اسلام کا نظام طہارت و نظافت (قسط دوم)

قسط اول ملاحظہ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں

ڈاکٹر ابوالحسن الازہری

جب جسم میں دل کی یہ کیفیت ہوتی ہے تو اس کا اثر بقیہ اعضائے جسم پر یوں پڑتا ہے کہ پھر کان بھی کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ بظاہر وہ سنتے تو ہیں مگر حقیقت کو نہیں جانتے۔ پھر آنکھیں بھی حقیقت کا دیکھنا بند کردیتی ہیں۔ وہ دیکھتی تو ہیں مگر حقیقت کی نگاہ سے نہیں دیکھتیں۔ زبانیں بولتی ہیں مگر حق کی بولی نہیں بولتیں، اس لئے کہ کان حق سننے سے بہرے، زبان حق کہنے سے گونگی اور آنکھ حق دیکھنے سے اندھی ہوجاتی ہے۔ اس لئے قرآن انسان کی اس حالت کو یوں بیان کرتا ہے:

صُمٌّم بُکْمٌ عُمْیٌ فَهُمْ لَا يَرْجِعُوْنَ.

’’یہ بہرے، گونگے (اور) اندھے ہیں پس وہ (راہِ راست کی طرف) نہیں لوٹیں گے‘‘۔

(البقرة، 2: 18)

دلوں میں نفاق اور بغض کی بیماری کا ہون

دل کے امراض، دل کو ناپاک کرتے ہیں، دل کی باطنی بیماریوں کی وجہ سے دل پلید ہوجاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کا عمل جامد ہوجاتا ہے، ان کے کام میں تعطل آجاتا ہے، انسان کو راہ راست پر گامزن کرنے سے قاصر ہوجاتے ہیں، نیکی اور حق کی طرف راہنمائی کرنے میں معذور ہوجاتے ہیں۔ اپنی حق کی شناخت کو کھودیتے ہیں اور باطل سے وابستہ ہوجاتے ہیں۔ سچ سے دور ہوجاتے ہیں اور جھوٹ کے قریب ہوجاتے ہیں۔ مرض کے باعث ان کی شناخت حق کی بجائے باطل و فاسد دل کی ہوجاتی ہے۔ اسی طرح قرآن دل کے مرض کا ذکر اور سورتوں میں بھی کرتا ہے۔ سورہ احزاب میں ارشاد فرمایا:

وَالَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ.

’’اور وہ لوگ جن کے دلوں میں (رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بُغض اور گستاخی کی) بیماری ہے‘‘۔

(الاحزاب، 33: 60)

اسی طرح سورہ احزاب میں ہی فرمایا:

فَيَطْمَعَ الَّذِيْ فِيْ قَلْبِهِ مَرَضٌ.

’’جس کے دل میں (نفاق کی) بیماری ہے کہیں وہ لالچ کرنے لگے‘‘۔

(الاحزاب، 33: 32)

ان آیات مقدسہ سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ دل کو بھی کچھ امراض لاحق ہوتے ہیں جن کی وجہ سے دل ناپاک ہوجاتا ہے۔ دل اپنی طہارت سے محروم ہوجاتا ہے، وہ امراض دل کو ’’قلب سلیم‘‘ کے دائرے سے نکال دیتے ہیں۔ ان امراض قلب کے باعث دل گناہ میں ملوث ہوجاتا ہے۔ دل کی گناہ سے بچائو، صرف اور صرف طہارت کے ذریعے ہوتا ہے اور طہارت بھی وہ جو دل کو تمام امراض سے پاک کردے۔

اب ہم یہ بات جانتے ہیں کہ دل کو کون کون سے امراض لاحق ہوتے ہیں اور قرآن حکیم اس حوالے سے ہماری راہنمائی کس طرح کرتا ہے۔

دل اور مرض غفلت

سب سے پہلا مرض جو دل کو لگتا ہے وہ غفلت کا ہے، بے پرواہ ہونے کا ہے اور لاتعلق ہونے کا ہے۔ رب کو بھولنے کا ہے، رب سے تعلق کمزور کرنے کا ہے، عبادت سے دوری کا ہے، رب کی اطاعت سے محرومی کا ہے، رب کی یاد سے لاتعلقی کا ہے، رب کی بارگاہ میں نہ جھکنے کا ہے۔ اللہ کے حکم اور احکام سے معصیت برتنے کا ہے، اس کے حکم کو خود پر نافذ نہ کرنے کا ہے، اس کی بندگی سے بے بندگی کی کیفیت میں رہنے کا ہے اور اس کی عبادت سے فرار کا ہے اور اس اطاعت سے دوری اور غفلت کا ہے۔ یہ مرض جب دل کو لگتا ہے تو ہر امر الہٰی سے غافل کرتا ہے، ہر حکم الہٰی سے دور کرتا ہے۔ رب کی اطاعت و بندگی سے محروم کرتا ہے۔ اس لئے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا:

وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَنْ ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ.

