رابعہ نسرین۔ منہاج کالج برائے خواتین
جہیز کے لغوی معنیٰ
لفظ جہیز دراصل عربی زبان کے لفظ ’’جھاز‘‘ سے نکلا ہے جس کا اطلاق اس سازو سامان پر ہوتا ہے جس کی ضرورت (مسافر کو دوران سفر یا دلہن کو نئے گھر سنبھالنے یا میت کو قبر تک پہنچانے کے لئے) ہوتی ہے۔
یہ باب تفعیل جھز یجھز تجھیزا سے مصدر ہے جس کے معنی ہیں سامان تیار کرنا، مہیا کرنا خواہ وہ کسی مسافر کے لئے، کسی دلہن کے لئے یا کسی میت کے لئے ہو۔ مثلاً حضرت یوسف علیہ السلام اور ان کے بھائیوں کے قصہ کے بیان میں قرآن مجید میں ارشاد ہوا:
وَلَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ.
’’اور جب یوسف (علیہ السلام) نے ان کا سامان (زاد و متاع) انہیں مہیا کر دیا‘‘۔
(يوسف، 12: 59)
جہیز کے اصطلاحی معنیٰ
امام راغب اصفہانی نے مفردات القرآن میں یوں لکھا ہے:
الجهاز مايعد من متاع وغيره التجهيز حمل ذالک او بعثه.
جھاز اس سامان کو کہا جاتا ہے جو (کسی کے لئے) تیار کیا جاتا ہے اور اسی سے تجہیز ہے جس کے معنی ہیں اس سامان کو اٹھانا یا بھیجنا۔
(راغب اصفهانی، امام مفردات، القرآن، شيخ شمس الحق 338 اقبال تاؤن لاهور، س ن، 238)
اسلامی انسائیکلوپیڈیا کی روشنی میں جہیز وہ سازو سامان ہے جو لڑکی کو نکاح کے بعد اس کے ماں باپ کی طرف سے دیا جاتا ہے۔
(قاسم محمود، سيد، اسلامی انسائيکلوپيديا، الفضل تاجران کتب، اردو بازار لاهور، 756)
جہیز کا پس منظر
ہمارے ہاں شادی بیاہ کی بیشتر رسومات ہندوانہ کلچر سے مستعار لی گئی ہیں کیونکہ برصغیر میں مسلمانوں کی فتوحات اور آمد سے پہلے ہندوئوں کا راج تھا جو ان گنت خدائوں کے پجاری اور بری رسومات میں جکڑے ہوئے تھے اور کسی بھی سماوی مذہب سے کوسوں دور تھے حتی کہ بے شمار ہندوئوں کے اسلام میں داخل ہونے کے باوجود ان کے ہندوانہ کلچر کے اثرات ان سے محو نہ ہوسکے اور بے شمار قبیح رسومات اور فضول روایات مسلسل ان میں رواج پذیر رہیں۔ اگرچہ مسلمانوں نے ہمیشہ اسلامی تشخص کا امتیاز برقرار رکھنے کی ہی کوشش کی لیکن تہذیب و تمدن، معاشرت اور ثقافت میں جب ترقی ہوتی ہے تو دولت و ثروت کی فراوانی ہونے لگتی ہے۔ بچے کے پیدا ہونے سے لے کر مرنے تک نئی نئی رسوم اور طریقے ایجاد ہوتے ہیں۔ یا یوں کہیے کہ مہد سے لے کر لحد تک کئی رسومات ہونے لگتی ہیں اور مرنے کے بعد بھی اس کا سلسلہ باقی رہتا ہے۔
ہندوستان میں زیادہ تر مغل فرمان روا شہنشاہ اکبر اور دکن میں سلطان محمد قلبی قطب شاہ نے مسلمانوں اورہندوئوں کو آپس میں ملانے، اتحاد اور اتفاق پیدا کرنے اور یگانگت کی فضاء قائم کرنے کے لئے بہت سی ہندوانہ رسومات کو آپس میں ملالیا تھا۔ یکجہتی پیدا کرنے کی خاطر ایسی ایسی رسومات اختیار کرلیں، نکاح اور شادی کے موقعہ پر رسم مہندی رتجگا، مانجھا، حلوہ اور بری وغیرہ جن کا اسلامی تہذیب یا مسلمانوں سے کہیں وجود نہ تھا۔
