قربانی سے مراد ہر وہ عمل ہے جسے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول، اجرو ثواب اور اس کی بارگاہ کا تقرب حاصل کرنے کے لئے انجام دیا جائے۔ بطور خاص جانور کی قربانی کو عربی میں ’’اضحیہ‘‘ کہتے ہیں۔ اس کی جمع اضاحی ہے۔
قربانی کی تاریخ بھی اتنی ہی قدیم ہے جتنی انسانی تاریخ لیکن امت مسلمہ ہر سال جو قربانی کرتی ہے یہ حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور ان کے لخت جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی یادگار ہے۔
عیدالاضحی 10 ذی الحج کو منائی جاتی ہے، اسے عید قرباں یا بقر عید بھی کہا جاتا ہے۔ اسلام کی جتنی بھی عبادات، رسوم یا تہوار ہیں ان کے مقاصد دنیا کے تمام دیگر مذاہب اور اقوام سے منفرد اور اعلیٰ و ارفع ہیں۔ نماز ہو یا روزہ، زکوٰۃ ہو یا حج، عیدالفطر ہو یا عید قرباں، سب کا مقصد مسلمانوں کو متقی بنانا ہے۔
قربانی کرنا اللہ کے خلیل حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے جو حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے لئے بھی باقی رکھی گئی ہے۔ یہ قربانی اتنی اہم ہے کہ اس کا بیان قرآن مجید کے علاوہ احادیث مبارکہ میں بھی آیا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فصل لربک وانحر.
پس آپ اپنے رب کے لئے نماز پڑھا کریں اور قربانی دیا کریں (یہ ہدیہ تشکر ہے)
(الکوثر، 108: 2)
ابن ماجہ نے حضرت سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی:
يارسول الله ماهذه الاضاحی؟
یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! یہ قربانیاں کیا ہیں؟
فرمایا:
سنة ابيکم ابراهيم.
تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔
لوگوں نے عرض کی: یارسول اللہ! ( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے لئے اس میں کیا ثواب ہے؟ فرمایا:
لکل شعرة حسنة.
ہر بال کے بدلے نیکی ہے۔
عرض کیا گیا: اون کا کیا حکم ہے؟ فرمایا:
بکل شعرة من الصوف حسنة.
اون کے ہر بال کے بدلے نیکی ہے۔
(سنن ابن ماجه)
قربانی کس پر واجب ہے
قربانی ہر مسلمان مرد، عورت، عاقل، بالغ اور مقیم پر واجب ہے۔ جس کی ملکیت میں ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت کا مال اس کی حاجت اصلیہ سے زائد ہو۔ یہ مال خواہ سونا، چاندی یا اس کے زیورات ہوں یا مال تجارت۔
قربانی کے واجب ہونے سلسلہ میں عامر بن رملہ سے روایت ہے کہ حضرت مخنف بن سلیم رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ عرفات میں ٹھہرے ہوئے تھے کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
يا ايها الناس ان علی کل بيت فی کل عام اضحية وعتيرة اتدرون ماالعتيرة؟ هذه التی يقول الناس الرجبية.
’’اے لوگو! ہر گھر والوں پر سال میں ایک دفعہ قربانی اور عتیرہ ہے۔ کیا تم جانتے ہو کہ عتیرہ کیا چیز ہے؟ عتیرہ وہی ہے جس کو لوگ رجبہ کہتے ہیں‘‘۔
(سنن ابوداؤد، کتاب الضحای، رقم: 1015)
حضرت امام ابن الاثیر نے لکھا ہے کہ حضرت امام خطابی فرماتے ہیں کہ عتیرہ سے مراد وہ جانور ہے جسے جاہلیت میں لوگ اپنے بتوں کے نام پر ذبح کرتے اور اس کا خون بت کے سر پر بہادیتے تھے۔
قربانی کی فضیلت
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قربانی کے دن اللہ تعالیٰ کے ہاں انسان کا کوئی عمل خون بہانے (قربانی کرنے) سے زیادہ پسندیدہ نہیں۔ قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں سمیت آئے گا اور بے شک اس کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ہاں قبولیت حاصل کرلیتا ہے۔ پس دل کی خوشی کے ساتھ قربانی کیا کرو۔
(جامع ترمذی، ابواب الاضاحی، رقم: 1008)
قربانی کے دن
قربانی صرف تین دن کے ساتھ مخصوص ہے۔ دوسرے دنوں میں قربانی نہیں ہوتی۔ قربانی کے دن ذی الحجہ کی دسویں، گیارہویں اور بارہویں تاریخ ہے۔ ان ایام میں جب چاہے قربانی کرسکتا ہے۔ البتہ پہلے دن قربانی افضل ہے۔
قربانی کا وقت
قربانی نماز عید پڑھ کر کی جانی چاہئے۔ نماز عید سے پہلے قربانی کرنا جائز نہیں۔ چنانچہ حضرت جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بقر عید کے دن نماز پڑھنے کے بعد خطبہ دیا پھر قربانی کی۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
من ذبح قبل ان يصلی فليذبح اخری مکانها ومن لم يذبح فليذبح باسم الله.
