شبِ قدر کے اجتماع سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا خصوصی خطاب
ترتیب و تدوین: محمد حسین آزاد معاونت: زیب النساء اقبال
24 دسمبر2000ء کو شہر اعتکاف لاہور میں لیلۃ القدر کے روحانی اجتماع میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے واقعہ اصحاب کہف کی عارفانہ تفسیر فرمائی جس کی اہمیت کے پیش نظر ایڈیٹنگ کے بعد اسے بالاقساط شائع کیا جارہا ہے جو قارئین مکمل خطاب سننا چاہیں وہ خطاب کی CD نمبر F5-22 سماعت فرمائیں۔ منجانب: ادارہ دختران اسلام
مولا کو منانے کی ریاضتیں اگلے لوگ کر گئے، جو گزر گئے، وہ بازی جیت گئے۔ انہوں نے کیسی محنتیں کیں اور یہ مقام کیسے حاصل کیا؟
حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اس کے لئے اپنی ساری چاہتیں قربان کرنا پڑتی ہیں۔ حضرت ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا آپ کا مرشد کون ہے؟ فرمایا!’’میرا مرشد میرا ایک غلام ہے‘‘ یعنی میرا اُستاد میرا غلام ہے اور مجھے بندگی کا سبق میرے غلام نے دیاہے۔ اس نے پوچھا: حضرت کیسے؟ فرمایا: میں غلام کو خرید کر لایا اور چاہا کہ اس کی کچھ باتیں پوچھ لوں۔ میں نے غلام سے پوچھا: بیٹے تمہارا نام کیا ہے؟ غلام نے جواب دیا: جس نام سے آپ پکاریں وہی نام ہوگا۔ میں نے پوچھا؟ بیٹے تم کھاتے کیا ہو؟ اس نے کہا مالک جو کھلا دے وہی کھاتا ہوں۔ میں نے پوچھا تمہاری خواہش کیا ہے؟ اس نے کہا! جو آپ کی خواہش ہے وہی میری خواہش ہے۔ فرماتے ہیں: جب یہ سنا تو میری چیخ نکل گئی اور کہا مولا! کاش! میں بھی تیرا اس طرح کا غلام ہوتا۔
اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عباس بن قیس رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا: آپ نے سبق کس سے سیکھا؟کہتے ہیں! ’’میں نے ایک غلام سے سیکھا‘‘۔ پوچھا کیسے؟ فرمایا: میں ایک غلام خرید کر لایا۔ کچھ عرصے کے بعد میں نے اس کو کہا کہ اگر تم محنت مزدوری کر کے مجھے روزانہ ایک دینار کما کے دے دو تو میں تمہیں آزاد کردوں گا۔ اس نے کہا!مجھے رات کی اجازت دے دیں۔ دن کو آپ کی خدمت کروں گا اور رات کو محنت مزدوری کروں گا اور صبح آپ کو روزانہ ایک دینار لا کر دے دیا کروں گا۔ میں نے اجازت دے دی۔ اب وہ سارا دن میری خدمت کرتا اور رات کو چلا جاتا۔ صبح آکر مجھے ایک دینار دے دیتا۔
ایک مرتبہ لوگوں نے اس کی شکایت کی اے امام عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ! آپ کا غلام رات کو جا کر قبریں کھودتا ہے اور تازہ مردوں کے کفن چرا کر انہیں بیچتا ہے اور مردوں کے کفن بیچ کر آپ کو پیسے لاکر دیتا ہے۔ جب امام نے سنا تو کانپ گئے، پریشان ہوگئے اور فرمانے لگے: میں رات کو چل کے خود دیکھتا ہوں۔ رات ہوئی حسب معمول غلام گیا تو اس کے پیچھے چوری چوری خود چل پڑے۔ قبرستان میں پہنچے تو دیکھا کہ غلام نے واقعتا قبر کھودی۔ وہ قریب ہوکر کھڑے ہوگئے۔ سمجھ گئے کہ ماجرا یہی ہے۔ آگے بڑھے دیکھا تو وہ قبر میں اتر گیا۔ آپ کھڑے رہے۔ اندھیرا تھا، دیر تک دیکھتے رہے مگر وہ نہیں نکلا۔ جب آگے جھک کے جو دیکھا تو وہ قبر نہیں تھی بلکہ ایک گڑھا تھا اور وہ ٹاٹ کا لباس پہن کر ہاتھ جوڑ کے مولا کے حضور کھڑا تھا اور اپنی ریاضت میں مصروف تھا اور ساری رات اس گڑھے میں ٹاٹ کا لباس پہن کر مولا کو مناتا رہا۔ جب صبح ہوئی تو وہاں سے نکلا۔ اور مٹی ڈال کر اس گڑھے کو پھر بند کردیا۔ اور نماز پڑھ کے بیٹھ گیا۔ نماز سے فارغ ہوکر ہاتھ اٹھائے اور عرض کیا مولا! ’’اب رات ختم ہوگئی میرا مالک مجھ سے دینار مانگے گا‘‘۔
