شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
آج سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہداء کی یاد میں منعقدہ اس تعزیتی اجتماع میں حاضر ہیں جس سے سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے قائدین نے خطابات کئے جن کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور میں موجودہ دور کے حکمرانوں اور شہداء کے قاتلوں اور ان کے تمام محافظین کو یہ بتادینا چاہتا ہوں آپ میں اور ہم میں فرق اتنا ہے کہ آپ ان لوگوں کے پیروکار ہیں جو اپنے کردار، اپنے نظریے اور اپنے فعل میں ان کے پیروکار ہیں جنہوں نے اپنے گھوڑوں کی ٹاپوں سے خانوداہ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شہزادوں کے مقدس جسموں کو پامال کیا تھا اور ہم ان کے پیروکار ہیں جن کے سر شہادتوں کے بعد نیزے پر چڑھ گئے تھے۔ آپ اپنے آپ کو فاتح سمجھیں لیکن ہمارے عقیدے میں فاتح وہی ہے جن کے سر نیزوں پر قرآن کی تلاوت کررہے تھے۔ ہمیں نہ شکست ہوئی ہے نہ ہوگی نہ کبھی ہوسکتی ہے۔ شکست ان کو ہوتی ہے جن کے حوصلے پست ہوجاتے ہیں، شکست ان کو ہوتی ہے جن کا یقین متزلزل ہوجاتا ہے، شکست ان کو ہوتی ہے جو دنیا کے لئے بے ضمیر ہوکر بک جاتے ہیں اور جو پیسے کا سودا کرتے ہیں مگر جن لوگوں کا دین نہیں بکتا، جن کی غیرت نہیں بکتی، جن کی امارت نہیں بکتی، جن کا تقویٰ نہیں بکتا، جن کا یقین نہیں بکتا، جن کا توکل نہیں بکتا، جن کا نظریہ نہیں بکتا، جن کا کردار نہیں بکتا، ان کے جسموں کے ٹکڑے بھی ہوجائیں پھر بھی فتح یاب ہوتے ہیں۔
آپ نے جبر اور بربریت کی اندھیری رات میں پورے پاکستان کو ڈبو رکھا ہے۔ آج تک تاریخ میں ایسی کوئی رات نہیں آئی جس کی صبح نہ آئی ہو۔ ہر رات کو بالآخر ختم ہونا ہے اور صبح کو طلوع ہونا ہے۔ ہر اندھیرے کو بالآخر چھٹنا ہے اور فجر کا اجالا آکر رہنا ہے۔ ہم فجر کے اجالے کے لوگ ہیں۔ تم اندھیری رات کے اندھیروں کے ساتھی ہو۔ تمہاری موت ہوگی اور تمہارا خاتمہ ہوگا اور پاکستان کے دنیا کے افق پر بالآخر سحر طلوع ہوگی۔ ہماری جنگ جاری ہے۔ ہم جنگ جاری رکھیں گے۔ ہم انصاف کے حصول کے لئے آخری دم تک لڑیں گے اور اس قوم کو انصاف دلائیں گے۔ ہم ظلم کے سامنے کبھی جھکے تھے نہ جھکے ہیں نہ کبھی جھک سکتے ہیں۔ آپ نے آج سنا شہیدوں کے بھائیوں نے شہیدوں کے بیٹوں نے شہیدوں کے خاندانوں نے سال گزرنے کے بعد بھی کہا کہ تم میرے ایک شہید بیٹے کی قیمت دینے آئے ہو، میں اپنے بقیہ دو بیٹے بھی شہید کرانے کو تیار ہوں اگر تم اپنے بیٹے میرے سپرد کردو۔ لعنت ہے تمہارے پیسے پر، تمہاری دولت پر تمہارے لوٹے ہوئے خزانے پر۔ تم ایسے قارون ہو، تم شہیدوں کے خاندان اور مظلوموں کے ایک بچے کو خرید نہیں سکے۔ لعنت ہے تمہاری فرعونیت پر، تمہیں اپنے جبر پر ناز ہے۔ تمہیں اپنی دولت پر ناز ہے، تمہیں اپنی قارونیت پر ناز ہے مگر ہمیں اپنی فقیری پر ناز ہے۔ ہمیں اپنی غیرت پر ناز ہے۔ ہمیں اپنے اس کردار پر ناز ہے کہ کھانے کو نہ ملے مگر پھر بھی فقرو فاقہ میں اللہ والے بادشاہ ہوتے ہیں۔ وہ غنی ہوتے ہیں۔ وہ میرے کارکنوں کو خریدنے لگے تھے۔ شہیدوں کے خون کی قیمت دینے گئے تھے۔ میں کہتا ہوں تم شہیدوں کے بچوں کے جوتے نہیں خرید سکتے۔ میری جماعت کے چھوٹے چھوٹے کارکن اور شہید ہونے والے لاکھوں اور کروڑوں پتی لوگ نہیں تھے۔ محنت مزدوری کرنے والے تھے۔ ان کے پسماندگان، بچے بچیاں اور فیملیز بیشتر کے کاروبار ہی نہیں ہیں۔ جن کے روزگار نہ رہے ان کو ان کی جماعت اور تحریک Look After کررہی ہے۔ میں پوری دنیا کے سامنے کہہ رہا ہوں وہ جن کے پاس اپنے وسائل نہیں ہیں۔ ان میں سے کسی ایک غریب گھرانے کو نہیں خرید سکے۔ لاکھ جتن کرکے تم کبھی دائیں بائیں طعنہ زنی کرتے ہو یا دبے لفظوں سے لوگوں کو جھوٹا گمان دینے کی کوشش کرتے ہو مختلف لفظ بول کر کہ اس جماعت کو خرید لیا ہے۔ تمہاری دولت پر لعنت ہے، تمہاری فرعونیت پر لعنت ہے، تمہاری قارونیت پر لعنت ہے۔ ہمارے پاس ایمان کی دولت ہے۔ ان کارکنوں کے پاس آقا علیہ السلام کے عشق و محبت کی دولت ہے، ان کے پاس اہل بیت اطہار علیہم السلام اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی پیروی کی دولت ہے۔ ان کے پاس اخلاص کی دولت ہے، ان کے پاس ایمان کی دولت ہے ان کے پاس جرات کی دولت ہے، ان کے پاس شجاعت کی دولت ہے اور ان کے پاس دردِ دل کی دولت ہے۔
ان کے پاس ایسی دولت ہے جس کی وجہ سے وہ تم جیسے کروڑوں قارونوں سے بھی زیادہ غنی ہیں۔ آپ کہتے ہیں ہم تو بیریئر ہٹانے کے لئے آئے تھے میرے سوال کا جواب دیں پاکستان کی تقریباً 70 سالہ تاریخ میں کبھی کوئی ایک بیریئر ہٹانے کے لئے 18 تھانوں کی پوری فوج بھیجی جاتی ہے۔ میں آپ سے پوچھتا ہوں وہ بیریئر لگائے کس نے تھے؟ ہم نے لگائے ہی نہیں تھے وہ تو ماڈل ٹاؤن کی پولیس نے Request کرکے لگوائے تھے اور چار سال سے ماڈل ٹاؤن کی پولیس ان بیریئر کی حفاظت کرتی ہے۔ وہ چار سال سے ان بیریئر کے لئے ڈیوٹی دے رہے تھے تو میرا سوال یہ ہے کہ سیکیورٹی کے پیش نظر بیریئر ماڈل ٹاؤن کی پولیس نے لگائے تھے تو کس کے حکم سے ہٹانے کے لئے پولیس آئی تھی؟
سانحہ ماڈل ٹاؤن کسی بیریئر ہٹانے کے لئے نہیں تھا۔ نہ یہ حادثہ اور اتفاق تھا۔ یہ منصوبہ بندی تھی مظلوموں کے اٹھنے والی آواز کو دبانے کی سازش تھی جو نہ دبی ہے نہ دبے گی۔ یہ مزدوروں، کمزوروں، انصاف سے محروم، پریشان حال اور انسانیت کو توانا کرنے کی اس جدوجہد کو روکنے کی سازش تھی۔ تم اس جدوجہد کو نہیں روک سکے اور نہ وہ آواز رکی ہے نہ رکے گی اور نہ یہ مشن رکے گا۔ اب یہ کہتے ہیں سانحہ ماڈل ٹاؤن پر JIT بنادی لہذا اس میں ہمارے لوگ Appear کیوں نہیں ہوتے اور ریکارڈ پر اپنا نکتہ نظر کیوں نہیں بیان کرتے؟ انتہا ہے ظلم کی، کبھی دنیا میں قاتلوں کی تفتیشی ٹیم پر مقتولین بھی حاضر ہوتے ہیں۔ جن لوگوں پر مشتمل آپ نے JIT بنائی ہے اور اپنی مرضی سے بنائی ہے جبکہ آپ اس قتل کے منصوبہ ساز ہیں اور آپ کی پوری ٹیم ہے۔ اس ٹیم میں قتل کی پوری منصوبہ بندی میں آپ سب شامل ہیں۔ ہمیں علم ہے کہ آپ کے ظلم و جبر پرمبنی اقتدارکے دور میں انصاف نہیں ملے گا۔ مگر ہم نہ انصاف سے محروم ہیں نہ اللہ کی رحمت سے محروم ہیں۔ انصاف کا جب وقت ہوگا ملے گا ایک وقت آئے گا جب آپ بھی تختہ دار پر چڑھیں گے۔
آپ کا وزیر کہتا ہے مجھے حلف کی پاسداری ہے، میں ڈیل پر بات نہیں کرسکتا۔ کبھی کوئی ہنس کر بات کردیتا ہے، کبھی کوئی شرم ناک طریقے سے کرتا ہے، کون سے پردے رکھے ہوئے ہیں۔ قاتلوں کا کوئی حلف نہیں ہوتا۔ ظالموں کا کوئی حلف نہیں ہوتا۔ آپ کس حلف کے پاسدار ہیں۔ آپ کا ضمیر مردہ ہے۔ آپ پیسے کے پجاری ہیں۔ آپ کا دین، آپ کا ایمان آپ کا ضمیر آپ کا کردار سب کچھ پیسے کا پجاری ہے۔ آپ کا خدا پیسہ اور دولت ہے۔ اس لئے اس آئینے میں آپ کو اپنا چہرہ نظر آتا ہے۔ آپ سمجھتے ہیں دوسرا بھی آپ کی طرح ڈیل کے ساتھ بِک جائے۔ اب ڈیل کرنے والوں اور ڈیل کہنے والوں پر خدا اور رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لعنت ہے اور ہمارا ہر کارکن لعنت دیتا ہے۔
آپ سے کہا تھا کہJIT کارکن پنجاب نہیں کسی اور صوبے کی چاہئے۔ پاکستان کے تین اور صوبے بھی ہیں آپ وزیراعظم کہلاتے ہیں خود تو باقی تین صوبے بھی آپ کے انڈر ہیں۔ ہم نے کہا پنجاب پولیس قاتل ہے۔ 12 گھنٹے اس نے دہشت گردی کی ہے خدا بھلا کرے اور اجر دے پاکستان کے پورے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو جنہوں نے 12 گھنٹے آپ کی درندگی، آپ کی دہشت گردی،آپ کی قتل و غارت گری پوری دنیا کو دکھائے رکھی۔ آنسو گیس سے لے کر شیلنگ اور گولیوں تک سب کچھ دکھایا۔ میڈیا والے میدان میں اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر پھرتے تھے اگر وہ نہ ہوتے تو ہمیں ہی قاتل بناکر جیل میں ڈال دیتے۔ یہ اس میڈیا نے رات اور دن میں سچ اور جھوٹ کا فیصلہ کروادیا۔ ورنہ رات کا اندھیرا تھا تم خدا جانے کیا کرتے۔ وہ JIT اسی پولیس پر مشتمل آپ نے بنائی ہے۔
