ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِلْ لَّهُمْ.
’’(اے حبیب!) پس آپ صبر کیے جائیں جس طرح (دوسرے) عالی ہمّت پیغمبروں نے صبر کیا تھا اور آپ ان (منکروں) کے لیے (طلبِ عذاب میں) جلدی نہ فرمائیں‘‘۔
(الاحقاف، 46: 35)
اور دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:
وَاصْبِرْ عَلٰی مَآ اَصَابَکَ.
’’اور صبر کیا کرو ہر مصیبت پر جو تمہیں پہنچے‘‘
(لقمان، 31: 17)
اسی مضمون کو سورہ النور میں یوں اجاگر کیا۔
وَلْيَعْفُوْا وَلْيَصْفَحُوْا.
’’اور ان کا قصور معاف کردیں اور ان کی غلطی سے درگذر کریں‘‘
(النور، 24: 22)
قرآن اور تحمل و برداشت
اہل ایمان کو صبرو تحمل اور عفو و درگزر کی تعلیم دیتے ہوئے سورہ الشوریٰ میں ارشاد فرمایا:
وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ اِنَّ ذٰلِکَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُورِ.
’’اور یقینا جو شخص صبر کرے اور معاف کر دے تو بے شک یہ بلند ہمت کاموں میں سے ہے‘‘
(الشوریٰ، 42: 43)
تحمل و برداشت کے ساتھ دوسروں کو معاف کرنے اور ان کی غلطی کو قبول کرنے اور ان کو نیکی کا حکم دینے کے حوالے سے سورہ الاعراف میں ارشاد فرمایا:
خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ.
’’(اے حبیبِ مکرّم!) آپ درگزر فرمانا اختیار کریں، اور بھلائی کا حکم دیتے رہیں ‘‘
(الاعراف، 7: 199)
سورہ بقرہ میں ارشاد فرمایا:
وَاسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ.
’’اور صبر اور نماز کے ذریعے (اللہ سے) مدد چاہو‘‘
(البقرة، 2: 45)
سورہ آل عمران میں ارشاد فرمایا:
اصْبِرُوْا وَصَابِرُوْا.
’’صبر رکھو اور آپس میں صبر کی تعلیم دو‘‘
(آل عمران،3: 200)
وہ لوگ جو صبر، برداشت اور تحمل سے کام لیتے ہیں اور دوسروں کو معاف کردیتے ہیں ایسے لوگوں کو باری تعالیٰ صابرین کا تکریمی لقب دے کر یوں مخاطب کرتا ہے:
وَاﷲُ يُحِبُّ الصّٰبِرِيْنَ.
’’اور اللہ صبر کرنے والوں سے محبت کرتا ہے‘‘
(آل عمران، 3: 146)
صبر اللہ کی رضا اور خوشنودی اور اس کی توفیق سے کیا جاتا ہے۔ اس لئے ارشاد فرمایا:
وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُکَ اِلَّا بِاﷲِ.
