پسِ منظر و ہدایات منہاج القرآن ویمن لیگ
اکیسویں صدی کی عالمی جنگ میں عالمی اور قومی سطح پر انتہا پسندی کو خطرناک ترین ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ نظریات اور مفادات کے تصادم میں طاقت کے عاملین اشتعال، عدم برداشت اور انتہاء پسندی کی فصل کاشت کرکے دہشت گردی کو جنم دے رہے ہیں۔ اسلام مخالف قوتیں اور اسلامی دنیا میں خارجیت کے سرپرست اپنے اپنے مقاصد کے لئے اسلام کے ماتھے پر دہشتگردی کا لیبل چسپاں کرکے اسلام کی فکری بنیاد، حقیقی ساکھ اور امت کے وجود کو برباد کردینے کے درپے ہیں۔ پوری دنیا کو اسلام اور پیغمبر اسلامA کی تعلیمات کے بارے میں گمراہ کیا جارہا ہے۔ خارجیت کے وحشت ناک چہرے کو اسلام کہہ کر نسل نوکو اسلام سے برگشتہ کیا جارہا ہے۔
اِس وقت پوری دنیا کو بالعموم اور پاکستان کو بالخصوص دہشت گردی کی لہر نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اِنتہاء پسندی اور دہشت گردی کا عفریت پوری طرح چھایا ہوا ہے جس میں معصوم اور بے گناہ انسان آئے روز اپنی جانیں گنوا رہے ہیں۔ دہشت گردی کی یہ لہر دراصل فتنہ خوارِج کا تسلسل ہے۔ تاجدارِ کائنات a نے اُمت کو اِنتہائی واضح الفاظ میں اِس کی تمام تفصیلات اور جزئیات سے رُوشناس فرمایا۔ ہم سب کو مل کر اِس فتنے کے خلاف متحد اور یکجا ہوکر جد و جہد کرنا ہوگی کیونکہ اِس لعنت کا تدارُک جتنی جلد ممکن ہوسکے، ملک و ملت کے حق میں اُتنا ہی بہتر ہوگا۔ انسانی معاشرے کی سلامتی اور بقا کا اِنحصار اِنتہا پسندی اور دہشت گردی سے کلیتاً چھٹکارا پانے ہی میں مضمر ہے۔
افواج دفاعی محاذوں پر تو ان دہشت گرد خارجیوں کا مقابلہ کرسکتی ہیں مگر فکری محاذوں پر یہ جنگ لڑنے والا کوئی نظر نہیں آتا۔ دیکھتے ہی دیکھتے چند سالوں میں گلیاں، محلے، شہر حتی کہ ملکوں کے ملک انتہا پسندی کی آگ کی نذر ہو کر نظریاتی اور عملی طور پر خاکستر ہوگئے ہیں۔ فکری اور نظریاتی سطح پر یہ آگ ہر لمحہ پھیلتی ہی جارہی ہے۔ آج یہ وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے کہ اسلام کا حقیقی فہم اور درد رکھنے والے اس سیل بے اماں کے سامنے بند باندھیں۔ آج پاکستان انتہا پسندی، دہشت گردی اور خارجیت کی اس آگ میں جھلس رہا ہے۔ عظیم پاک فوج اس خارجی انتہا پسندی سے جنم لینے والی دہشت گردی سے تو نبرد آزما ہے مگر فکری محاذوں پر افواج نہیں قومیں لڑا کرتی ہیں۔ بدقسمتی سے قوم بے حسی اور غفلت کی نیند میں غرقاب ہے۔ جب قوم مجموعی طور پر غافل ہو تو وہ چند لوگ جو دل بینا رکھتے ہوں ان کی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے دہشت گردی و انتہاء پسندی کی فکری و نظریاتی بیخ کنی کے لئے ’’ضربِ عضب‘‘ کے ساتھ ’’ضربِ امن‘‘ کو وقت کی آواز قرار دیا ہے۔ اس ’’ضربِ امن‘‘ کو کامیاب بنانے کے لئے ہر فرد کو اپنے آقاA کے دین پر مسلط اس کڑے وقت میں آقاA کے سپاہی کی حیثیت سے فکری محاذ پر عملی کردار ادا کرنا ہوگا اور قوم کو خواب غفلت سے جگانے کے لئے میدان عمل میں اترنا ہوگا۔
فروغ امن کی اس فکری اور عملی جدوجہد ’’ضربِ امن‘‘ کو ہم ان شاء اللہ پاکستان کے ہر شہر، ہر قصبہ اور ہر قریہ پہنچائیں گے۔ ہماری یہ مہم تحریک کی دعوت کے فروغ، کارکنان کے تحرک، نظریاتی تربیت اور عوام الناس کی فکری رہنمائی میں غیر معمولی کردار ادا کرے گی۔
مقاصد
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی اس منفرد اور نہایت اہمیت کی حامل ’’ضربِ امن‘‘ مہم کے درج ذیل مقاصد ہیں:
- قیام امن کیلئے اجتماعی کردار
- اسلام کے تشخص اور تعلیمات کا فروغ
- دہشت گردی کے خلاف عملی کردار
- براہ راست رابطہ عوام مہم اور فروغِ دعوت
- کارکنان کو دعوتی عمل میں شریک کرکے متحرک کرنا
- تنظیمی جمود کا خاتمہ
- کارکنان کی نظریاتی تربیت کا حصول
- عوام الناس کی فکری رہنمائی
دستخطی مہم (Signature Compaign)
