قرآن کے بارے میں بنیادی تصورات

ڈاکٹر ابوالحسن الازہری

قرآن امت مسلمہ کے لئے ایک برہان ہے اور حق و باطل کے درمیان ایک کھلا فرقان ہے اور کل عالم انسانیت کی رشد و ہدایت کے لئے ایک روشن جہاں ہے۔ قرآن میں باری تعالیٰ نے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق یوں بیان کیا ہے:

وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًاO

’’اور رسولِ (اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) عرض کریں گے: اے رب! بے شک میری قوم نے اس قرآن کو بالکل ہی چھوڑ رکھا تھا‘‘۔

(الفرقان،25: 30)

یہ آیت کریمہ ہمیں اس جانب متوجہ کرتی ہے کہ قرآن کے ساتھ ہمارا تعلق دائمی ہو، قرآن ہماری زندگیوں میں ہمیشہ رہے۔ قرآن سے ہمارا تعلق کمزور نہ ہو، قرآن ہمارے عمل کو روشن کرے اور قرآن ہمارے قول کے لئے رہبر بنے اور ہماری زندگی کا مقصد قرآن کی تعلیمات سے ہٹ کر نہ ہو۔

اس تناظر میں ہم مھجور بالقرآن ہونے سے کیسے بچ سکتے ہیں اور ہم اتحاد بالقرآن کا عمل کس طرح اختیار کرسکتے ہیں۔ اس حوالے سے سب سے پہلے ہمیں قرآن کے بارے میں تین تصورات کو اپنا عقیدہ اور ایمان بنانا ہے۔

پہلا تصور: قرآن منزل من اللہ ہے

قرآن وہ کتاب ہے جو اللہ رب العزت کی طرف سے نازل کی گئی ہے۔ یہ کسی انسان کی کتاب نہیں ہے۔ اس کو نازل کرنے والا اللہ وحدہ لاشریک ہے۔ یہ اسی کا کلام ہے، اس کے الفاظ منزل من اللہ ہیں۔ اس کے معانی منزل من اللہ ہیں، اس کے الفاظ و معانی سب الہامی ہیں۔ قرآن اپنے اس دعویٰ پر کہ یہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ اس پر خود ہی دلائل فراہم کرتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَإِنَّهُ لَتَنْزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَO

اور بے شک یہ قرآن رب العالمین کا نازل کردہ ہے۔

(الشعراء: 192)

وہ رب جو کائنات میں سب کو پالنے والا ہے سب کی پرورش کرنے والا ہے۔ سارے جہانوں کا پالن ہار ہے۔ سب کی افزائش کرنے والا ہے، سب کا مالک ہے اور سب کا رازق ہے۔ ’’وَإِنَّهُ لَتَنْزِيلُ‘‘ اسی نے اس قرآن کو نازل کہا ہے۔

اب اگر کسی انسان کے ذہن میں ذرہ برابر بھی شک آسکتا تھا، یا کسی قسم کا وہم اس کے ذہن میں پیدا ہوسکتا تھا یا کسی قسم کا گمان اس کے ذہن میں قرار پکڑ سکتا تھا، یا کوئی تصور اس کے ذہن کو دھندلا سکتا تھا اس کا بھی قلع قمع کرتے ہوئے اور شک دریب کی ہر چیز کو کاٹتے ہوئے اور شک دریب کی جملہ صورتوں کو قطع کرتے ہوئے کل عالم انسانیت کو چیلنج کرتے ہوئے قرآن اپنے منزل من اللہ ہونے کا اعلان یوں کرتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

تَنْزِيلُ الْكِتَابِ لَا رَيْبَ فِيهِ مِن رَّبِّ الْعَالَمِينَO

یہ کتاب رب العالمین کی طرف سے نازل شدہ ہے اور اس میں کوئی شک نہیں۔

(السجده: 2)

گویا اس قرآن کا منزل من اللہ ہونا ایک حقیقت ثانیہ ہے اور ایک حقیقت قاطعہ ہے اور ایک حقیقت مسلمہ ہے۔ ان صریحی آیات نے قرآن کے مبدا اور محل کا تعین کردیا ہے اور ان واضح نصوص نے قرآن کا تعارف منز ل من اللہ ہونے ایسا کرایا ہے کہ اس تصور کے علاوہ بقیہ تمام تصورات کا اور تمام امکانات کا اور تمام تخیلا ت کا اور تمام نظریات کا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاتمہ کردیا ہے اور یوں قرآن کا ایک ہی تعارف ٹھہرایا۔

