شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا عزم مصمم

نازیہ عبدالستار

ہر انسان اشرف المخلوقات ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے بعض کو بعض پر فضیلت بخشی ہے اور جن انسانوں سے اللہ تعالیٰ نے عظیم کام لینا ہوتا ہے ان کی تعلیم و تربیت کے لئے خصوصی اہتمام فرماتا ہے۔ ان کی شخصیت، سوچ و فکر عام لوگوں سے بہت بلند ہوتی ہے کیونکہ ان کو دوسروں کی بھلائی کے لئے تیار کرتا ہے اور عام لوگوں کی حقوق کی بحالی کے لئے تیار کرتا ہے۔ ایسی ہی شخصیات میں سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی شخصیت ہے جو 19 فروری 1951ء کو جھنگ میں پیدا ہوئے۔ آپ تحریک منہاج القرآن کے بانی اور سرپرست اعلیٰ ہیں۔ اپنی تحریک کی بنیاد آپ نے 1980ء میں رکھی۔ آپ نے اپنی تحریک کے قیام کا مقصد ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

’’تحریک منہاج القرآن کے بپا کئے جانے کا مقصد اولین غلبہ دین حق کی بحالی اور امت مسلمہ کے احیاء و اتحاد کے لئے قرآن و سنت کے عظیم فکر پر مبنی جمہوری اور پرامن مصطفوی انقلاب کی ایک ایسی عالمگیر جدوجہد ہے جو ہر سطح پر باطل، طاغوتی، استحصالی اور منافقانہ قوتوں کے اثرو نفوذ کا خاتمہ کردے‘‘۔

یہ عظیم فکر ایسے ہی وقوع پذیر نہیں ہوئی اس کے پیچھے چھ مراحل ہیں جنہوں نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو ایک شعور مقصدیت دیا اور آپ کی سوچ و فکر کو جلا بخشی۔

  1. شعور مقصدیت

ڈاکٹر برہان احمد فاروقی جو ڈاکٹر محمد علامہ اقبال کے شاگرد رشید تھے انہوں نے آپ کو شعور مقصدیت کی سمت عطا کی۔

  1. انقلابی جوش و ولولہ

چائنی کمیونسٹ پارٹی کے چیئرمین مائوزتنگ نے آپ کو انقلابی جوش و ولولہ عطا کیا جس کے باعث وہ چائنی قوم میں جو ہر وقت نشہ میں دھت رہتی تھی اس میں انقلاب لانے میں کامیاب ہوگئے کیونکہ مائوزتنگ کو اپنی ذہانت پر مکمل یقین تھا کہ وہ چین کی تقدیر کو بدلنے کی اہلیت رکھتا ہے جبکہ مسلمانوں سے غلبہ دین حق کی جدوجہد کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے کہ آیا دین حق کی جدوجہد کامیاب ہوگی تو جواب ملتا ہے محنت کرنا ہمارا فرض ہے کامیابی اور ناکامی اللہ کے ہاتھ میں ہے اگر نتائج نہ بھی پیدا ہوئے مگر قیامت کے دن اللہ اجر عطا فرمائے گا۔ اس بات نے شیخ الاسلام کی زندگی میں ایک ہیجان پیدا کردیا کہ ایک غیر مسلم کو اپنی جدوجہد کا اتنا یقین اور مسلمانوں کو غلبہ دین حق کی جدوجہد کی اتنی بے یقینی لہذا آپ اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر کوئی بھی شخص بھرپور لگن و ولولہ سے کسی کام کی جہد کرتا ہے آخر کار اس کو پالیتا ہے۔ حدیث پاک میں ہے:

لیس للانسان الا ماسعی۔ انسان کے لئے وہی کچھ ہے جس کی وہ جدوجہد کرتا ہے۔

لہذا یہ کیونکر ممکن ہے اگر مسلمان اخلاص نیت سے دین کا کام کرے اور اس میں اللہ کی مددونصرت شامل حال نہ ہو۔

  1. جمال الدین افغانی

مسلم سکالرز نے شیخ الاسلام کی زندگی کو نئی جہت دی۔ جس میں جمال الدین افغانی کا نام سرفہرست ہے جمال الدین افغانی کے افکار سے آپ کو ہر مسئلہ کو ملی سطح پر سوچنے کا شعور ملا۔ آپ کے اندر روح بیدار ہوئی کہ امت مسلمہ کے ابتر حال کو کیسے ختم کیا جاسکتا ہے۔ آپ نے الیکشن کمیشن کی اصلاحات کروائیں۔ عوام کے حقوق کی بحالی کے لئے ریلیاں اور دھرنے دیئے۔