’’اور تو اس شخص کی اطاعت (بھی) نہ کر جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کردیا ہے اور وہ اپنی ہوائے نفس کی پیروی کرتا ہے‘‘۔

(الکهف، 18: 28)

نفس کی پیروی ہی انسان کو اپنے رب سے غافل کرتی ہے، نفس پرستی ہی انسان کو اللہ کی یاد سے دور کرتی ہے، نفس کی آرام پسندی ہی انسان کو رب کی اطاعت سے محروم کرتی ہے، نفس اپنی خواہشات کی پیروی چاہتا ہے، نفس انسان سے اپنی آرزو کی تکمیل کرتا ہے، نفس انسان کو آرام پسند بناتا ہے، محنت و عبادت سے دور کرتا ہے، نفس سہولت کا طالب ہوتا ہے اور مشقت سے بھاگتا ہے۔ جب انسان نفس کی پیروی کرنے لگتا ہے پھر ہر برائی کا ارتکاب کرنے لگتا ہے، اس لئے کہ نفس کی پہلی حالت یہی ہے کہ وہ انسان کو برائی پر اکساتا ہے۔ شر پر انسان کو آمادہ کرتا ہے۔ نیکی سے انسان کو دور کرتا ہے۔ اس لئے ارشاد فرمایا:

اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَةٌ م بِالسُّوْءِ.

’’بے شک نفس تو برائی کا بہت ہی حکم دینے والا ہے ‘‘۔

(يوسف، 12: 53)

انسان پھر نفس کی اور اس کی خواہشات کی اس قدر پیروی کرتا ہے۔ نفس کو اس طرح پالتا ہے اور نفس کو اس طرح پوجتا ہے نفس کی خواہشات کو اس طرح مانتا ہے کہ ہر خواہش نفس پر پھر مرتا ہے اور جیتا ہے۔ حتی کہ پھر ان ہی خواہشات کو پوجتے پوجتے ان خواہشات کو اپنا آلہ بنالیتا ہے جس کا ذکر قرآن یوں کرتا ہے:

اَرَئَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰهَهُ هَوٰهُ.

’’کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا معبود بنا لیا ہے ‘‘۔

(الفرقان، 25: 43)

اور اسی حقیقت کو سورۃ الجاثیہ میں یوں بیان کیا:

اَفَرَئَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰهَهُ هَوَاهُ وَاَضَلَّهُ اﷲُ عَلٰی عِلْمٍ وَّخَتَمَ عَلٰی سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَجَعَلَ عَلٰی بَصَرِهِ غِشٰوَةً ط فَمَنْ يَّهْدِيْهِ مِنْم بَعْدِ اﷲِط اَفَـلَا تَذَکَّرُوْنَ.

’’کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی نفسانی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے اور اللہ نے اسے علم کے باوجود گمراہ ٹھہرا دیا ہے اور اس کے کان اور اس کے دل پر مُہر لگا دی ہے اور اس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیا ہے، پھر اُسے اللہ کے بعد کون ہدایت کر سکتا ہے، سو کیا تم نصیحت قبول نہیں کرتے‘‘۔

(الجاثية، 45: 23)

یہ سارا کچھ دل کی غفلت کے باعث ہوتا ہے۔ یوں ہی انسان مولا سے غافل ہوتا ہے تو پھر کسی اور طرف، کسی اور جہت میں شاغل ہوجاتا ہے۔ دل کی بہترین مشغولیت اللہ کی اطاعت میں ہے، اللہ کی عبادت میں ہے اور اللہ کی بندگی میں ہے۔ یہ راز لوگوں پر جب عیاں ہوجاتا ہے۔ زندگی کے جس مرحلے میں یہ حقیقت انسان پر منکشف ہوتی ہے تو وہ اس راز حیات کو پالیتا ہے اور رب کی اطاعت میں آجاتا ہے۔ اب ہم دل کے دیگر امراض کا اجمال کے ساتھ جائزہ لیتے ہیں۔

دل اور رغبتِ گناہ

انسان کا دل گناہ بھی کرتا ہے اور یہ گناہ میں ملوث بھی ہوتا ہے۔ دل کے ارتکاب گناہ کی اس حقیقت کو سورہ بقرہ میں قرآن یوں بیان کرتا ہے:

فَاِنَّهُ اٰثِمٌ قَلْبُهُ.

