بچوں کی تربیت اور حالات حاضرہ کے تقاضے

نازیہ عبدالستار

رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ اور ہر جگہ بچوں سے محبت اور شفقت سے پیش آتے۔ جب وہ سفر سے واپس آتے تو بچے ان کے استقبال کے لئے دوڑتے۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے پیار کرتے، محبت کرتے، بعض کو اپنے ساتھ سوار کرلیتے اور اپنے اصحاب سے بھی وہ کہتے کہ دوسروں کو وہ سوار کرلیں اور اسی حالت میں شہر کے اندر لوٹتے۔

ایک صاحب لکھتے ہیں: ماں باپ کی نظر میں میری کوئی اہمیت نہ تھی۔ جب میں بچہ تھا تو اکثر میری توہین اور سرزنش کرتے رہتے۔ کسی کام میں مجھے شریک نہ کرتے اور اگر میں کوئی کام سرانجام دیتا تو اس میں سے کیڑے نکالتے اور دوستوں کے سامنے میری بے عزتی کردیتے۔ جس سے میں احساس کمتری میں مبتلا ہوگیا اور اپنے آپ کو ایک فضول چیز سمجھتا ہوں اور کوئی بھی اپنے بارے میں فیصلہ کرتے ہوئے ڈرتا ہوں۔ اپنے آپ پر مجھے اعتماد نہیں۔ دوسروں کی موجودگی میں مجھ سے کوئی بات نہیں ہوتی۔ اس سے معلوم ہوا کہ بچے کی توہین، تضحیک اور تذلیل بچے کی شخصیت کو تباہ کردیتی ہے۔ جن بچوں کو اپنی اولاد سے پیار ہے انہیں چاہئے کہ اپنے بچوں کے احترام کو ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھیں۔ کیونکہ بچہ بھی مکمل انسان ہے اور ہر انسان کو اپنے آپ سے محبت ہوتی ہے۔ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ دوسرے اس کی قدر کریں۔ اس کے احساسات کا خیال رکھیں۔ اس کو وہ اپنی قدردانی سمجھتا ہے۔ بچے کے وجود کو اہمیت دینا اس کی تربیت میں سے ایک اہم عمل ہے۔ جن بچوں کو احترام میسر ہو وہ نیک سیرت اور شریف بنتے ہیں اور اپنے مقام کی حفاظت کے لئے برے کاموں سے بچتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ اچھے کام کرکے دوسروں کی نظر میں اپنا اہم مقام بنائیں۔ جن بچوں کے والدین ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں بچے بھی ان کی تقلید کرتے ہیں۔ بصورت دیگر جن بچوں کے والدین اپنے بچوں کی توہین و تحقیر کرتے ہیں بچوں کے دل میں ان کے خلاف کینہ پیدا ہوجاتا ہے جس سے وہ جلد اور بدیر وسرکش اور نافرمان ہوجاتے ہیں مگر بدقسمتی سے بہت سے ایسے والدین ہیں جو بچے کے احترام کو تربیت کے منافی سمجھتے ہیں۔ اگر انہوں نے بچوں کا احترام کیا تو وہ بگڑ جائیں گے اور ان کا احترام نہیں کریں گے۔ دراصل وہ بچے کی شخصیت کو کچل دیتے ہیں اور ان کے دل میں احساس کمتری پید اکردیتے ہیں جو کہ بہت بڑا نقصان ہے۔

یہ بات باعث افسوس ہے کہ ہمارے معاشرے میں جس طرح سے بچوں کا احترام کیا جانا چاہئے نہیں کیا جاتا۔ انہیں خاندان کا باقاعدہ جز شمار نہیں کیا جاتا۔ انہیں باقاعدہ دعوت نہیں دی جاتی۔ انہیں کسی نچلی جگہ پر کمرے کے دروازے کے ساتھ جگہ دی جاتی ہے۔ انہیں باقاعدہ پلیٹ چمچہ پیش نہیں کیا جاتا۔ گاڑی میں ان کے لئے مخصوص جگہ نہیں ہوتی۔ یا تو وہ کھڑے ہوجائیں یا والدین کی گود میں بیٹھ جائیں۔ محفل میں انہیں بات کرنے کا کوئی حق نہیں اور بات چیت میں ان سے مودبانہ سلوک نہیں کیا جاتا۔ ان کے لئے شکریہ اور اللہ حافظ نہیں ہوتا۔ گھریلو امور میں ان سے مشورہ نہیں لیا جاتا۔ دین اسلام نے بچوں کی طرف خصوصی توجہ دی ہے اور ان کا احترام کرنے کا حکم دیا ہے۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اپنی اولاد کی عزت کرو اور ان کی اچھی تربیت کرو تاکہ اللہ تمہیں بخش دے۔