انہی رسومات میں سے ایک رسم جہیز کی تھی چونکہ لڑکیوں کو اپنی جائیداد میں سے حصہ نہیں دیتے تھے اس لئے شادی کے وقت اکٹھا ہی جو میسر ہوسکا جہیز کے نام سے لڑکی کے حوالے کردیا۔ ہندوئوں کی دیکھا دیکھی مسلمانوں نے بھی آہستہ آہستہ اس رسم کو اپنالیا حتی کہ جہیز شادی کا جزو لاینفک بن گئی اور غریب والدین کے لئے مستقل درد سر بن گئی جس نے اب آسان دین کے آسان احکام میں اتنی تنگی پیدا کردی کہ بظاہر چھٹکارے کی کوئی صورت ناممکن تو نہیں لیکن مشکل ضرور ہے۔
(موسیٰ خان، اسلام مين عورت کی حيثيت، دعا پبلی کيشنز، لاهور، 2004ء، 103)
قاری سید محمد شفیق صاحب اپنے کتابچہ ’’رسم جہیز اور مسئلہ وراثت‘‘ میں جہیز کا پس منظر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ہندوستان کے جو غیر مسلم، اسلام میں داخل ہوئے ان میں سے اکثر و بیشتر کی دینی تربیت نہ ہوسکی۔ اس وجہ سے ان میں دینی تعلیمات، عقائد و اعمال کا فقدان رہا لہذا انہوں نے جہالت کی وجہ سے ہندوئوں کی بعض مذہبی اور سماجی رسموں کو برقرار رکھا مثلاً جہیز دینا اور بیٹیوں کو وراثت سے محروم رکھنا، بیساکھی اور بسنت کے میلے، نیز ہندوئوں کی بیاہ شادی کی کم و بیش تمام رسوم کی پابندی۔ منگنی، تیل، مہندی اور سہرا بندی کی رسوم، باجے، ناچ گانے و دیگر خرافات اسی طرح ادا کررہے ہیں جیسے ہندو ادا کرتے ہیں۔ مسلم اور ہندو کی شادیوں میں اگر فرق رہ گیا ہے تو وہ مولانا صاحب سے نکاح پڑھوانے اور ولیمے کا فرق ہے اور کوئی فرق نہیں۔ علامہ اقبال کے بقول:
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
اسلام میں جہیز کا تصور
’’تمام والدین اپنی بیٹی کو رخصتی کے وقت اپنی خوشی سے تحفہ کے طور پر ضروری سامان دیتے ہیں لیکن اس کو اسلام سے منسوب کرنا سراسر غلط ہے‘‘۔
(شهزاد اقبال شام، اسلام مين عورت کی استثنائی حيثيت اور اس کی وجوه، شريعه اکادمی بين الاقوامي اسلامي يونيورستي، اسلام آباد، 1997ء، 20)
اسلامی شریعت اور اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے آئین میں مرد کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ جہیز کا مختصر سامان جو ضروری ہو جمع کرے۔ یہ ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے مردوں کے ذمہ رکھی ہے۔ مردوں کی عورتوں پر فضیلت کی ایک اہم وجہ مردوں کا عورتوں پر اپنے مال کو خرچ کرنا بھی ہے۔ شریعت اسلامی میں نکاح کا کوئی خرچ عورت کے ذمہ نہیں رکھا گیا بلکہ اس کے برعکس نکاح میں عورت کو مرد کی طرف سے مہر ملے گا، پس عورت پر خرچ کیا جائے گا نہ کہ اس سے مانگا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ سورۃ النساء میں فرماتے ہیں:
اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ بِمَا فَضَّلَ اﷲُ بَعْضَهُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْ.