جس نے نماز سے پہلے ذبح کرلیا ہو تو اسے دوسرا جانور بدلہ میں قربانی کرنا چاہئے اور جس نے نماز سے پہلے ذبح نہ کیا ہو وہ اللہ کے نام ذبح کرے۔ (متفق علیہ)
اسی طرح براء بن عاذب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قربانی کے دن خطبہ دیا۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نماز عید پڑھنے سے پہلے کوئی شخص (قربانی کا جانور) ذبح نہ کرے۔ فرماتے ہیں: میرے ماموں نے اٹھ کر عرض کیا: یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم آج کے دن گوشت کھانا پسند ہوتا ہے اور میں نے قربانی میں جلدی کی تاکہ اپنے گھر والوں اور ہمسایوں کو کھلائوں۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
فاعد ذبحک باخر
دوسرا جانور ذبح کرنے کا بندوبست کرو
جامع ترمذی، ابواب الاضاحی، رقم:1550
کس جانورکی قربانی مستحب ہے
حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سینگوں والے موٹے تازے نر دنبے کی قربانی دی۔ وہ سیاہی میں کھاتا، سیاہی میں چلتا اور سیاہی میں دیکھتا تھا۔
جامع ترمذی، ابواب الاضاحی، رقم: 1525
اسی طرح عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سینگوں والے مینڈھے کے لئے حکم فرمایا۔ جس کے سینگ سیاہ، آنکھیں سیاہ اور جسمانی اعضاء سیاہ ہوں پس وہ لایا گیا تو اس کی قربانی دینے لگے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ (رضی اللہ عنہا)! چھری تو لائو پھر فرمایا: اسے پتھر پر تیز کرلینا۔ پس میں نے ایسا ہی کیا تو مجھ سے لے لی اور مینڈھے کو پکڑ کر لٹایا اور ذبح فرمانے لگے تو کہا:
بسم الله اللهم تقبل من محمد وال محمد وامة محمد ثم ضحی به.
(سنن ابوداؤد، کتاب الضحادا، رقم: 1019)
نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم قربانی کے جانور ذبح کرتے وقت بھی آل محمد کی جانب منسوب فرمادیا کرتے تھے اور اللہ کا نام لے کر ذبح کرتے۔ معلوم ہوا جو جانور اللہ کا نام لے کر ذبح کیا جائے تو اس ثواب میں شریک کرنے یا ایصال ثواب کی غرض سے اللہ والوں کی جانب منسوب کردینے سے مااھل بہ لغیراللہ میں شمار نہیں ہوتا۔ جو جانور بزرگوں کی جانب منسوب کیا جائے کہ ان کے لئے ایصال ثواب کرنا ہے اور اسے اللہ کانام لے کر ذبح کیا جائے تو اسے حرام اور مردار ٹھہرانے والے شریعت مطہرہ پر ظلم کرتے اور بزرگوں سے دشمنی رکھنے کا ثبوت دیتے ہیں۔
قربانی اپنے ہاتھ سے کرنا مستحب ہے
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سینگ والے دوچت کبرے مینڈھوں کی قربانی کی۔ انہیں اپنے ہاتھ سے ذبح کیا۔ بسم اللہ اور اللہ اکبر پڑھا اور اپنا پائوں ان کی گردن کے اوپر رکھ کر ذبیح کیا۔ (متفق علیہ)
قربانی کرنے کا طریقہ
بہتر یہ ہے کہ قربانی خود کرے، اگر خود نہ جانتا ہو تو کسی دوسرے مسلمان کو اپنی طرف سے ذبح کرنے کے لئے کہے۔ بوقت ذبح خود بھی موجود ہو۔ قربانی کے جانور کو بائیں پہلو پر قبلہ رخ لٹائیں اور بسم اللہ اللہ اکبر پڑھتے ہوئے تیز چھری سے ذبح کردیں۔ جانور کے سامنے چھری تیز نہ کریں اور نہ ہی ایک جانور کو دوسرے جانور کے سامنے ذبح کیا جائے۔ ذبح کرنے والے کیلئے یہ کلمات کہنا مسنون ہے:
إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِكِينَ. قُلْ إِنَّ صَلاَتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ. لاَ شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَاْ أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ. اللهم لک ومنا بسم الله، الله اکبر.
جب ذبح کرچکے تو یہ دعا پڑھے:
اللهم تقبله منی کما تقبلت من حبيبک محمد صلیٰ الله عليه وآله وسلم وخليلک ابراهيم (عليه السلام)
قربانی اللہ کی رضا کیلئے کی جائے
قرآن مجید میں ہے:
لَنْ يَّنَالَ اﷲَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَآؤُهَا وَلٰـکِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ.
