ڈاکٹر ابوالحسن الازہری
جب ہم اس کائنات میں غورو فکر کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو اس کائنات میں بڑی مرکزی اہمیت حاصل ہے اور اس کائنات کی ہر چیز اس کے لئے مسخر ہے اور یہ انسان اپنی عقل کی بناء پر ہر شے کو اپنے تصرف میں لارہا ہے۔ یوں انسان اس کائنات کا بادشاہ اور شہنشاہ دکھائی دیتا ہے۔ اتنی زیادہ قوت و طاقت کی بناء پر اس کے پھسلنے کے خدشات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ ان سے بچانے کے لئے انسان کو باری تعالیٰ نے اپنا کلام قرآن عطا کیا ہے اور بلاشبہ انسان اور قرآن اس کائنات کی دو مسلمہ حقیقتیں ہیں اور ان دونوں میں سے قرآن نے انسان کے بارے میں بتادیا ہے کہ وہ انسان کیا ہے، اب انسان کے لئے سب زیادہ ضروری ہے کہ قرآن کو پڑھے، سمجھے اور بار بار اس میں غوروفکر کرے تاکہ وہ اپنی انسانیت کی حقیقت کو پاجائے اور قرآن کے نزول سے لے کر اور ہدایت کی فراہمی اور رسانی تک سارے امور قرآن کو بخوبی جان لے اور دوسروں کو اس قرآن کی آفاقی تعلیمات سے صحیح معنوں میں آگاہ کرے۔ انسان کو بندہ رحمن بننے کے لئے قرآن سے بہتر کوئی چیز راہنمائی نہیں دے سکتی۔ اب ہم قرآن ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں کہ یہ کب نازل ہوا اور اس کے نازل کرنے کا مقصد رب کے نزدیک کیا ہے اور انسان نے اس قرآن کے بارے میں کیا نقطہ نظر اپنایا ہوا ہے؟ سورہ بقرہ میں ارشاد فرمایا:
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًی لِّلنَّاسِ وَبَيِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰی وَالْفُرْقَانِ.
’’رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اتارا گیا ہے جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور (جس میں) رہنمائی کرنے والی اور (حق و باطل میں) امتیاز کرنے والی واضح نشانیاں ہیں‘‘۔
(البقرة، 2: 185)
ہماری خوش نصیبی ہے کہ باری تعالیٰ نے ہمیں اپنی زندگی میں شہر رمضان عطا فرمایا اور یہ نزول قرآن کا مہینہ ہے اور وہ قرآن جو لوگوں کے لئے اس لئے نازل کیا گیا تاکہ وہ اس قرآن کے ذریعے ہدایت پائیں اور اس قرآن کے ذریعے حق و باطل، سچ اور جھوٹ کے درمیان امتیاز کریں اور اس قرآن کو اپنے لئے ساری زندگی میں سرچشمہ ہدایت ’’هدی للناس‘‘ سمجھیں اور اس کی ’’بيِّنٰت‘‘ سے مستفید ہوں اور اس قرآن سے راہنمائی حاصل کریں۔
قرآن کا نزول ہدایت کے لئے ہے
اس آیہ کریمہ میں ’’ہدی للناس‘‘ کے الفاظ ہمیں پکار پکار کر یہ دعوت دے رہے ہیں کہ قرآن کے نزول کا مقصد کیا ہے۔ قرآن ہمیں کیوں عطا کیا گیا اور قرآن کو ہمارے لئے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محفوظ کیوں کیا گیا۔ قرآن کے پڑھنے کی ہمیں ترغیب کیوں دی گئی۔ قرآن کے ایک ایک حرف کو پڑھنے پر دس نیکیوں کا وعدہ کیوں کیا گیا؟ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
من قرا حرفا من کتاب الله فله به حسنة والحسنة بعشر امثالها ولا اقول الم حرف ولکن الف حرف و لام حرف و ميم حرف.
