روبینہ حفیظ
اسلام دنیا کا وہ واحد آفاقی و لافانی مذہب ہے جس نے ایک جانب جہاں زمان و مکان اور زمین و آسمان کی وسعتوں میں موجود خزانوں کی نقاب کشائی و تشریح کی، وہیں کائنات کی وسعتوں و جہتوں کو مسخر کرنے کے اسرار سے پردہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ انسان کو معیشت ومعاشرت‘ تجارت و صنعت اور تعلقات سے لیکر تہذیب و ثقافت تک ہر سمت میں رہنمائی کرتے ہوئے مکمل ضابطہ حیات فراہم کیا ہے اور اسلام کے فراہم کردہ ضابطہ حیات کی سب سے بڑی خصوصیت وخاصیت یہ ہے کہ اس میں حاکم و محکوم‘ آقا و غلام‘ آجر و اجیر اور مرد و زن ہر ایک رشتے کے درمیان توازن و مساوات کے قیام کے ذریعے عدل فراہم کیا گیا ہے تاکہ کوئی بھی انسان کسی بھی رشتے کی شکل میں دوسرے انسان سے شاکی نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کی طرح انسانوں کا بھی شکر گزار رہے اور یہی شکر گزاری محبت و احترام کے اسباب پیدا کرتی ہے مگر افسوس کہ آقائے نامدار حضرت محمد مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دنیا سے پردہ داری کے بعد صحابہ و اولیاء کرام کی کوششوں اور اہل بیت عظام کی قربانی کے باوجود اہل ایمان اسلام کے بنیادی اصول مساوات کو فراموش کرتے چلے گئے اور نبی کریم کی جانب سے قیامت تک کیلئے رشدوہدایت عطا کرنے والے تحفے قرآن کریم سے استفادہ کرنے کی بجائے سرداروں اور بڑے لوگوں کی منافقانہ افعال کو ہی روایات کے نام پر ایمان کا درجہ دے بیٹھے تو بے راہ روی ان کا مقدر بنی اور مسائل نے انہیں اس طرح جکڑ لیا کہ مفاد پرستی‘ نفسا نفسی‘ افراتفری اور انا و تکبر کا زہر اس کے رگ و پے میں سرایت کر گیا جس کے نتیجے میں اس استحصال نے جنم لیا جس سے آج ہمارا معاشرہ دوچار ہے اور استحصال کے اس عفریت کی خوراک چونکہ محبت و احترام ہے لہٰذا اس کی نسل کشی ہورہی ہے اور اس عفریت کی کوکھ سے جنم لینے والی نفرت بہت تیزی سے بڑھتی چلی جارہی ہے۔
آج ہمارے چہار سو نفرت کے ڈیرے ہیں جو احترام و محبت مفقود ہوچکے ہیں اور عزت و تقدس کو نشانہ بنایا جارہا ہے‘ ہر انسان دوسرے انسان کا استحصال کر کے‘ اسے پریشان کر کے‘ اسے قربان کر کے اپنی ذات کی تسکین میں مگن ہے اور ان نتائج سے بے پرواہ ہوچکا ہے جن کا شکار اس کی آئندہ آنے والی نسلوں کو بننا ہے کیونکہ انسان آج جو کچھ بو رہا ہے اسکی کھیتی اس کی اولادوں کو کاٹنی ہے جبکہ نفرت و استحصال کے بوئے ہوئے بیجوں پر محبت و احترام کی فصل لگنے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔
اس ماحول میں آدم کی تنہائی کے آنسوؤں کی اشک شوئی کیلئے قبولیت دعا کے صلے میں جنت سے بطور تحفہ آدم کی تنہائی مٹانے کیلئے بھیجی جانے والی حوا کی وہ بیٹی جو اس زمین پر نسل انسانی کی افزائش کا باعث ہے اس دنیا کو محبت سے سجانے اور نفرت کی آگ بجھانے کیلئے وہی سعی کررہی ہے جو’’ نارِ نمرود ‘‘بجھانے کیلئے ایک چڑیا نے کی تھی اور جب چڑیا سے کہا گیا کہ’’ تیری چونچ میں موجود پانی کا ننھا سا قطرہ کیا ابراہیم کے گرد دہکائے گئے اس الاؤ کو ٹھنڈا کردے گا ‘‘تو اس نے جواب دیا کہ’’ میں جانتی ہوں میرے چونچ میں موجود پانی کے ننھے قطرے کی اس نارِ نمرود کے سامنے کوئی بساط و اوقات نہیں ہے اور اس آگ کا کچھ بگاڑنے کی بجائے خود فنا ہوجائے گا مگر میں اس آگ کو بجھانے کیلئے اپنا فرض تو ادا کرسکتی ہوں باقی اللہ کی رضا کہ میری اس سعی کو کیا مقام ملتا ہے اوراسے کامیابی کی منزل عطا ہوتی ہے یا نہیں!‘‘
یہ ہے عورت کا وہ کردار جو دنیا کی ہر مخلوق میں تقریباً یکساں ہے ! چاہے وہ انسان ہو‘ حیوان ہو‘ چرند ہو‘ پرند ہو درند ہو یا حشرات‘ وہ مخلوق آب ہو‘ مخلوق خاک ہو‘ مخلوق باد ہو مخلوق آتشی ہو یا اشرف المخلوقات حضرت انسان ہر مخلوق میں موجود’’مادہ ‘‘جسے انسانوں میں’’ خاتون ‘‘(WOMEN) کہا جاتا ہے‘ محبت و فرض کے اسی خمیر سے گوندھ کر بنائی گی ہے !
اور شاید اسی لئے علامہ اقبال جیسا دانا و مفکر بھی یہ بات کہنے پر مجبور ہوگیا تھا کہ
’’وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ‘‘
مگر آج کا انسان جو پیغام محمدی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھول کر‘ رضائے الٰہی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قرآن کریم کو’’ زینت طاق ‘‘بناکر رشدو ہدایت سے محروم ہوکر ایک بار پھر جہالت کی انہی اندھی وادیوں میں گم ہوچکا ہے جس سے عربوں کو باہر نکالنے کیلئے حضرت محمد مصطفیٰ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اسلام کی شمع کے ساتھ آسمان سے اس زمین پر مبعوث کیا گیا تھا۔
آج کا انسان ہر سطح پر ہر ایک کا ہر طریقے سے استحصال کر رہا ہے جس کی وجہ سے دہشت گردی‘ بد امنی جیسے قبیح جرام پیدا ہورہے ہیں جن پر انسانیت نوحہ کناں ہے‘ یہی نہیں بلکہ صنفی مساوات کا بھی خون کر کے اس ہستی کی ناقدری کر رہا ہے جسے قبولیت دعا کے شرف میں بطور نعمت رفیق زندگی بناکر آدم کو نوازا گیا اور جو اگر ماں ہو تو محبت‘ خدمت‘ تربیت‘ چاہت‘ اخلاص اور قربانی کے جذبوں سے مزین ایسی شفیق ہستی ہوتی ہے جس سے رب کو بھی پیار ہے تبھی تو اپنے محبوب کی شفاعت سے جنت کو منسوب کرنے والے نے اس کے قدموں تلے جنت کی بشارت دی ہے یعنی جو ماں سے محبت کرے گا سمجھو وہ رب کی اطاعت کرے گا اور رب کی اطاعت کرتا ہے وہ یقیناً جنتی ہوتا ہے لیکن سوچو کہ جو ماں کا نافرمان ہو یا اسے تکلیف پہنچائے تو پھر رب تعالیٰ اس سے کیا سلوک کرے گا ؟
یہ وہ سوالیہ نشان ہے جس پر فکر کرنے کی کسی کو فرصت ہے نہ ضرورت ! عورت ہی ہے جسے ماں جیسا شفیق روپ دینے کے بعد رب نے بیوی کی صورت شریک حیات بنا کر زندگی گزارنے میں آسانیاں فراہم کرنے‘ پیٹ و نفس کی تسکین کے جائز ذرائع فراہم کرنے اور وفا و خدمت کے ساتھ تکمیل آدمیت کے ذریعے افزائش انسانی کا کارنامہ انجام دینے پر بھی مامور کیا گیا ہے !