’’ہرگز نہ (تو) اﷲ کو ان (قربانیوں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون مگر اسے تمہاری طرف سے تقویٰ پہنچتا ہے‘‘۔
(الحج، 22: 37)
یعنی قربانی کرنے والے صرف نیت کے اخلاص اور شروط تقویٰ کی رعایت سے اللہ تعالیٰ کو راضی کرسکتے ہیں۔
مسائل و احکام قربانی
- جس طرح قربانی مرد پر واجب ہے اسی طرح عورت پر بھی واجب ہے۔
- مسافر پر قربانی واجب نہیں لیکن اگر نفل کے طور پر کرے تو کرسکتا ہے ثواب پائے گا۔
- قربانی کے دن گزر جانے کے بعد قربانی فوت ہوگئی۔ اب نہیں ہوسکتی۔ لہذا اگر کوئی جانور قربانی کے لئے خرید رکھا ہے تو اس کو صدقہ کرے ورنہ ایک بکری کی قیمت صدقہ کرے۔
- اگر میت کی طرف سے قربانی کی تو اس کے گوشت کا بھی یہی حکم ہے۔ البتہ اگر میت نے کہا تھا کہ میری طرف سے قربانی کردینا تو اس صورت میں کل گوشت صدقہ کرے۔
- قربانی کرنے والا بقر عید کے دن سب سے پہلے قربانی کا گوشت کھائے یہ مستحب ہے۔
- آج کل اکثر لوگ کھال دینی مدرسہ میں دیتے ہیں یہ جائز ہے۔ اگر مدرسہ میں دینے کی نیت سے کھال بیچ کر قیمت مدرسہ میں دے دیں تو یہ بھی جائز ہے۔
- قربانی کا گوشت یا کھال قصاب یا ذبح کرنے والے کو مزدوری میں نہیں دے سکتا۔
- قربانی کی اور قربانی کے جانور کے پیٹ میں زندہ بچہ ہو تو اسے بھی ذبح کردے اور کام میں لاسکتا ہے اور مرا ہوا ہو تو پھینک دے۔
- خصی جانور کی قربانی افضل ہے کیونکہ اس کا گوشت اچھا ہوتا ہے۔
- قربانی کا گوشت تول کر برابر برابر تقسیم کرنا چاہئے۔
(قانون شريعت، حضرت مولانا شمس الدین)
شب عید کی فضیلت
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’جس نے دونوں عیدوں کی راتوں کو ثواب کا یقین رکھتے ہوئے زندہ رکھا (یعنی عبادت میں مصروف رہا) اس کا دل اس دن نہ مرے گا، جس دن لوگوں کے دل مردہ ہوں گے (یعنی قیامت کے دن خوف و گھبراہٹ سے محفوظ رہے گا)‘‘
(الترغيب والترهيب)
نویں ذی الحج کا روزہ
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بقر عید کی نویں تاریخ کے روزے کے بارے میں فرمایا:
’’میں اللہ تعالیٰ سے پختہ امید رکھتا ہوں کہ وہ اس (روزہ) کی وجہ سے ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کا کفارہ کردے گا‘‘
(صحيح مسلم)
یوم عید کی سنتیں
- صبح سویرے اٹھنا
- مسواک کرنا
- خوشبو لگانا
- غسل کرنا
- نئے یا دھلے ہوئے کپڑے پہننا
- سرمہ لگانا
- ایک راستہ سے آنا اور دوسرے راستے سے جانا
- عید کے بعد مصافحہ کرنا
- عید گاہ جاتے وقت بلند آواز سے تکبیرات کہنا
- عیدالاضحی کی نماز سے پہلے کچھ نہ کھانا اور نماز کے بعد قربانی کا گوشت کھانا مستحب ہے۔
نماز عید کا طریقہ
عید کی نماز دو رکعت واجب ہے۔ اس کی نیت یوں کریں:
’’نیت کرتا ہوں دو رکعت نماز واجب عیدالاضحی کی، ساتھ چھ زائد تکبیروں کے، خاص اللہ تعالیٰ کے لئے، منہ طرف قبلہ شریف کے، پیچھے اس امام کے اللہ اکبر‘‘
تکبیر تحریمہ کے بعد ثناء (سبحانک اللہم۔۔۔۔) پڑھیں پھر ہاتھ اٹھا کر تین تکبیریں علیحدہ علیحدہ کہیں، تیسری تکبیر کے بعد ہاتھ باندھ لیں، پھر امام قرات کرے گا، جسے خاموشی سے سنا جائے، قرات کے بعد حسب معمول رکوع و سجود کریں۔ پھر دوسری رکعت میں امام قرات کرے گا، قرات کے بعد تین تکبیریں ہاتھ اٹھا کر کہیں اور ہر مرتبہ ہاتھ چھوڑ دیں، چوتھی تکبیر بغیر ہاتھ اٹھائے کہہ کر رکوع میں چلے جائیں، باقی نماز حسب معمول مکمل کریں، بعد میں امام صاحب خطبہ مسنونہ پڑھیں گے، جس کا سننا ہر ایک پر واجب ہے۔
ماخوذ از ماہنامہ دختران اسلام، ستمبر 2016
تبصرہ