’’اور (اے حبیبِ مکرّم!) صبر کیجیے اور آپ کا صبر کرنا اللہ ہی کے ساتھ ہے‘‘
(النحل، 16: 127)
حدیث رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تحمل و صبر
رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صبر و برداشت کے حوالے سے ارشاد فرمایا: امام بخاری نے اسے کتاب المفرد میں روایت کیا ہے۔ آپ نے فرمایا:
الصبر مفتاح الفرج۔ صبر کشائش و فراخی کا ذریعہ ہے۔
الصبر والسماحة
صبر کشائش کی چابی ہے۔
النصر مع الصبر
فتح و کامیابی صبر کے ساتھ ہے۔
اگر ہم ان آیات اور احادیث مبارکہ میں غوروفکر کریں تو ہمیں یہ بات سمجھ آتی ہے کہ اسلام قومی وحدت کی تشکیل کے لئے زندگی کے ہر مرحلے پر تحمل و برداشت کی تعلیم اپنے ماننے والوں کو دیتا ہے۔ آج ہماری اجتماعی وحدت، ملی وحدت، قومی وحدت، علاقائی وحدت، خاندانی وحدت، دفتری اور گھریلو وحدت اور ایک عظیم مقصد کے لئے وحدت کی ہر سطح اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ہم دوسرے افراد کو برداشت کریں، ان کے رویوں کو برداشت کریں، ان کے ساتھ تحمل والا سلوک کریں، ان کے ساتھ صبر و درگذر والا معاملہ کریں، ان کے ساتھ بے پناہ برداشت کا سلوک کریں، یہ برداشت اور تحمل کا عمل اور رویہ ہی خود بخود ایک وحدت کی صورت بنتا چلا جائے گا۔ قومی وحدت کی خاطر اگر اس عمل نے فوری نتائج نہ دیئے تو کچھ تاخیر کے ساتھ وہ نتائج ضرور حاصل ہوں گے۔ اس لئے کہ باری تعالیٰ بندوں کے کسی بھی اچھے عمل کو ضائع نہیں کرتا۔
تحمل و برداشت سنت انبیاء علیہم السلام ہے
اب ہم اگر آیات کا بغور جائزہ لیں تو ہمیں اس بات کی سمجھ آتی ہے کہ تحمل و برداشت کے عمل کو اور خلق کو عالی ہمت پیغمبروں نے اختیار کیا ہے اور جو اپنے اندر ہمت و طاقت اور جرات و شجاعت رکھتا ہو جو اپنے ارادوں اور اپنے عملوں میں مضبوط ہو وہی اس تحمل و برداشت کے رویے کو بآسانی اختیار کرسکتا ہے۔ اس اعتبار سے تحمل و برداشت اور صبر و درگذر کا یہ عمل جملہ انبیاء علیہم السلام کا خلق ہے۔ برداشت و تحمل کے رویے انسان نے خود اپنے اندر پیدا کرنے ہوتے ہیں اور انسان نے ان کو خود اختیار کرنا ہوتا ہے۔ تحمل و برداشت کا رویہ انسان کے اندر کیسے اور کس طرح پیدا ہوتا ہے۔
قرآن حکیم نے اس کا ضابطہ دے دیا ہے۔یہ دوسرے انسانوں کو معاف کرنے اور ان سے درگذر کرنے سے جنم لیتا ہے۔ جس نے دوسروں کو ان کی غلطیوں پر معاف کرنا اور ان کی خطائوں پر ان سے درگذر کرنا سیکھ لیا، وہ متحمل مزاج ہوجائے گا۔ وہ قوت برداشت کے عظیم رویے اور عظیم خلق کا حامل ہوجائے گا۔
قرآن نے اپنے ماننے والوں کو یہ تصور دیا ہے کہ اگر تمہاری زندگی میں کوئی مصیبت، آفت، تکلیف، پریشانی اور غم آئے تو اس مصیبت و آفت کو صبر کی قوت سے برداشت کیا جاتا ہے اور اس مصیبت کی گھڑی کو ہر لمحہ صبر کے ذریعے برداشت کرنے کی التجاء کی جاتی ہے۔ مصیبت کو صبر کی طاقت سے برداشت کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی اور حل ہی نہیں ہے۔
صبرو تحمل اور برداشت انسان کے لئے اللہ کی بارگاہ سے مدد و نصرت کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ جب کوئی بندہ صبرو تحمل کا مظاہرہ کرتا ہے تو یہ عمل بذات خود اس کے لئے فراخی رزق کا باعث بن جاتا ہے اور ہر میدان میں اس کے لئے کامیابی و کامرانی کی نوید لے کر آتا ہے۔
تحمل و حلم کے اخلاق اور ان کا مفہوم
