عظمت و شانِ اہل بیت علیہم السلام

محمد احمد طاہر

اہل بیت نبوت، خانوادہ نبوت ہے۔ اہل بیت نبوت سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا کا گھرانہ ہے۔ اہل بیت نبوت کی محبت باعث تکمیل ایمان ہے۔ اہل بیت نبوت وہ مقدس ہستیاں ہیں کہ جس طرح حضور سرور کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام انبیاء و رسل کے سردار ہیں اسی طرح رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت تمام انبیاء کرام اور رسل عظام (علیہم السلام) کے اہل بیت کے سردار ہیں۔

انہی نفوس قدسیہ کی شان اقدس میں خالق کائنات اللہ سبحانہ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:

إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا.

’’بس اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے (رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) اہل بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا میل (اور شک و نقص کی گرد تک) دور کردے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کردے‘‘۔

 (الاحزاب، 33: 33)

اہل بیت کا معنی و مفہوم

لفظ اہل کا معنی ہے والا اور لفظ بیت کا مطلب ہے گھر۔ یعنی اس سے مراد ہے گھر والا یا گھر والے۔ ہمارے اردو محاورے میں بھی بیوی بچوں کو اہل خانہ یا اہل و عیال یا گھر والے کہا جاتا ہے۔

آیت تطہیر کا شان نزول

مندرجہ بالا آیت کریمہ میں اہل بیت سے کون لوگ مراد ہیں، اس بارے میں مختلف اقوال ہیں لیکن اکثر مفسرین کا خیال ہے اور خود حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس آیت کریمہ کے نازل ہونے کے بعد ارشاد فرمایا کہ آیت تطہیر سیدنا علی، سیدہ کائنات، امام حسن اور امام حسین (علیہم السلام) کے متعلق نازل ہوئی۔ چنانچہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان:

قال: نزلت فی خمسة: فی رسول الله، وعلی وفاطمة، والحسن والحسين.

یہ آیت پانچ ہستیوں رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم، علی، فاطمہ، حسن اور حسین کے بارے میں نازل ہوئی۔

 (طبرانی، المعجم الاوسط، 3:380، رقم الحديث: 3456)

اسی طرح حضرت انس بن مالک  رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ چھ ماہ تک حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ معمول رہا کہ جب نماز فجر کے لئے نکلتے اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے دروازہ کے پاس سے گزرتے تو فرماتے:

الصلوة! يااهل البيت. إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا.

’’اے اہل بیت! نماز قائم کرو (اور پھر یہ آیت مبارکہ پڑھتے) اے اہل بیت! اللہ چاہتا ہے کہ تم سے (ہر طرح کی) آلودگی دور کردے اور تم کو خوب پاک و صاف کردے‘‘۔

(ترمذی، الجامع الصحيح، رقم الحديث: 3206)

آل فاطمہ سلام اللہ علیہا اہل کساء ہیں

حضرت صفیہ بنت شیبہ روایت کرتی ہیں: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم صبح کے وقت باہر تشریف لائے درآں حالیکہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک چادر اوڑھی ہوئی تھی جس پر سیاہ اون سے کجاووں کے نقش بنے ہوئے تھے۔

فجاء الحسن بن علی رضی الله عنهما فادخله، ثم جاء الحسين رضی الله عنه فدخل معه، ثم جاء ت فاطمة رضی الله عنها فادخلها، ثم جاء علی فادخله، ثم قال:  إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا.

’’پس حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما آئے تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اس چادر میں داخل کرلیا پھر حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ چادر میں داخل ہوگئے، پھر سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئیں اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اس چادر میں داخل کرلیا، پھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی چادر میں لے لیا۔ پھر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت مبارکہ پڑھی: اے اہل بیت! اللہ تو چاہتا ہے کہ تم سے (ہر طرح کی) آلودگی دور کردے اور تم کو خوب پاک و صاف کردے‘‘۔

(مسلم، الصحيح، 4: 1883، رقم: 2424)

محبت اہل بیت اور قرآن حکیم

اہل بیت اطہار کی محبت کا مقام اور اس کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ خود خدا نے اپنے مقدس کلام میں ارشاد فرمایا:

قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى.