حضرت عبد اللہ ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا۔ اس کے آگے ایک نور اترا اور وہ نور دینار میں بدل گیا۔ وہ دینار اٹھا کر اس نے جیب میں رکھا۔
حضرت عبد اللہ بن مبارک کہتے ہیں کہ جب میں نے اس کی یہ حالت دیکھی تو میں غلام کے قدموں میں گر گیا۔ اور کہا! کاش جوان تو آقا ہوتا اور میں تیرا غلام ہوتا۔جب یہ فرمایا تو اس غلام کی چیخ نکلی اور عرض کیا! مولا! ’’میرا راز فاش ہوگیا۔اب مجھے دنیا سے اٹھا لے‘‘۔ اتنی بات کہنے کی دیر تھی اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی اور عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کی گود میں وفات پاگیا۔
آپ نے سمجھا کہ ٹاٹ کے لباس میں عبادت کرتا تھا۔ اس کو محبوب ہے لہذا اسی ٹاٹ کے لباس میں دفن کر کے آگئے۔ انہوں نے رات دو براق خواب میں دیکھے۔ ایک پر تاجدار کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سوار ہیں اور ایک پر سیدنا ابراہیم علیہ السلام سوار ہیں اور مجھے اپنے پاس بلاکر فرماتے ہیں: اے عبد اللہ بن مبارک! تم نے ہمارے دوست کو ٹاٹ میں ہی دفن کردیا۔ یہ ہیں وہ اللہ والے جو ریاضت و مجاہدہ سے بازی جیت گئے۔
حضرت رابعہ بصری رحمۃ اللہ علیہا بھی کسی زمانے میں کسی کی باندی تھیں۔ سارا دن مالک کی خدمت کر کے اسے رات کو سلا کر وضو کر کے مصلے پر آجاتی۔ ہر رات کسی کے رونے کی آواز آتی۔ ایک دن مالک نے اُٹھ کر دیکھا۔ مصلے پر رابعہ بصری کیا کہتی ہے؟ وہ سجدے میں گر کر رو رہی تھی اور اپنے مولا سے کہہ رہی تھی:
اے مولا! ’’میں مالک کے کام کر کے تیری بارگاہ میں آتی ہوں اس لئے آنے میں دیر ہوجاتی ہے لہذا دیر ہونے پر گرفت نہ کرلینا‘‘۔ مالک نے جب یہ سنا تو اسے آزاد کردیا۔ لہذا جب انسان اپنے نفس کے حملے اور خواہشوں سے لا تعلق ہوتا ہے تو پھر اس کی اپنی کوئی چاہت، کوئی محبت، کوئی رغبت نہیں رہتی بلکہ اس کی ہر شے کی ذاتی ترجیح ختم ہوجاتی ہے پھر کیفیت یہ ہوتی ہے کہ
حضرت معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ بازار سے گزر رہے ہیں۔ دیکھا کہ ایک پانی پلانے والا غریب، مسکین اور محتاج آدمی مشک اٹھا کر پھر رہا ہے۔بھاری مشکیزے اور تھکاوٹ کی وجہ سے نحیف اور کمزور ہے۔ کوئی شخص اس سے پانی نہیں لے رہا۔ آپ قریب سے گزرے اور وہ یہ بولی لگا رہا تھا۔ ’’جو یہ پانی پیئے گا اس پر اللہ کی رحمت ہوگی۔‘‘
حضرت معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ نفلی روزے کے ساتھ تھے۔ آپ نے آگے بڑھ کر اس سے پانی کا پیالہ لے لیا اور اس کو ایک درہم دے دیا اور خود پانی پی کر روزہ توڑ دیا۔ مریدوں نے پوچھا! حضرت آپ روزے سے تھے۔ پانی کیوں پیا؟ فرمایا: اس غریب کا پانی کوئی نہیں لے رہا تھا۔ اور وہ رب کی رحمت کی بات کر رہا تھا۔ میں نے کہا میں تو روزہ رکھ لوں گا۔ مگر غریب کا آج دل ٹوٹا تو اس کا کفارہ کیسے دوں گا؟
