سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کا انقلابی کرداراور داستانِ کربلا

گلشن ارشاد

اہل بیت اطہا ر وہ مقدس نفو س ہیں جوفیوضات ِنبو ت سے برا ہ ِراست فیض یا ب ہو ئے اور رہتی دنیا تک نو ر الہیٰ اور را ہ حق کے صحیح تر جما ن بن گئے۔ خانوادئہ رسول ہی وہ مبارک خاندان ہے جس کے معزز و مبارک افراد نے بقائے حق اور فنائے باطل کیلئے ایثار و قربانی، صبر و استقا مت، جرات و شجا عت اور ہمت و عزیمت کی بے مثا ل و بے نظیر مثا لیں قا ئم کر دیں۔ اور راہ ِحق پہ بے خوف و خطر چلتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔

وا قعہ کر بلا جہاں فخر بشریت، نوا سہء رسول امام عالی مقام علیہ السلام کی قر با نیو ں کا مظہرہے وہیں دختر بتو ل سیدہ زینب سلام اللہ علیھا کے کامل کر دار کی عظمتو ں کا امین بھی ہے۔ تا ریخ میں کو ئی عظیم فتح ایسی دکھا ئی نہیں دیتی جس میں مر دو ں کے سا تھ ساتھ خوا تین بھی اپنے پختہ ارادوں، اخلا قی، نظریا تی اور عملی معا و نت کے ساتھ شر یک کا ر نہ رہی ہوں۔اسکی کئی مثالیں اسلام کے دو ر آغاز سے لے کر وا قعہ کر بلا تک نظر آتی ہیں۔ایثار، قربانی، صدق، وفا، صبر، استقامت،جرات اور شجاعت کا سفر جو سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا سے شروع ہوا میدان کربلا میں وہ سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کی صورت میں درجہء کمال پر دکھائی دیتا ہے۔

فضا ئل اور کرا ما ت نبو ی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے معمور معزز و محتر م گھرانے میں پیدا ہو کر، علی حیدرکرار کے جاہ و جلالت کا مظہر بن کر، آغوشِ زہرا کی پاکیزہ تربیت کا پیکر بن کر، اخلا ق و کما لا ت سے مزین جو کر دار تاریخ کی پیشانی کا جھومر بنا زمانہ اْسے بی بی زینب سلام اللہ علیہا کے نام سے یا د کر تا ہے۔ در حقیقت سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کی شخصیت تا ریخ ِ بشریت میں کر دار کی بلندی کا وہ مینا رہ نو رہے جسکی کرنیں انسا نیت کے لئے ہمیشہ کیلئے مشعل راہ بن چکی ہیں۔

واقعہ کربلا میں دختر ِ بتول سلام اللہ علیہا کی بے مثال شرکت نے تاریخ بشریت میں اعلائے کلمتہ الحق کیلئے لڑی جانے والی سب سے بڑی جنگ میں بپا ہونے والے انقلاب کو رہتی دنیا کیلئے جاوداںبنا دیا۔کربلا کے عظیم معرکے کے دوران اور اسکے بعد سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کے کردار کا ہر پہلو اہمیت کا حامل اور چراغِ راہ کی مانند ہے مگر آپ کا انقلابی کردار تاریخ کی کتاب میںدرخشندہ باب بن کر چمک رہا ہے۔