اب ہم دیکھتے ہیں کہ انسانی اخلاق میں سے تحمل و برداشت کے حوالے سے ’’حلم‘‘ کیا ہے۔ صبر کیا ہے۔ خود تحمل کیا ہے اور عفو کیا ہے۔ یاد رکھئے حلم کا تصور یہ ہے کہ حلم انسانی خلق کی ایک ایسی حالت کا نام ہے جو اسباب محرکہ کی موجودگی میں ثابت اور برقرار رہے اور اسباب محرکہ سے مراد وہ اسباب ہیں جو عفو دلانے والے ہوں جو انسان کو طیش لانے والے ہوں جو انسان کو رنج پہنچانے والے ہوں۔ جن کی وجہ سے انسان اپنا شدید منفی ردعمل دیتا ہے، انسان کو سب و شتم کیا جارہا ہو، انسان کو ذہنی اذیت اور جسمانی تکلیف دی جارہی ہو، ان سارے عوامل کے باوجود اگر کوئی شخص منفی ردعمل نہ دے بلکہ ان سارے معاملات اور واقعات کو دل کی مضبوطی اور عمل کی درستگی کے ساتھ برداشت کرلے تو اس کو حلیم الطبع کہتے ہیں اس کو حلم والا کہتے ہیں اور اس کو حلیم مزاج رکھنے والا کہتے ہیں۔
(الشفاء بتعريف حقوق المصطفی، قاضی عياض مالکی، مکتبه حنفيه لاهور، ج1، ص109)
اسلام میں صبرو برداشت کا تصور
اب اس کے ساتھ ہم دوسرا لفظ صبر لے لیتے ہیں۔ صبر کیا ہے؟ صبر کا لغوی معنی رکنا اور روکنا ہے۔ صبر میں ایک انسان اپنے دل کو گریہ زاری سے اور زبان کو شکوہ و گلہ کرنے سے اور پورے اعضاء اور جسم کو بے قرار ہونے اور مضطرب ہونے سے روکتا ہے۔ پس انسان کا یہی عمل خلق صبر بن جاتا ہے اور جس فرد میں یہ خلق صبر کا عمل پایا جاتا ہے اسے ہم صابر کہتے ہیں۔
محقق دوانی صبر کی تعریف کرتے ہوئے بیان کرتا ہے کہ صبر کا معنی ہے خواہشات سے مقابلہ کرنا تاکہ ان خواہشات کو رفع کرکے لذات قبیحہ کے استعمال سے انسان کو روکا جائے۔ گویا بری خواہشات سے نفس کو روکنا اور اچھی اور نیک خواہشات پر نفس کو ثابت قدم کرنا یہ صبر ہے۔ جس انسان نے خود کو بری خواہشات سے روک لیا وہ صابر ہے اور جس انسان نے خود کو بری خواہشات پر قائم کرلیا اور ان کو اختیار کرلیا وہ فاجر ہے۔
(مذاهب عالم کا تقابلی مطالعه، غلام رسول چيمه، علم و عرفان پبلشرز، ص378)
متحمل مزاج ہونے کا مفہوم
اب اس کے بعد آگے ہم لفظ تحمل کا معنی و مفہوم جانتے ہیں کہ تحمل کیا ہے۔ اسلام میں صفت تحمل کیا ہے اور خلق تحمل کی پہچان کیا ہے؟
تحمل انسان کے اندر بردباری کی ایک ایسی حالت کا نام ہے جو مصائب و آلام کے وقت اپنی جان کو منفی ردعمل دینے سے روک لے اور ان مصائب و آلام کو برداشت کرے۔
(الشفاء بتعريف حقوق المصطفی، قاضی عياض مالکی، ص109)
گویا تحمل انسان کے اندر بردباری کا نام ہے اور اس بردباری کی وجہ سے انسان مصائب و آلام، تکالیف و پریشانیوں کو برداشت کرتا ہے اور ایسی حالت مصیبت میں کوئی خلاف شرع کام نہیں کرتا۔ یہی کیفیت انسان کے اندر تحمل کی خوبی اور خلق پید اکرتی ہے۔
عفو و درگذر کا مفہوم
اب ان ہی الفاظ کے ساتھ ملتا جلتا مگر ایک بڑا واضح تصور رکھنے والا لفظ عفو کا ہے۔ عفو کیا ہے۔ کسی کو معاف کرنا۔
عفو کا معنی و مفہوم یہ ہے کہ عفو اس حالت کو کہتے ہیں جو بدلہ لینے کے وقت بدلہ کو ترک کردے یعنی معاف کردے۔
(الشفاء بتعريف حقوق المصطفی، قاضی عياض مالکی، ص109)
گویا عفو یہ ہے کہ کسی سے بدلہ لینے کی طاقت کے باوجود بدلہ نہ لیا جائے، بدلہ لینے کے عمل کو ترک کردیا جائے اور اس کے برے اور مجرمانہ فعل پر اس کو معاف کردیا جائے تو اسے عفو کہتے ہیں۔
رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خلق تحمل و برداشت
رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تحمل و برداشت، حلم اور صبر یہ ہے کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ساری حیات طیبہ میں اپنی ذات کے لئے انتقام نہیں لیا۔ کسی نے آپ کی ذات اقدس کے ساتھ ناروا سلوک کیا تو آپ نے اس سے انتقام اور بدلہ نہیں لیا بلکہ اسے معاف بھی کردیا اور اس کے حق میں دعائے خیر بھی کردی۔