’’فرمادیجئے: میں اس (تبلیغ رسالت) پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا مگر میری قرابت (اور اللہ کی قربت) سے محبت (چاہتا ہوں)‘‘۔

(الشوریٰ، 42: 23)

اس آیت کریمہ کے شان نزول کے متعلق حضور صدرالافاضل حضرت علامہ مولانا نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر خزائن العرفان میں تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ میں رونق افروز ہوئے اور انصار نے دیکھا کہ حضور نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذمہ مصارف بہت ہیں اور (بظاہر) مال بھی کچھ نہیں ہے تو انہوں نے آپس میں مشورہ کیا اور حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حقوق اور احسانات یاد کرکے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت عالیہ میں پیش کرنے کے لئے بہت سا مال جمع کیا اور اس کو لے کر حضور سید عالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ عالیہ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ حضور کی بدولت ہمیں ہدایت ملی ہم نے گمراہی سے نجات پائی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کے اخراجات بہت زیادہ ہیں اس لئے ہم خدام آستانہ پہ مال آپ کی خدمت نذر کرنے کے لئے لائے ہیں۔ امید ہے آپ قبول فرماکر ہماری عزت افزائی فرمائیں گے۔

اس پر آیت مبارکہ نازل ہوئی اور حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ اموال واپس فرمادیئے۔

محبت اہل بیت واجب کردی گئی

صاحب تفسیر کبیر حضرت امام رازی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر میں مندرجہ بالا آیت مبارکہ کے تحت لکھتے ہیں:

لما نزلت هذه الآية قيل يارسول الله من قرابتک هولاء الذين وجبت علينا مودتهم فقال: علی وفاطمة وابناهما.

’’جب یہ آیت (قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى) نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بارگاہ مصطفوی  صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض کیا: یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ کے وہ کون رشتہ دار ہیں جن کی محبت ہم پر واجب کردی گئی ہے تو امام الانبیاء صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: وہ علی، فاطمہ اور ان کے دونوں فرزند (امام حسن و امام حسین) رضی اللہ عنہم ہیں‘‘۔

(تفسير کبير، الجزء السابع والعشرون. ص: 166)

اسی آیت کی تفسیر میں حضرت امام رازی رحمۃ اللہ علیہ مزید رقمطراز ہیں کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

شہادت کا درجہ

من مات علی حب آل محمد مات شهيدا.

’’جو اہل بیت کی محبت میں مرا اس نے شہادت کی موت پائی‘‘۔

گناہوں کی بخشش

اور مزید فرمایا:

الا ومن مات علی حب آل محمد مات مغفورا له.

’’آگاہ ہوجاؤ! جو شخص اہل بیت کی محبت میں مرا وہ ایسا ہے کہ اس کے گناہ بخش دیئے گئے‘‘۔

توبہ کی توفیق

الا ومن مات علی حب آل محمد مات تائبا.

’’آگاہ ہوجاؤ جو شخص اہل بیت کی محبت میں مرا وہ گناہوں سے تائب ہوکر مرا‘‘۔

خاتمہ بالایمان

پھر فرمایا:

الا ومن مات علی حب آل محمد مات مومنا مستکمل الايمان.

’’خبردار ہوجاؤ جو شخص اہل بیت کی محبت میں مرا وہ مکمل ایمان کے ساتھ فوت ہوا‘‘۔

جنت کی بشارت

اور فرمایا:

الا ومن مات علی حب آل محمد بشره ملک الموت بالجنة ثم منکرو نکير.

’’آگاہ ہوجاؤ، جو اہل بیت کی محبت میں مرا اسے حضرت عزرائیل علیہ السلام (موت کے فرشتے) اور منکر نکیر جنت کی بشارت دیں گے‘‘۔

عزت کے ساتھ جنت میں داخلہ

پھر ارشاد فرمایا:

الا ومن مات علی حب آل محمد يزف الی الجنة کما يزف العروس الی بيت زوجها.

’’آگاہ ہوجاؤ جو اہل بیت کی محبت میں مرا اس کو ایسی عزت کے ساتھ جنت میں لے جایا جائے گا جیسے دلہن کو اس کا شوہر گھر لے جاتا ہے‘‘۔

قبر میں جنت کے دروازوں کا کھلن

اور فرمایا:

الا ومن مات علی حب آل محمد فتح له فی قبره بابان الی الجنة.

’’خبردار ہوجاؤ۔ جو اہل بیت کی محبت میں مرا اس کی قبر میں جنت کے دو دروازے کھول دیئے جائیں گے‘‘۔

(تفسير کبير الجزء السابع والعشرون ص166-165 تفسير کشاف، ج3، ص467)

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اہل بیت سلام اللہ علیہم سے محبت

رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیشہ اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اہل بیت علیہم السلام کی محبت اور تعظیم و تکریم کا درس دیا۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین اور آئمہ عظام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی ہمیشہ اہل بیت اطہار سے محبت اور تعظیم و تکریم کرتے رہے۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اہل بیت سے محبت

خلیفہ اول حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اہل بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اپنی محبت کا اظہار ان الفاظ میں کیا:

والذی نفسی بيده لقرابه رسول الله صلیٰ الله عليه وآله وسلم احب الی ان اصل من قرابتی.

