عرفان القرآن کے امتیازات و خصوصیات

(ڈاکٹر علی اکبر قادری الازہری)

الوہی زبان کو اس کے اصل متن سے کماحقہ سمجھا جاسکتا ہے، کوئی دوسری زبان الوہی دربانی بیان کے محاسن و کمالات اور اس میں پوشیدہ اسرار و رموز، حسن نظم و کلام کو بیان کرنے کا حق ادا نہیں کرسکتی۔ اہل عجم کی عربی زبان سے ناشناسی کی بناء پر مفسرین و محققین نے ایک عرصہ دراز کے بعد قرآنی تعلیمات کی ترویج و اشاعت کے لئے تراجم اور تفاسیر کا سلسلہ شروع کیا۔

اس سلسلے میں برصغیر پاک و ہند میں سب سے پہلے جس عظیم شخصیت کو یہ سعادت حاصل ہوئی وہ ہر مکتبہ فکر کی ہر دلعزیز ہستی حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی تھی۔ جب انہوں نے قرآن کی تعلیمات کو عام لوگوں تک پہنچانے کا ارادہ کیا اور قرآن حکیم کا سب سے پہلے فتح الرحمن فی ترجمۃ القرآن کے نام سے فارسی زبان میں ترجمہ کیا تو مخالفت و مخاصمت کا ایک طوفان کھڑا ہوگیا۔ معاصرین نے انہیں اپنے فتوئوں کا نشانہ بنایا اور اسے بدعت قرار دیتے ہوئے ناجائز ٹھہرایا۔ اسلامی تاریخ کے تناظر میں دیکھیں تو معاصرین کا یہ رویہ کوئی نئی چیز نہ تھا ہر دور میں جب بھی کوئی شخصیت دین کی بنیادی حدود میں رہتے ہوئے کوئی مجتہدانہ کام سرانجام دیتی ہے۔ پہلے پہل سوائے چند صاحب بصیرت کے اسے کوئی قبول نہیں کرتا۔ رفتہ رفتہ پورا زمانہ ان کی تحقیق کو نہ صرف تسلیم کرتا ہے بلکہ ان کی علمی ثقاہت اور عظمت کا معترف بھی ہوجاتا ہے۔ آج اگر قائد تحریک منہاج القرآن پر محض نام نہاد اور فرقہ پرست فتوی زنی کرتے ہیں تو یہ تاریخ کا تسلسل ہے اور ہمارے قائد کی مستند علمی و تحقیقی حیثیت کا کھلا اعتراف ہے وہ اپنا اعتراف اثبات کی بجائے انکار سے کررہے ہیں۔ بہر حال

پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

اردو زبان میں سب سے پہلا ترجمہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے جلیل القدر فرزند حضرت شاہ عبدالقادر محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے فتح القرآن کے نام سے کیا۔ یہ ترجمہ انہوں نے اپنے والد گرامی کے فارسی ترجمہ ’’فتح الرحمن فی ترجمۃ القرآن‘‘ کو سامنے رکھ کر کیا۔ تمام قدیم و جدید اردو تراجم میں شاہ عبدالقادر کے اس ترجمے کو بنیادی حیثیت حاصل ہے اور سرزمین ہند میں جتنے بھی اردو تراجم ہیں یہ ترجمہ ان کی بنیاد ہے۔

جب ہم تراجم قرآن کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں متداول تراجم کی تین قسمیں دکھائی دیتی ہیں۔

  1. فقط لفظی ترجمہ
  2. لفظی زیادہ اور بامحاورہ کم
  3. لفظی اور بامحاورہ کا امتزاج

فقط لفظی ترجمہ

تراجم کی اس ارتقائی تاریخ کے آغاز میں لفظی ترجمہ پر زور دیا جاتا رہا ہے۔ جس میں الفاظ کے معانی و مطالب کو اولین ترجیح حاصل رہی۔ لغات کو کھنگالہ گیا، سیاق و سباق سے ان کے معانی متعین کئے گئے اور دیگر مصادر کو سامنے رکھتے ہوئے الفاظ کے حقیقی معانی تک پہنچنے کی کامیاب کاوشیں کی گئیں۔ اس سلسلے میں شاہ رفیع الدین فرزند شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا ترجمہ بنیاد بنا، بعد ازاں متعدد مترجمین نے اس انداز سے کام کیا جن میں ایک قابل ذکر نام علامہ ابوالحسنات کے ترجمہ کا بھی ہے۔

لفظی زیادہ اور بامحاورہ کم

فقط ترجمہ والی قسم میں الفاظ کے معانی ومطالب پر اگرچہ زیادہ زور دیا گیا اس اسلوب سے اکثر لوگوں پر قرآن کی مراد آسانی سے آشکار نہ ہوسکی اور آیات کے مفاہیم و مطالب سمجھنے میں اغلاق آگیا اور آیات کے صحیح فہم میں کچھ دشواری پیش آئی چنانچہ لوگوں کے لئے تعلیمات قرآن کے ابلاغ و افہام کے لئے یہ سوچا گیا کہ آیات قرآنی کے لفظی ترجمے کی رعایت بھی کی جائے اور محاوراتی زبان بھی استعمال کی جائے۔ اب اس مرحلے میں بھی لفظی پر زیادہ زور دیا اور محاوراتی زبان کی بھی رعایت کی گئی۔ اس سلسلے میں بھی حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے دوسرے فرزند شاہ عبدالقادر کا ترجمہ بنیاد بنا۔