اس لئے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے صحیح بخاری اور صحیح مسلم اور متفق علیہ حدیث روایت ہوئی ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
جب کبھی رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دو باتوں میں سے کسی ایک بات پر اختیار دیا جاتا تو آپ ان میں سے آسان کو پسند کرتے یہاں تک وہ گناہ نہ ہوتی ہاں اگر گناہ کی بات ہوتی تو اس سے آپ لوگوں کی نسبت بہت دور ہوتے اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی بھی اپنی ذات کے لئے انتقام نہ لیا۔ سوائے اس کے وہ حدود الہٰی کی بے حرمتی کرے تب آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کی حدود کے لئے بدلہ لیتے ہیں۔
(صحيح بخاری، 8/ 26، صحيح مسلم، 4/ 1813)
رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنی جان کے دشمنوں کا معاف کرنا
اسی طرح یہ روایت بھی صحیح مسلم اور دلائل النبوۃ للبیہقی میں آئی ہے کہ ایک شخص جس کا نام غوث بن حارث تھا اس نے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بے خبری میں قتل کرنے کا ارادہ کیا اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت ایک درخت کے نیچے آرام کررہے تھے۔ آپ کی آنکھ کھلی تو دیکھا ایک شخص تلوار سونت کر کھڑا ہے اور وہ آپ سے مخاطب ہوکر کہہ رہا تھا کہ اب کون تم کو میری تلوار سے بچائے گا۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ۔ یہ سننا ہی تھا کہ تلوار اس کے ہاتھ سے گرگئی۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس تلوار کو اٹھا لیا اور اب اس سے آپ مخاطب ہوئے اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بتائو اب کون تجھ کو میرے وار سے روکے گا۔ اس نے کہا۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے اچھی طرح پکڑ لیا ہے اور آپ مجھ پر رحم فرمائیں گے پس آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے درگذر کرتے ہوئے اسے معاف کردیا۔ اس کے بعد وہ شخص اپنی قوم میں واپس گیا اور اپنی قوم کو مخاطب کرکے کہنے لگا میں ایک ایسے شخص کو مل کر آرہا ہوں جو تمام لوگوں سے بہتر ہے۔
رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی جان کے دشمنوں کو معاف کیا حتی کہ ایسے لوگوں کو بھی معاف کردیا جنہوں نے آپ کو زہر دے کر قتل کرنا چاہا اور یہاں تک کہ انہوں نے اعتراف جرم بھی کرلیا پھر بھی آپ نے اپنی شان عفو و درگذر کے ذریعے اسے معاف کردیا۔ جیسا کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم دونوں میں یہ واقعہ آیا ہے کہ ایک یہودی عورت نے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کھانے، بکری کے گوشت میں زہر ملا دیا تھا اور اس نے اپنے اس جرم کا اعتراف بھی کرلیا تھا مگر چونکہ یہ معاملہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنی ذات سے متعلق تھا تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس عورت کو معاف کردیا۔
(صحيح بخاری، کتاب الهبته العبة، 3/ 143) (صحيح مسلم، 4/ 1721)