جس شخص نے قرآن حکیم کا ایک حرف پڑھا اس کے لئے نیکی ہے اور یہ ایک نیکی دس نیکیوں کے برابر ہے میں یہ نہیں کہتا الم ایک حرف ہے بلکہ اس میں الف الگ حرف ہے لام الگ حرف ہے اور میم الگ حرف ہے۔ ہر ایک حرف پر ثواب دس نیکیوں کا ہے۔
(جامع ترمذی، فضائل القرآن)
قرآن کے الفاظ و کلمات کو پڑھنے پر اتنا زیادہ اجر و ثواب عطا کرنے کا وعدہ کیوں کیا گیا۔ ان ساری ترغیبات کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ ہم قرآن پڑھنے کی طرف راغب ہوجائیں اور قرآن پڑھتے پڑھتے اس سے ہدایت اخذ کرنے کی طرف متوجہ ہوجائیں۔ قرآن کے ذریعے ہم اپنے دین کو سیکھ لیں۔ قرآن کے ذریعے ہم اپنے مولا کو پالیں اور قرآن کے ذریعے اس کی توحید کی معرفت حاصل کرلیں اور قرآن کے ذریعے ہم اس کی بندگی کی حقیقت کو پالیں۔ حتی کہ قرآن کے ذریعے ہم اپنے مولا کی رضا کو پالیں۔
الہامی کتابوں کے نزول کا مقصد ہدایت ہے
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ باری تعالیٰ نے جتنی بھی کتابیں آج تک انبیاء علیہم السلام پر نازل کی ہیں۔ ان سب کا مقصد انسانوں کی ہدایت رہا ہے۔ انبیاء علیہم السلام کو یہ صحائف اور یہ کتب اس لئے دی گئیں تاکہ ان کے ماننے والے اور ان پر ایمان لانے والے ان کتب اور صحائف سے ہدایت حاصل کریں۔ چنانچہ اس حوالے سے حضرت موسیٰ علی السلام اور آپ پر نازل کی گئی کتاب تورات کے بارے میں باری تعالیٰ سورۃ البقرہ اور سورۃ المومنون میں ارشاد فرماتا ہے:
وَاِذْ اٰتَيْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ وَالفُرْقَانَ لَعَلَّکُمْ تَهْتَدُوْنَ.
’’اور جب ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب اور حق و باطل میں فرق کرنے والا (معجزہ) عطا کیا تاکہ تم راہ ہدایت پاؤ‘‘۔
(البقرة،2: 53)
سورۃ المومنون میں یوں ارشاد فرمایا:
وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ لَعَلَّهُمْ يَهْتَدُوْنَ.
’’اور بے شک ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب عطا فرمائی تاکہ وہ لوگ ہدایت پا جائیں‘‘۔
(المومنون، 23: 49)
ان دونوں آیات میں یہ الفاظ ’’اذ اتينا موسیٰ الکتب‘‘ اور ’’لقد اتينا موسی الکتب‘‘ کے الفاط ہمیں اس طرف متوجہ کرتے ہیں کہ باری تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کتاب تورات عطا کی لیکن سوال یہ ہے کہ یہ کتاب باری تعالیٰ نے انہیں کیونکر عطا کی؟ کس مقصد کے لئے دی؟ اس کتاب کے اور دیگر کتب سماوی کے نازل کرنے کا مقصد رب کے نزدیک کیا ہے؟ ان ہی آیات کے اگلے الفاظ ان کتابوں کے نزول کے مقصد کو واضح کررہے ہیں کہ وہ الفاظ یہ ہیں: ’’لعلهم يهتدون‘‘ اور ’’لعلکم تهتدون‘‘ تاکہ وہ ہدایت پائیں اور تاکہ تم ہدایت پاؤ۔ گویا کتب سماوی اور ہدایت لازم و ملزوم ہے۔ انبیاء علیہم السلام اور ان کی کتب کے بغیر ہدایت کو نہیں پایا جاسکتا۔
رسول اللہ کی ذات اور قرآن ہدایت ہیں
حضرت امام مالک اپنی کتاب میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
عن مالک انه بلغه ان رسول الله صلیٰ الله عليه وآله وسلم قال ترکت فيکم امرين لن تضلوا ماتمسکتم بهما کتاب الله وسنة نبيه. (رواه مالک والحاکم عن ابی هريره رضی الله عنه)
’’میں تمہارے پاس دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں اگر تم انہیں تھامے رکھو گے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے۔ ایک اللہ کی کتاب اور دوسری تمہارے نبی کی سنت‘‘۔
یہ حدیث مبارکہ بھی ہمیں اس حقیقت کی طرف متوجہ کرتی ہے کہ کتاب اللہ اور سنت رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمسک میں ہی ہدایت ہے۔ جس نے کتاب اللہ کو اور سنت رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سختی سے پکڑ لیا وہ کبھی بھی گمراہ نہ ہوگا۔ وہ ہدایت پر ہی رہے گا۔ لیکن اب سوال یہ ہے کتاب اللہ یعنی قرآن کا تمسک کیسے کیا جائے، قرآن کو مضبوطی سے کیسے پکڑا جائے، قرآن سے اپنا تعلق کیسے قائم کیا جائے اور قرآن کو اپنی زندگی میں کس طرح اختیار کیا جائے۔ قرآن کے ساتھ ہمارا ربط کیسا ہو اور قرآن ہماری زندگیوں میں کیسے نظر آئے۔ ہمارا عمل قرآن کے مطابق کیسے ہو۔ ہمارا قول قرآن کے مطابق کیسے ہو۔ ہمارا خلق قرآن کے مطابق کیسے ہو۔ ہماری سیرت اور ہماری شخصیت قرآن کے مطابق کیسے ہو۔ ہم کیسے یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ قرآن کے ساتھ ہمارا وہ تعلق قائم ہوگیا ہے جس کا حکم اللہ اور رسول نے دیا ہے اور یوں ہماری ساری زندگی قرآن کے مطابق ہو اور ہم قرآن سے باہر نہ ہوں تاکہ ہمیں قرآن کے نزول کا مقصد ہدایت عظمیٰ حاصل ہوجائے۔
رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذمہ داری ہدایت تک پہنچانا ہے
باری تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اگر تم قرآن کو بھی اور میرے نبی کی سنت کو بھی ایک ہی جگہ ایک شخص میں دیکھنا چاہتے ہو تو وہ میرے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ہے۔ جس نے تمہیں قرآن بھی پہنچایا اور اپنی سنت بھی تمہیں سکھائی ہے۔ اس لئے اس رسول کی یہی ذمہ داری تھی۔
وَمَا عَلَی الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِيْنُ.