  • شاہ عبدالقادر کا ترجمہ فرزند شاہ ولی اللہ محدث
  • کنزالایمان۔ امام احمد رضان خان
  • فوائد الرحمن۔ مولانا محمودالحسن
  • بیان القرآن۔ مولانا اشرف علی تھانوی
  • ترجمان القرآن۔ ابوالکلام آزاد
  • تدبر قرآن۔ امین احسن اصلاحی

لفظی اور بامحاورے کا امتزاج

تراجم کی دوسری قسم میں بھی ابلاغ اور افہام کا مقصد، کامل طورپر حاصل نہ ہوسکا، قرآنی آیات کے معانی و مطالب کو عام فہم انداز دینے کے لئے تیسری صورت یہ اختیار کی گئی۔ لفظی اور بامحاورہ دونوں کی رعایت کی گئی، لفظی کو محاورے میں سمودیا گیا اس طرح دونوں کا حسین امتزاج سامنے آیا۔ قرآن فہمی میں لوگوں کو آسانی ہوگئی۔ تراجم کی عبارات میں ایک تسلسل اور بہائو آگیا ہے۔ رواں دواں پانی کی طرح تراجم کی زبان میں بھی روانی آگئی، اس بارے میں نقطہ کمال پر یہ تراجم دکھائی دیتے ہیں۔

  • فیوض القرآن۔ سید حامد حسن بلگرامی
  • عرفان القرآن۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

تراجم قرآن کی اردو زبان میں یہ مختصر تاریخ ارتقاء بیان کی گئی ہے ہمارا موضوع عرفان القرآن ہے اس لئے اس مقالے میں زیادہ تر بات اسی پر ہوگی۔ عرفان القرآن کی پہلی خوبی یہ ہے کہ اس کی زبان بیک وقت لفظی بھی ہے اور محاوراتی بھی ہے۔ گویا یوں یہ لفظی و محاوراتی ترجمے کا ایک حسین امتزاج اپنے اندر لئے ہوئے ہے، تراجم کی تاریخ میں اس اسلوب پر یہ اپنے نقطہ کمال پر دکھائی دیتا ہے۔

ترجمے کی خوبیوں کی شناسائی مترجم کے اوصاف کا ادراک کئے بغیر نہیں کی جاسکتی۔ قبل اس کے ہم عرفان القرآن کی خصوصیات کو بیان کریں۔ مترجم عرفان القرآن کی قرآن سے وابستگی اور اس سے لگائو کی مختصر قرآنی خدمات کا جائزہ لیتے ہیں تاکہ اس کے ترجمے کی حقیقت و اہمیت کھل کر ہمارے سامنے آسکے۔ مترجم قرآن اور مفسر قرآن مفکر اسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی زندگی کو قرآن فہمی کے حوالے سے تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

  1. مطالعہ قرآن کا متداول طریق 1970ء تک
  2. مطالعہ قرآن کا غیر متداول طریق 1970ء کے بعد
  3. وہبی طریق قرآن فہمی

مطالعہ قرآن کا متداول طریق

اس دور میں قدیم اور متداول طریق پر تفاسیر قرآن کے ذریعے اپنی خداداد صلاحیت اور قوت و استعداد کے موافق قرآن مجید سے مسائل کا استنباط اور استخراج کیا اور یوں اس دور میں قرآن مجید کے مطالعہ کی نوعیت مروجہ طریق کے مطابق رہی۔ اپنے والد گرامی ڈاکٹر فریدالدین قادری رحمۃ اللہ علیہ کے زیر سایہ یہ زمانہ 1970ء تک جاری رہا۔

مطالعہ قرآن میں غیر متداول طریق

1970ء کے بعد شیخ الاسلام مدظلہ کے مطالعہ قرآن کی نوعیت میں تبدیلی آگئی۔ تلاوت قرآن کے ساتھ ساتھ تحریکی و انقلابی بنیادوں پر مطالعہ کرنے کا ذوق Develop ہوا۔ اس دور میں ڈاکٹر صاحب عشاء کے بعد رات کو پانچ چھ گھنٹے بالعموم مطالعہ قرآن کرتے تھے۔ دس سال تک یہ غلبہ رہا اور پہلا طریق مطالعہ اس میں دب گیا۔ اس طرز پر مطالعہ کا شعور ڈاکٹر برہان احمد فاروقی رحمۃ اللہ علیہ سے عطا ہوا۔ مسائل جدیدہ اور قوموں کے نشیب و فراز کے قرآنی فلسفہ کا ادراک اس دور میں رات کو 5، 6 گھنٹے تدبر و تفکر کے ساتھ مطالعہ قرآن کے معمول سے حاصل ہوا۔ اسی دور میں آپ نے پہلے 26 پاروں میں سے مختلف معاشی، سیاسی، سماجی، تحریکی اور انقلابی اصول اخذ کرکے مختصر خاکہ منتخبات القرآن کے نام سے تیار کیا، جو اپنی نوعیت کی پہلی قرآنی افکار پر مشتمل منفرد علمی کاوش تھی۔

قرآن فہمی کا وہبی طریق

قرآن حکیم کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب کی زندگی کا تیسرا دور 1980ء کے بعد شروع ہوا اس کو دو مرحلوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