اولاد کی تربیت ایک اہم فریضہ ہے۔ ہر والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ بچے کو دباکر رکھا جائے، ان پر سختی کی جائے کہ اگر بچے سے پیار کیا جائے تو وہ بگڑ جاتے ہیں۔ والدین بچوں کو صاحب عزت بنانے کے لئے خوب اس کی دھلائی کرتے ہیں۔ بچے میں عزت نفس پیدا کرنے کی بجائے اس کی عزت نفس مارتے ہیں۔ بچہ جوں جوں بڑا ہوتا ہے اسے اس کی عادت پڑجاتی ہے کیونکہ اس کی عزت نفس مرجاتی ہے۔ کوئی کچھ بھی کہے اسے اس کا اثر نہیں ہوتا اور نہ ہی اسے برا محسوس ہوتا ہے۔ عمر کے ساتھ ساتھ یہ عادت پختہ ہوجاتی ہے۔

والدین کو چاہئے کہ نہ صرف اپنے بچوں کے ساتھ شفقت کے ساتھ پیش آئیں بلکہ ان کو خاص ہونے کا احساس دلائیں۔ ان سے تم یا تو کہنے کی بجائے آپ کہہ کر بات کرنے کی عادت ڈالیں۔ اس کے دو فوائد ہیں کہ بچہ ہرکسی سے عزت کی امید رکھے گا۔ دوسرا دوسروں سے بھی اسی طرح مخاطب ہوگا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ عادت مزید نکھر جائے گی۔ ماربچے میں آپ کا ڈر پیدا کرسکتی ہے لیکن عزت نہیں۔

بچے کبھی ظالم نہیں ہوتے صرف معصوم ہوتے ہیں۔ کسی ظالم اور کافر کے گھر پیدا ہونے والا بچہ بھی سن شعور تک پہنچنے سے پہلے پاکیزہ فطرت کا حامل ہوتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’ہر بچہ فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی، مجوسی بناتے ہیں۔ اصلی فطرت تو وہی ہے جس پر اللہ انسانوں کو پیدا فرماتا ہے۔

(بخاری شريف، باب الجنائز)

حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’سب سے گھٹیا انسان وہ ہے جو دوسرے کی توہین کرے‘‘۔ بچوں کی تربیت میں سب سے اہم چیز یہ ہے کہ جب تک بچے کو چھوٹے بڑے کا امتیاز نہ ہوجائے اس وقت اسے آپ کہہ کر مخاطب کریں۔ چند سال کے عرصہ میں بچے کی عادت راسخ ہوجائے گی۔ اس کے علاوہ بچے کے سامنے کوئی فحش بات نہ کی جائے اور ایسی گفتگو سے بھی پرہیز کیا جائے جس سے انہیں جھوٹ اور غیبت کی عادت پڑے۔ بات بات پر انہیں غصہ کرنا نہ سکھائیں، صحت مند بچے کے لئے عزت نفس ایک ایسا ہتھیار ہے جو اسے دنیا کے مسائل سے نپٹنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے اور جو بچے اپنی عزت نفس کے حوالے سے اچھا محسوس کرتے ہیں وہ زندگی کے چیلنجز کا بہتر انداز میں مقابلہ کرسکتے ہیں۔ یہ بچے حقیقت پسند ہوتے ہیں بحیثیت ایک ماں کو مضبوط قوتِ ارادی کا حامل ہونا چاہئے۔ اچھی عزت نفس کا مالک ہونا چاہئے تاکہ بچے ماں کو اپنا رول ماڈل بنائیں کیونکہ ماں کی شفقت و محبت بچے میں خود اعتمادی بڑھانے میں اہم کردار اداکرتی ہے۔ بچے سے اچھی باتیں کریں کہ تم بہت بہادر ہو اور بہت ذہین ہو۔ ہمیں آپ پر بڑا فخر ہے۔ موقع محل کے مطابق فوراً بچے کی تعریف کریں۔ اس سے بچے میں خود اعتمادی بڑھتی ہے۔ آئندہ اور اچھا کام کرنے کی کوشش کرے گا۔ یہی کوشش اسے اچھا انسان بننے میں مدد دے گی۔ کسی دانشور کا قول ہے کہ بچے کا ذہن ایک ایسی خوبصورت سلیٹ کی مانند ہے جسے دنیا کی ہر شے خوبصورت دکھائی دیتی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ دنیا کی سب رنگینیاں اسی پر لکھ دی جائیں۔ اقوام متحدہ نے بھی بچوں کے حقوق کی پاسداری کے لئے ایک قانون ترتیب دیا ہے جن کے چند اہم نکات درج ذیل ہیں:

  • والدین پر اپنے بچوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کو اچھی زندگی کے لئے انہیں خوراک کپڑے اور زندگی کی دوسری اشیاء مہیا کریں۔ والدین پر یہ ذمہ داری کالج کی تعلیم مکمل ہونے تک ہے۔
  • والدین بچوں کی اچھی تربیت کے ذمہ دار ہیں اور انہیں ہمیشہ بچوں کی دلچسپی اور ضروریات کا خیال رکھنا چاہئے۔
  • بچے کے کسی ذاتی معاملہ میں خود کوئی فیصلہ نہ کرسکنے کی صورت میں والدین کا یہ فرض ہے کہ وہ خود فیصلہ کریں۔ قانون میں ایک اہم اصول یہ ہے کہ والدین اس بات پر زور دیں کہ بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ بچہ یہ جانے کہ بچے کی اپنی ایک رائے ہے۔ بچے کو بڑا ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے فیصلے خود کرنے کا زیادہ حق ملنا چاہئے۔ بچہ کو اپنے بارے میں فیصلہ کرنے سے قبل والدین کو اپنی رائے دینے کا حق حاصل ہے لیکن جب بچہ بارہ سال کا ہوجائے تو اس بات پر زور دیا جائے کہ بچے کی اپنی رائے کیا ہے۔
  • بچے کو دونوں (والدین) کے ساتھ رہنے کا حق ہے بے شک والدین علیحدہ رہتے ہوں۔

یہ قوانین تو اقوام متحدہ کے وضع کردہ ہیں لیکن ہر اچھی چیز کی بنیاد دین اسلام ہی ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے اگر ابتدائی سالوں میں بچوں کی تربیت صحیح خطوط پر نہ کی جائے تو بعد میں جتنی بھی محنت و کوشش کی جائے تو وہ ثمر بخش ثابت نہیں ہوتی۔

پیغمبر اسلام صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چودہ صدیاں قبل ہی دور جاہلیت میں حجاز جیسے دور افتادہ ماحول میں تربیت اولاد پر مکمل توجہ دلائی۔ لہذا والدین کو چاہئے کہ اپنے بچوں کی تربیت حالات حاضرہ کے تقاضوں کو پیش نظر رکھ کر کریں۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اس بارے میں فرماتے ہیں:

’’اپنے بچوں کی تربیت اپنے اخلاق و حالات کے مطابق نہ کرو کیونکہ انہیں ایسے زمانے کے لئے پیدا کیا گیا ہے جو تمہارے زمانے سے مختلف ہے‘‘۔

اس موضوع کی اہمیت علامہ محمد اقبال کے اشعار سے اور بھی اجاگر ہوجاتی ہے:

نوجوانی را چوبینم بے ادب
روز من تاریک می گردد چوشب

تاب و تب درسینہ افزاید
مرا یاد عہد مصطفی آید مر

اگر کسی نوجوان کو بے ادب دیکھتا ہوں تو ویہ روز روشن میرے اوپر تاریک ہوجاتا ہے ایسا منظر میرے دل کی بے تابی کو بڑھا دیتا ہے اور مجھے پھر عہد مصطفی کے تربیت یافتہ نوجوانوں کی یاد آنے لگتی ہے۔

اولاد کی شخصیت کو نکھارنے اور اس کو چار چاند لگانے کے لئے گھر والوں کا کردار کلیدی حیثیت رکھتا ہے چونکہ بچہ اپنے ابتدائی اوقات اپنے گھر، والدین اور گھر والوں کے ساتھ گزارتا ہے لہذا ان کے افعال و کردار بچے کی تربیت میں بہت اہمیت کے حامل ہیں اگر گھر والوں کا کردار اچھا نہیں تو بچہ بھی انہی افرا دکے کردار کے مطابق پروان چڑھے گا۔ والدین کا کردار بہت بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ شادی سے لے کر حمل اور بچے کی پیدائش تک ان کا کردار اثر انداز ہوتا ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں:

حق الولد علی الوالدين ان يحسن اسم ويحسن ادبه ويعلم القرآن

فرزند کا حق باپ پر یہ ہے کہ اس کا اچھا نام تجویز کرے اور اسے بہترین ادب سکھائے اور قرآن کی تعلیم دے۔

(کتاب آئين تربيت، ص 28)

اگر شروع میں باپ بچہ کی اچھی تربیت نہ کرے اور اس سے اچھے افعال کی امید رکھے تو یہ توقع بےجا ہوگی۔

لہذا والدین کے لئے ضروری ہے مناسب اور درست روش کا انتخاب کریں کیونکہ اچھے نتائج کے لئے یہ ضروری ہے۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اولاد کی تربیت کے سلسلہ میں امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ کو خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’اب میں تمہاری تربیت کا آغاز کتاب خدا اور اس کی تاویل، قوانین اسلام اور اس کے حلال و حرام سے کررہا ہوں اور ان کو چھوڑ کر میں کسی اور چیز کی طرف نہیں جاؤں گا‘‘۔

(نامه، 31)

پس انسان کے لئے ضروری ہے کہ اس سے پہلے کہ بچوں کا ذہن دنیاوی مشاغل میں مصروف ہو اور بچے گمراہی کے راستے میں چل نکلیں اور قساوت قلبی میں مبتلا ہوجائیں ان کی تربیت دین اسلام کے صحیح اصولوں پر کریں۔

ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، جنوری 2016

تبصرہ