پاکستان عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر محمد طاہرالقادری 15 جون کو صبح ساڑھے 8 بجے لندن سے علامہ اقبال انٹر نیشنل ایئرپورٹ لاہور پہنچے جہاں ان کا عوامی تحریک کے کارکنان کی طرف سے پرتپاک استقبال کیا گیا۔ پھر 17 جون 2016ء کو پروگرام کے مطابق مال روڈ لاہور اسمبلی ہال کے سامنے عوامی تحریک کے کارکنان اور عوام نے عظیم الشان اور فقیدالمثال تاریخی دھرنا دیا۔ خواتین و حضرات کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر نظر آرہا تھا اور شرکاء کے جذبات بھی دیدنی تھے۔ سٹیج مختلف جماعتوں کے قائدین سے بھرا ہوا تھا۔ سٹیج کے پیچھے قد آور بینر پر درج تھا ’’17 جون ۔ 14 خون۔ کہاں ہے قانون؟‘‘ اس کے ساتھ ہی تحریک کے قائد قاتل حکمرانوں کو للکارتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔ پاکستان کی تمام بڑی پارٹیوں کے قائدین اور نمائندگان کے خطابات کے بعد رات گئے عوامی تحریک کے قائد کا خطاب شروع ہوا تو پورا لاہور فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھا۔ لوگ اپنے گھروں میں TV پر خطاب سننے کے لئے بے تاب تھے۔ حکمرانوں کی نیندیں اڑی ہوئی تھیں کہ نہ جانے ڈاکٹر محمد طاہرالقادری آج کیا اعلان کرنے والے ہیں۔ وہ بھی اپنے گھر کے ڈرائینگ روم میں TV کو آن کئے بیٹھے ہونگے اور دو گھنٹے ہمہ تن گوش ہوکر اپنے مردہ ضمیر پر کفِ افسوس ملتے ہونگے اور ان کا ضمیر انہیں جھنجھوڑتے ہوئے انہیں لعنت ملامت کرتا ہوگا کہ آگے جاکر تو جہنم کا ایندھن بننا ہی ہے اب دنیا میں عوام کو کیا جواب دو گے؟ عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی جرات مندانہ اور بے باک آواز گونج رہی تھی کہ
ماڈل ٹاؤن سانحہ کے ذمہ دار شریف برادران اور ان کے حواری ہیں جنہوں نے دن کی روشنی میں 14 لوگ شہید اور 100 سے زائد کو زخمی کیا، یہ سارا قتل عام یکطرفہ تھا۔ اگر دن کی روشنی میں ہونے والی اس خون ریزی کے ذمہ داروں کو سزا نہیں دینی تو پھر پارلیمنٹ قانون بنا دے کہ ریاست جسے چاہے مار دے اور مرنے والے کو انصاف حاصل کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہو گا۔ پولیس سے ہماری کوئی دشمنی نہیں، پولیس نے حکمرانوں کے حکم پر خون کی ہولی کھیلی، وزیراعلیٰ نے 17 جون 2014 ء کی شام اعلان کیا تھا کہ جوڈیشل کمیشن نے میری طرف اشارہ بھی کیا تو استعفیٰ دے دوں گا کمیشن نے اشارہ تو کیا پورا ہاتھ سر پر رکھ دیا۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر عدالت کے حکم پر بھی درج نہیں ہورہی تھی، آرمی چیف کی مداخلت سے درج ہوئی اب ہماری ان سے درخواست ہے جس قانون کے تحت انہوں نے ایف آئی آر درج کروائی اسی قانون کے تحت انصاف بھی دلوائیں۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کا کیس فوجی عدالت میں چلایا جائے۔ دہشتگردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خاتمے کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لینے والے سپہ سالار اعظم نے ماڈل ٹاؤن کے مظلوموں کو انصاف نہ دلوایا تو قیامت کے دن ان سے سوال ہو گا۔ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ شائع کی جائے اور جے آئی ٹی کی رپورٹس کی مصدقہ نقول ہمیں فراہم کی جائیں۔