لہذا دوستو! انسان کی ہر ترجیح ختم ہوجاتی ہے۔ بندہ اپنے نفس سے جدا ہوجاتا ہے اور اپنے نفس سے کنارہ کش اور اتنا لا تعلق ہوتا ہے کہ حضرت سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہی کہ تیس سال قبل مجھ سے ایک گناہ ہوا تھا اور آج تیس سال سے اسی کی معافی مانگ رہا ہوں۔ معلوم نہیں مولا نے معاف کیا کہ نہیں کیا۔ پوچھا: حضرت کیا گناہ کیا تھا؟ فرمایا: شہر بغداد میں ہمارے بازار کو آگ لگ گئی تھی۔ سب دوکانیں جل گئی تھیں۔ اس میں میری دوکان بھی تھی۔ کسی نے آکر خبر دی۔ حضرت سب دکانیں جل گئیں مگر آپ کی دوکان بچ گئی۔ اپنی دوکان کا بچنا سن کر بے ساختہ میری زبان سے الحمد ﷲ نکل گیا تھا۔ بس تب سے رو رہا ہوں کہ لوگوں کی دوکانیں جل گئی تھیں میری بچ گئی تھی اور میں نے اپنی دوکان کے بچنے پر الحمد ﷲ کہہ کر خوشی کا اظہار کیا تھا کہیں مولا اس پر گرفت نہ کرلے کہ سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ صرف اپنے مفاد اور اپنی خواہش کی بات کرتا ہے تجھے لوگوں کے جلنے اور ان کی دوکانوں کے جلنے کا غم نہیں صرف اپنے بچنے کی خوشی ہے۔ 30 سال سے اس گناہ پر معافی مانگ رہا ہوں۔
معلوم ہوا کہ جب تک بندہ نفس سے جدا نہ ہوجائے اور مطلوبات نفس اور مرغوبات نفس سے کنارہ کش نہ ہوجائے تب تک روح کا سورج دل پر طلوع نہیں ہوتا۔ لوگو! ہم اندھیرے میں ہیں، ہم ظلمتوں میں ہیں، ہم تباہی میں ہیں، ہم بربادی میں ہیں۔ مگر کبھی اس بربادی کی زندگی میں ہمیں احساس تک بھی ہوا کہ ہم گھاٹے میں جا رہے ہیں اور کدھر جا رہے ہیں؟ لہذا اے انسان تو غضب، حرص اور شہوت کے نفس یعنی کتے کو اتنا کمزور کر دے کہ نفس بھی تیرے تابع ہوجائے کیونکہ نفس اگر تابع ہوجائے تو بندہ جس سمت جاتا ہے اس کا نفس اس کے تابع ہوکر چلتا ہے۔ نفس کو پھر قلب کا مقام مل جاتا ہے۔ دل کو روح کا مقام مل جاتا ہے روح کو سرکا مقام مل جاتا ہے۔ پھر سر کو خفی کا مقام ملتا ہے۔ خفی کو اخفاء کا مقام ملتا ہے اور پھر انسان کے سارے لطائف ترقی کر کے مولا کے حضور اور قربت میں چلے جاتے ہیں۔ نفس پر قلب کی کیفیتیں وارد ہوتی ہیں۔ نفس کو اطمینان میں لے لیا جاتا ہے۔ پھر اس بندے کو روحانی اور فکر طیب کی غذا ملتی ہے۔ اس کے اندر پھر منفی اور تاریک سوچ نہیں آتی۔ وہ اللہ کی ہدایت میں سوچتا ہے۔ اس کے خیالات پاکیزہ ہوتے ہیں۔ وہ لوگوں کا ہمدرد ہوتا ہے اور پھر بندہ خلق خدا کیلئے جیتا ہے۔ روح مولا کیلئے جیتی ہے۔ پھر یہ کیفیت ہوتی ہے۔
امام عالی مقام حضرت امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ کے دروازے پر سائل آگیا اور آکے کہا کہ میں 400 درہم کا مقروض ہوں۔ آپ میرا قرض اتار دیجئے۔ حضرت امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ نے400 درہم دے کر اس کا قرض چکا دیا اور روتے ہوئے اندر داخل ہوئے۔ اہل بیت نے پوچھا! امام عالی مقام! آپ نے تو اس کے ساتھ بھلائی کی اوراس کا قرض ادا کردیا۔ 400 درہم دے کر اس کی مدد کی اور نیکی کی بات کی پھر روتے ہوئے کیوں آگئے؟ فرمایا: اس لیے رو رہا ہوں کہ یہ میرا فرض تھا کہ میں جا کے اس کے حال کی خبر لیتا۔ میں نے اپنے فرض میں کوتاہی کی۔ اگر خبر لی ہوتی تو پھر اس کو سوال کرنے کی ذلت میں مبتلا نہ ہونا پڑتا۔ وہ سائل بن کر میرے دروازے پر نہ آتا۔ وہ جو مانگنے میرے دروازے پر آر ہا ہے۔ اس کا ذلت میں مبتلا ہونا مجھ پر شاق گزر رہا ہے۔