’’مرد عورتوں پر محافظ و منتظِم ہیں اس لیے کہ اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے (بھی) کہ مرد (ان پر) اپنے مال خرچ کرتے ہیں‘‘۔
(النساء، 4: 34)
اس آیت کی تفسیر میں امام رازی لکھتے ہیں:
’’یعنی مرد عورت سے افضل ہے کیونکہ وہ اس کو مہر دیتا ہے اور اس کا نفقہ ادا کرتا ہے‘‘۔
(رازی، محمد بن عمر، امام التفسير الکبير، دارالکتب العلمية، لبنان، س ن، 88)
اسی طرح عام مفسرین نے مال خرچ کرنے سے مراد عموماً دو باتیں ہی بیان کی ہیں کہ اس سے مراد مہر اور نفقہ ہے۔ اسلوب کلام اور الفاظ کی عمومیت کے لحاظ سے اس میں تمام قسم کے مالی اخراجات خواہ وہ نکاح سے متعلق ہوں یا گھریلو خریدو فروخت سے جو عموماً جہیز کے دائرہ میں آتے ہیں وہ سب کے سب ’’انفاق اموال‘‘ مال خرچ کرنے میں شامل و داخل ہوسکتے ہیں کیونکہ نفقہ کے ساتھ عورت کے لئے جائے رہائش فراہم کرنا بھی مرد پر واجب ہے۔ مکان کے ساتھ لوازم مکان کی فراہمی بھی شوہر کے ذمہ واجب ہے ان چیزوں کی فراہمی پر دلہن یا اس کے سرپرستوں کو مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ لہذا مرد کی ذمہ داری ہے کہ گھر کا سامان تیار کرے اورجس شخص میں ہمت نہیں ہوتی تو اسے رکے رہنے اور کشائش کا انتظار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِيْنَ لَا يَجِدُوْنَ نِکَاحًا حَتّٰی يُغْنِيَهُمُ اﷲُ مِنْ فَضْلِهِ.
’’اور ایسے لوگوں کو پاک دامنی اختیار کرنا چاہیے جو نکاح (کی استطاعت) نہیں پاتے یہاں تک کہ اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی فرما دے‘‘۔
(النور، 24: 33)
امام بخاری نے دو ابواب میں روایات بیان کی ہیں جن میں استطاعت نہ رکھنے والوں کے لئے نکاح سے رکے رہنے کا حکم ہے۔
باب قول النبی صلیٰ الله عليه وآله وسلم من استطاع من کم الباءة فليتزوج فانه اغض للبصر واحص للفرج وھل يتزوج من لا ارب له في النکاح وباب من لم يستطع الباءة فليصم.
(بخاری، محمد بن اسماعيل، صحيح بخاری، کتاب النکاح، مکتبة دار ابن کثيراليمامة، بيروت، 2407ه، ص1950)
قرآن و حدیث میں کہیں بھی اس کا اشارہ تک بھی نہیں ملتا کہ اس قسم کی چیزوں کی فراہمی لڑکی یا اس کے باپ کی ذمہ داری ہے یعنی یہ کہ جب تم اپنی لڑکی کی شادی کرو تو رخصت کرتے وقت اس کو کچھ سامان بطور جہیز ضرور دو کیونکہ یہ ایک خلاف عقل اور خلاف فطرت بات ہے۔ چونکہ ہندوئوں کے ہاں لڑکی کو باپ کے ورثہ میں سے کچھ نہیں ملتا اس لئے والد نکاح کے وقت اس کا دل خوش کرنے کی غرض سے جو کچھ ہوسکتا ہے وہ دے دیتا ہے۔ کیونکہ اب سسرال والے لڑکی پر جتنا ظلم کریں وہ باپ کے گھر واپس نہیں آسکتی، ساس سسر سے علیحدہ گھر میں نہیں رہ سکتی، باپ کی وراثت میں حصہ نہیں پاسکتی، شوہر کے انتقال پر دوسری شادی نہیں کرسکتی، اسی شوہر کے ساتھ جل کر مرنا ہوگایا پھر ہمیشہ بیوہ کی حالت میں زندگی گزارنی ہوگی۔
(موسیٰ خان، اسلام مين عورت کی حيثيت، دعا پبلی کيشنز، لاهور، 2004ء، 104)
لہذا یہ جہیز ہندوئوں کی رسم ہے ہم سب کو اس سے بچنا اور بچانا چاہئے کیونکہ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ان کے ہاں لڑکیوں کو وراثت میں حصہ نہیں دیا جاتا اور بدقسمتی سے جہیز کے ساتھ ساتھ مسلمانوں میں یہ بھی رواج پاگیا ہے کہ لڑکیوں کو وراثت سے حصہ نہیں دیا جاتا حالانکہ دیگر شرعی ورثاء کی طرح عورتوں کو بھی ان کے شرعی حصہ کے مطابق وراثت دینا ضروری ہے۔ قرآن و حدیث میں اس کے بارے میں واضح احکام ہیں اور نہ دینے والوں کے لئے درد ناک عذاب کی وعید ہے۔