’’تو یقینا اس کا دل گنہگار ہے‘‘۔

(البقرة، 2: 283)

جب دل اپنی امانت کو ادا نہیں کرتا، اپنے فرض سے عہدہ براء نہیں ہوتا، اپنے اصل مقصد کو ترک کرتا ہے، رب کی معرفت کے حصول پر گامزن نہیں ہوتا۔ احکام شرع پر عمل پیرا نہیں ہوتا، شریعت کا تارک ہوتا ہے تو یوں وہ گنہگار ہوتا ہے۔ حق کو چھپاکر اور حق کو واضح نہ کرکے وہ دل گناہوں میں ڈبوتا ہے، دل کے گناہ کی وجہ سے انسان اپنے عمل میں بھی فاسق ٹھہرتا ہے۔ اسی طرح بعض دل وہ ہوتے ہیں جو ٹیڑھے ہوتے ہیں جو حق کی بات سننا گوارا ہی نہیں کرتے۔ جو حق سے دور ہوتے ہیں اور ساری زندگی رب سے نآشنا ہوتے ہیں، انسان کی یہ حالت دلوں کے زیغ سے جنم لیتی ہے۔

دل اور مرضِ زیغ

قرآن اس کا تذکرہ یوں کرتا ہے:

مَا کَادَ يَزِيْغُ قُلُوْبُ فَرِيْقٍ مِّنْهُمْ.

’’قریب تھا کہ ان میں سے ایک گروہ کے دل پھر جاتے‘‘۔

(التوبة، 9: 117)

دلوں کو ایک بیماری ’’زبغ‘‘ کی صورت میں لگتی ہے۔ یہ دل حق سے دور ہوجاتے ہیں یہ سچ سے ہٹ جاتے ہیں۔ یہ دل صدق سے پھر جاتے ہیں، یہ دل عبادت سے کنارہ کش ہوجاتے ہیں اور معرفت حق سے انحراف کرتے ہیں۔ اسی طرح سورہ آل عمران میں ارشاد فرمایا:

فَاَمَّا الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ زَيْغٌ.

’’سو وہ لوگ جن کے دلوں میں کجی ہے‘‘۔

(آل عمران، 3: 7)

یہاں زیغ دل کی بیماری کو کجی سے تعبیر کیا ہے۔ یہ دل کبھی کبھی راہ حق سے کج راہ ہوجاتے ہیں، حق کو چھوڑ کر گمراہ ہوجاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے ان کا مقصد حق کو پانا نہیں بلکہ انتشار پھیلانا ہوتا ہے۔ ان کا مدعا حق تک پہنچنا نہیں بلکہ باطل کو فروغ دینا ہوتا ہے۔ اپنے ٹیڑھے دلوں کی طرح لوگوں کے دلوں کو ٹیڑھا کرنا چاہتے ہیں۔ اگرچہ وہ اس حقیقت کو نہیں جانتے اور وہ اپنی گمراہی میں آگے ہی آگے بڑھتے رہتے ہیں۔ وہ معاشرے میں باطل کو فروغ دیتے ہیں مگر وہ اپنے تئیں اسے حق سمجھتے ہیں۔ وہ حق سے دور ہوتے ہیں مگر اپنے ہر عمل کو حق سے تعبیر کرتے ہیں، وہ دین سے نابلد ہوتے ہیں مگر اپنے ہر عمل پر دین کی سند لگاتے ہیں۔ ان کی ساری حیات زیغ سے وابستہ ہے۔ وہ حق سے نآشنا ہوکر بھی حق شناس ہونے کی بات اور دعویٰ کرتے ہیں۔ یہی ان کے دلوں کا ٹیڑھا پن ہے۔ یہی ان کے دلوں کی کجی ہے اور یہی ان کے دلوں کی گمراہی ہے۔

اس لئے اہل ایمان اور اہل اسلام جوں جوں رب کی عبادت میں آگے بڑھتے ہیں اور جوں جوں اس کی قربت پاتے ہیں اور اس کی معرفت حاصل کرتے ہیں توں توں وہ اپنے مولا کی بارگاہ میں یہ دعا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں:

رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَةً.