’’اور رسول (صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر (احکام کو) صریحاً پہنچا دینے کے سوا (کچھ لازم) نہیں ہے‘‘۔
(النور، 24: 54)
گویا اس رسول معظم نے اللہ کے احکام کو اور اللہ کے دین کو قرآن اور اپنی سنت کے ذریعے ’’البلغ المبين‘‘ یعنی واضح طور پر پہنچادیا ہے۔
رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا فرض نبوت بتمام و کمال ادا کردیا ہے۔ اللہ کا دین تم تک پہنچادیا ہے اور اس دین کے پہنچانے پر تم بھی خطبہ حجۃ الوداع کی صورت میں اقرار کرچکے ہو اور اللہ بھی تمہارے اس اقرار پر گواہ و شاہد ہے۔
ہدایت کی عملی صورت اطاعت رسول ہے
اب تمہاری فقط یہی ذمہ داری ہے:
وان تطيعوه تهتدوا.
’’اگر تم ان کی (رسول کی) اطاعت کرو تو ہدایت پاجاؤ گے‘‘۔
(النور،24: 54)
گویا رسول کی اطاعت میں تمہارے لئے ہدایت کا سامان رکھ دیا گیا ہے۔اب رسول کی اطاعت تمہیں کیسے اختیار کرنی ہے۔ اس اطاعت کی عملی صورت یہ ہے کہ تم رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کہی ہوئی ہر بات کو، ہر حدیث کو، ہر فرمان کو اپنا عمل بنالو۔ تم اپنی گفتار کو رسول اللہ کی گفتار پر استوار کرو۔ تم اپنے قول کو رسول اللہ کے قول سے روشنی دو۔ تم اپنے فعل کو فعل رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے راہنمائی دو۔ تم اپنے خلق کو خلق رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آشنا کرو۔ تم اپنی ذات کو رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات میں اطاعت کے باب میں فنا کردو۔ ’’تھتدوا‘‘ تم ہدیات پاجاؤ گے۔ اس لئے کہ رسول اللہ کی اطاعت خود اللہ کی اطاعت ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اﷲَ.
’’جس نے رسول (صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم مانا بےشک اس نے اللہ (ہی) کا حکم مانا ‘‘۔
(النساء، 4: 80)
گویا قرآن اس مقام پر واضح کررہا ہے کہ تمہیں ہدایت اس وقت تک میسر نہیں آسکتی جب تک تم خود کو رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت میں ڈھال نہ لو اور رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کا پیکر مجسم نہ بن جاؤ اور اطاعت رسول کو اپنا اوڑھنا بچھونا نہ بنالو اور اپنی حیات کو اطاعت رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آشنا نہ کردو، گویا ہدایت عطاکئے جانے کی ضمانت اطاعت رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔
اطاعت رسول کا نتیجہ صراط مستقیم ہے
قرآن ہدایت کو رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کے ساتھ لازم و ملزوم کرتا ہے۔ اس لئے کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس سراپا ہدایت ہے اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو باری تعالیٰ نے ساری کائنات کے لئے ہادی بنایا ہے۔ اس لئے ارشاد فرمایا:
وَاِنَّکَ لَتَهْدِيْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ.