  1. فکر اقبال کا مطالعہ

فکر اقبال نے آپ کو ملت اسلامیہ سے محبت کی دولت سے نوازا کہ کیسے علامہ محمد اقبال نے امت مسلمہ کے لئے علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا کیونکہ وہ مسلمانوں سے ہونے والی زیادتیوں کے باعث جان چکے تھے۔ ہندو مسلم دونوں ایک خطے میں ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔ مسلمانوں کو اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کے لئے الگ وطن کی ضرورت ہے۔ دراصل آپ نے ایک مسلم قوم کے درد کو محسوس کیا کہ مسلمان عتاب میں ہے۔

  1. تعلیمات نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مطالعہ

فکر اقبال کا مطالعہ کرنے کے بعد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کا گہرا مطالعہ اس نظر سے کیا کہ جہالت میں ڈوبی ہوئی انسانیت کو حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیسے اوج ثریا پر پہنچادیا۔ انسان کو انسان کے حقوق سے آشنا کردیا۔ دشمن کو دوست بنادیا۔ لہذا سیرت الرسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطالعہ نے ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو انقلابی جدوجہد کے لئے صحیح سمت عطا کی۔

  1. انوار الہٰیہ کا نزول

سیرت کے مطالعہ کے ساتھ انوار الہٰیہ کے نزول اور بشارات سے آپ کو کامیابی کا یقین پیدا ہوا اور اسی یقین کے ساتھ آپ نے اپنے دعوتی کام کا آغاز کیا۔

شیخ الاسلام کے دروس قرآن پورے ملک میں عام ہوگئے، اسی دوران آپ پنجاب یونیورسٹی لاہور میں اسلامک لاء پر لیکچر دیتے رہے پھر وہ فیڈرل منسٹری آف ایجوکیشن کے ممبر بنے۔ بعد ازاں فیڈرل شریعت کورٹ میں جیورسٹ کنسلٹنٹ مقرر ہوئے۔ ان کی شاندار صلاحیتوں کی وجہ سے ان کی شہرت مزید بڑھی تو ٹی وی پر ان کے پروگرام فہم قرآن نے بھی ان کی مقبولیت میں بے انتہا اضافہ کیا۔ انہوں نے اپنی کاوشوں کو عالمی سطح تک پہنچانے کے لئے 1995ء میں تعلیمی منصوبہ کا آغاز کیا جسے غیر سرکاری سطح پر دنیا کا سب سے بڑا تعلیمی منصوبہ کہا جاتا ہے۔ اس کے تحت پاکستان کے طول و عرض پر 572 تعلیمی ادارے قائم ہیں۔ 2005ء میں لاہور میں قائم کردہ انکی منہاج یونیورسٹی ہائر ایجوکیشن آف پاکستان کی طرف سے چارٹر کردی گئی جسے 2009ء میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے کیٹیگری X سے W میں ترقی دی گئی۔ یہاں سے فارغ التحصیل طلباء و طالبات سینکڑوں کی تعداد میں اندرون اور بیرون ملک دعوتی و تربیتی کاموں میں مصروف عمل ہیں۔ شیخ الاسلام کی دعوتی و انقلابی سرگرمیاں اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ آپ نے ہر وہ چیز کو یقین اور حقیقت کا رنگ دیا جس کے بارے میں لوگ تصور کرتے تھے ایسا نا ممکن ہے۔

اس میں سالانہ عالمی میلاد کانفرنس مینار پاکستان کااجتماع ہو یا شہر اعتکاف کی صورت میں حرمین شریفین کے بعد دنیا کا سب سے بڑا عالمی اجتماع یا ماہانہ ختم الصلوۃ کی محفل کے ذریعے بھٹکی ہوئی انسانیت کو عشق رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آشنا کرنا ہو شیخ الاسلام کی خلوص نیت اس میں مضمر ہے۔ اللہ رب العزت پر بھروسہ کرتے ہوئے آپ نے بڑے بڑے پروجیکٹ کا آغاز کیا جس میں گوشہ درود جو مینارۃ الصلوۃ کے نام سے معروف ہے اس میں چوبیس گھنٹے آقا علیہ السلام کی ذات پر درود پڑھا جاتا ہے اس کے علاوہ ماہانہ ختم الصلوۃ کی محفل کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں اندرون و بیرون ممالک میں پڑھا گیا درود حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کیا جاتا ہے۔