’’خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے مجھ کو اپنے اقرباء سے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقرباء محبوب تر ہیں‘‘۔

(الشفاء بتعريف حقوق المصطفی، عياض بن موسیٰ، القاضی، ص38)

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اہل بیت سے محبت

خلیفہ ثانی حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اپنی اولاد سے زیادہ اہل بیت اطہار سے محبت فرمایا کرتے تھے اور ہر موقع پر ان کو فوقیت دیا کرتے تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ آپ نے مال غنیمت تقسیم فرمایا۔ حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کو ہزار ہزار درہم دیئے اور اپنے فرزند ارجمند حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صرف پانچ سو درہم دیئے تو حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: یا امیرالمومنین! میں حضور سید دو عالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد مبارک میں جوان تھا اور آپ کے حضور جہاد کیا کرتا تھا۔ اس وقت حضرات حسنین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بچے تھے اور مدینہ منورہ کی گلیوں میں کھیلا کرتے تھے۔ آپ نے ان کو ہزار ہزار درہم دیئے اور مجھے صرف پانچ سو درہم دیئے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: بیٹا! پہلے وہ مقام اور فضیلت تو حاصل کرو جو حضرات حسنین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حاصل ہے پھر ہزار درہم کا مطالبہ کرنا۔ ان کے باپ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ماں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، نانا حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نانی حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہیں۔ یہ سن کر حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ خاموش ہوگئے۔

(تاريخ کربلا، محمد امين القادری، ص71)

حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اہل بیت سے محبت

حضرت عبداللہ بن حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کسی کام کی غرض سے حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تشریف لے گئے تو آپ نے فرمایا: اگر آئندہ آپ کو کوئی ضرورت پیش آئے تو کسی کو میرے پاس بھیج دیا کریں یا خط لکھ کر مجھے بلا لیا کریں۔ آپ کے آنے سے مجھے شرمندگی ہوتی ہے۔

(الشفاء، قاضی عياض الاندلسی، ص39)

صلحائے امت اور اہل بیت سے محبت

اسی طرح کئی صلحائے امت کے احوال پڑھنے کے لئے معلوم ہوتا ہے وہ محبان اہل بیت تھے۔ ذیل میں چند کا ذکر حوالہ قرطاس کیا جاتا ہے۔

حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی اہل بیت سے محبت

حضرت سیدنا امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اہل بیت کی بہت تعظیم کرتے تھے اور ان کی ظاہر و پوشیدہ نادار لوگوں پر خوب خرچ کرکے ان کی قربت حاصل کرتے تھے۔ کہتے ہیں کہ آپ نے ان میں سے ایک نادار آدمی کو خفیہ طور پر بارہ ہزار درہم بھجوائے اور اپنے ساتھیوں کو بھی اہل بیت کی تعظیم کا درس دیا کرتے تھے۔

حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی اہل بیت سے محبت

حضرت سیدنا امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ بھی اہل بیت سے بے پناہ عقیدت ومحبت فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک بار فرمایا: جب میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ ان لوگوں کی راہ پر چل رہے ہیں جو ہلاکت اور جہالت کے سمندر میں غرق ہیں تو میں اللہ کا نام لے کر نجات کے سفینے میں سوار ہوگیا اور وہ نجات کا سفینہ حضور سرور کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت ہیں۔

(الصواعق المحرقه، احمد بن حجرالهيتمی، ص54)

ایک مرتبہ اہل بیت سے اپنی محبت کا اظہار اس طرح فرمایا:

ان کان رفضا حب آل محمد
فليشهد الثقلان انی رافضی

’’اگر آل رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ہی کا نام رفض ہے تو دونوں جہاں گواہ رہیں کہ میں بے شک رافضی ہوں‘‘۔

(تفسير کبير، الجزء السابع والعشرون، ص166)

حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی اہل بیت سے محبت

حضرت سیدنا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کو جب عباسی حاکم جعفر بن سلیمان نے زدو کوب کیا اور کوڑوں سے آپ کے جسم مبارک کو مارنا شروع کیا تو آپ بے ہوش ہوگئے۔ جب ہوش آیا تو حاضرین سے فرمایا: میں نے اس اذیت دینے والے کو معاف کردیا ہے تو لوگوں نے اس معافی کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا: مجھے خوف ہوا کہ اگر اسی حالت میں میری موت واقع ہوجائے اور حضور سید دوعالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات ہوجائے تو مجھے اس وقت ندامت و شرمندگی نہ اٹھانی پڑے کہ میری وجہ سے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک قرابت دار کو عذاب دوزخ کا مزہ چکھنا پڑے۔

حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی اہل بیت سے محبت

حضرت سیدنا امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ہمیشہ اہل بیت اطہار کی تعظیم و تکریم کرتے تھے۔ جب کوئی اولاد اہل بیت سے ان کے پاس آتا تو اپنی جگہ سے اٹھ جاتے اور انہیں مقدم فرمایا کرتے اور خود ان کے پیچھے بیٹھتے تھے۔

(تاريخ کربلا، محمد امين القادری، ص73)

حوالہ: ماخوذ از ماہنامہ دختران اسلام، اکتوبر 2015

تبصرہ