لوگو! پھر فکر اتنی پاکیزہ ہوجاتی ہے اور اتنی لطیف ہوجاتی ہے کہ انسان اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا اور وہ بندہ رشک ملائک ہوجاتا ہے۔ آؤ ہم اپنی اصلاح کیلئے اپنے باطن کی طرف متوجہ ہوں۔ اس مادی دنیا کو اندھیروں سے نکالنے کی فکر کریں۔ آج کی رات عہد کی رات ہے۔ ایک تبدیلی کا فیصلہ کرنے کی رات ہے۔ پھر آج کی رات جب بیت جائے گی اور ماہ رمضان کی ساعتیں چلی جائیں گی پھر ہم میں سے آئندہ سال نہ جانے کون موجود ہواور کون نہ ہو؟
اس لئے آج فیصلہ کریں کہ ہم اس نفسانی وطن کو چھوڑ کر اس روحانی سفر کا وطن اختیار کریں اور اس راہ پر چلیں۔ جس راہ پر اس رب کی محبت ملے یا رب کی قربت ملے یا رب کی رضا ملے اور بالآخر رب خود مل جائے اس کی ابتداء توبہ سے ہوتی ہے اور توبہ گناہوں سے بھی ہے۔ توبہ دنیا پرستی اور دنیا طلبی سے بھی ہے۔ توبہ اس مادی دنیا کی رغبت سے بھی ہے اور توبہ سابقہ زندگی سے بھی ہے۔ آئو سب قسموں کی توبہ کریں۔ اپنے گناہوں سے معافی مانگیں پھر دنیا کی مادی اور نفسانی رغبتوں سے کنارہ کشی کا فیصلہ کریں۔ پھر روحانی وطن کی طرف چلنے کیلئے اللہ سے ہدایت مانگیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمارے حال پر کرم فرمائے اور ہمیں اس توبہ کی توفیق دے جو اس کے محبوبوں اور مقربوں نے کی۔ کیسے کی؟ اب اس کا حال سناتا ہوں۔
حرم کعبہ ہے۔ لوگ طواف میں مصروف ہیں۔ہزارہا لوگ اللہ کے گھر کا طواف کر رہے ہیں۔ ایک جوان جس کے چہرے پر نقاب اور پردہ ہے۔ وہ مقام ملتزم پر کھڑا چہرے کو چھپائے کعبے کا غلاف پکڑ کر زار و قطار رو رہا ہے۔ اس کی آہیں بلند ہو رہی ہیں۔ اس کی چیخیں نکل رہی ہیں اور وہ رو رو کر اپنے مولا کو پکار کر کہہ رہا ہے کہ مولا اس زمین پر درختوں کے اتنے پتّے نہیں نہیں ہوئے جتنے میرے گناہ ہیں۔ سمندر کے اتنے قطرے نہیں جتنے میرے گناہ ہیں۔
معاف کرنے والے مجھے معاف کردے۔ مولا! میرے گناہوں نے مجھے شرمندہ کردیا۔ میں اپنا چہرہ تجھے نہیں دکھا سکتا۔ مجھے معاف کردے۔ ایسی صدائیں بلند ہو رہی ہیں۔ رونے والے کی آواز بلند ہوتی گئی۔ یہاں تک کہ طواف کرنے والوں نے طواف کرنا چھوڑ دیا اور اس کے گرد جمع ہوگئے۔ اس میں کئی اہل اللہ بھی تھے۔ وہ سوچنے لگے کہ جوان اتنا گنہگار ہے؟ کہنے لگے: مولا! ہم سب کے طواف اور عبادتیں اور ان کے اجر بھی اس کو دے کر معاف کردے۔ لوگوں کو اپنے طواف اور عبادتیں بھول گئیں۔ مگر وہ جوان دھاڑے مار مار کر رو رہا ہے۔ جب لوگ برداشت نہ کرسکے۔ تو اہل اللہ میں سے ایک آگے بڑھا۔ اس نے چہرے کے نقاب کو پکڑ کر کہا کہ جوان! تجھے اللہ معاف کردے۔ ہم سے اب سنا نہیںجاتا۔ تیری گریہ و زاری برداشت نہیں ہوتی۔تو چہرے سے نقاب پلٹ اور بتا تو سہی تو اتنا بڑا گنہگار روئے زمین پر ہے کون؟ آپ نے چہرے سے نقاب پلٹا تو وہ امام زین العابدین تھے جو ساجدین کے امام تھے۔ جو عابدین کے امام تھے۔ لوگ تڑپ کے زمین پر گر گئے کہ مولا! اگر امام زین العابدین کا یہ حال ہے تو ہمارے حال کا عالم کیا ہوگا؟
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، اگست 2016
تبصرہ