یہ منزل من اللہ ہے اور منزل من رب العالمین ہے۔

قرآن کی زبان

اب ذہن میں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ درست ہے کہ یہ قرآن منزل من اللہ ہے، قرآن کی بابت یہی تصور صحیح ہے مگر ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے۔ یہ قرآن کلام ہے اور کلام الفاظ و معانی کے مجموعے کو کہتے ہیں۔ یہ کلام قرآن کس زبان میں نازل ہوا ہے۔ کیا ایسا تو نہیں کہ دیگر صحائف اور الہامی کتب کی طرح قرآن فقط معانی کی صورت میں نازل ہوا ہو۔ الفاظ منزل من اللہ نہ ہوں۔ جیسا کہ دیگر الہامی کتابوں کے بارے میں یہ تصور موجود تھا۔ باری تعالیٰ نے اس تصور کو سورہ الشوریٰ میں واضح کردیا ہے کہ قرآن الفاظ اور معانی دونوں کے اعتبارات سے اللہ رب العزت کی طرف سے نازل کیا گیا ہے۔ اس لئے ارشاد فرمایا:

وَكَذَلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ قُرْآنًا عَرَبِيًّاO

اور اے حبیب اسی طرح ہم نے تیری طرف عربی زبان میں قرآن کی وحی کی ہے۔

(الشوریٰ: 7)

قرآن کا عربی زبان میں نزول

اس آیت کریمہ کے یہ الفاظ قرآناً عربیاً اس امر کو ثابت کررہے ہیں کہ قرآن کو عربی زبان میں نازل کیا گیا ہے۔ لفظ عربی الفاظ کی صفت ہے۔ عربی کا لفظ کلام و معنی کا صفت نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا اور قرآن کا نزول بیک وقت الفاظ و معانی دونوں کی صورت میں ہوا ہے۔

اس لئے صحابہ کرام جو عربی زبان کو خوب سمجھتے تھے عربی ان کی مادری زبان تھی۔ باری تعالیٰ نے قرآن کو ان مادری زبان میں اس لئے نازل کیا تاکہ وہ قرآن کو خوب سمجھ سکیں اس لئے اسلام کا آفتاب مکہ میں طلوع ہورہا تھا اسلئے عربی الفاظ کو سمجھنا ان کے لئے چنداں مشکل نہ تھا، لیکن چونکہ قرآن کے معانی بھی منزل من اللہ تھے اس لئے وہ صاحب زبان ہوکر بھی قرآن کے ان الفاظ کا وہ معنی از خود نہ سمجھ سکتے تھے جو اللہ اور اس کے رسول کی منشا تھی۔ یہی وجہ ہے جب قرآن حکیم میں نماز کا حکم آیا ’اقيموا الصلوة‘ نماز قائم کرو۔

اقیموا الصلوۃ کا معنی صحابہ کرام عربی زبان کے اعتبار سے سمجھ گئے تھے۔ اقیموا اور الصلوۃ کے متعدد معانی تھے۔ ان معانی میں سے کونسا معنی منشاء ایزدی تھا۔ یہ معلوم نہ تھا اس لئے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اس حکم کے نزول کے بعد رسول اللہ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔ عرض کیا یارسول اللہ نماز کیسے ادا کریں۔

رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمل سے قرآن کے معنی کا تعین

رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشادفرمایا:

صلوا کما رايتمونی اصلی.

نماز اس طرح پڑھو جس طرح مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھو۔