ٍ انہوں نے مزید کہا کہ یہ 17 جون کا دھرنا شہدائے ماڈل ٹاؤن کو انصاف دلوانے کیلئے ہے۔ ہم دو سال سے در در دھکے کھارہے ہیں مگر ہمیں انصاف نہیں دیا گیا، ہم انصاف لینے گئے تو ہمارے ہی 42 کارکنان جو سانحہ کے زخمی اور چشم دید گواہ ہیں ان کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی گئی۔ پنجاب حکومت نے سانحہ ماڈل ٹاؤن پر2 جے آئی ٹیز بنائیں، ایک جوڈیشل کمیشن بنایا، ایک ری ویو کمیٹی بنائی مگر ہمیں کسی انکوائری کی رپورٹ نہیں دی گئی، رپورٹ اس لیے نہیں دی گئی کہ ان انکوائریوں میں واشگاف بتایا گیا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں پولیس کی طرف سے یکطرفہ قتل کیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے پرائیویٹ سکیورٹی کی خدمات لے رکھی تھیں مگر ہم نے انہیں دفاع میں فائرنگ نہیں کر نے دی ورنہ پولیس کی طرف سے بھی درجنوں افسران اور اہلکاروں کی لاشیں اٹھتیں ہم پرامن لوگ ہیں اور صرف لاشیں اٹھاتے رہے اور اب بھی پرامن احتجاج کے ذریعے انصاف کا حق مانگ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا ہے کہ مال روڈ پر عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ماڈل ٹاؤن کے قاتلوں کے خلاف ریفرنڈم ہے، ظالم سن لیں عوامی تحریک کا کارکن نہ ڈرا ہے نہ جھکا ہے اور نہ تھکا ہے۔ ماڈل ٹاؤن میں ظلم کرنے والوں کو عبرتناک سزائیں ملنے سے حکومتی سرپرستی میں ہونے والی غنڈہ گردی اور قتل و غارت گری کے سیاسی کلچر کاہمیشہ ہمیشہ کیلئے خاتمہ ہوگا۔
موجودہ ظالم اور کرپٹ حکمران اپنے انجام کے قریب ہیں انہیں بیساکھیاں دینے کی کوشش کرنے والے بھی عبرتناک انجام سے دو چار ہونگے۔ یہ وقت ذات، جماعت اور اقتدار بچانے کا نہیں ملک بچانے کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ ظالم نظام کے خلاف فیصلہ کن راؤنڈ میں عوامی تحریک کے کارکن اور ان کے قائدین ہمیشہ کی طرح سب سے آگے ہونگے لیکن اس بار پاکستان کے ہر شہری کو ملک بچانے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ عوام اپنا ملک اور اپنے گھر بچانے کیلئے گھروں سے باہرنکلیں۔ انہوں نے کہا کہ ان ظالموں نے غریب کے بچے سے تعلیم، صحت کی سہولتیں چھین لیں۔ غریب نوجوانوں سے روزگار چھین لیا۔ قومی دولت ذاتی تجوریوں میں بھر لی اور بھاری قرضے لے کر من پسند منصوبوں پر خرچ کیے جارہے ہیں جن کا سود آئندہ نسلیں ادا کریں گی۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت ہر سال ساڑھے 13 سو ارب اور پنجاب 124 ارب روپے سود اور قرضوں کی مد میں ادا کرتی ہے یہ رقم تعلیم، صحت، انصاف اور صاف پانی کے مجموعی بجٹ سے کہیں زیادہ ہے۔ ملک 25 ہزار ارب کا مقروض ہو چکا اور مزید قرضے لیے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جو حکمران اپنے 30 سالہ اقتدار میں سرکاری سکولوں کو بنیادی سہولتیں نہ دے سکے، شہریوں کو پینے کا صاف پانی نہ دے سکے، مظلوم کو انصاف نہ دے سکے، لوڈشیڈنگ کا خاتمہ نہ کر سکے انہیں مزید مسلط رہنے کا کوئی قانونی اور اخلاقی حق حاصل نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ جتنا جلد ممکن ہو سکے پانامہ کے چوروں سے جان چھڑوا لی جائے ورنہ نقصان کا ازالہ ناممکن ہو جائے گا۔
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، جولائی 2016
تبصرہ