۔ آپ کا ہر ہر خلق، خواہ وہ خلق حلم و بردباری ہو۔ خلق جودو کرم اور سخاوت ہو۔ خلق شجاعت و بہادری ہو، خلقِ حیاء و چشم پوشی ہو، خلق حسن ادب ہو، خلق حسن معاشرت ہو، خلق شفقت و رحمت ہو، خلق مہربانی و کرم نوازی ہو، خلق وفا ہو، خلق حسن عہد ہو، خلق صلہ رحمی ہو، خلق تواضع و انکساری ہو، خلق عدل و انصاف ہو، خلق امانت و دیانت ہو، خلق عفت و پاکیزگی ہو، خلق صدق قال ہو، خلق وقار و تمکنت ہو، خلق سکوت و خاموشی ہو، خلق لحاظ و مسرت ہو، خلق برّ اور نیک سیرتی ہو، خلق زہد و تقویٰ ہو، خلق خشیت و طاعت ہو، خلق شفقت و ریاضت ہو، غرضیکہ اللہ رب العزت نے آپ کے ہر خلق کو خلق عظیم بنایا ہے۔ انسانیت کے لئے قابل تقلید، قابل پیروی خلق بنایا ہے۔ عالم انسانیت کے لئے آپ کے خلق کو خلق احسن بنایا ہے اور خلق اتم اور خلق اکمل بنایا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کو سارے انسانوں کے لئے ایک رول آف ماڈل بنایا ہے۔ آپ کی ذات اقدس کو جملہ انسانوں کے لئے ایک اسوہ حسنہ بنایا ہے اور ہر ایک انسان کو اور جملہ انسانوں کو بیک وقت مخاطب کرتے ہوئے لکم کے صیغے کے ساتھ کہ تمہارے لئے اور صرف تمہارے لئے اپنے رسول کے خلق کو عظیم بنایا ہے اور تمہارے لئے ان کی ذات کو نمونہ اور اسوہ حسنہ بنایا ہے۔ اس لئے فرمایا گیا:
لقد کان لکم فی رسول الله اسوة حسنة.
’’تحقیق رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی زندگی میں تمہارے لئے بہترین نمونہ موجود ہے ‘‘۔
سخاوت اور جودو کرم کا مفہوم
آیئے آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسوہ حسنہ جو تمہارے اور ہمارے لئے ہے اور جو رسول اللہ کی ذات میں ہے، اس اسوہ حسنہ میں سے آپ کے خلق سخاوت اور جودو کرم کو پڑھتے اور جانتے ہیں۔ سخاوت کیا ہے، سخاوت کا مفہوم یہ ہے:
سهولة الانفاق.
(الشفاء بتعريف حقوق المصطفیٰ: ص65 الطبع 1950 مصطفی البابی، المصر)
سہولت اور آسانی کے ساتھ خرچ کرنے کو سخاوت کہتے ہیں اور جو خرچ کرنے میں تنگی محسوس نہ کرے اور کسی قسم کے ترد اور اضطراب کا اظہار نہ کرے اور کسی بھی پریشانی اور پشیمانی کا خرچ کرنے میں سامنا نہ کرے اس جذبے اور طبیعت کے ساتھ خرچ کرنے کو سخاوت کہتے ہیں۔ سخاوت خرچ کرنے میں سہولت کا نام ہے۔ یہ سخاوت بخل اور تنگی کی ضد ہے، بخل میں خرچ کرنے کو جی نہیں چاہتا اور خرچ کرنا تکلیف و اذیت کا باعث بنتا ہے۔ خرچ کرنے میں مال کی محبت رکاوٹ بنتی ہے۔
قرآن نے بیان کیا ہے کہ انسان مال سے شدید محبت کرتا ہے اور فرمایا وتحبون المال حبا جما مال کی شدید محبت اللہ کے عطا کردہ رزق میں اس کی راہ میں خرچ کرنے سے رکاوٹ بن جاتی ہے۔ لفظ جود کا مفہوم یہ ہے:
تجنب الاکتساب مالا يحمد وهو السجود.
جو چیز ناپسندیدہ ہو اس سے بچنا جود ہے۔ خرچ نہ کرنا ناپسندیدہ عمل ہے۔ خرچ کرنا مگر دلی رغبت اور شوق سے خرچ کرنا جود ہے اور اس کے ساتھ ملتا ہوا لفظ کرم ہے۔
الاتفاق بطيب النفس فيما يعظم خطره و نفعه.
(الشفاء، 65)
اجروثواب اور نفع دنیوی و اخروی کے لئے خوش دلی کے ساتھ خرچ کرنا کرم کہلاتا ہے۔
سخاوت کا ایک مفہوم یہ ہے کہ اپنے حق کو دوسرے کے سپرد کردینا اور اپنے حق کو دوسرے کے پاس رہنے دینا یہ بھی سخاوت ہے۔
التجا فی عما يستحقه المرء عند غيره بطبيب نفس.
(الشفاء: 65)
اپنے حق کو دوسرے کے پاس خوش دلی کے ساتھ رہنے دینا بھی سماحت اور سخاوت ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے خلق سخاوت، خلق جود و کرم اور خلق عطا و نوازش میں بے مثل اور بے مثال اور باکمال ہوئے۔ کوئی بھی اس خلق میں بھی آپ کے برابر نہ تھا، نہ ہی کوئی آپ کے معارض اور مد مقابل تھا، حتی کہ آپ کی پہچان اور شناخت یہ خلق سخاوت اور جود و کرم بن گیا تھا۔
خلق سخاوت میں لفظ ’’لا‘‘ کبھی رکاوٹ نہ بنا
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلق سخاوت اور جود و کرم میں لفظ ’’لا‘‘ جس کا ترجمہ ’’نہیں‘‘ ہے۔ یہ لفظ آپ کے خلق سخاوت میں کبھی رکاوٹ نہیں بنتا تھا اور نہ ہی آپ کی ساری حیات طیبہ میں کوئی سائل آپ کے پاس آیا ہو اور آپ کی زبان اقدس میں اس کے لئے کبھی بھی اور ہر طرح کے حالات میں یہ لفظ اس کو سننے کو نہیں ملا کہ اے مانگنے والے، اے سوال کرنے والے ’’لا‘‘ میں تمہیں نہیں دے رہا۔
اس لئے حضرت جابر بن عبداللہ صحیح بخاری میں بیان کرتے ہیں:
سمعت جابر ابن عبدالله يقول ماسئل رسول الله عن شئی فقال لا.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جب بھی کوئی سوال کرتا تو آپ ’’لا‘‘ یعنی نہیں کبھی بھی نہ فرماتے۔
اسی بات کو حضرت انس اور حضرت سہل بن سعد نے بھی صحیح مسلم 4/1805 میں بیان کیا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سخاوت کا عالم کیا تھا اور خلق سخاوت میں آپ کی شان اور حالت کیسے ہوتی تھی کم دیتے تھے یا تھوڑا دیتے تھے یا مناسب دیتے یا زیادہ دیتے تھے مگر سائل کو آخر کتنا دیتے تھے؟ یہ سوالات ہیں جن کو ہم جانتے ہیں۔
(جاری ہے)
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، نومبر 2016
تبصرہ