ملکہ صبا
کسی بھی معاشرے میں حقوق انسانی ایک ریڑھ کی ہڈی سی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ جب معاشرے میں انسانی حقوق کا خیال نہیں رکھا جاتا تو معاشرہ ظلم وتشدد، بے راہ روی، افراتفری اور لا قانونیت کا شکار ہو جاتا ہے۔جسکے باعث اسکے شہری اخلاق باختگی کا شکار ہوکر بنیادی حقوق کے حصول کی خاطر لوٹ مار، ڈاکہ زنی، سود خوری، جوئے بازی، قتل وغارت گری، غرضیکہ ہر قسم کے جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں جسکی وجہ سے قومیں معاشرتی زوال سے ہمکنار ہو جاتی ہیں اور اپنا وجود تک کھو بیٹھتی ہیں یہی وجوہات سابقہ اقوام کی تباہی کا باعث بنیں۔
لیکن اسلام میں انسانی حقوق کی اہمیت پر نہایت زور دیا گیا ہے اور دین اسلام وہ واحد مذہب ہے جو کہ حقوق لینے پر نہیں بلکہ حقوق دینے پر زور دیتا ہے (ہر کوئی جب اپنا فرض احسن انداز سے کرتا ہے تو دوسرے کو حقوق خود بخود حاصل ہو جاتے ہیں کیونکہ ایک کا فرض دوسرے کا حق ہے اور دوسرے کا حق پہلے کا فرض ہے) اور اس میں کسی قسم کا کوئی امتیاز نہیں ہے انسان خواہ وہ کسی رنگ ونسل کا ہو، کسی قبیلے کا ہو۔آقا ہو یا غلام، مالک ہو یا محکوم، مرد ہو یا عورت۔ بیٹا ہو یا بیٹی۔ مسلم ہو یا غیر مسلم(جو کہ اسلامی مملکت میں فدیہ و جزیہ (ٹیکس) دیکر رہتے ہیں)سب کو یکساں حقوق حاصل ہیں اور انکے جان و مال، عزت وآبرو، نان و نفقہ و سکنٰی سب کی ذمہ داری اسلامی مملکت کی ذمہ داری ہے۔ اس طرح مختلف حقوق انسانی درج ذیل ہیں:
انسانی جان کا تحفظ
اسلام میں انسانی جان کے تحفظ پر نہایت زور دیا گیا ہے کیونکہ انسان خواہ کسی رنگ ونسل کا ہو۔کسی قبیلے کا ہو۔آزاد ہو یا غلام، حاکم ہو یا محکوم، مرد ہو یا عورت ہر کسی کی جانی اہمیت برابر تسلیم کی جاتی ہے۔کیونکہ ایک مومن کی حرمت کعبہ کی حرمت سے بھی زیادہ ہے۔لہٰذا ایک انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل تصور کیا جاتا ہے۔اس دین میں مسلم وغیر مسلم جسکی جان کی حفاظت کی ضمانت دی جاتی ہے۔اسلام نہ صرف عام حالات بلکہ جنگ جیسے حالات میں بھی انسانی حقوق کی پامالی کو پسند نہیں کرتا۔
قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہے کہ
وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اﷲُ اِلاَّ بِالْحَقِّ.
(بنی اسرائيل، 17: 31)
’’اور جس جان کو اﷲ نے حرام قرار دیا ہے تم اسکو بغیر حق کے ہلاک مت کرو۔‘‘
حق تعلیم وتربیت بحیثیت انسان
اسلام وہ دین سے ہے جس میں سب کو تعلیم حاصل کرنے کا مساوی حق ہے یہاں کسی قسم کی قید نہیں ہے کہ صرف اعلی حسب ونسب لوگ ہی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں اور دیگر افراد کو تعلیم حاصل کرنے کا کوئی حق نہیں ہے جیسا کہ پہلے ہندومت میں ہوتا رہا ہے کہ تعلیم حاصل کرنے کا حق صرف برہمنوں کو ہی حاصل تھا اور شودر ذات، افراد(جوکہ کم ذات کہلاتے تھے)کو تعلیم حاصل کرنا تو درکنار اگر غلطی سے انکے کان میں گیتاؤں کی آواز بھی پہنچ جاتی تو انکے کان میں سیسہ پگھلا کر ڈال دیا جاتا تھا۔ لیکن دین اسلام وہ مذہب ہے کہ جو خود تعلیم حاصل کرنے کی تلقین کرتا ہے۔
قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہے:
قُلْ هَلْ يَسْتَوِی الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ وَالَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ ط اِنَّمَا يَتَذَکَّرُ اُولُو الْاَلْبَابِo
’’فرما دیجیے: کیا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو لوگ علم نہیں رکھتے (سب) برابر ہوسکتے ہیں۔ بس نصیحت تو عقلمند لوگ ہی قبول کرتے ہیں۔‘‘
(الزمر، 39: 9)
3۔ حقوق نسواں
اسلامی ریاست میں مقیم ہر شہری کو یہ حق حاصل ہے کہ اسکی عزت و وقار کا پامال نہ کیا جائے اور اسلام وہ دین ہے کہ جس نے عورت کو عزت ووقار کی بلندیوں پر پہنچایا ہے۔قبل از اسلام (بحیثیت بیٹی زندہ درگور کر دی جاتی تھی، بحیثیت بیوی اس کو جوئے میں ہار جانا انکی بد ترین عادت تھی) عرب میں عورتوں پر فحش کلامی کا عام رواج تھا۔عورت کو عرب اپنے مشاعروں میں موضوع بحث بناتے تھے۔اور ان پر فحاشانہ اشعار پڑھتے تھے۔
قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہے:
وَالَّذِيْن يُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ بِغَيْرِ مَااکْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّاِثْمًا مُّبِيْنًاo
(الاحزاب، 33: 58)
’’اور وہ لوگ جو مومن مردوعورت کو بلا عذر انکو کچھ ایذا پہنچائیں تو وہ جھوٹ اور صریح گناہ کا بوجھ اٹھاتے ہیں (ایذا میں ستانا، تکلیف پہنچانا، غبیت، چغلی، عورتوں پر فحش شاعری وغیرہ)‘‘ ۔
حقوق والدین
قرآن کریم واحادیث نبویہ a سے ثابت ہے کہ والدین کا اپنی اولاد پر حق ہے کہ جب وہ بڑھاپے کی عمر کو پہنچیں تو اولاد ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے۔ وراثت میں بھی انکو حصہ دیں اگر وہ برا بھلا کہہ بیٹھیںتو انکو اف تک بھی نہ کہو کیونکہ انھوں نے بھی جب تم کمزور وناتواں تھے تمہارے ساتھ حسن سلوک کا برتاؤ کیا اور حتی الامکان کوشش کر کے تمہاری اکثر باتوں(خواہشات)کو پورا کرنے کی کوشش کی لہٰذا بچوں کا بھی فرض ہے کہ اپنے فرائض کو احسن انداز سے پورا کریں۔
ارشاد باری تعالی ہے:
وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًاo
(العنکبوت، 29: 8)
اور ہم نے انسان کو اسکے والدین سے نیک سلوک کرنے کا حکم دیا ہے
حقوق رشتہ دار
قرآن کریم واحادیث مبارکہ سے ثابت ہے کہ رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے۔ حسن سلوک یہ نہیں کہ وہ حسن سلوک سے پیش آئیں تو آپ حسن سلوک کریں بلکہ اگر وہ قطع رحمی کرتے ہیں تو اسکے باوجود بھی آپ انکے ساتھ صلہ رحمی کریں۔وہ رشتہ داری توڑتے ہیں مگر آپ اسکو جوڑے رکھیں یا وہ غلطی سے بد سلوکی یا غلط کام کر بیٹھیں اور زیر کفالت ہوں تو آپ کو چاہیے کہ عفو ودرگزر سے کام لے کر انکے ساتھ پھر بھی بھلائی کریں (یعنی کفالت کرتے رہیں) اور اگر جائیداد زیادہ ہو تو اس میں سے اپنے رشتہ داروں کو بھی کچھ حصہ دے دیں۔
ارشا دباری تعالی ہے:
اِنَّ اﷲَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِيْتَآءِ ذِی الْقُرْبٰی.