اس دور کے پہلے مرحلے میں قرآن مجید کے مطالعہ میں پہلے دونوں دور جمع ہوگئے سابقہ ادوار میں جس طرح ایک ہی دور کا غلبہ تھا۔ اس میں مساوات پیدا ہوگئی اور آہستہ آہستہ قرآن مجید سے بہت پختہ اعتقادی اور فکری تعلق پیدا ہوگیا۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ سابقہ دونوں ادوار اور تیسرے دور کے پہلے مرحلے میں غورو فکر اور تامل کا زیادہ عمل دخل رہا اور وہبی اعتبار سے بھی قرآن مجید سے فیض حسب حال ملتا رہا مگر 7، 8 سال بعد جب تیسرے دور کا دوسر امرحلہ شروع ہوا تو پھر کیفیت یہ تھی۔ ’’آتے ہیں غیب سے مضامین خیال میں‘‘ والا معاملہ شروع ہوگیا تھا۔

اس طریق کے دوسرے مرحلے میں شروع ہونے والے اس دور میں ڈاکٹر صاحب کا قرآن مجید سے تعلق بہت مختلف نوعیت کا ہوگیا۔ جنوری 1991ء میں جب آپ خلوت گاہ سے باہر تشریف لائے تو ’’قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن‘‘ کا روپ دھار چکے تھے۔ قرآنی معارف آپ پر کھلنا شروع ہوگئے۔ پہلے ادوار میں تامل و تفکر سے غواصی ہوتی رہی مگر تیسرے دور کے اس مرحلے میں کیفیت بدل گئی اور قرآنی آیات پر نظر پڑتے ہی حکمت و عرفان کے منابع رواں ہوجاتے ہیں اور اب الحمدللہ ادنی تامل کی ضرورت بھی بہت کم پیش آتی ہے۔ اس دور میں علمی، اعتقادی، فکری اور نظریاتی قسم کے مسائل جدیدہ کے ساتھ ساتھ روحانی لطائف و معارف کے انکشاف کا باب بھی واہوگیا ہے اور آپ کو قرآن مجید کی نسبت سے اجراء علی اللسان اور اجراء فی القلب کا مقام نصیب ہے یعنی اگر قرآن مجید یاد کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو خودبخود پڑھنے سے یاد ہوتا جاتا ہے اور اس کے معانی و معارف واضح ہوتے جاتے ہیں۔

قرآن فہمی کا ایک بے مثال واقعہ

جب سپریم کورٹ میں پختونخواہ کے ایک بہت بڑے جاگیردار کی جاگیروں کا معاملہ زرعی اصلاحات کی وجہ سے زیر بحث آیا تو اس نے عدالت میں اپیل دائر کردی کہ اسلام طبقاتی تقسیم کا قائل ہے۔ امیرو غریب کے فرق کو قانونی تحفظ دیتا ہے جو چاہے جتنی مرضی دولت اور جائیداد کو اپنے زیر تصرف رکھ سکتا ہے۔ اسلام کوئی قید نہیں لگاتا۔ اس پر بطور دلیل قرآن حکیم سے یہ آیت کریمہ پیش کی گئی:

اَهُمْ يَقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّکَ ط نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ مَّعِيْشَتَهُمْ فِی الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّيَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِيًّا

’’کیا آپ کے رب کی رحمتِ (نبوّت) کو یہ لوگ تقسیم کرتے ہیں؟ ہم اِن کے درمیان دنیوی زندگی میں ان کے (اسبابِ) معیشت کو تقسیم کرتے ہیں اور ہم ہی ان میں سے بعض کو بعض پر (وسائل و دولت میں) درجات کی فوقیت دیتے ہیں (کیا ہم یہ اس لیے کرتے ہیں) کہ ان میں سے بعض (جو امیر ہیں) بعض (غریبوں) کا مذاق اڑائیں (یہ غربت کا تمسخر ہے کہ تم اس وجہ سے کسی کو رحمتِ نبوت کا حقدار ہی نہ سمجھو) ‘‘۔

(الزخرف،43:32)

مذکورہ آیہ کریمہ کا آخری حصہ خاص طور پر زیر بحث تھا کہ لیتخذ بعضہم بعضا سخریا تاکہ وہ ایک دوسرے سے کام لے سکیں اور بعض، بعض سے خدمت لے سکیں اور کم رزق والے زیادہ والوں کی نوکری کریں۔ کچھ حاکم بنیں کچھ محکوم، کچھ خادم بنیں کچھ مخدوم۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا یہ ترجمہ منشاء قرآن کے بھی خلاف ہے اور دین اسلام کے حقیقی معاشی تصور کے برعکس بھی ہے۔

یہ ترجمہ پیش کرنے میں سارے علماء اور محققین بھی یکجا تھے اور عدالتی مشیر بھی متفق تھے۔ 20 کے قریب تراجم سے وہ اپنے اس تصور کو پختہ کرچکے تھے صرف تن تنہا شیخ الاسلام مدظلہ العالی اس ترجمہ کی مخالفت کررہے تھے اور اسے منشاء ایزدی اور قرآنی حقائق اور نبوی تعلیمات کے خلاف گردان رہے تھے، اب یہ سوال پیدا ہوا کہ خود شیخ الاسلام کے نزدیک اس آیت کریمہ کا صحیح کون سا ترجمہ ہے۔