اب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ عمل صلوٰۃ درحقیقت معنی صلوٰۃکا تعین تھا۔ اللہ رب العزت کی منشاء اقیموا الصلوۃ سے یہ عمل صلوٰۃ ہے جو میں تمہارے سامنے کررہا ہوں اگر تم اس طرح نماز اداکرو تو یہی عمل صلوٰۃ ہی معنی صلوٰۃ ہے۔ گویا اقیموا الصلوۃ کا معنی رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ازخود اپنے عمل سے مقرر کردیا ہے۔ اب اگر کوئی کتنا بڑا ہی اہل زبان ہو عربی کا بہت بڑا عالم ہی کیوں نہ ہو حتی کہ عربی زبان میں ایک اتھارٹی ہی کیوں نہ ہو اگر وہ اپنی طرف سے اقیموالصلوۃ کا معنی متعین کرنا چاہے اور اس معنی کی تعین کے بعد اس کی تائید میں سینکڑوں لغات کا حوالہ دے، ہزاروں تفسیرات کا حوالہ دے، ان سب کا حوالہ صلوٰۃ کے معنی کو متعین کرنے کے حوالے سے کارگر نہ ہوگا۔ اس لئے کہ قرآن الفاظ اور معانی دونوں اعتبارات سے منزل من اللہ ہے۔ لفظ تو ہمارے سامنے ہے اقیموا الصلوۃ مگر اس سے باری تعالیٰ نے کس معنی کا ارادہ کیا ہے۔ یہ معنی اللہ کا رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی وحی کے ذریعے جان سکتا ہے۔

گویا اقیموا الصلوۃ کا معنی عربی دانی کے ذریعے نہیں بلکہ وحی الہٰی کے ذریعے جانا جائے گا۔ اس لئے ان لوگوں نے ٹھوکر کھائی ہے جنہوں نے اقیموا الصلوۃ کا معنی عربی لغات کے ذریعے متعین کیا ہے۔

قرآن سمجھنے کے لئے اترا ہے

اسی طرح قرآن ایک اور مقام پر واضح کرتا ہے کہ قرآن عربی میں نازل کیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

إِنَّا أَنزَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَO

’’بے شک ہم نے اس قرآن کو عربی زبان میں نازل کیا تاکہ تم سمجھ سکو‘‘

(يوسف: 2)

قرآن کے سب سے پہلے مخاطب ابن عرب تھے۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت عرب میں ہوئی۔ قرآن اس سرزمین میں نازل ہوتا ہے وہ جو زبان بولتے تھے اور سمجھتے تھے اور جس زبان کو وہ جانتے تھے اور جس زبان کے ادراک میں ان کو کوئی مشکل درپیش نہ تھی۔ وہ ان کی مادری اور ماں بولی زبان ’’عربی‘‘ تھی۔ باری تعالیٰ نے اپنے قرآن کو اور اپنے کلام کو اس زبان میں نازل کیا تاکہ وہ ’’لعلکم تعقلون‘‘ کا پیکر بن سکیں۔ تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ قرآن کو سمجھ سکیں۔ وہ زیادہ سے زیادہ قرآن کو جان سکیں۔ وہ زیادہ سے زیادہ قرآن کو جان کر اس پر عمل کرسکیں۔ وہ قرآن کو جان کر اپنی زندگیوں کو قرآن کے مطابق ڈھال سکیں۔ وہ اپنی زندگیوں میں منشاء الہٰی اور رضائے الہٰی کو جان سکیں اور اللہ اور رسول کی اطاعت میں اپنی زندگیاں بسر کرسکیں۔ اس لئے فرمایا ہم نے تمہیں یہ قرآن عربی میں دیا ہے۔ اب یہ تمہاری اپنی زبان ہے اس بناء پر اس قرآن کو خوب سمجھو، کیونکہ سمجھنے اور خوب سمجھنے سے انسان کی سوچ بنتی ہے اور یہی سوچ ہی عمل کا مبداء اور منتہاء بنتی ہے اور یہی سوچ ہی عمل کا نتیجہ بنتی ہے۔

عربی زبان کا فروغ اہل عرب کی ذمہ داری ہے

اہل عرب کی براہ راست ذمہ داری ’’لعلکم تعقلون‘‘ قرآن سمجھنے کی تھی اور بالواسطہ ذمہ داری بھی قرآن سمجھانے کی تھی اور عربی نہ جاننے والوں کو عربی زبان سکھانے کی بھی تھی۔ کاش اہل عرب اپنی تیل کی بے حساب دولت کا کچھ حصہ عربی زبان کے فروغ کے لئے مختص کرتے بطور خاص اہل عجم کے ہاں عربی زبان سکھانے کے لئے معلمین بھجواتے اور عربی زبان کے فہم کے لئے وسائل فراہم کرتے اور یوں وہ قرآنی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہوتے اس لئے کہ باری تعالیٰ نے ان کو اقوام عالم میں یہ اعزاز بخشا ہے۔ ان کی زبان کو اپنے کلام سے مشرف کیا ہے۔ اس بناء پر یہ عربی زبان اب صرف اہل عرب ہی کی زبان نہیں بلکہ قرآن کی بھی زبان ہے۔ قرآن کی زبان ہونے سے ہی یہ آفاقی اور ابدی زبان بن گئی ہے۔ قرآن کی زبان ہونے سے ہی یہ زندہ و جاوید زبان بن گئی ہے۔