بہن کی صورت میں بھائی پر مر مٹنے کا جذبہ رکھنے والی یہ عورت جب بیٹی کے روپ میں ڈھلتی ہے تو وہ نعمت بن جاتی جسے جنت کے دروازوں سے تعبیر کیا گیا ہے !
مگر عورت کے حصے میں رکھے گئے فرائض تو ہمارے معاشرے نے تسلیم بھی کئے اور اس ان کا بوجھ ضرورت سے زیادہ ڈالا بھی گیا مگر اس کے حقوق سے کسی کو کوئی سروکار نہیں !
آج کا انسان اور بالخصوص ہمارے مشرقی معاشرے کا انسان تہذیب یافتہ معاشرے کی اصل بنیاد عدل‘ انصاف‘ احسان اور مساوات سب کو فراموش کر کے جس طرح سے صنفی استحصال کر رہا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عرب کو جہالت کی جن تاریکیوں سے نکالا گیا تھا وہ پھر سے لوٹ آئی ہیں۔
عورت جس کے بارے میں حکم ربی ہوا تھا کہ یہ مارنے‘ پیٹنے‘ تشدد کرنے‘ زندہ دفنانے یا نفسانی بھوک مٹانے والی کوئی جنس نہیں بلکہ اسی طرح سے اللہ کی زندہ مخلوق ہے جس طرح سے مرد اور چونکہ گھر کی تزئین و آرائش سے بچوں کی افزائش اور اولاد کی تربیت سے اخلاق و کردار کی تعمیر تک عورت کو ہر شعبہ میں فرائض وذمہ داریاں عائد کی گئی ہیں اسلئے اس کی فطرت میں قدرت نے محبت‘ محنت اور خدمت کے جذبات کو بھی 70گنا زیادہ رکھا ہے لہٰذا احکامات الٰہیہ اور فرمودات نبوی میں عورت کی تعظیم و تکریم کے بارے میں بار بار ارشادات اس کی فضیلت و اہمیت کو ثابت کر رہے ہیں۔
دنیاوی علم سے لو لگا کر تعیشات کو تہذیب کا نام دینے والا دورِ جدید کا انسان‘ آج بھی کسی جنگلی‘ وحشی اور دورِ قدیم کے کسی خونخوار جانور سے کم نہیں ہے فرق صرف اس کے لباس و آداب اور طرز معیشت و معاشرت کا ہے انسان آج بھی اندر سے ویسا ہی جنگلی و وحشی ہے جیسے عرب کے لوگ تھے جو اپنے جذبوں کی تسکین کیلئے ہمیشہ اپنی عورت کو استعمال کیا کرتے تھے چاہے وہ جذبے نفسانی ہوں‘ وحشی ہوں‘ انتقامی ہوں‘ انا پرستی کے جذبات ہوں یا کاروباری مفادات ہر جگہ عورت کو نوالہ بناکر اپنے جذبوں کی تسکین کی جارہی ہے۔
تہذیب یافتہ کہلائے جانے والے اس دور میں جب عالمی سطح پر ماؤں کے دن کے ساتھ ساتھ’’ خواتین کا عالمی دن ‘‘بھی منایا جاتا ہے‘ تقاریر و مذاکرات‘ محفل‘ مذاکرے اور مناظرے ہوتے ہیں اور عورت کی تعظیم و تقریر کے گن گائے جاتے ہیں‘ اس کی آزادی کی بات کی جاتی ہے‘ مساوات کا راگ الاپا جاتا ہے اور تصاویر بنوا کر عورت کی عظمت و تقدس کا امین ثابت ہونے والا تہذیب یافتہ معاشرے کا فرد ہونے کا ڈرامہ رچایا جاتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ آج کا یہ متمدن و تہذیب یافتہ معاشرہ جہاں عورت اپنے فرائض سے بڑھ کر ذمہ داریاں انجام دے رہی ہے اور گھر سنبھالنے‘ بچوں کی تربیت کرنے‘ شوہر کو خوش رکھنے اور