ڈاکٹر صاحب نے فرمایا ساری آیت سوالیہ اور استفہامیہ ہے اور اس کے شروع میں ہمزہ استفہام (اہم یقسمون) انکار ہے اور اس آیت میں جو لفظ ’’سخریا‘‘ آیا ہے یہ مذاق کرنے، تمسخر اڑانے اور ٹھٹھہ کرنے کے معنی میں ہے۔ سو اب پوری آیت کا ترجمہ یہ ہوگا۔

’’کیا تمہارے رب کی رحمت (نبوت سے کسی کو سرفراز کرنا یا نہ کرنا) وہ بانٹتے ہیں (یا ہم) اور ہم نے اس دنیوی زندگی میں ان کے درمیان سامان زیست کو خود تقسیم کیا اور ہم نے ہی بعض کو بعض پر مراتب میں بلند کیا ہے (اور کیا وہ اس لئے کیا ہے) کہ ان میں سے بعض، بعض کا مذاق اڑائیں‘‘۔

ان میں جو امیر ہیں وہ غریبوں کا تمسخر کریں اور ان کی غربت پر ہنسیں۔ عدالت نے لفظ ’’سخریا‘‘ کو مذاق اور تمسخر کے معنی میں لینے پر دلیل مانگی تو ڈاکٹر صاحب نے قرآن حکیم سے آٹھ دس مقامات سے اسی لفظ کو مذاق کے معنی میں استعمال کرنے کی دلیلیں فراہم کردیں۔ لغوی اور نحوی حوالے سے دلائل دے دیئے اور اصول ترجمہ اور تفسیر کے قواعد و ضوابط کو بھی عدالت کے سامنے رکھ کر عدالت کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ عدالت پکار اٹھی کہ یہ بڑا انقلابی ترجمہ ہے اور عین منشاء قرآن کے مطابق ہے۔

عدالت نے اسے بخوشی قبول کیا۔ پوچھنے والوں نے ناقدانہ نگاہ سے عصر حاضر کے مترجمین اور مفسرین کے ہاں سے تائید چاہی اور وہاں موجود تراجم کو دیکھا تو ان میں سے کوئی تائید نہ مل سکی تو عدم تائید کی وجہ سے تسلیم کرنے سے انکاری ہوئے۔ اس پر عدالت نے ان سے استفسار کیا کہ وجہ انکار اگر عربی قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی ہے اور لغت سے بعد اور انحراف ہے تو اسے پرکھ لیتے ہیں تاکہ ترجمے کی صحت اور عدم صحت میزان پر تل کر اپنا فیصلہ خود دے دے اور اگر فقط تائید نہ ملنے کی وجہ سے ترجمے کی عدم صحت کا فتويٰ ہے تو یہ بات عدالت کو قطعاً قبول نہیں کیونکہ عدالت کی نظر مترجمین کی ظاہری حیات اور عدم حیات پر نہیں بلکہ اصولوں اور ضابطوں پر ہے۔ اگر اس ترجمہ میں معیار سے انحراف ہے تو عدالت بحث کرسکتی ہے بصورت دیگر عدالت کی نگاہ میں ڈاکٹر محمد طاہرالقادری بھی اسی مستند و معتبر اور Authorityہیں جیسے کوئی اور مرحوم و مغفور مترجم۔

مخالفانہ اور حاسدانہ زبانیں لاجواب ہوگئیں مگر ڈاکٹر صاحب نے چاہا ان کے نزدیک تائیدی ترجمے کی اس سب سے بڑی مطلوب دلیل کا بھی کوئی سامان کیا جائے۔ ڈاکٹر صاحب نے عدالت سے کہا کہ اعليٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے ممکن ہے ایسا ترجمہ کیا ہو مگر افسوس عدالت کی لائبریری اعليٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے ترجمے سے خالی تھی۔ عدالت نے راولپنڈی اور اسلام آباد کی دکانوں سے اعليٰ حضرت کے ترجمے کی تلاش شروع کرادی۔ اللہ اللہ کرکے بڑی مشکل سے ترجمہ ملا۔ صبح پھر ڈاکٹر صاحب عدالت میں پہنچے تو چیف جسٹس افضل ظلہ نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ڈاکٹر صاحب آپ کو مبارک ہو۔ آپ کے کئے ہوئے ترجمے کی تائید مل گئی ہے۔ اعليٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے بھی یہی ترجمہ کیا ہے۔ وہیں سامعین میں کوئی اور صاحب اٹھے اور انہوں نے کہا مولائے روم نے مثنوی شریف میں بھی یہی ترجمہ کیا ہے۔

اس استنباطی اور استدلالی قوت نے عدالتوں کے فیصلوں کو تبدیل کرایا، عقول انسانی کو اپنا تائیدی بنایا، قبولیت افکار کے لئے ترغیب و تشویق دی، غیروں کو اپنا بنایا، نہ ماننے والوں کو منوایا، یہ ترجمہ کرنے کے پس منظر میں یہ فکر کار فرما تھی کہ اسلام طبقاتی تقسیم کرنے کے لئے نہیں آیا بلکہ اسے ختم کرنے کے لئے آیا ہے۔ ہر کسی کو عزت دینے کے لئے آیا ہے۔ کسی کو بھی غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے کے لئے نہیں آیا اور نہ یہ کہ دولت مند اور اہل ثروت غریبوں کو غلام بناکر ان کی عزت نفس کا سر عام سودا کرتے پھریں اس لئے کہا کہ اس آیت کا ترجمہ پوری صحت کے ساتھ یہ ہے:

اور (کیا) ہم نے ان میں سے کسی کو زیادہ اور کسی کو کم اس لئے دیا ہے (کہ) ان میں سے جو امیر ہیں وہ غریبوں کا مذاق اڑائیں۔

سپریم کورٹ کا یہی وہ تاریخی مقدمہ تھا جس میں پختونخواہ کے ایک بہت بڑی جاگیردار نے ڈاکٹر صاحب کو یہ پیشکش کی کہ اگر آپ اپنی رائے بدل لیں اور تحدید ملکیت کے موقف میں لچک پیدا کرلیں تو صاف اسی ایک مقدمے میں ہی آپ کو 25 لاکھ ادا کردیں گے اس وقت یہ ایک بہت بڑی رقم تھی مگر اسلام کا یہ مفکر اور مرد قلندر اس کی یہ بات سن کر غیظ و غضب سے سرخ ہوگیا کہ تمہیں یہ کہنے کی ہمت اور جرات کیسے ہوئی۔ گویا 25 لاکھ روپے سے تم میرے ضمیر اور میرے ایمان کا سودا کرنا چاہتے ہو اور ہاتھوں کی دنیوی میل سے میرا ابدی دین خریدنا چاہتے ہو۔ فرمایا یہ 25 لاکھ تو کجا 25 کروڑ روپے بھی دو تو تب بھی اس موقف میں مثل ذرہ بھی تبدیل نہیں کروں گا۔ یہ بے نیازی، حق گوئی، بیباکی اور جرات مردانہ دیکھ کر اور سن کر وہ ورطہ حیرت میں پڑ گیا۔ اسے یہ حقیقت معلوم نہ تھی۔

تاج سکندری پہ وہ تھوکتے نہیں ہیں بستر لگا ہوا ہے جن کا آقا تیری گلی میں

قرآن فہمی میں امام وقت

قرآن کے ساتھ خصوصی لگائو اور تعلق ہی تو ہے وہ اپنی ہر بات کا ثبوت قرآن سے لاتے ہیں۔ تقریر ہو یا تحریر آغاز بھی قرآن سے ہوتا ہے اور اختتام بھی قرآن پر ہوتا ہے، وہ قرآن کے وسیع و عریض اور بے کنار سمندر میں غواصی کرکے فقط لفظ قرآن پر ’’مناہج العرفان فی لفظ القرآن‘‘ کی صورت میں بیش بہا قیمتی تحفہ امت کو دیتے ہیں اور کبھی تفکر قرآن کے نتیجے میں ملت کو سنوارنے کے لئے سورۃ فاتحہ اور تعمیر شخصیت کا نسخہ منظر عام پر لاتے ہیں۔ قرآنی تعلیم کی ترویج اور اشاعت کے بیسیوں گوشے ان کی شخصیت کا حصہ ہیں جس پر بھی ہم بولیں یا قلم اٹھائیں، طویل وقت درکار ہے۔

مختصر یوں کہ واللہ وہ امام وقت ہے، وہ اس دور کا ہادی ہے، وہ امت کو سوئے منزل لے کر جارہا ہے وہ قرآن کے نور سے امت کو زندہ کررہا ہے اور امت کی عروق مردہ میں جان ڈال رہا ہے، وہ خود قرآن اور صاحب قرآن میں فناہوکر امت کو بقا اور دوام عطا کررہا ہے۔ اس کی دلگداز تلاوت ہی ہزاروں بنجر دلوں کو سیراب کررہی ہے۔ جب وہ قرآن کو بیان کرتے ہیں تو ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے قرآن خود بول بول کر اپنا معنی و مفہوم انہیں سمجھارہا ہو۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے ایسی ہی ہستی کے لئے کہا:

یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن

لوگو! سن لو اپنے نہیں غیر بھی ان کی قرآن فہمی کا اعتراف کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے قرآن کا جو بھی استدلال اس شخصیت نے دیا ہے کوئی بھی اسے چیلنج نہیں کرسکا۔ اس دور میں وہ قرآن کے فہم و افہام میں بلاشبہ ’’امام وقت‘‘ ہیں۔ اس لئے کہ عصر حاضر میں قرآن فہمی کا اعلیحضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کا فیض اس ذات میں جاری ہے، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا فیض بھی ان میں جاری ہے اور مولائے روم رحمۃ اللہ علیہ کا فیض بھی ان میں جاری ہے، امام رازی کا فیض بھی ان میں جاری ہے، ائمہ مذاہب کا فیض بھی ان میں جاری ہے اور حضور غوث الثقلین، محبوب سبحانی، شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا فیض ان میں جاری ہے۔ تابعین، تبع تابعین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہ کا فیض بھی ان میں جاری ہے حتی کہ سب سے بڑھ کر گنبد خضريٰ کے مکین کا فیض بھی ان میں ایک سمندر کی طرح جاری ہے اور اس فیض سے فیضیاب ہورہے ہیں اور امت کو ایک نئی زندگی عطا کررہے ہیں۔ یہ سارا کچھ اس لئے کہ یہ ان کا انتخاب ہیں اور وہ ان سے کام لے رہے ہیں اور ہم ان ہی کی نگاہ کرم سے ان کی سنگت میں جانب منزل جارہے ہیں۔ اب ہم اس شخصیت کے قلم سے ظاہر ہونے والے ترجمہ عرفان القرآن کی خصوصیات کا مطالعہ کرتے ہیں:

عرفان القرآن کی خصوصیات

ترجمہ از خود تفسیر

عرفان القرآن بظاہر ترجمہ ہے لیکن یہ درحقیقت قرآن کی تفسیر بھی خود ہے، دیگر تراجم کا فقط ترجمہ پڑھنے سے قرآن کی آیت کا معنی و مفہوم کاملاً واضح نہیں ہوتا کہیں نہ کہیں اس کا مطلب سمجھنے میں دشواری رہ جاتی ہے۔ اس لئے تفسیر کی حاجت ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں متداول تفاسیر کے مقاصد میں سے ایک مقصد اس کے ترجمے کے مفہوم و مطلب کو واضح کرنا بھی ہے، مگر جب ہم عرفان القرآن کو پڑھتے ہیں تو آیت کا معنی و مفہوم ترجمے میں ہی واضح ہوجاتا ہے۔ ترجمے کے مفہوم کو واضح کرنے کے لئے حسب ضرورت ترجمے کے اصل الفاظ کے علاوہ بریکٹ میں چند الفاظ بھی لکھ دیئے گئے ہیں۔ جب قاری اس ترجمے کو پڑھتا ہے تو آیت کے معنی کے ایضاح کے ساتھ اس پر ایک عجیب بے خودی کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ وہ ایسے محسوس کرتا ہے جیسے آیت کریمہ خود بول کر اسے اپنا معنی و مفہوم سمجھارہی ہو مثلاً اس آیت کریمہ کے ترجمے کو ملاحظہ کیجئے۔ ارشاد باری تعاليٰ ہے:

وَاِذْ اَخَذْنَا مِيْثَاقَ بَنِيْ اِسْرَآئِ يْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اﷲَ قف وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا وَّذِی الْقُرْبٰی وَالْيَتٰمٰی وَالْمَسٰکِيْنِ وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَّاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّکوٰةَ ط ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ اِلَّا قَلِيْلًا مِّنْکُمْ وَاَنْتُمْ مُّعْرِضُوْنَ

’’اور (یاد کرو) جب ہم نے اولادِ یعقوب سے پختہ وعدہ لیا کہ اللہ کے سوا (کسی اور کی) عبادت نہ کرنا، اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اور قرابت داروں اور یتیموں اور محتاجوں کے ساتھ بھی (بھلائی کرنا) اور عام لوگوں سے (بھی نرمی اور خوش خُلقی کے ساتھ) نیکی کی بات کہنا اور نماز قائم رکھنا اور زکوٰۃ دیتے رہنا، پھر تم میں سے چند لوگوں کے سوا سارے (اس عہد سے) رُوگرداں ہوگئے اور تم (حق سے) گریز ہی کرنے والے ہو‘‘۔

(البقرة، 2: 83)

عام فہم

عرفان القرآن کی زبان عام فہم ہے ہر شخص آسانی سے اسے سمجھ سکتا ہے۔ ترجمے کی زبان سمجھنے میں ایک عام تعلیم یافتہ فرد کو بھی کوئی دشواری پیش نہیں آتی۔ مشکل الفاظ کے استعمال سے گریز کیا گیا ہے اور نہ ہی مشکل تراکیب کو محاوراتی زبان کے ساتھ استعمال میں لایا گیا ہے۔ یوں قرآن کی انقلابی تعلیمات کو معاشرے کے ہر فرد تک پہنچانے کا ایک عمدہ طریق اختیار کیا گیا ہے۔

علمی ثقاہت اور فکری معنویت

مترجم کی اپنی علمی ثقاہت اس کے ترجمے کی ثقاہت کی بھی آئینہ دار ہوتی ہے، عرفان القرآن اس ہستی کا شاہکار ہے جس کی علمی ثقاہت اپنے تو کیا غیر بھی تسلیم کرتے ہیں۔ ایسی ہستیوں کے تراجم اس خوبی کی بناء پر کسی خاص زمانے کے لئے نہیں ہوتے بلکہ رہتی دنیا تک آنے والی نسلوں کو راہنمائی دیتے رہتے ہیں۔ جہاں تک فکری معنویت کا تعلق ہے مترجم قرآن آیت کا ترجمہ آیت کے ظاہری معنی، باطنی معنی اور قرآن و سنت کی ساری تعلیمات کو سامنے رکھ کر کرتا ہے تاکہ اس کا وہ ترجمہ دور حاضر میں جہاں قرآن کی حقانیت کو ثابت کردے وہاں قرآنی تعلیمات کی دائمیت کا ثبوت بھی فراہم کرے۔ بطور مثال اگر آپ اس بات کو سمجھنا چاہیں۔ تو اس آیہ کریمہ کے ترجمہ پر توجہ دیں جیسے پہلے بیان کیا گیا ہے:

اَهُمْ يَقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّکَ ط نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ مَّعِيْشَتَهُمْ فِی الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّيَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِيًّا

(الزخرف،43:32)