قرآن عربی مبین میں نازل ہوا ہے

سورہ الشعراء میں فرمایا گیا اس قرآن کو ’’بلسان عربی مبین‘‘ روشن عربی زبان میں نازل کیا گیا ہے۔ ان الفاظ و کلمات کے ذریعے یہ حقیقت بھی قرآن کے نزول کے حوالے سے مکمل ہوگئی کہ قرآن کس زبان میں نازل ہوا ہے۔ ’’بلسان عربی مبین‘‘ کے کلمات نے مہر تصدیق ثبت کردی ہے کہ قرآن کا نزول سراسر عربی زبان میں ہوا ہے اور وہ عربی زبان جو واضح ہی واضح ہے۔ وہ عربی کلمات جو صریح ہی صریح ہیں۔ وہ عربی الفاظ جو اپنے معنی و مفہوم میں مبین و روشن ہیں۔ قرآن اس عربی زبان میں نازل ہوا ہے۔ قرآن میں کوئی لفظ مہمل نہیں۔ قرآن میں کوئی لفظ بے معنی نہیں، قرآن کا کوئی حرف بے جا نہیں، قرآن کا کوئی کلمہ معنی سے خالی نہیں، قرآن کا ہر ہر کلمہ اپنے اندر معنویت رکھتا ہے۔ قرآن کا سارا کلام اپنے اندر ایک جاذبیت رکھتا ہے۔

قرآن کا نزول قلب مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہوا ہے

قرآن نے اس تصور کو بھی واضح کیا ہے، اس قرآن کو ہم نے کہاں نازل کیا ہے؟،ہم نے اس قرآن کو کسی پہاڑ پر نازل نہیں کیا، خانہ کعبہ کی چھت پر نازل نہیں کیا، لکھے لکھائے کچھ لوائح نہیں اتارے بلکہ اس قرآن کو روح الامین حضرت جبرائیل علیہ السلام اللہ کی طرف سے لے کر آئے ہیں اور اللہ رب العزت نے اس قرآن کو جبرائیل امین علیہ السلام کے ذریعے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب انور پر نازل کیا ہے۔

نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُO عَلَى قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنذِرِينَO

’’اسے روح الامین (جبرائیل علیہ السلام) لے کر اترا ہے، آپ کے قلبِ (انور) پر تاکہ آپ (نافرمانوں کو) ڈر سنانے والوں میں سے ہو جائیں‘‘۔

(الشعراء، 193، 194)

قرآن حکیم کے بارے دوسرا تصور یہی ہم نے قائم کرنا ہے۔ اس قرآن میں جو کچھ ہے وہ لاریب ہے اور حق ہی حق ہے جو قرآن کے حق سے متصادم ہے وہ باطل ہے۔ وہ نظریہ جو قرآن کی نص کے خلاف ہے وہ باطل ہے۔ وہ تصور جو قرآنی آیات کے خلاف ہے وہ باطل ہے۔ وہ فکر جو قرآنی تعلیمات کے منافی ہے وہ باطل ہے۔

دوسرا تصور۔۔ قرآن کی تعلیمات حق ہیں

اس کتاب کا ’’لاريب فيه‘‘ اور ’’هوالحق من ربهم‘‘ کا معنی ہی یہی ہے یہ کتاب اپنے تصورات و اعتقادات میں لاریب ہے اور یہ کتاب اپنی تمام تر تعلیمات میں حق ہی حق ہے۔ اس لئے کہ باری تعالیٰ نے سورہ محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ارشاد فرمایا:

وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَآمَنُوا بِمَا نُزِّلَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَهُوَ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ كَفَّرَ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَأَصْلَحَ بَالَهُمْO

