23 مارچ۔۔۔ تجدیدِ عہد کا دن

23مارچ وہ یوم پاکستان ہے جس دن قرارداد پاکستان پیش کی گئی اور دو ٹوک الفاظ میں فیصلہ ہوا کہ اب بحیثیت مسلمان ہندو تہذیب کے ساتھ ملاپ کسی صورت ممکن نہیں۔ مسلمان اپنا ایک علیحدہ اسلامی تشخص رکھتے ہیں جس کی بناء پر اب ہندو ریاست میں مسلمانوں کا رہنا ناقابل برداشت ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ پاکستان کی بنیاد ہی کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ تھا۔ قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ

’’پاکستان قائم رہنے کے لیے بنا ہے اور یہ ہمیشہ قائم رہے گا‘‘

پاکستان ان شا ء اللہ قائم رہے گا لیکن کس صورت میں؟ پاکستان بن تو گیا مگر آج سب سے بڑا سوال پاکستان کو بچانے کا ہے۔ آج ہمارے حکمرانوں نے جس طرح پاکستان کا سودا اس کے اسلامی اقدار کو بیچ کر کیا ہے۔ کیا اس صورت میں پاکستان قائم رہ سکتا ہے؟

ہندوستان کے ایک رہنما جسونت سنگھ نے کہا تھا: ’’آج قائد اعظم زندہ ہوتے تو پاکستان کی پوزیشن مضبوط ہوتی‘‘۔ اس میں ایک پیغام ضرور پوشیدہ ہے کہ محمد علی جناح نہ سہی مگر جناح جیسے کھرے اور مضبوط کردار کے حامل لیڈر اگر آج بھی ہمیں میسر آجائیں تو پاکستان کی پوزیشن مستحکم اور مضبوط ہوسکتی ہے۔

آج ہمیں جائزہ لینا ہوگا کہ ہمارے نام نہاد لیڈروں نے اپنے جنت نظیر ملک کی دھجیاں بکھیر دیں۔ خواہ وہ بنگلہ دیش کی صورت میں ہو، تمام صوبوں کے آپس میں اختلافات کی صورت میں ہو، لسانیت کے جھگڑوں کی صورت میں ہو، غیر ملکیوں کے اقتصادی تسلط کے صورت میں ہو، ایٹمی پروگروام تک امریکہ کی رسائی کی صورت میں ہو، قتل و غارت گری ، دہشت گردی اور نفرت و عداوت کی صورت میں ہو، فتنہ و فساد اور افراتفری کی صورت میں ہو، صرف اپنے مفادات کو ترجیح کی صورت میں ہو، اپنے لوگوں کے سودے اور ان پر بمباری کی صورت میں ہو، کشمیر سے دستبرداری کی صورت میں ہو، ہندوستان سے دوستی کی پینگیں بڑھانے کی صورت میں ہو یا حکومت اور اپوزیشن کے گٹھ جوڑ اور مک مکا کی صورت میں ہو۔

آج 23 مارچ کا دن ایک بار پھر ہمارے سامنے ہے۔ ایک موقع اور ہمیں مل رہا ہے۔ اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے ہم سب یہاں تجدید عہد کریں کہ ہم پاکستان کو اپنے کردار کی سچائی، پوری لگن، خلوص، دیانتداری، آپس کی محبت اور اخوت و بھائی چارے سے ایک اسلامی ، فلاحی ،خوشحال ، امن پسند اور غیروں کی غلامی سے آزاد ریاست اور مملکت بنائیں گے اور قائداعظم کی روح سے وعدہ کریں:

’’اے روح قائد! آج کے دن ہم تجھ سے وعدہ کرتے ہیں کہ اس ملک کو عظیم سے عظیم تر بنائیں گے اور اس کو ہر شرو فساد اور فتنہ پروری، قتل و غارت اور دہشت گردی جیسے ناسور سے پاک کریں گے‘‘

کیونکہ جب ہم ایک نصب العین لے کر اللہ کے نام سرزمین کے حصول کے لیے نکلے تھے تو اللہ نے مدد فرمائی تھی۔ آج بھی اگر عزم مصمم کرلیں اور سابقہ کوتاہیوں پر توبہ کریں تو یقینا اللہ توبہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ وہ آج بھی ہمیں تنہا نہیں چھوڑے گا اور فرشتوں کے ذریعے غیبی مدد فرمائے گا۔

فضائے بدر پیدا کر کہ فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی

اس دن کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 23مارچ کے تاریخی دن نے مسلمانوں کی قسمت بدل دی تھی۔ اس دن کا سورج ان کے لئے حیات نو کی نوید لے کر ابھرا تھا اور انہیں زندہ اور عزت دار قوموں کی صف میں کھڑے ہونے کے قابل بنایا تھا۔ اس دن کے پس پردہ انسانی عظمت و ہمت کی لازوال داستان اپنی تمام تر تابناکیوں کے ساتھ کون و مکاں کے افق پر تاحال تاباں و درخشاں ہے اور تاریخ انسانی کا عظیم اور سنہری باب ہے۔ جس میں ہمارے آبائو اجداد کے پختہ ارادوں اور جدوجہد کی تکمیل اور قربانیوں کی تفصیل رقم ہے۔ لہذا نسل نو کو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ آزادی کا حصول کتنی جانی اور مالی قربانیوں کے بعد ممکن ہوا۔ اس کے لئے کتنی خون کی ندیاں بہائی گئیں۔ کتنی عزتوں کو پامال کیا گیا۔ کتنے لاکھ پروانوں کے خون سے پاکستان کی شمع روشن ہوئی۔ جس کے اجالے میں آج ہم سب اپنی منزل اور نئے آفاق کی جانب گامزن ہیں۔

پاکستان معرض وجودمیں تو آگیا مگر اس کے حصول کے مقاصد کی تکمیل ابھی تک نہیں ہوئی جس کی تکمیل کے لئے پھر سے قائداعظم جیسے مسیحا اور تحریک آزادی جیسے بھرپور انقلاب اور قربانیوں کی ضرورت ہے۔ لہذا آج ہماری باشعور نوجوان نسل اور عوام کو پہچاننا ہوگا کہ وہ حقیقی مسیحا اور انقلاب کا داعی کون ہے جو ہمیں اپنی حقیقی منزل اور نظریے کی تکمیل تک پہنچاسکے جس کے لئے پاکستان حاصل کیا گیا تھا۔ اس حوالے سے اگر پاکستان میں تمام قیادتوں کا جائزہ لیا جائے تو ایسی مخلص، باکردار اور باوفا قیادت ہمیں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اور ان کے مصطفوی انقلاب کے عظیم مشن کی صورت میں نظر آتی ہے۔

للہذا آج ہمیں اللہ تعالیٰ کے سچے دین، اسلام کو عملی شکل میں نافذ کرنے اور 23 مارچ کی قرار داد حصول پاکستان کے مقاصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے شیخ الاسلام کے پیغام اور ان کے مشن کو سمجھ کر اسے عملی جامہ پہنانے کے لئے ان کا دست و بازو بننا ہوگا اور اس سلسلے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا اور جانی و مالی اور وقت کی قربانی دے کر ایثار و قربانی کی لازوال داستان رقم کرنا ہوگی تاکہ قیام پاکستان کی طرح ہمارا نام بھی اس کے ساتھ قائم اور دائم رہ سکے۔

نامی کوئی بغیر مشقت نہیں ہوا
سوبار جب عقیق کٹا تب نگیں ہوا

ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، مارچ 2016

تبصرہ