(ابراهيم، 14: 90)
’’بے شک اﷲ تبارک تعالی عدل واحسان کا حکم دیتا ہے اور قرابت داروں کو دیتے رہنے کا حکم دیتا ہے۔‘‘
حقوق ہمسائے
اسلام میں ہمسائے کے حقوق کا بھی بہت خیال رکھا گیا ہے کہ ہمسائیوں کو کسی بھی قسم کی تکلیف نہ پہنچے اور کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک اسکا ہمسایہ اسکی ایذا ورسانی سے محفوظ نہ ہو۔ لہٰذا مومن کا درجہ کوئی جب ہی پاسکتا ہے جب کہ اسکا ہمسایہ اس سے خوش ہو اگر پڑوسی مفلوک الحال ہے تو اسکی مدد کرنی چاہیے نہ کہ اسکو حقیر سمجھنا چاہئے۔قرآن کریم میں اس قدر تاکید ہمسائے کے حقوق سے متعلق آئی ہے کہ جبریل امین علیہ السلام نے ہمسائیوں کے اتنے زیادہ حقوق بیان کئے کہ آقا a فرماتے ہیں کہ جبریل امین علیہ السلام نے ہمسائیوں کے اتنے زیادہ حقوق بیان کئے کہ مجھے خیال آیا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ عنقریب ان کو (رشتہ داروں کی طرح) وارث بنا دیا جائے۔لہٰذا تمام امت مسلمہ کو پڑوسیوں کے حقوق کے بارے میں بہت احتیاط سے کام لینا چاہیے۔
ارشاد باری تعالی ہے:
وَاعْبُدُوا اﷲَ وَلَا تُشْرِکُوْا بِهِ شَيْئًا وَّبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا وَّبِذِی الْقُرْبٰی وَالْيَتٰمٰی وَالْمَسٰکِيْنِ وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِيْلِ لا وَمَا مَلَکَتْ يْمَانُکُمْ ط اِنَّ اﷲَ لَا يُحِبُّ مَنْ کَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرَاo
(النساء، 4: 36)
’’اور تم اﷲ کی عبادت کرو اور اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں، محتاجوں اور نزدیکی ہمسائے اور اجنبی پڑوسی اور ہم مجلس اور مسافر(سے)اور جنکے تم مالک ہو چکے ہو(ان سے بھلائی کیا کرو)بے شک اﷲ اس شخص کو پسند نہیں کرتا جو تکبر کرنے والا فخر کرنے والا ہو۔‘‘
حقوق الیتٰمیٰ
اسلام میں یتیموں کے حقوق کا بے حد خیال رکھا گیا ہے اور قرآن کریم میں بھی یتیموں کے حق میں ڈرتے رہنے کا حکم ملتا ہے۔کہ انکے اموال کی حفاظت کرو مگر اس میںخیانت سے پرہیز کرو بلکہ اپنے اموال میں سے بھی یتیموں کو کچھ حصہ دینے کا حکم ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے:
وَلَا تُؤْتُوا السُّفَهَآءَ اَمْوَالَکُمُ الَّتِيْ جَعَلَ اﷲُ لَکُمْ قِيٰمًا وَّارْزُقُوْهُمْ فِيْهَا وَاکْسُوْهُمْ وَقُوْلُوْا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًاo
(النساء، 4: 5)
’’اور تم اپنے مال کو نادان اور کم عمر لوگوں کے حوالے نہ کر دو تمہارا مال دولت اﷲ نے تمہارے لیے معیشت وزیست کا سامان بنایا ہے۔ ہاں انہیں (کم سنی کے زمانے میں) ان کے مال میں سے کھانے کو دو، پہننے کو دو اور انہیں نیک وعمدہ تعلیم دو۔‘‘
حقوق مساوات
اسلام میں مرد عورت خواہ وہ کسی رنگ ونسل کا ہو، کسی قوم وقبیلے سے ہوں، عرب ہوں چاہے عجم، گورے ہوں یا کالے، آقا ہو یا غلام برابری کا حق رکھتے ہیں کیونکہ تمام بنی نوع انسان آدم کی اولاد ہیں ان میں اﷲ تبارک وتعالی کی نگاہ میں کوئی امتیاز نہیں رکھتا کیونکہ یہ قبائلی تفاخر، مال ودولت سب دنیاوی چیزیں ہیں اﷲ تبارک وتعالی کی نظر میں اعلیٰ وہ شخص ہے جو کہ لوگوں میں سب سی زیادہ متقی وپرہیزگار ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے:
اِنَّمَا الْمُوْمِنُوْنَ اِخْوَةo
(الحجرات، 49: 10)
’’تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔‘‘
اس سے مراد ہے کہ سب برابر ہیں۔ کوئی تکلیف وپریشانی میں ہو اسے چاہئے کہ ایک دوسرے کی مدد کریں۔ سب کو برابری کا حق حاصل ہے۔
محنت کش افراد کے حقوق
اسلام میں ہر مزدور اور محنت کش کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی محنت کا معقول معاوضہ حاصل کرے لیکن ساتھ ہی یہ بھی تاکید کی گئی کہ وہ امانت ودیانت سے کام لے، کام سے جی نہ چرائے، چوری نہ کرے، مالک کے مال کو ضائع ہونے سے بچائے۔ یہ فرض ایک محنت طلب شخص(مزدور)پر عائد ہوتے ہیں۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ مالک کی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی مزدور سے اسکی اجرت کے مطابق ہی کام لے، بدسلوکی نہ کرے، برے کلمات سے اجتناب کرے۔ مزدور کی مزدوری اسکے پسینہ خشک ہونے سے پہلے دے۔ اسکی مزدوری میں (وعدے کے مطابق) ڈنڈی نہ مارے۔
حدیث مبارکہ ہے:
قال رسول اﷲ اعطو الاجير اجرة قبل ان يخف عرقه.