اس لئے دلہا اور اس کے گھر والوں کو چاہئے کہ اس بری رسم کو معاشرہ سے ختم کریں، یہ رسم معاشرہ کو تباہ و برباد کرنے والی ہے، لالچ و حرص کا دروازہ ہے۔ قرآن و حدیث اور فقہ سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ شریعت میں اس کی ذرہ بھی اہمیت ہوتی تو اسے نظر انداز نہ کیا جاتا۔
طبقات ابن سعد میں صرف ایک ہار کا ذکر ملتا ہے جو رخصتی کے وقت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے انہیں دیا۔
’’روایت ہے کہ ابوالعاص جنگ بدر میں مشرکوں کے ساتھ تھے ان کو عبداللہ بن نعمان انصاری نے گرفتار کیا پھر جب مکہ کے لوگوں نے اپنے قیدیوں کے فدیہ کے سلسلے میں وفد بھیجا تو ابوالعاص کے فدیہ کے لئے ان کا بھائی عمرو بن ربیع آیا۔ اس وقت حضرت زینب رضی اللہ عنہا مکہ میں ہی تھیں۔ آپ رضی اللہ عنہا نے عمرو کے ہاتھ اپنا مہروں کا ہار بھیجا جو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا تھا اور انہوں نے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو رخصتی کے وقت دیا تھا۔ جب آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ ہار دیکھا تو اسے پہچان گئے آپ کا دل پسیج گیا اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا یاد آئیں اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوالعاص کو بلا فدیہ چھوڑ دیا اور زینب رضی اللہ عنہا کا ہار انہیں واپس کردیا‘‘۔
(ابن سعد، محمد ابوعبدالله، الطبقات الکبریٰ، بيروت للطباعة والنشر، 1978ء، 258)
سنن نسائی میں ہے:
عن علی رضی الله عنه قال جهز رسول الله صلیٰ الله عليه وآله وسلم فاطمة في حميل وقربة ووسادة حشوها ازخر.
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جناب فاطمہ رضی اللہ عنہا کا جہیز تیار کیا ایک چادر، ایک مشکیزہ اور ایک تکیہ، جس میں اذخر گھاس بھرا ہوا تھا‘‘۔
(نسائی، احمد بن شعيب، امام، سنن نسائی، دارالکتب، العلمية، بيروت لبنان، 1991ء، رقم الحديث 3386)
حضرت علی و فاطمہ رضی اللہ عنہما کی شادی کا ذکر کرتے ہوئے مولانا شاہ معین الدین ندوی بحوالہ اصابہ لکھتے ہیں کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی درخواست کی تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تمہارے پاس حق مہر کے لئے کیا ہے؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کچھ نہیں، آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا تمہاری حطمی زرہ کہاں ہے؟ اسے فروخت کردو۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی زرہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ 480 درہم میں فروخت کی۔ بعض روایات کی بنا پر جب عثمان رضی اللہ عنہ نے آپ کی زرہ خریدی اور بعد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ہدیہ کردی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے زرہ کی قیمت لے کر رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کردی، آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جناب ابوبکر رضی اللہ عنہ، سلیمان فارسی رضی اللہ عنہ اور بلال رضی اللہ عنہ کو بلوایا اور کچھ درہم انہیں دے کر فرمایا کہ اس رقم سے جناب فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لئے گھر کی ضروری اشیاء خرید لائو اور اس میں سے کچھ درہم حضرت اسماء کو دیئے اور فرمایا کہ اس سے عطر اور خوشبو مہیا کرو اور جو درہم باقی بچے وہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس رکھ دیئے گئے۔
