خواتین کو بااختیار بنانے کے نام پر صرف زبانی جمع خرچ ہوتا ہے:عوامی تحریک ویمن لیگ

پنجاب میں ہر سال خواتین کے 7 ہزار سے زائد اغواء کے کیسز ریکارڈ پر آتے ہیں:فرح ناز
خواتین کو پنجاب پولیس اور سرکاری اداروں کے ظلم سے بچانے کی ضرورت ہے، عائشہ مبشر
سانحہ ماڈل ٹاؤن میں دو خواتین کو پولیس نے گولیاں مار کر شہید کیا، پونے دو سال بعد بھی انصاف نہیں ملا
افنان بابر، زینب، انیلا الیاس و دیگر کا 8 مارچ خواتین کے حقوق کے عالمی دن کے حوالے سے سیمینار سے خطاب

لاہور (7 مارچ 2016) پاکستان عوامی تحریک ویمن لیگ کے زیراہتمام 8 مارچ یوم خواتین کے حوالے سے مرکزی سیکرٹریٹ میں سیمینار منعقد ہوا۔ سیمینار سے مرکزی صدر فرح ناز نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خواتین کو بااختیار بنانے کیلئے ہر سال زبانی جمع خرچ ہوتا ہے۔ پنجاب میں خواتین کو پولیس اور سرکاری اداروں سے سب سے زیادہ تحفظ کی ضرورت ہے۔ پنجاب میں گزشتہ سال 12 ہزار واقعات میں پولیس نے چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کیا۔ پنجاب پولیس ہٹلر کی گسٹاپو وفورس میں تبدیل ہو چکی ہے اس کا کام صرف حکمرانوں کے اشارے پر سیاسی مخالفین کو ٹھکانے لگانا رہ گیا۔ پنجاب میں ہر سال 7 ہزار سے زائد خواتین کو اغواء کیے جانے کے کیسز ریکارڈ پر آتے ہیں، 17 جون 2014 کے دن پولیس نے تحریک منہاج القرآن کی ممبرز تنزیلہ امجد اور شازیہ کو گولیاں مار کر شہید کر دیا اور آج 2 سال ہونے کو ہیں ابھی تک شہید خواتین کو انصاف نہیں ملا۔ ہم خواتین آج قومی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر پنجاب کے نام نہاد خادم اعلیٰ سے سوال کرتی ہیں کہ ہماری دو بہنوں کو کس جرم کی پاداش میں خون میں نہلایا گیا؟ اور ان کے قاتلوں کو سزا کیوں نہیں ملی؟ انہوں نے کہا کہ پنجاب کے حکمران کس امپاورمنٹ اور خواتین کے حقوق کی بات کرتے ہیں یہ تو خود خواتین کے حقوق کے قاتل اور آئین و قانون کو توڑنے والے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں صرف ایک لیڈر ایسا ہے جو خواتین سمیت سوسائٹی کے پسے ہوئے طبقات کے مسائل کو سمجھتا ہے اور انہیں ان کے آئینی حقوق دلوا سکتا ہے اس کا نام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ہے۔ عائشہ مبشر نے کہا کہ سال 2015 ء میں 16 لاکھ لڑکیاں کم عمری کی شادیوں کی بھینٹ چڑھیں، کہاں ہیں قوانین اور حکومت کا کردار؟گزشتہ سال 840 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا گیا، 56 خواتین کو بیٹی پیدا کرنے کے جرم میں قتل کیا گیا اور جہیز کم لانے کی وجہ سے 72 خواتین کو زندہ جلایا گیا اور تشدد کے 5 ہزار سے زائد واقعات ریکارڈ ہوئے، کیا ہم ایک اسلامی سوسائٹی ہیں؟ مجرموں کی حکومت ہو گی تو خواتین کے ساتھ یہی سلوک ہو گا۔ خواتین کے تحفظ کا بل سیاسی سٹنٹ ہے۔ خواتین کو تعلیم، علاج، روزگار اور سماجی انصاف چاہیے جو نہیں مل رہا۔ انہوں نے کہا کہ ہر سال ہزاروں خواتین میٹرنٹی سہولیات نہ ہونے کے باعث موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔ ہسپتالوں میں علاج کے نام پر خواتین کی ناموس پامال ہوتی ہے مگر پنجاب کے جعلی خادم کو صرف جنگلہ بس اور مالٹا ٹرین عزیز ہے۔

افنان بابر نے کہا کہ پاکستان بھر میں پنجاب واحد صوبہ ہے جہاں سب سے زیادہ خواتین کے خلاف جرائم ہوتے ہیں۔ پنجاب کے حکمران صرف بیان بازی تک محدود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب کے حکمران اپنی خواتین اراکین صوبائی اسمبلی کو مرد اراکین سے کم تر سمجھتے ہیں، عام عورت تو کیا اراکین اسمبلی خواتین کو ان کے آئینی حقوق نہیں مل رہے۔

زینب نے کہا کہ پڑھی لکھی خواتین کو روزگار نہ دینا خواتین کے حقوق کی پامالی ہے۔ فی میل میں شرح خواندگی میل کی نسبت 3 گنا کم ہے اس طرف حکمرانوں کی کوئی توجہ ہے نہ وہ دینا چاہتے ہیں۔

انیلہ الیاس نے کہا کہ پنجاب وہ واحد صوبہ ہے جہاں لاکھوں لیڈی ہیلتھ ورکرز کے حقوق سلب کیے گئے، ان پر کھلے عام تشدد کیا گیا، ینگ لیڈی ڈاکٹرز اور خواتین اساتذہ کو اپنی حقوق کیلئے سڑکوں پر آنا پڑا، گزشتہ سال 344 خواتین بداخلاقی کا نشانہ بنیں اور اس سے دو گنا تعداد میں ایف آئی آر درج نہیں ہوئیں، 90 ء سے زائد خواتین کو تیزاب سے جلایاگیا، ہرسال حکمران خواتین کو انصاف اور تحفظ دینے کے بلند و بانگ دعوے کرتے ہیں مگر عمل نہیں ہوتا۔

تبصرہ