’’اور بے شک آپ ہی صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت عطا فرماتے ہیں‘‘۔
(الشوریٰ، 42: 52)
اس آیت کریمہ نے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تعارف ہی صراط مستقیم کی ہدایت عطا کرنے والا کرایا ہے اور آپ کی ذات سے وابستہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو صراط مستقیم کی ہدایت مل گئی اور انسان کو وہ ہدایت مل گئی جو اس کی زندگی کا حاصل ہے۔ جو اس کا زندگی کا مقصود ہے۔
اتباع فنائیت مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام ہے
رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس سے ہدایت حاصل کرنے کی پہلی صورت اطاعت رسول ہے جس کا ذکر ہم کرچکے، دوسری صورت کا بھی قرآن ذکر کرتا ہے اور وہ ہے اتباع رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاتَّبِعُوْهُ لَعَلَّکُمْ تَهْتَدُوْنَ.
’’اور تم انہی کی پیروی کرو تاکہ تم ہدایت پاسکو‘‘۔
(الاعراف، 7: 158)
اب اس آیت کریمہ میں ہدایت عطا کئے جانے کا انحصار رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع پر رکھ دیا گیا ہے جو اتباع رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ڈھلے گا وہی ہدایت پانے والا ہوگا جو خودکو اتباع رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیکر بنائے گا وہ ہدایت یافتہ ہوگا۔ جو خود کو رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع میں فنا کرے گا وہی ہدایت کا حقدار ہوگا۔ اتباع رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نقوش پا کی تلاش میں خود کو فنا کردینا ہے۔ اتباع میں دل کا غلبہ ہوتا ہے اور اطاعت میں عقل کا غلبہ ہوتا ہے۔اطاعت، قول و فعل رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وجہ جانتی ہے۔ اتباع، قول و فعل رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وجہ بھی نہیں جانتی۔
تصور اطاعت اور اتباع کا باہمی تعلق
اطاعت میں محبت رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غلبہ ہوتا ہے اور اتباع میں عشق رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غلبہ و تفوق ہوتا ہے۔ اطاعت، رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شرعی اداؤں کو اختیار کرنے کا نام ہے اور اتباع، رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر ادا کو اختیار کرنے کا نام ہے۔ اطاعت میں اپنی شخصیت کا احساس رہتا ہے اور اتباع میں رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت ہی باقی رہ جاتی ہے۔ اطاعت میں اپنے وجود کا خیال رہتا ہے۔ اتباع میں اپنا وجود بھی وجود مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں فنا کردیا جاتا ہے۔ اس لئے ارشاد فرمایا:
واتبعوه لعلکم تهتدون
’’اس رسول کی اتباع میں ڈھل جاؤ تاکہ تم ہدایت یافتہ ہوجاؤ‘‘۔
رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع ہی انسان کو ’’لعلکم تهتدون‘‘ کا اعزاز بھی دیتی ہے اور ’’يحببکم الله‘‘ کا مقام رفیع اور اس دنیا کی سب سے بڑی نعمت اور سب سے بڑا انعام، سب سے بڑا اکرام اور شان بندگی کا سب سے بڑا مقام بھی رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع ہی عطا کرتی ہے۔ اس لئے ارشاد فرمایا:
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اﷲَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْکُمُ اﷲُ وَيَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ.
’’(اے حبیب!) آپ فرما دیں: اگر تم اﷲ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اﷲ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا اور تمہارے لیے تمہارے گناہ معاف فرما دے گا‘‘۔
(آل عمران، 3: 31)
فرمایا اتباع رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تم کوئی معمولی چیز نہ سمجھو یہی وہ اتباع ہے جو تم کو رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بھی مقرب بناسکتی ہے اور رب کا بھی محبوب بناسکتی ہے۔ اگر تم رب کی محبوبیت چاہتے ہو اور اس کی محبت چاہتے ہو، اس کی بندگی کی معرفت چاہتے ہو اور اس کا ہوجانا چاہتے ہو تو اس کی ایک ہی صورت ہے کہ خود کو اتباع مصطفی میں ڈھال لو۔ اتباع رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی زندگیوں میں اختیار کرلو، تمہیں مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی مل جائے گا خدا بھی مل جائے گا اور ہدایت بھی مل جائے گی اور خدا کے محبوب بھی ہوجاؤ گے۔
لیلۃ القدر اور قرآن کا نزول
اس قرآن کو کتاب ہدایت کی صفت عظیم کے ساتھ متصف کرکے باری تعالیٰ نے لیلۃ القدر کی ساعتوں میں زمین پر اتارا ہے۔ لیلۃ القدر کو نزول قرآن کی وجہ سے جو فضیلت و اہمیت حاصل ہے خود قرآن اس کا ذکر یوں کرتا ہے:
اِنَّآ اَنْزَلَنٰهُ فِيْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ. وَمَآ اَدْرٰکَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ. لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍ.