’’آیہ کریمہ کا آخری حصہ قابل توجہ ہے۔ لِّيَتَّخِذَ بَعْضُہُمْ بَعْضًا سُخْرِیًّا۔ دیگر مترجمین نے اس کا ترجمہ یہ کیا تاکہ وہ ایک دوسرے سے کام لے سکیں اور بعض بعض سے خدمت لے سکیں اور کم رزق والے زیادہ والوں کی نوکری کریں کچھ حاکم بنیں اور کچھ محکوم، کچھ خادم بنیں اور کچھ مخدوم، شیخ الاسلام نے فرمایا یہ ترجمہ منشا قرآن کے بھی خلاف ہے اور دین اسلام کے حقیقی معاشی تصور کے برعکس بھی ہے۔ اس لئے فرمایا کہ میری نظر میں اسلام کی تعلیمات کی ترجمانی کرنے والا اس آیت کا ترجمہ یہ ہے۔ ’’اور ہم نے ہی بعض کو بعض پر مراتب میں بلند کیا ہے (اور کیا وہ اس لئے کیا ہے) کہ ان میں سے بعض، بعض کا مذاق اڑائیں‘‘۔

یہ اس ترجمے کی فکری معنویت ہے، گویا اس ترجمے نے معاشرے کو طبقاتی تقسیم سے بچایا ہے جبکہ پہلے تراجم اسلام میں طبقاتی تقسیم کو درست ٹھہراتے ہیں۔

عقلی تفکر اور قلبی تذکر

عرفان القرآن کی ایک اور امتیازی خوبی یہ ہے کہ اس کے پڑھنے سے عقل کو غورو فکر کی نئی راہیں ملتی ہیں، بریکٹ میں دیئے گئے چند الفاظ ایک آیت کے فکرو عمل کے تمام زاویے کھول دیتے ہیں، وہ چند الفاظ ایک بہت بڑے مضمون اور فکر کو اپنے اندر سموئے ہوتے ہیں اور ان کی حیثیت دریا کو کوزے میں بند کرنے کی ہوتی ہے۔ اس طرح آیت کے نفس مضمون کے مطابق بعض الفاظ نہاں خانہ دل میں ایک ہلچل پیدا کردیتے ہیں اور دل پر ایک خوف و خشیت کی کیفیت طاری کردیتے ہیں اور یوں دل حضور الہٰی میں سجدہ ریز ہوتے ہوئے محسوس کرتا ہے۔

اسلوب بیان کی عمدگی اور ندرت

عرفان کا اسلوب بیان اس اعتبار سے بھی انوکھا ہے کہ اس میں بہتے ہوئے پانی کی روانی ہے۔ ایک نہ ختم ہونے والا تسلسل اور ربط موجود ہے اور ایک نہ رکنے والا بہائو ہے جو انسانی ذہن میں ہر لمحہ آگے کی جستجو پیدا کرتا ہوا اسے اپنے ساتھ بہائے ہوئے لے جاتا ہے۔ نہ اکتاہٹ کا احساس ہوتا ہے اور نہ ذہن پر کسی قسم کا دبائو آتا ہے۔ انسان ہوا کے رخ کی طرف ترجمے کی سلاست کے ساتھ اگلے سے اگلے مفہوم کو جاننے کے لئے مسلسل بڑھے چلا جاتا ہے۔ محویت کے عالم میں وقت گزرنے کا احساس تک نہیں رہتا۔ عرفان القرآن کے اسلوب کی یہ ندرت کہیں اور نہیں ملتی۔

سائنسی تحقق اور نظری جدت

برسوں کی تحقیق کے بعد سائنس ایک حقیقت تک پہنچتی ہے۔ سائنسدان اسے اپنی تحقیق کے نتیجے میں ایک اٹل حقیقت سمجھنے لگتے ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں کہ ایک حقیقت کو انہوں نے دریافت کرلیا ہے۔ مگر جب کوئی اہل خبر ان کو یہ بتاتا ہے کہ نہیں قرآن اس حقیقت کو آج سے برسوں قبل بیان کرچکا ہے تو وہ دنگ رہ جاتے ہیں۔ اس ترجمے میں انسان کی تخلیق سے لے کر کائنات کی تخلیق تک اور قیامت کے وقوع تک تمام حقائق کو شیخ الاسلام مدظلہ نے بیان کردیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ جن حقائق تک سائنس آج پہنچی ہے قرآن ان کو آج سے چودہ سوسال قبل بیان کرچکا ہے۔

حفظ آداب و مراتب

ادب حاصل زندگی ہوتا ہے اور بن ادب کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ ادب والے ہی بامراد ہوتے ہیں وہ جن کی سرشت ہی ادب کا مرقع ہو تو وہ بارگاہِ الہٰی کے ایک ایک حرف میں آداب کو ملحوظ رکھتے ہیں جتنا زیادہ یہ ادب بجا لاتے ہیں اتنے ہی زیادہ یہ اس الہامی کتاب سے ہمکلام ہوتے ہیں۔

حبی کیفیت اور روحانی حلاوت

عرفان القرآن کے ترجمہ سے ہر ہر لفظ کلمے اور جملے و کلام میں جس بات کا غلبہ نظر آتا ہے وہ ’’والذین امنوا اشد حبا للہ‘‘ کا منظر ہے اور دوسرا حبی نظارہ پورے قرآن میں ’’والضحٰی واللیل اذا سجيٰ‘‘ کا ہے اور تیسرا منظر قرآن کے کتاب زندہ ہونے اور کتاب ہدایت ہونے کا ہر جگہ ترجمے کے ایک ایک لفظ سے عیاں ہوتا ہے اور چوتھا منظر اسلام کو ہر دور میں ایک حقیقت مسلمہ بننے اور بنانے کا نظر آتا ہے۔ جب ایک قاری قرآن ان مناظر میں ڈوبتا ہے تو ایک وہ عجیب روحانی کیف و لذت کی کیفیات اپنے اندر محسوس کرتا ہے جو ناقابل بیان ہیں۔ غرضیکہ جوں جوں قاری قرآں کی تلاوت بڑھتی ہے تو اس کی حبی اور روحانی کیفیات میں اضافہ ہونے لگتا ہے، یہ باطنی کیفیات بڑھتے بڑھتے ایک قاری کو ایک عجب روحانی کیف و مستی کی دنیا میں پہنچا دیتی ہے۔ جس کے نتیجے میں ایک قاری قرآں کا ظاہری اور باطنی سکون خود قرآن بن جاتا ہے۔