ہمیں درج بالا ’’قرار داد امن‘‘ کو ملک کے ہر گھر، ہر ادارے، ہر دکان، ہر کالج اور ہر دروازے تک لے کر جانا ہے۔ ہر فرد کے سامنے قرار داد امن کے تمام نکات واضح کئے جائیں گے۔ مکمل فکری ہم آہنگی پیدا کرنے کے بعد ہر فرد سے Signature Book پر قرار داد کی حمایت میں دستخط لئے جائیں گے۔
’’ضربِ امن‘‘ کا اعلان شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری عالمی میلاد کانفرنس دسمبر2015ء میں کرچکے ہیں۔ ملکی سطح پر اس کا باقاعدہ آغاز فروری2016ء سے بھرپور انداز سے کردیا گیا ہے۔
پیس ورکر (Peace Worker)
’’ضربِ امن‘‘ مہم کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے جو افراد اس کا حصہ بنیں گے وہ ’’پیس ورکر‘‘ کہلائیں گے۔ ان کی ذمہ داریاں حسب ذیل ہوں گی:
پیس ورکر وہ بنیادی سپاہی ہے جو یہ ساری فکری جنگ لڑے گا۔ ہر ضلعی/تحصیلی/ علاقائی/ ادارہ جاتی تنظیم اپنے تمام متحرک، پر اعتماد اور پختہ کارکنان کو پیس ایمبیسیڈرز کے طور پر رجسٹرڈ کرکے اس مہم پر عملدرآمد کے لئے دی گئی ہدایات کے مطابق ان سے نتائج لینے کی ذمہ دار ہوگی۔
- ایک پیس ورکر1000 افراد سے دستخط لینے کا پابند ہوگا۔
- ایک پیس ورکر اپنے ساتھ 2 مزید رضا کاران کا تقرر کرنے کا پابند ہوگا۔ ان رضاکاران کو Peace Voulenteers کہا جائے گا۔
- تنہا ایک شخص کی بجائے یہ 3 رکنی Peace Team مل کر لوگوں کے پاس جائے گی۔
- نصف ہدف کے حصول کے بعد بنیادی ’’پیس ورکر‘‘ اپنے ساتھ کام کرنے والے دونوں Peace Voulenteers کو پیس ورکرز کی سطح پر Promote کرے گا۔
- 2 نئے پیس ورکرز اپنے ساتھ دو دو Peace Voulenteers مقرر کرکے کام کرنا شروع کردیں گے۔ بنیادی Peace Worker نئے بننے والے دونوں پیس ورکرز کی ٹیمیں بنوانے، ان کے Follow up اور نتائج کے حصول کا ذمہ دار ہوگا۔
دعوتی مرحلہ
ضرب امن مہم میں درج ذیل طریق کے مطابق دعوتی اور تشہیری مرحلہ کو آگے بڑھایا جائے گا:
- جب Peace Team قرارداد امن پر دستخط کے لئے عوام کے پاس جائے گی تو تین طرح کے طبقات سے واسطہ پڑے گا۔ مخالف، نیوٹرل، موافق۔
- مخالفین سے کسی بھی مباحثے سے اجتناب کرتے ہوئے پیغام دے کر آگے بڑھ جائیں گے۔
- نیوٹرل اور موافق افراد کے سامنے قرار داد کے پیغام کو اچھے انداز سے پیش کرکے Signature Book پر دستخط لئے جائیں گے۔
- نیوٹرل افراد پر محنت کرکے انہیں موافق بنانے کی کوشش کی جائے گی اور ایسے افراد جن کے جھکائو کے مثبت امکانات نظر آئیں گے، انہیں دستخطی کتاب پر Priority Mark کرلیا جائے گا۔
- بعد ازاں موافق افراد کو زیادہ سے زیادہ توجہ دے کر رفیق بنانے کی کوشش کی جائے گی۔
- دستخطی مہم کی تکمیل کے بعد Signature Book سے تمام ایسے نیوٹرل افراد جنہیں Mark کیا گیا ہوگا اور تمام موافق افراد کی علیحدہ فہرستیں بنا کر انہی ٹیموں کے ذریعے انہیں تحریک میں باقاعدہ شمولیت تک زیر رابطہ رکھا جائے گا اورتمام موافق افراد کو تحریک کا رفیق بنانے کا ہدف حاصل کیا جائے گا۔
- Peace Team تربیتی کتابچہ کا Study Circle کرنے کی پابند ہوگی۔
- ہر شہر میں مقامی سطح پر مختلف ایام میں اس مہم کی میڈیا لانچنگ کی تقاریب منعقد ہوں گی۔
- جس علاقے میں دستخطی مہم شروع کی جائے گی اس سے قبل وہاں مرکز کی طرف سے اس مہم کی تشہیر کے لئے تیار کردہ پوسٹرز چسپاں کئے جائیں گے۔
- علاوہ ازیں تنظیمات مقامی سطح پر تشہیر کے ہر ممکن ذرائع اختیار کرنے کی پابند ہوں گی۔
- سوشل میڈیا پر ضرب امن مہم کو بھرپور انداز سے پوری دنیا کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ اس ضمن میں ’’قرار دادِ امن‘‘ پر Electronic Signature کی مہم بھی ساتھ ہی شروع کردی جائے گی۔ اس کے علاوہ قرار داد امن کے مندرجات اور مختلف شقوں کو سوشل میڈیا پر علیحدہ سے بھی لانچ کیا جائے گا۔
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، مارچ 2016
تبصرہ