آغوش پروجیکٹ

آغوش کے نام سے یتیم بچوں کے لئے شروع کیا گیا پراجیکٹ پایہ تکمیل تک پہنچ چکا ہے۔ بچیوں کے لئے بیت الزہرہ کا قیام انسانی فکر کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ ان تمام پراجیکٹ کا پایہ تکمیل تک پہنچنا اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کسی کام کو کس قدر مصمم ارادے سے سرانجام دیتے ہیں۔ اگر کوئی بھی کام ایک انسان خلوص نیت سے کرتا ہے تو اس کام میں اللہ کی مدد شامل حال ہوتی ہے۔ دنیا کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لئے بنائی گئی ہے مگر انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ذکر اور عبادت کے لئے پیدا فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

 وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ.

’’اور میں نے جنّات اور انسانوں کو صرف اسی لیے پیدا کیا کہ وہ میری بندگی اختیار کریں۔‘‘

(الذاريات: 56)

لہذا جب کوئی انسان محنت اور لگن سے دین کے کام کو سرانجام دیتا ہے تو یہ عبادت میں شمار ہوتا ہے۔

کوئی بھی کام جو اللہ کی خوشنودی کے لئے کیا جائے وہ عبادت شمار ہوتا ہے۔ اللہ اس کے ہر کام میں اس کا ساتھی بن جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے سننے کو اپنا سننا کہتا ہے اور اس کے چلنے کو اپنا چلنا فرماتا ہے۔

حدیث قدسی ہے:

اگر بندہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں۔ میں اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ کام کرتا ہے۔ میں اس کا پائوں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔

ایسے ہی شخص کو اللہ تعالیٰ نے اپنا نائب و خلیفہ بناتا ہے اور دنیا کی ہر چیز اس کے قدموں میں رکھ دیتا ہے اگر وہ بندہ سوال کرتا ہے تو وہ ٹالتا نہیں۔

ایسے بے شمار کام جس کے بارے میں ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے سوچا اور وہ پایہ تکمیل کو پہنچ گئے۔ یہ ان کی خلوص نیت اور جہد مسلسل کا نتیجہ ہے کہ بڑے سے بڑا منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچا ہے۔ شیخ الاسلام کی یہ کاوشیں بنی نوع انسان اور اللہ کے دین کی سربلندی کے لئے ہیں۔ حدیث پاک میں ہے بہترین انسان وہ ہے جو دوسروں کے لئے نفع رساں ہو۔خیرالناس من ینفع الناس۔

شیخ الاسلام کا کام بھٹکی ہوئی انسانیت کو راہ راست پر لانا اور پسی اور لاچار مخلوق کو ان کے حقوق دلانا ہے۔ جس کے لئے 1989ء کو آپ نے پاکستان عوامی تحریک کے نام سے ایک سیاسی جماعت بنائی جس کا بنیادی مقصد پاکستان میں انسانی حقوق اور عدل و انصاف کی فراہمی، خواتین کے حقوق کا تحفظ، تعلیم و صحت کی بنیادی سہولیات کی فراہمی۔ ملکی سیاست سے کرپشن کا خاتمہ۔ انہوں نے اپنی تمام تر توانائیاں ملک پاکستان کی عوام کے حقوق کی بحالی کے لئے صرف کررکھی ہیں مگر کرپٹ، حکمران اس ملک کی عوام کا خون چوسنے کے درپے ہیں۔ غریب اپنی عزت اور ضمیر کا سودا کررہے ہیں ان کا کوئی پرسان حال نہیں جبکہ امیر صرف اپنی تجوریاں بھرنے کی فکر میں مصروف ہیں۔ ان کو دوسروں کے دکھ درد کا کوئی احساس نہیں۔ حدیث مبارکہ میں ہے:

’’وہ شخص مسلمان نہیں جو خود پیٹ بھر کر کھانا کھائے مگر اس کا ہمسایہ بھوکا رہے‘‘۔

شیخ الاسلام نے اس جنون و ولولہ کے ساتھ اپنے عزم کا آغاز کیا۔ اب ان شاء اللہ وہ دن دور نہیں جب پاکستان میں جلد ہی مصطفوی انقلاب کا سورج طلوع ہوگا کیونکہ ہر عروج کو زوال ہے۔ باقی رہنے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے۔ ان حکمرانوں کو بھی ضرور زوال آئے گا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں ڈھیل دے رکھی ہے۔ لہذا حکمرانوں کو اپنے اعمال پر نظرثانی کرنی چاہئے اور ہر حقدار کو اس کا حق دینا چاہئے۔

ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، فروری 2016

تبصرہ