’’اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور اس (کتاب) پر ایمان لائے جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کی گئی ہے اور وہی ان کے رب کی جانب سے حق ہے اﷲ نے ان کے گناہ ان (کے نامہ اعمال) سے مٹا دیئے اور ان کا حال سنوار دیاo‘‘

(محمد: 2)

قرآن حکیم کا یہ اسلوب ’’هوالحق من ربهم‘‘حصر پر مبنی ہے جو اس بات کو واضح کررہا ہے کہ حق صرف اور صرف یہی ہے کہ جو کچھ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل کیا گیا ہے وہی صرف اور صرف حق ہے۔ حق قرآن ہے اور حق رسول اللہ کی سنت ہے اور اسلام کی ساری تعلیمات حق ہی حق ہیں۔ جو تصورات و اعتقادات اور نظریات و افکارات قرآن سے متصادم ہیں اور قرآن و سنت سے متضاد ہیں وہ باطل ہی باطل ہیں۔ اس لئے یہ قرآن

أَنَّهُ مُنَزَّلٌ مِّن رَّبِّكَ بِالْحَقِّO

’’بے شک یہ قرآن تیرے رب کی طرف حق کے ساتھ نازل کیا گیا ہے‘‘۔

(الانعام: 114)

قرآن کی پیروی ہی حق ہے، رسول اللہ کی پیروی ہی حق ہے۔ ’’انعمت علیہم‘‘ کی پیروی ہی حق ہے۔ انبیاء صدیقین، شہداء اور صالحین کی پیروی ہی حق ہے۔

حق کی پیروی ایک مسلمان کی شناخت ہے

ایک مسلمان کی زندگی حق کی علامت ہے۔ حق اس کی زبان سے ظاہر ہوتا ہے۔ حق اس کی زندگی میں اس کا عمل بنتا ہے۔ حق اس کی زندگی میں اس کی شناخت بنتا ہے۔ حق اس کی زندگی میں اس کا کردار بنتا ہے۔ حق اس کی زندگی میں اس کا تشخص بنتا ہے۔ حق سے انسانی کردار جنم لیتا ہے۔ حق سے مومنانہ کردار ظہور پذیر ہوتا ہے۔ حق نفع بخش ہے۔ حق انسان پروری کا نام ہے۔ حق خدا طلبی کا نام ہے۔ حق معرفت کا نام ہے۔ حق اللہ کی رضا کا نام ہے۔ حق رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کامل اتباع کا نام ہے۔ حق قرآن سے ہے۔ قرآن کا ایک ایک کلمہ، ایک ایک لفظ، ایک ایک حرف حق ہی حق ہے۔ قرآن کی تعلیمات حق ہی حق ہیں۔ باری تعالیٰ قرآن و سنت کی حق پر مبنی تعلیمات کو اپنی زندگیوں میں اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

تیسرا تصور۔۔۔ قرآن کتاب ہدایت ہے

قرآن حکیم کے بارے میں تیسرا تصور اور عقیدہ ہم نے یہ قائم کرنا ہے یہ کتاب ہدایت ہے اور اس کی پیروی ہی حق ہے۔ اس کی راہ پر چلنے والے انعام یافتہ بندوں کی پیروی بھی حق ہے۔ اس لئے قرآن کے حق ہونے اور قرآن کے کتاب ہدایت ہونے کو انہوں نے اپنے وجودوں میں اتارا ہے۔ انہوں نے اپنے عمل کو قرآن کا آئینہ دار بنایا ہے۔ انہوں نے اپنے قول کو قرآن کے نور سے مزین کیا ہے اور انہوں نے اپنے کردار کو قرآن کی تعلیمات میں ڈھالا ہے۔ اس لئے قرآن اپنے پڑھنے والوں اور تلاوت کرنے والوں اور ماننے والوں کے سامنے یہ دعویٰ کرتا ہے۔

إِنَّ هَـذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ وَيُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا كَبِيرًاO

’’بیشک یہ قرآن اس (منزل) کی طرف رہنمائی کرتا ہے جو سب سے درست ہے اور ان مومنوں کو جو نیک عمل کرتے ہیں اس بات کی خوشخبری سناتا ہے کہ ان کے لئے بڑا اجر ہے‘‘۔

(الاسراء: 9)

حوالہ: ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، اکتوبر 2015

تبصرہ