سیدہ زینب کا انقلابی کردار

امام عالی مقام خانوادئہ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہ عظیم سپوت ہیں جن کو آغوشِ تربیت میںشہادت جیسا عظیم جذبہ ملا، شہزادئہ رسول بخوبی آگاہ تھے کہ معرکہء کربلا درحقیقت معرکہء حق و باطل ہو گا جس میں حق کی سربلندی کیلئے سر کو کٹانا ہوگا مگر سلامِ عظمت ہے فخر انسانیت امام حسین علیہ السلام کی قابلِ فخر بہن کی عظیم شخصیت کو کہ آپ صنفِ نازک سے تعلق رکھنے کے باوجود جذبہء جہاد اور شہادت سے سرشار تھیں۔ یہی وجہ تھی کی وقت آنے پہ آپ نے اپنے معصوم بیٹے حق کی فتح کیلئے قربان کر کے اپنے جذبہء قربانی کا اظہار کیا۔بی بی زینب سلام اللہ علیہا نے نہ صرف اپنے بیٹوں کی شہادت کا غم سہا بلکہ اپنے شیر جوان بھتیجوں شہزادہ علی اکبر، شہزادہ قاسم، معصوم علی اصغر، با وفا بھائی عباس علیہ السلام اور فخر انسانیت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا غم سہ کر قربانیوں کی تاریخ میں تمام خواتین کیلئے واضح نمونہ عمل قائم کر دیا۔

پیکرِ رضا و خوشنودئ الٰہی

سیدئہ زینب سلام اللہ علیہا بظاہر تلوار لیکر میدانِ کارزار میں دکھائی تو نہیں دیتیں مگر آپ کے بے مثل کردار اور قربانیوں سے تاریخ کربلا کا ہر ورق منور ہے۔ آپ سلام اللہ علیہا نے میدانِ کربلا میں موجود مستورات اور معصوم و بے گناہ بچوں کی نگرانی کے فرائض ان کٹھن لمحات میں ادا کئے جب یزدیوں کے مظالم عروج پر تھے ایک طرف بی بی زینب سلام اللہ علیہا تپتی ریت کے صحرامیں آگ برساتے سورج کی تپش سے بے حال ہوتے تشنہ لبوں کو صبر و استقامت کا درس دیتی دکھائی دیتی ہیں تو دوسری طرف تلواروں کی جھنکار میں لہو لہان ہو کر زمین پہ گرتے اہل بیت اطہار کے شہزادوں کی شہادت پہ صبر و رضاکا پیکر بن کر بارگاہِ حق میںشکرکے نذرانے پیش کرتی نظر آتی ہیں اور یوں آپ سلام اللہ علیہا نے محبوبِ حقیقی کے ہر فیصلے پر راضی اور خوشنود رہنے کی لازوال داستاں رقم کر دی۔

صبر و استقامت کا کوہِ گراں:

کربلا کے ریگذاروں پہ، عالمِ ہجرت میں وقت کے سب سے جابر حکمران نے اپنی تمام تر طاقت خانوادہ رسول سلام اللہ علیہم پر مصائب ڈھانے کیلئے بروئے کار لائی۔ یکم محرم سے شروع ہونے والا جبر و استبداد کا سلسلہ 10محرم الحرام کو اپنی انتہائوں کو چھو رہا تھا۔ظالم یزدیوں کے پھیلائے خوف و دہشت کے اْس اندوہناک (دل دہلا دینے والے)ماحول کے ہر لمحہ میں بی بی زینب سلام اللہ علیہا ثابت قدمی اور استقلال کاکوہِ گراںثابت ہوئیںآپ سلام اللہ علیہا کے صبر پر ملائکہ بھی محوِ حیرت تھے۔ معرکہ کربلہ میں سیدہ سلام اللہ علیہا کی فکری، نظریاتی اور اخلاقی معاونت مجاہدین کربلا کے حوصلوں کی بلندی کا باعث بنی رہی۔ یہی وجہ تھی کہ شہادت والی رات سپہ سالارِ قافلہ حق امامِ عالی مقام نے اپنی باوفا وباکمال بہن کو اپنے خیمے میں بْلا کر حالات سے آگاہ کیا اور کلمہء حق کی سربلندی کیلئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کے پختہ عزم کا اظہار کیا نیز اپنی شہادت کے بعد قافلہ کی نگرانی کی ذمہ داری اپنی بہن سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کے سپرد کی۔ یہ وہ لمحہ تھا جب ایک بہن کی اپنے بھائی سے بے پناہ محبت کا بے مثال فطری جذبہ اسکے قدم ڈگمگا دے اور وہ بھائی کی شہادت اور ہمیشہ کی جدائی کو کبھی قبول نہ کرے مگر تاریخ شاہد ہے بے مثال بھائی کی بے نظیر بہن نے اپنے ناناسے محبت، اپنی عظیم ماں کی تربیت اور حق پر ڈٹ جانے والے باپ کی شفقت کی لاج نبھائی بی بی زینب سلام اللہ علیہا نے اپنے عظیم بھائی کے سامنے راہِ وفا پہ آنے والے تمام مصائب کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کے پختہ عزم کا اظہارکیا اور شہادتِ حسین علیہ السلام کے بعد سرخیلِ قافلہ بن کرحق اور فرض شناسی کی راہ میں دنیا کی تمام خواتین کیلئے مینارئہ نور بن گئیں۔