اعتقادی صحت اور ایمانی معارف

انسانی زندگی کو بنانے اور سنوارنے میں عقیدہ ایک مرکزی کردار ادا کرتا ہے، انسان کا قول و فعل عقیدے کے ساتھ بندھا رہتا ہے۔ انسان کا کردار اس کے عقیدے اور ایمان کا مظہر ہوتا ہے۔ عقیدے اور ایمان کا اولین اور اساسی مآخذ خود قرآن ہے۔ مترجم قرآن، ترجمہ قرآن کے ذریعے جہاں الوہی ترجمان کے منصب عظیم پر فائز ہوتا ہے وہاں مخلوق خدا تک اپنی زبان کے ذریعے حقیقی الوہی پیغام کو پوری صحت کے ساتھ پہنچانے کا بہت بڑا ذمہ دار بھی ٹھہرتا ہے۔ عرفان القرآن کا ترجمہ اپنے ایک ایک جملے میں اسی ذمہ داری کا آئینہ دار دکھائی دیتا ہے اور صحت عقیدہ اور ایمانی معارف و اسرار سے بھرپور اور مملو نظر آتا ہے۔

قارئین کرام ذرا سوچئے! وہ شخصیت جسے دنیا کی ہر بنیادی سہولت میسر ہو، جس کی زندگی میں آرام و سکون کے ہزاروں راستے ہوں، جسے کوئی ذاتی فکر دامن گیر نہ ہو، جسے بظاہر کوئی معاشی تنگی نہ ہو، جسے قدرت نے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہو، جس کے اشارے پر اہل ثروت اپنی دولت نچھاور کرتے ہوں، جو لاکھوں کی عقیدت کا مرکز ہو، اسے کیا ضرورت ہے کہ وہ تکالیف اٹھائے، دنیا بھر کے سفر کرے، دین کے احیاء کے لئے مارا مارا پھرے، امت مسلمہ کی عظمت رفتہ کی بحالی کے لئے اپنا آرام و سکون برباد کردے۔ باطل و طاغوت اور استحصالی و سامراجی طاقتوں کو للکارتا پھرے۔ ظلم کو ختم کرنے کے لئے مردانہ وار جنگ کرے، اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لئے کروٹ کروٹ بے چین رہے۔ احیائے اسلام اور غلبہ دین حق کی بحالی کے لئے اپنی نیندیں اجاڑ لے، اپنی ذات کی تکالیف کی کوئی پرواہ نہ کرے درد و کرب میں آہیں بھرتا ہوا بھی اسلام کا پیغام دینے کے لئے ہر جگہ پہنچ جائے۔ کمر کا درد اٹھنے نہ دے اور وہ پٹیاں باندھ کر اور جان کو قید کرکے امت مصطفوی کو ایک روشن مستقبل دینے کے لئے اسے گھنٹوں بولنا بھی پڑے تو وہ بولتا ہی چلا جائے۔وہ یہ سار اکچھ اس لئے کررہا ہے کہ اس کا مدنی آقاA سے وعدہ ہے جسے وہ شب و روز نبھارہا ہے اور زبان حال سے ہمیں بھی اس راستے کا مسافر بنارہا ہے۔

لوگو! آئیے آج اس کے درد کو بانٹ لیں۔ جس مقصد کے لئے وہ اپنی جان پگھلا رہا ہے ہم بھی اپنی جان پگھلائیں۔ اس کے مشن کے پیغامبر بن جائیں۔ قریہ قریہ، گائوں گائوں، نگر نگر اس کی آواز کو پہنچادیں۔ ہزاروں لاکھوں افراد کو اس کے عظیم انقلابی مشن کا سپاہی بنادیں۔ مصطفوی انقلاب کے لئے اپنے قائد کے خواب کو شرمندہ تعبیر کردیں۔ لوگو! اگر آج ہم سوئے رہے اور اپنے فرض سے غافل رہے اور اس شخصیت کی ناقدری کی تو پھر کوئی ہمارا مسیحا نہیں ہوگا۔ ہماری داستان تک بھی نہ رہے گی۔ قائد اپنا فرض ادا کررہا ہے۔ ہم سب غفلت کی نیند سوئے ہوئے ہیں اٹھو سرزمین پاکستان کے چپہ چپہ پر مصطفوی انقلاب کی بنیادیں رکھ دو اس لئے قوم کی حیات اور عظمت، مصطفوی انقلاب سے وابستہ ہے۔

روح امم کی حیات کشمکش انقلاب
موت ہے وہ زندگی جس میں نہ وہ انقلاب

حوالہ: ماہنامہ دخترانِ اسلام، ستمبر 2015

تبصرہ