اسی طرح ایک شخص لبید بن الاصم تھا یہ وہ شخص تھا جس نے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جادو کیا تھا اور اس کے اس جادو کو بے اثر کرنے کے لئے معوذتین کا نزول ہوا، اس شخص کو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معاف کردیا تھا۔ اس کا کوئی مواخذہ نہیں کیا باوجود اس کے کہ آپ کو علم یقینی، وحی کے ذریعے تمام حالات کا علم ہوگیا تھا اور آپ نے اس پر عتاب تک نہ فرمایا چہ جائیکہ آپ اس کو سزا دیتے۔
(سنن نسائی، 7/ 113. مسند امام احمد 4/ 367)
ان احادیث مبارکہ پر جب ہم غور و فکر کرتے ہیں کہ آرام کی حالت میں درخت کے نیچے آنے والا قاتل یہودی قاتل عورت اور قاتل جادوگر رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سب پر قدرت اور مکمل طور پر ان کو اپنے قابو میں کرلینے اور ان کے جرم کے ثابت ہونے اور ان اپنے اعتراف جرم کے باوجود آپ نے صبرو تحمل سے کام لیتے ہوئے اور عفو ودرگذر کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان مجرموں کو معاف کردیا اور تاریخ سیرت میں ایسے بے شمار واقعات ہیں جن میں رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی شان عفو و درگذر کے ذریعے لوگوں کو معاف کیا اور آپ کا یہ معاف کرنے کا عمل ہی ان کے لئے ہدایت کا باعث بن گیا۔
قبول اسلام کا سبب کردار اسلام ہے
جس طرح کہ حضرت زید بن سعنہ کا اسلام قبول کا واقعہ یوں ہے کہ زید بن سعنہ اسلام قبول کرنے سے قبل رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں آیا اور آپ سے اپنے قرض کی واپسی کا تقاضا کرنے لگا اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کپڑے کو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کندھوں سے کھینچ لیا اور کپڑے کو اکٹھا کرکے پکڑ لیا اور اسے کھینچنا شروع کیا اور انتہائی سخت زبان سے کلام کیا اور یہاں تک کہہ دیا اے عبدالمطلب کے فرزند تم دیر کرنے والے اور (معاذ اللہ) وعدہ خلاف ہو۔
حضرت عمر فاروق نے یہ صورت حال دیکھی تو ان سے رہا نہ گیا آپ نے اس کو جھڑک دیا اور اس سے سخت کلام کیا۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو مخاطب کیا اور فرمایا تم اس کے قرض کو ادا کرنے کے لئے حسن ادا کی بات کہتے اور اس کو اپنا قرض مانگنے کے لئے ’’حسن تقاضا‘‘ (اچھے انداز میں قرض واپس کرنے) کی بات کہتے، پھر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ اس کے قرض کو واپس کرنے کی مدت میں ابھی ایک تہائی وقت باقی ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ اس کا سارا مال ادا کردو اور اس کو مزید 20 صاع زیادہ دو کیونکہ تم نے اسے خوفزدہ کیا ہے۔
یہی سارا واقعہ زید بن سعنہ کا قبول اسلام کا سبب بن گیا اس لئے زید بن سعنہ کہنے لگا میں نے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ انور کو دیکھ کر ساری علاماتِ نبوت کو جان لیا تھا۔ صرف دو علامتیں ابھی باقی تھیں۔ میں نے ان کو ابھی پرکھا نہ تھا۔ وہ یہ کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حلم آپ کے امی ہونے پر بڑھ جائے گا اور آپ کے امی ہونے کی شان آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حلم کو اور زیادہ کردے گی۔ سو میں نے ان علامتوں کو بھی آزمالیا ہے اور میں نے آپ کے اندر ان ساری علامات نبوت کو ویسے ہی پایا ہے جیسا میں نے کتب سماویہ میں ان کو پڑھا تھا۔
(دلائل النبوة لابی نعيم 91. مجمع الزوائد 8/ 2331) (دلائل النبوة للبيهقی 6/ 278)
یہ ساری علامات نبوت دیکھ کر حضرت زید بن سعنہ رضی اللہ عنہ آپ کے خلق تحمل و برداشت کی وجہ سے دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے۔