’’(اور عرض کرتے ہیں) اے ہمارے رب! ہمارے دلوں میں کجی پیدا نہ کر اس کے بعد کہ تو نے ہمیں ہدایت سے سرفراز فرمایا ہے اور ہمیں خاص اپنی طرف سے رحمت عطا فرما‘‘۔

(آل عمران، 3: 8)

ہدایت انسانی دلوں کو راہ راست پر گامزن رکھتی ہے۔ جب تک انسانی دل میں ہدایت ہوتی ہے تو یہ صراط مستقیم پر چلتا رہتا ہے۔ ہدایت ایک چراغ کی مانند ہے جو انسان کو کفر کے اندھیرے اور نافرمانی کی ظلمت میں، روشنی دیتی ہے۔ ہدایت کے باعث ہی انسان گمراہی و ضلالت سے بچتا ہے۔ انسان کے پاس ہدایت اللہ تبارک وتعالیٰ کی عطا کردہ بہت بڑی نعمت ہے۔ اسی نعمت کے باعث انسان اللہ کی رحمت کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ یہی رحمت انسان کو اپنے رحیم رب سے واصل کرتی ہے۔

اس لئے اہل ایمان رب سے دعا کرتے ہیں کہ مولا ہمارے ہدایت یافتہ دلوں کو محرومِ ہدایت نہ کر اور ان کو پھر گمراہی میں پڑنے سے بچا، ان کو پھر سے کجروی سے محفوظ بنا، اب ایمان کی روشنی کے بعد کفر کے اندھیرے سے محفوظ فرما۔ اب اپنی فرمانبرداری سے نافرمانی کی راہ پر نہ چلا، اب ہدایت کی نعمت عطا کرکے ہمیں واپس نہ لٹا۔ اب ہمیں اپنا ہی بنا، اپنے غیر کو ہمارا بھی غیر ہی بنا، ہمیں اپنی وحدت کے جلوے دکھا، ہمیں شرک سے دور ہٹا، ہمیں گناہ سے بچا، ہر زیغ کو ہمارے دل سے ختم فرما اور ہمارے دل کو اپنا ہی مرکز بنا۔ باری تعالیٰ انسان کے دل کی گہرائیوں سے اٹھی آواز پر یوں جواب دیتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

فَلَمَّا زَاغُوْا اَزَاغَ اﷲُ قُلُوْبَهُمْ.

’’پھر جب انہوں نے کجروی جاری رکھی تو اللہ نے اُن کے دلوں کو ٹیڑھا کردیا‘‘۔

(الصف، 61: 5)

یہ آیت کریمہ اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ انسان رب سے پھر مانگتا ہے باری تعالیٰ اسے وہ عطا کردیتا ہے۔ یقینا بندے نے اپنے رب سے جو چیز مانگنی ہے وہ خیر ہے۔ وہ ہدایت ہے۔ وہ نیکی ہے، وہ اس کی فرمانبرداری ہے، اس کے علاوہ انسان جو کچھ کرتا ہے یہ اس کا اپنا عمل ہے، یہ اس کا اپنا انتخاب ہے۔ رب نے انسان کو خیر اور شر دونوں کی راہنمائی عطا کردی ہے، دونوں کی حقیقت سمجھادی ہے۔ دونوں کا نفع و ضرر بتادیا ہے، دونوں کے انجام سے آگاہ کردیا ہے۔ اب وہ طبیعتیں جو نافرمانی کی طرف راغب ہوتی ہیں۔ جنہوں نے گمراہی اور کجروی کو اختیار کیا ہے جنہوں نے راہ حق کو چھوڑ دیا ہے، جنہوں نے صدق کی بجائے کذب کو اپنالیا ہے، جنہوں نے حق کی بجائے باطل کو اختیار کرلیا ہے، وہ حق پرست ہونے کی بجائے باطل پرست ہوگئے ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی کو چن لیا ہے۔ باری تعالیٰ نے فرمایا:

فَلَمَّا زَاغُوْا جب انہوں نے اپنی کجروی جاری رکھی۔

جب گمراہی کو ہی اختیار کئے رکھا۔ اسی کو اپنی پہچان اور شناخت بنائے رکھا اور اسی پر کمربستگی کو اپنا شعار بنائے رکھا اور ہدایت سے کلیتاً انحراف جاری رکھا تو ایسے لوگوں کے دلوں کو باری تعالیٰ ٹیڑھا کردیتا ہے۔

 اَزَاغَ اﷲُ قُلُوْبَهُمْ اللہ نے ان کی گمراہی و ضلالت پر ثابت قدمی کی وجہ سے ان کے دلوں کو ٹیڑھا کردیا ہے۔ وہ ہدایت کے طالب ہی نہ تھے اس لئے انہیں ہدایت سے محروم کردیا ہے۔