باطل کے سامنے کلمہ حق:

جنابِ سیدئہ زینب سلام اللہ علیہا محاسن اور اخلاق کا مجسم پیکر تھیں حق گوئی، جرات مندی، حشمت وجلالت وجودِ زینب سلام اللہ علیہا کی عظمتوں کے ترجمان تھے جادئہ حق کے مشکل سے مشکل مرحلے میں باطل کے سامنے ڈٹ جاناعلی کی بیٹی کا سب سے بڑا وصف تھا۔ فصاحت و بلاغت آپ کو گھٹی میں ملی یہی وجہ تھی کہ نواسیء رسول قولِ مصطفیٰ کی فضیلتوں کی امین بن کر ظالم کے سامنے کلمہء حق کہہ کرافضل ترین جہاد کی عملی تصویر بن گئیں۔سیدئہ زینب سلام اللہ علیہا کا انقلابی کرداراس وقت نقطہء کمال پر دکھائی دیتا ہے جب آپ سلام اللہ علیہا کے لٹے پٹے قافلے کو در بارِ یزید میں لے جایا گیا۔آپ سلام اللہ علیہا نے وقت کے ظالم و سفاک ترین حکمران کے سامنے سردربار اس کے جرائم اور بہیمانہ طرزِ حکمرانی، اسکی آمریت اور فرعونیت کو کو برملاو بے نقاب کیا، حتیٰ کہ اسکے ظلم و بربریت پر مبنی نظام کی قلعی کھول دی۔ آپ سلام اللہ علیہا نے یزید کے دربارمیں کمالِ جرات اوراثر انگیز فصاحت و بلاغت سے وہ تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا جس نے یزیدی جاہ و جلالت اور تفاخر کوخاک میں ملا دیا۔ اگرچہ جناب سیدہ کا سارا خطبہ ہی رہتی دنیا تک قابلِ تقلید اور سرچشمہء ہدایت ہے لیکن چند انقلابی پہلو بیان کئے جا رہے ہیں۔

سیدئہ زینب سلام اللہ علیہا نے خالقِ حقیقی کی حمد و ثناء اور بارگاہِ رسالت میں ہدیہء درود و سلام پیش کرنے کے بعد قرآنی آیت سے اپنے انقلابی خطبے کا آغاز کیا اور جبر و بربریت کے ترجمان یزید کو للکار کر کہا!