(ابن ماجة، امام ابی عبد اﷲ محمدين يزيد القزوينی’’السنن‘‘کتاب الاحکام، باب اجراء الاجراء، 3: 817، رقم: 2443)
’’مزدور کو مزدوری اسکے پسینہ خشک ہونے سے پہلے دو۔‘‘
حقوق اولاد
اسلام سے قبل اہل عرب اولاد کو محبت وشفقت اور پیار سے پکارنے کو باعث تحقیر سمجھتے تھے۔ اسلام نے جاہلانہ رسم ورواج کا خاتمہ کر کے ان سے محبت وشفقت کا نہ صرف سلوک کیا بلکہ انکو حقوق سے بھی نوازا۔
قرآن کریم میں اولاد کے حقوق کو اس طرح سے بیان کیا گیا ہے:
وَالْوَالِدٰتُ يُرْضِعْنَ اَوْلاَدَهُنَّ حَوْلَيْنِ کَامِلَيْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ يُّتِمَّ الرَّضَاعَةَ ط وَعَلَی الْمَوْلُوْدِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَکِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ط لاَ تُکَلَّفُ نَفْسٌ اِلاَّ وُسْعَهَاج لاَ تُضَارَّ وَالِدَةٌم بِوَلَدِهَا وَلاَ مَوْلُوْدٌ لَّهُ بِوَلَدِهِ وَعَلَی الْوَارِثِ مِثْلُ ذٰلِکَ ج فَاِنْ اَرَادَا فِصَالاً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْهُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا ط وَاِنْ اَرَدْتُّمْ اَنْ تَسْتَرْضِعُوْآ اَوْلاَدَکُمْ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْکُمْ اِذَا سَلَّمْتُمْ مَّا اٰتَيْتُمْ بِالْمَعْرُوْفِ ط وَاتَّقُوْا اﷲَ وَاعْلَمُوْا اَنَّ اﷲَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌo
(البقرة، 2: 233)
’’اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو برس تک دودھ پلائیں یہ(حکم) اسکے لیے ہے جو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنا چاہے اور دودھ پلانے والی ماؤں کا کھانا، پہننا دستور کے مطابق بچے کے باپ پر لازم ہے کسی جان کو اسکی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہ دی جائے اور نہ ماں کو اسکے بچے کے باعث نقصان پہنچایا جائے اور نہ باپ کو اسکی اولاد کے سبب، اور وارثوں پر بھی حکم عائد ہوگا۔ پھر اگر ماں باپ دونوں رضا مندی اور مشورے سے (دو برس سے پہلے)دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں اور پھر اگر تم اپنی اولاد کو دودھ پلوانے کا ارادہ رکھتے ہو تب بھی تم پر گناہ نہیں جب کہ جو تم دستور کے مطابق دیتے ہو انکو ادا کرو اور اﷲ سے ڈرتے رہو اور یہ جان لو کہ بے شک جو تم کرتے ہو اﷲ اسے خوب دیکھنے والا ہے۔‘‘
غیر مسلم شہریوں کے حقوق
اسلامی ریاست میں جس طرح سے مسلمانوں کے حقوق کی پاسداری کی ضمانت ملتی ہے بالکل اسی طرح سے غیر مسلموں کے(جو امان حاصل کر کے اسلامی اصولوں پر کار بند ہو۔ فتنہ وفساد نہ کرے۔ جذیہ، فدیہ، ٹیکس کی بروقت ادائیگی کی صورت میں)حقوق کی ذمہ داری کی ضمانت بھی ملتی ہے۔اور غیر مسلموں کو وہ تمام تر حقوق فراہم کیے جاتے ہیں جو کہ مسلم شہریوں کو فراہم کیے جاتے ہیں(جان ومال، عزت وآبرو، تعلیم وتربیت، ہمسائیوں کے)علاوہ ازیں ان پر کچھ مزید فرائض بھی عائد ہوتے ہیں اور حقوق بھی حاصل ہوتے ہیں۔
- فرائض یہ ہیں کہ جان و مال کی حفاظت کے لئے ٹیکس ادا کیا جائے جو کہ (جذیہ و فدیہ) کہلاتا ہے۔
- حقوق یہ ہیں کہ مسلم آبادی میں رہنے کے باوجود غیر مسلم کو میسر مذہبی آزادی حاصل ہے کہ نہ تو انکی عبادت گاہوں کو منہدم کیا جائے گا اور نہ ہی انکو جبراً دین اسلام میں شامل کیا جائے گا کیونکہ اسلام جبر کا دین نہیں۔
قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہے:
لَا اِکْرَاهَ فِی الدِّيْنِ قف
(البقرة، 2: 256)
’’دین میں کوئی زبردستی نہیں۔‘‘
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، دسمبر 2015
تبصرہ