’’بے شک ہم نے اس (قرآن) کو شبِ قدر میں اتارا ہے۔ اور آپ کیا سمجھے ہیں (کہ) شبِ قدر کیا ہے؟ شبِ قدر (فضیلت و برکت اور اَجر و ثواب میں) ہزار مہینوں سے بہتر ہے‘‘۔
(القدر، 97: 1تا3)
آج کی رات نزول قرآن کی رات ہے۔ نزول قرآن ہونے کی وجہ سے اسے لیلۃ القدر کانام دیا گیا ہے۔ یہ رات ہزار راتوں سے افضل رات ہے۔ یہ رات اللہ کی رحمت کی رات ہے اور یہ رات نزول ملائکہ اور نزول روح الامین کی رات ہے۔ اس رات کا ایک ایک لمحہ خیروبرکت کا ہے۔ اس رات کاایک ایک پل سلامتی کا ہے۔ یہ رات غروب آفتاب سے فجر تک سلامتی کی رات ہے اور یہ اللہ کے فضل و کرم کی رات ہے۔ نزول قرآن کی یہ رات ہمیں یہ پیغام دیتی ہے:
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَهُ لَحٰفِظُوْنَ.
’’بے شک یہ ذکرِ عظیم (قرآن) ہم نے ہی اتارا ہے اور یقینا ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے‘‘۔
(الحجر، 15: 9)
ہم نے اس قرآن کو سفینوں میں محفوظ کردیا ہے اور ہم نے اس قرآن کو سینوں میں بھی محفوظ کردیا ہے۔ صحیفوں، سفینوں میں چودہ سو سال سے محفوظ چلا آرہا ہے اور سینوں میں بھی چودہ سو سال سے محفوظ چلا آرہا ہے اور ہر رمضان المبارک میں صلاۃ الراویح کی صورت میں یہ سینے قرآن کے محفوظ ہونے کی زندہ علامت اور شہادت بن جاتے ہیں۔ کوئی ہے جو اب بھی رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس زندہ معجزہ کا انکار کرے۔
فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ.
’’پس (اے گروہ جنّ و انسان) تم دونوں اپنے رب کی کِن کِن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟‘‘۔
(الرحمن، 55: 13)
قرآن اپنی ہدایت عظمیٰ پر خود شہادت ہے
قرآن ہمارے اندر اللہ کی وحدانیت اور اس کی توحید کی ایک ابدی شہادت بن کر موجود ہے۔ قرآن ہمارے اندر رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت و رسالت کی ایک روشن علامت بن کر موجود ہے اور دین اسلام کی صداقت و حقانیت کی سب سے بڑی دلیل یہ قرآن ہے۔ یہ ایک کتاب زندہ ہے۔ یہ کتاب مردہ دلوں کو زندگی دیتی ہے۔ یہ کتاب مردہ سوچوں کو افکار تازہ دیتی ہے۔ یہ کتاب انسانی عملوں کی اصلاح کرتی ہے۔ یہ کتاب انسانی رویوں کو درست کرتی ہے حتی کہ اس کتاب کا موضوع ہی ’’ہدی للناس‘‘ ہے اور یہ کتاب ’’وبینت من الھدی والفرقان‘‘ ہدایت کی نشانیوں سے مملو ہے اور حق و باطل کے امتیازات سے بھرپور ہے اور کل عالم انسانیت میں ہر دور میں اور ہر زمانے میں اور آج تک کوئی کتاب یہ دعویٰ کرسکی ہے اور نہ کرسکے گی اور یہ اس کتاب قرآن کا کھلا چیلنج ہے۔ قرآن اپنے اس چیلنج کو ہر زمانے کے لوگوں سے مخاطب ہوکر یوں کرتا ہے:
اِنَّ هٰذَا الْقُرْاٰنَ يَهْدِيْ لِلَّتِيْ هِيَ اَقْوَمُ.
’’بے شک یہ قرآن اس (منزل) کی طرف رہنمائی کرتا ہے جو سب سے درست ہے ‘‘۔
(بنی اسرائيل،17: 9)
یہ قرآن ہی سب سے زیادہ مضبوط اور مستحکم ہدایت کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔ قرآن کی ہدایت سے بڑھ کر کوئی ہدایت نہیں اور قرآن کی ہدایت سے بڑھ کر کوئی ہدایت اقوم سیدھی اور مضبوط اور مستحکم نہیں۔
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام جون 2016
تبصرہ