پاکستان عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے 17 ستمبر 2016 کو لندن میں پریس کانفرنس کی، جس میں پاکستان کے الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کے موقر صحافی و نمائندے موجود تھے ۔ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے سانحہ ماڈل ٹاون کے ذمہ داروں کو عالمی اداروں کے کٹہرے میں لانے کے حوالے سے تفصیلات میڈیا کو بتائیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ادارے حکمرانوں کی گرفت میں ہیں اور انہوں نے انصاف کا قتل کر رکھا ہے ۔ سانحہ ماڈل ٹاون کا بروقت انصاف نہ ملنے پر ہمیں آج بین الاقوامی اداروں میں دستک دینا پڑی۔ ہم پاکستان میں بھی انصاف کی جنگ لڑ رہے ہیں اور بین الاقوامی اداروں میں بھی انصاف کے حصول کی جنگ لڑیں گے ۔ بین الاقوامی اداروں میں انصاف کا دروازہ اس لیے کھٹکھٹایا ہے کہ یہ انسانی حقوق کا مسئلہ ہے۔ انٹرنیشنل کریمنل کورٹ سمیت ہالینڈ میں دی ہیگ، فرانس اور برطانیہ میں انصاف کے دیگر فورمز پر سانحہ ماڈل ٹاون کا مقدمہ دائر کرنے جا رہے ہیں۔ اگر پانامہ لیکس کے انکشافات سے پاکستان عالمی سطح پر بدنام نہیں ہوا تو انصاف مانگنے سے کیوں ہو گا۔
سوا دو سال گزرنے کے بعد بھی اس مقدمے میں انصاف کا قتل عام کیا جا رہا ہے ۔ جس میں ٹی وی چینلز کے کیمروں کے سامنے 12 گھنٹوں تک معصوم بے گناہ انسانوں کا قتل عام کیا گیا۔ نہتی خواتین کو سیدھی گولیاں ماری گئیں۔ حکمرانوں نے خود اپنے ہی بنائے ہوئے سرکاری کمیشن جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ کو بھی دبا لیا، جس میں شہباز شریف کو براہ راست قتل عام کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔ آج وزیراعظم نواز شریف کے ہاتھ بے گناہوں کے خون سے رنگے ہیں۔ وہ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں براہ راست ملوث ہیں۔ پاکستانی شہریوں کا قتل عام کرنے والا وزیراعظم یو این او میں کس منہ سے کشمیریوں کی بات کرے گا۔ دوسری جانب آج ملک میں انصاف دلانے والا کوئی مسیحا نہیں، مسیحائی کرنے والے خود شہید ہو چکے ۔
عالمی ادروں میں کیس دائر کرنے کے حوالے سے ڈاکٹر طاہرالقادری نے مزید کہا کہ ہم ریاست پاکستان نہیں شریف برادران کی حکومت کے خلاف انصاف کے عالمی فورم سے رجوع کررہے ہیں۔ ہم برطانیہ میں انگلش ہائی کورٹ کے ٹارچر کنونشن 1984 پر ماڈل ٹاون کا مقدمہ دائر کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ اس طرح یو این او کی ہیومن رائٹس کونسل اور انٹرنیشنل کریمینل کورٹ میں بھی سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کے لیے لاء فرم کی خدمات حاصل کر لی ہیں، مناسب وقت پرنام بتا دیں گے ۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاون پر قتل عام کے مرکزی کردار اور اسوقت وزیراعلی پنجاب کے پرنسپل سیکرٹری توقیر شاہ کو سوئٹزرلینڈ جنیوا میں ڈبلیو ٹی او میں ایمبیسڈر لگوا دیا گیا۔ ان سمیت دیگر پولیس افسران ڈی آئی جی رانا عبدالجبار، ایس پی سلمان شاہ، ایس پی عبدالرحیم شیرازی، ایس پی عمر ریاض چیمہ کو دو دو سال کے لیے محکمانہ ٹریننگ کے نام پر پاکستان سے فرار کروا دیا گیا۔ اب یہ پولیس افسران ان ممالک میں سیاسی پناہ کے کیس تیار کروا رہے ہیں۔ شریف برادران کو ڈر ہے کہ پاکستان میں رہ کر کہیں یہ ان کے خلاف وعدہ معاف گواہ نہ بن جائیں۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ شریف برادران ملک و قوم اور پاکستان کی سا لمیت کے لیے خطرہ ہیں۔ دہلی میں موجود پاکستانی ہائی کمیشن کو وفاقی حکومت کے آرڈرز ہیں کہ پاکستان آنے والے بھارتیوں کے فوری ویزے لگا دئیے جائیں۔ رمضان شوگر مل انتظامیہ کی درخواست پر بھارتی شہری شری در کو 10سال کا ملٹی پل ویزا دیا گیا، حالانکہ اتنی طویل مدت کا ویزہ دینے کا دونوں ملکوں میں کوئی قانون ہی موجود نہیں۔ اسطرح میں نے ایسے ہی 300 انڈینز کی نشاندہی کی جن میں سے 50 کی فہرست بھی جاری کی آج تک اس کی تردید نہیں آئی۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ میں نے حقائق پیش کیے ہیں۔
بھارتیوں کے پاکستان آنے پر ڈاکٹر قادری نے مزید کہا کہ انہوں نے شریف برادران پر الزام نہیں لگایا، ثبوت کے طور پر ڈاکو منٹس بھی پیش کر دیئے ہیں اگر یہ معلومات اور ڈاکو منٹس غلط ہیں تو وہ معذرت کرکے اپنی غلطی تسلیم بھی کر لیں گے ۔ لیکن اب ملکی ادارے شریف برادران کے خلاف ایکشن کیوں نہیں لے رہے ، یہ ایک الگ سوال ہے ۔
پنجاب میں رینجرز آپریشن پر انہوں نے کہا کہ پاکستان میں جب تک دہشت گردوں کے سہولت کار اقتدار میں بیٹھے ہیں تو ملک سے دہشتگردی ختم نہیں ہو سکتی۔ پنجاب کو دہشت گردوں کا نظریاتی بیس کیمپ بنادیا گیا۔ پنجاب حکومت نے ابھی تک رینجرز کو آپریشن کے اختیارات نہیں دئیے ۔ یہ اختیارات دینے سے پہلے درجہ اول کے سینکڑوں دہشت گردوں کو بھگا دیا گیا۔ اب رینجرز آئے گی تو وہ ان دہشت گردوں کو تلاش کرتی پھرے گی۔ شریف برادران رینجرز کو صرف گمشدہ دہشتگردوں کی تلاش کے کام تک محدود رکھنا چاہتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ اسلامی نظام کا مرکزی نقطہ انصاف ہے ہماری جدوجہد انصاف کیلئے ہے ۔ دہشت گردوں اور انصاف کے قاتلوں کے سامنے کبھی سمجھوتہ اور سرنڈر نہیں کرونگا۔ 20 سال تک حتی کہ جتنا عرصہ مرضی لگ جائے مگر ماڈل ٹاون کا کیس لڑیں اور قصاص کے مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ میں جدوجہد پر یقین رکھتا ہوں۔ زندگی میں کبھی مایوس نہیں ہوا۔ آخری سانس اور مرتے دم تک انصاف کیلئے جدوجہد جاری رہے گی۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ وہ اخراجات کیلئے اپنے کارکنوں سے فی کس 10 یورو کی اپیل بھی کریں تو عالمی اداروں میں دائر مقدمات کے اخراجات پورے ہو جائینگے۔
ماخوذ از ماہنامہ دختران اسلام، اکتوبر 2016
تبصرہ