معصیت شعار دلوں کا بیان

جب ہم قرآن حکیم سے دلوں کے احوال کا مطالعہ کرتے ہیں تو قرآن بیان کرتا ہے کہ ان کے دل متفرق ہیں، ان کے دل مختلف ہیں، ان مختلف دلوں میں سے کچھ دل قلب لاھیۃ یعنی غافل دل ہیں۔ کچھ دل قلب اثم یعنی گنہگار دل ہیں، کچھ دل قلب زیغ یعنی ٹیڑھے دل ہیں، کچھ دل زنگ آلود دل ہیں، کچھ قلب قاسیہ سخت چٹان نما دل ہیں اور کچھ قلب فازعہ گھبراہٹ والے دل ہیں، کچھ قلب مرعوب ہیں کچھ قلب مریض ہیں کچھ قلب ریب یعنی شک کرنے والے دل ہیں، کچھ قلب وجلہ خوف کھانے والے دل ہیں، کچھ قلوب منکرہ انکاری دل ہیں، کچھ قلوب قاطع قطع کرنے والے دل ہیں، کچھ تعلق توڑنے والے دل ہیں، کچھ قلب خاتم مہر لگے دل ہیں، کچھ قلب مغضوب غضبناک دل ہیں، کچھ قلب غلوف یعنی غلاف شدہ سرہ دل ہیں، کچھ دل حسرت زدہ دل ہیں کچھ قلب غل یعنی کینہ اور بغض رکھنے والے دل ہوتے ہیں، کچھ قلب، قلوب اغفال ہوتے ہیں جن پر تالے لگے ہوتے ہیں اور ہدایت کو قبول نہیں کرتے، کچھ قلب، قلب شمازہ یعنی گھبراہٹ والے دل ہوتے ہیں، کچھ دل قلب الاعمی یعنی اندھے دل ہوتے ہیں، کچھ قلوب المجرمین یعنی مجرموں اور جرائم پیشہ اور گناہ میں ملوث دل ہوتے ہیں۔

اطاعت شعار دلوں کا بیان

یہ تو گناہ شعار دلوں کے احوال ہیں۔ قرآن اس کے ساتھ ساتھ نیکی پسند دلوں کا بھی تذکرہ کرتا ہے۔ ان دلوں کا جن کو رب پسند کرتا ہے جنہیں اپنے انعامات کے لئے چن لیتا ہے۔ ان دلوں میں سے سب سے قلب اطہر ہے یعنی پاکیزہ دل، پاک دل اور طاہر دل ہے اور پھر قلب سلیم ہے یعنی سلامتی والا اور بے عیب دل ہے۔ پھر اس کے بعد قلب منیب ہے یعنی اللہ کی بارگاہ میں رجوع کرنے والا اور انابت والا یعنی فرمانبرداری والا دل ہے۔ پھر کچھ دل قلب ھادیہ ہیں یعنی ہدایت یافتہ دل ہیں اور کچھ قلب ربط ہیں اور مضبوط دل ہیں۔ اسی طرح کچھ قلب فقیہ ہیں یعنی سمجھ رکھنے والے دل ہیں، کچھ قلب مطمئنۃ ہیں یعنی اطمینان والے دل ہیں، کچھ قلب عاقل ہیں یعنی فہم والے دل ہیں، کچھ قلب تقوی ہیں جو تقوی سے معمور ہیں،کچھ قلوب سکینہ ہیں، کچھ قلب اطاعت ہیں، کچھ قلب خیر ہیں، کچھ قلب مزنیہ ہیں، جن میں اللہ کی اطاعت راسخ کی گئی ہے، کچھ قلب ایمان ہیں، جو قلب مومن ہیں۔کچھ قلب، قلب وحد ہیں جو توحید کی معرفت میں موجزن ہیں، کچھ قلب الفت ہیں، کچھ قلب تلین یعنی نرم دل ہیں، کچھ قلب، قلب خاشع ہیں یعنی خشوع و خضوع کرنے والے دل ہیں۔

دلوں کا بادشاہ، قلب محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے

سب سے بڑھ کر ان دلوں میں ایک قرآن کی زبان میں فنزل بہ الروح الامین علی قلبک اور نزلہ علی قلبک یعنی قلب محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ جو سارے دلوں کی جان ہے جو سارے دلوں کا سردار ہے اور جس دل کا انتخاب نبوت کے لئے ہوا ہے اور جس دل کو رسالت کے لئے چنا گیا ہے اور جس دل پر اللہ نے اپنی آخری الہامی کتاب قرآن نازل کی جو دل نزول وحی کا محیط ٹھہرا، جس دل نے امانت وحی کا بوجھ اٹھایا۔

ماخوذ از ماہنامہ دختران اسلام، اپریل 2016

تبصرہ