سسرالیوں کی خدمت کرنے کے ساتھ ساتھ ملازمت و محنت کے ذریعے گھر کی کفالت کر کے طب و تعلیم سے تجارت و معیشت تک‘ بنکنگ سے ٹریولنگ تک اور دفاع سے ٹیکنالوجی تک ہر شعبہ میں ملک و قوم کی ترقی میں بھی اپنا ذمہ دارانہ اور فعال کردار ادا کرنے والی اس عورت کو گھر سے دفتر تک‘ درسگاہ سے رسدگاہ تک کہیں تحفظ حاصل نہیں ہے اور ہر شعبہ میں ہر سطح پر اس کا بدترین استحصال کیا جارہا ہے اور پھر کہا جاتا ہے کہ ہم تہذیب و تمدن یافتہ معاشرے کا حصہ ہیں کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک متمدن اور تہذیب یافتہ نہیں ہوسکتا جب تک وہاں جنسی مساوات‘ عورت کا احترام اور معاشرے کے ہر فرد کو آزادی و مکمل تحفظ حاصل نہ ہو۔
ہمارا مشرقی اور بالخصوص پاکستانی معاشرہ تو کسی بھی طور تہذیب یافتہ کہلانے کے لائق بھی نہیں ہے کیونکہ یہ وہی معاشرہ ہے جہاں بھائیوں کی جان بخشی کیلئے بہنوں کو’’ وَنی ‘‘کی بھینٹ چڑھایا جارہا ہے اور اسی کی عزت کے رکھوالے اسے بے عزتی کی موت کا شکار کر رہے ہیں‘ آبرو ریزی‘ تیزاب پھینکے جانے‘ تیل ڈال کر جلا دیئے جانے‘ جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات عام ہیں۔باپ‘ بھائی‘ شوہر اور بیٹوں سمیت دیگر رشتہ داروں کے ہاتھوں عورت پر تشدد‘ قتل اور اس کا جنسی‘ معاشرتی‘ معاشی استحصال معاشرے میں روایت کے طور پر موجود ہے جبکہ خاندان کی کفالت کیلئے گھر‘ دفتر‘ فیکٹری اور دیگر صنعتی و تجارتی‘ تعلیمی و طبی اور خدمات کے اداروں میں فرائض انجام دینے والی خواتین مردوں سے کم معاوضہ اور زیادہ محنت کے ذریعے ثابت کیا جارہا ہے کہ عورت کو اس معاشرے میں کیا حیثیت و مقام حاصل ہے اور کس طرح سے اس پر جسمانی و جنسی ہی نہیں بلکہ معاشی و معاشرتی تشدد بھی عام ہے اور اسے روکنے والا کوئی بھی نہیں !
تذلیل نسوانیت کے اس عہد میں حرمت عورت کے تحفظ کی خاطر عَلم شعور بلند کر کے اک طویل جدوجہد کرنے والی دورِ جدید کی دانا عورت کا کسی بھی طرح استحصال کرنے والے کے خلاف تادیبی کاروائی یقینی ہو چاہے وہ کسی بھی طبقے‘ کسی بھی سطح یا کسی بھی عہدے و پیشے سے تعلق کیوں نہ رکھتا ہو اور اگر حکومت نے ایسا کردیا تو پھر یہ مساوات کے معاشرے کی جانب پہلا قدم ہوگا اور مساوات کا معاشرہ ہی تمام مسائل کا حل‘ مصائب سے نجات‘ عدل او انصاف اور عوام و مملکت کی فلاح کی ضمانت پیش کرتا ہے۔
آ ج کا ’’خواتین کا عالمی دن‘‘ حکومت سے متقاضی ہے کہ مساوات کے معاشرے کے قیام کے لئے عورت کو حفاظت کی ضمانت دینے والے ’’حقوق نسواں بل‘‘ پر بلا کسی تخصیص و تفریق فور ی عملدرآمد کیا جائے۔
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، مارچ 2016
تبصرہ