(ندوی، معين الدين، سيرالصحابة رضوان الله عليهم اجمعين، اداره اسلاميات لاهور، س ن، ج1، ص256)
آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چار صاحبزادیوں کی شادیاں کیں اور کسی کو بھی جہیز نہیں دیا، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جو دیا تھا وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی دی ہوئی مہر معجل کی رقم میں سے تھا۔ اسی سے چند چیزوں کا انتظام فرمادیا، ایک چادر، ایک مشک اور ایک تکیہ اور بعض کتابوں میں ایک بستر کا بھی تذکرہ ملتا ہے۔ مزید برآں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو سرور کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بچپن ہی سے اپنی سرپرستی میں لے لیا تھا اور وہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد بھائی بھی تھے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بچپن ہی سے ان کی کفالت کرتے آئے تھے۔ اس لئے قدرتی بات تھی کہ نیا گھر بسانے کے لئے بطور سرپرست سامان کا انتظام کرتے سو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی زرہ سے یہ سامان فراہم کیا۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانہ میں کہیں سے اس بات کا ثبوت نہیں ملتا کہ انہوں نے لڑکی والوں سے فرمائشی جہیز مانگا ہو یا اپنا فرضی حق سمجھ کر قبول کیا ہو، یا اس کو ضروری سمجھا ہو۔
امام غزالی نے لکھا ہے جس کا تذکرہ مشکوۃ میں ہے۔
’’حضرت بلال رضی اللہ عنہ اور حضرت صہیب رضی اللہ عنہ ایک قبیلے کے پاس آئے اور انہیں پیغام نکاح دیا۔ انہوں نے پوچھا تم کون ہو؟ ان دونوں صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جواب دیا کہ ہم گمراہ تھے اللہ نے ہمیں ہدایت نصیب فرمائی، ہم مملوک تھے اللہ نے ہمیں آزاد فرمایا اور ہم مفلوک الحال تھے اللہ نے ہمیں غنی بنایا اگر تم ہم سے اپنی لڑیوں کی شادی کرو تو الحمدللہ اور اگر نہ کرو تو سبحان اللہ۔ ان لوگوں نے کہا کہ (گھبرائو نہیں) تمہاری شادی کردی جائے گی۔ امام غزالی اس واقعہ سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ کسی نے بھی جہیز کا ذکر نہیں کیا۔ نہ مردوں نے اور نہ ہی لڑکیوں کے اولیاء نے۔ وہ اس کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ جہیز یعنی گھر کے ضروری سازو سامان کا مہیا کرنا خاوند کی ذمہ داری ہے‘‘۔
(غزالی، محمد بن محمد، امام، احياء علوم، دارالمعرفة، بيروت، لبنان، س ن، ص415)
امام نعیم حلیۃ الاولیاء میں بیان کرتے ہیں:
’’مشہور تابعی حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک آدمی آیا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ وہ کئی دن غائب رہا اور کافی عرصے کے بعد آیا تو حضرت سعید رحمۃ اللہ علیہ نے غائب رہنے کی وجہ دریافت کی۔ اس نے بتایا کہ اس کی بیوی فوت ہوگئی تھی لہذا مصروف رہا۔ حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ نے پوچھا کیا تو نے کوئی دوسری شادی کرلی ہے؟ اس نے کہا کہ میں فقیر ہوں مجھے کون رشتہ دے گا؟ حضرت سعید رحمۃ اللہ علیہ نے دو درہم مہر کے عوض وہیں اس کا نکاح اپنی بیٹی سے کردیا۔ وہ آدمی گھر چلا گیا تو شام کو خود اپنی بیٹی کا ہاتھ پکڑ کر اس کے گھر چھوڑ آئے۔ حضرت سعیدرحمۃ اللہ علیہ نے اپنی بیٹی کا یہ رشتہ خلیفہ وقت کو بھی نہیں دیا تھا‘‘۔
(ابو نعيم، احمد بن عبدالله، امام حلية الولياء وطبقات الاصفياء، دارالکتاب، لبنان، س ن، 191)
(جاری ہے)
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، مئی 2016
تبصرہ