اے یزید تو یہ سمجھ بیٹھا ہی کہ تونے زمین و آسمان کو ہم پر تنگ کر دیا تیرے گماشتوں نے ہمیں شہر شہر حالتِ اسیری میں پھرایا تیرے زعم میں ہم رسوا اور تو باعزت ہو گیاہے ؟ تو تکبر میں مبتلا ہو گیا ہے کہ تیری سفاکیوں نے تیری قدر میں اضافہ کر دیا اور تو اپنی فوج، طاقت اور توانائی دیکھ کر خوشی کے مارے آپے سے باہر ہو گیا ہے۔۔ تو بھول چکا ہے کہ یہ فرصت(مہلت) تجھے صرف اسلئے دی گئی کہ تو اپنی فطرتِ بد کو آشکار کر سکے۔ تو نے قولِ خدا کو فراموش کر دیا، کافر یہ خیال نہ کریں کہ یہ مہلت جو انہیں دی گئی ہے یہ بہترین موقع ہے بلکہ یہ مہلت اسلئے دی گئی کہ وہ اپنے گناہوں میں اور اضافہ کر لیں تاکہ پھر ان پررسوا کرنے والا عذاب نازل ہو۔ اے یزید تو آلِ رسول کے خون بہانے پر خوش نہ ہو کہ تْو بہت جلد خدا کی بارگاہ میں حاضر ہو گا اس وقت تو یہ تمنا کرے گا کہ کاش تو اندھا ہوتا اور یہ بھیانک دن نہ دیکھتا۔ جس دن رسولِ خدا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم انکے اہلبیت اور فرزند رحمتِ الٰہی کے سایہ میں آرام فرما ہونگے تو ذلت و رسوائی کے ساتھ ان کے سامنے کھڑا ہو گا۔

جناب سیدہ کی تقریراسقدر منطقی اور اثر آفرین تھی کہ دربارِ یزید کا کوئی شخص سیدہ سلام اللہ علیہاکے رعب و دبدبہ کے سامنے کھڑا نہیں رہ سکا۔ سیدہ کے خطبے کی جامعیت و قطعیت نے یزید کی ملعون شخصیت کے تمام پہلوئوں کو اجاگر کر دیا۔

بیدارئ شعور:

حضر ت اما م حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد حْسینی وقا ر، عظمت، شجا عت، استقا مت، حق گو ئی اور دلیر ی کا حقیقی اظہا ر و جو د زینب سلام اللہ علیہاکے ذریعے سے ہوا اور با وفا و با کمال بہن نے پیغا م و فلسفہء شہادتِ امام حْسین کو قیا مت تک زندہ اور پا ئندہ رکھا۔ آپ سلام اللہ علیھا نے سالارِ قافلہ بن کرکوفہ وشام کے گلی کوچوں میں امتِ مسلمہ کے شعور کی بیداری کا بیڑہ اٹھایا جس سے خوابیدہ ضمیروں کو زندگی ملی، یزید کی اسلام دشمنی اور بربریت بے نقاب ہوئی اور واقعہ کربلا حق کی فتح اور باطل کی عبرتناک شکست کا سنگِ بنیاد بن گیا۔

دعوتِ فکر و عمل:

ثانی ء زہراسیدہ زینب سلام اللہ علیھا کی پاکیزہ سیرت ِاور حیاتِ طیبہ ہر دور کی مسلمان خواتین کے لئے نمونہء کمال اور واجب الاتباع ہے۔اس لئے ہر خاتون بالخصوص نسلِ نو کی بیٹی کیلئے لازم ہے کہ اگر وہ معاشرے میں باوقار، کامیاب اور مقام حاصل کرنا چاہتی ہے تو اپنی ذات کو اسوہ زینب سلام اللہ علیھا کے قالب میں ڈھالے اور اسوئہ زینب سلام اللہ علیہا سے مستفید و مستنیر ہو کر اسلام کے آفاقی و عالمگیر پیغامِ امن و محبت، مساوات و برابری، عدل و انصاف، تکریم انسانیت اور حقوق کی بالا دستی کو عام کرنے میں اپنا بھر پور کردار ادا کرے۔ سیدہ کی مبارک سیرت سے روشنی کشید کرکے دورِ حاضر کی خواتین کو واضح نمونہ عمل دکھانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ تا کہ خوابیدہ شعور کو آگہی ملے اور خدمتِ دین و اصلاح ِ معاشرہ میں خواتین کے کردارکی اہمیت و ناگزیریت اجاگر ہو سکے۔

ماخوذ از ماہنامہ دختران اسلام ۔ نومبر2015

تبصرہ