تحمل و برداشت کا خلق اور دشمنوں کیلئے بھی رحمت
اسی طرح ایک اور واقعہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک موقع پر میں نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھا آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک حاشیہ دار چادر اوڑھی ہوئی تھی ایک اعرابی آیا اس نے انتہائی قوت و شدت اور سختی سے اس چادر کو کھینچا یہاں تک اس چادر کے سختی اور شدت کے ساتھ کھینچنے کی بنا پر آپ گردن مبارک پر اس کی رگڑ کے آثار ظاہر ہوگئے پھر اس عمل کے بعد وہ اعرابی رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مخاطب ہوا اور یوں کہنے لگا اے محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے ان دو اونٹوں پر وہ مال جو تمہیں خدا نے دیا پر وہ فوراً لاد دو کیونکہ یہ مال نہ تمہارا ہے اور نہ تمہارے باپ کا ہے۔
رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی اس قدر گستاخانہ بات اور اتنے شدید بدتمیزانہ انداز تخاطب کو سننے کے باوجود خاموش رہے اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس اعرابی کی بات کے جواب میں صرف اتنا فرمایا ہاں مال سارے کا سارا اللہ ہی کا ہے میں تو اس کا صرف بندہ ہوں۔ آگے فرمایا: اے اعرابی تم سے اس کا بدلہ لیا جائے گا۔ جو تم نے میرے ساتھ سلوک کیا ہے۔ اس نے کہا نہیں، ایسا نہیں ہوگا۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے پوچھا کس سبب سے تم بدلہ نہیں لیا جائے گا؟
اس اعرابی نے کہا اس لئے کہ کسی سے اپنی ذات کے لئے بدلہ لینے کی آپ کی عادت کریمہ ہی نہیں ہے اور آپ کی شان برائی کا بدلہ برائی سے دینے کی نہیں ہے۔ اس اعرابی کی یہ بات سن کر رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم مسکرا پڑے اور فرمایا اس اعرابی کے ایک اونٹ کو جو سے اور دوسرے کو کھجور سے لادو۔
(صحيح بخاری7/ 126. صحيح 2/ 731)
خلاصہ کلام
ہمیں آج اپنی قومی، ملی اور ملکی وحدت کو اور ایک پاکستانی قوم ہونے کی وحدت کو تحمل و برداشت کے رویوں کے ذریعے تشکیل دینا ہوگا اور عفو و درگذر کے رویوں کے ذریعے اسے مستحکم کرنا ہوگا۔ تحمل و برداشت اور صبرو درگذر کے خلق کی آج ہماری قوم کو شدید ضرورت ہے۔ انسانی خلق میں سے تحمل و برداشت اور صبرو درگذر کا خلق یہ جہاں جہاں پایا جائے گا وہاں افراد آپس میں محبت و مودت کے ساتھ اپنی زندگی گزاریں گے۔ اس تحمل و برداشت کے رویے اور خلق کی ضرورت آج ہماری قومی زندگی کو بھی ہے۔ ہماری انفرادی زندگی کو بھی ہے آج اس کی ضرورت ہماری تجارتی زندگی کو بھی ہے اور ہماری دفتری زندگی کو بھی ہے۔
تحمل و برداشت کے رویے اور خلق کی ضرورت آج ہماری معاشرتی زندگی کو بھی ہے۔ ہماری سماجی زندگی کو بھی ہے ہماری مذہبی زندگی کو بھی ہے۔ ہماری سیاسی زندگی کو بھی ہے، ہماری معاشی زندگی کو بھی ہے اور ہماری گھریلو اور خاندانی زندگی کو بھی ہے۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت اقدس سے آپ کے اس خلق تحمل و برداشت اور صبرو درگذر کو اپنی زندگیوں میں اپنانا ہے۔ اس کے بارے میں قرآن حکیم میں فرمایا گیا:
لقد کان لکم فی رسول الله اسوة حسنة
باری تعالیٰ ہماری سیرت کو رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کی روشنی عطا فرمائے اور ہمارے خلق کو خلق رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آشنائے فرمائے۔ آمین
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، ستمبر 2016
تبصرہ