پولیس قاتل ہے، اسی پولیس کے خلاف ہماری FIR ہے۔ اسی پولیس کو قتل کے لئے بھیجنے والے آپ ہیں۔ JIT بنانے والے آپ ہیں۔ آپ چاہتے ہیں کہ ہمارا ایک بندہ بھی چلا جائے اور آپ کی اس جھوٹی، دہشت گردJIT کو تسلیم کرلے۔ وقت آئے گا، انصاف مقرر ہے ان شاء اللہ وقت آئے گا۔ ہمیں اللہ رب العزت کی ذات پر یقین اور ایمان ہے۔ ہم حوصلہ ہارنے کو کفر سمجھتے ہیں۔ میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن اس قتل عام سے ایک دن پہلے پنجاب کے IG کو کیوں تبدیل کیا؟ 15,16 تاریخ کو ان کے ہاں میٹنگ ہوتی ہے منصوبہ بندی ہوتی ہے۔ کون سی اچانک ضرورت پیش آگئی تھی کہ اس قتل عام سے 17 جون کو ایک دن پہلے IG پنجاب کو تبدیل کردیا گیا اور جس IG کو آپ نے Daputation دے کر بلوچستان میں پھینکا تھا اس کو فوری بلاکر یہاں لگادیا۔ آپ کہتے ہیں مجھے خبر نہیں، آپ اس سارے سانحہ کی ذمہ داری نہیں لینا چاہتے۔
پورا قتل عام کا سانحہ اس میں پرائم منسٹر اور چیف منسٹر صاحب براہ راست اول سے آخر تک نگرانی کررہے تھے۔ یہ قاتل ہیں۔ یہ درندے ہیں۔ یہ دہشتت گرد ہیں، مگر بدنصیبی اس قوم کی ہے کہ وہ تخت سلطنت پر بیٹھے ہیں۔ پھر جو جوڈیشل کمیشن چیف منسٹر آف پنجاب نے بنایا۔ اس جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کو شائع کیوں نہیں کیا؟ میرے سوال کا جواب دیں، آپ نے کہا تھا کہ اگر جوڈیشل کمیشن نے ذمہ داری مجھ پر ڈال دی تو میں مستعفی ہوجاؤں گا۔ اس جوڈیشل کمیشن نے قتل کی ذمہ داری آپ پر اور آپ کی حکومت پر ڈال دی۔ آپ آج تک براجمان بیٹھے ہیں۔ اگر آپ کا ضمیر زندہ ہوتا تو آپ کے کئے پر ملامت کرتا تو آپ مستعفی ہوجاتے۔ ڈھٹائی کی حد ہے۔ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ نے آپ کو ذمہ دار ٹھہرایا اس لئے آپ اس کو آج تک شائع نہیں کرسکے۔ اب ہائی کورٹ میں جوڈیشل کمیشن کے قیام کو ایک اور وکیل کے ذریعے چیلنج کروارکھا ہے۔ ایک اور وکیل سے پٹیشن کرواکر ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کروا رکھی ہے کہ جوڈیشل کمیشن کا قیام بھی غیر قانونی تھا تاکہ اس کی رپورٹ بھی جائے اور جوڈیشل کمیشن کی پوری کاروائی بھی جائے۔ اگر آپ بے گناہ ہیں تو آپ کو ڈر کیا ہے اور ہائی کورٹ کا ایک جج آپ کا مقرر کردہ جوڈیشل کمیشن کی سربراہی کرکے رپورٹ دیتا ہے آپ اس رپورٹ کو شائع نہیں کرتے۔ اپنے چھوٹے درجے کے پولیس افسران اور ملازمین پر مشتمل JIT نچلے درجے کی بناکر آپ تفتیش کروارہے ہیں میں آپ سے پوچھتا ہوں اب آپ کی JIT اس چند پولیس افسران کو ذمہ دار ٹھہرا رہی ہے۔ میرا سوال ہے کہ 16 اور 17 جون کو پولیس پنجاب پولیس کس کے کنٹرول میں تھی۔ Simple بات ہے اس پنجاب کا کوئی اور ہوم منسٹر نہیں ہے۔
ہوم منسٹر بھی شہباز شریف صاحب خود ہیں۔ پولیس ڈائریکٹ بھی شہباز شریف صاحب کے انڈر ہے اور ان کے پیچھے ہوم سیکرٹری ہوتا ہے۔ پولیس اگر ذمہ دار ہے تو پولیس کے ہیڈ تو آپ ہیں۔ لہذا بحیثیت وزیراعلیٰ اور بحیثیت وزیرداخلہ پنجاب آپ ذمہ دار ہیں۔ اس ریاستی دہشت گردی پر کوئی بات نہیں اگر اِس وقت انصاف نہیں مل رہا۔ بیس کروڑ کو بھی انصاف نہیں مل رہا۔ آپ کب تک انصاف کا راستہ روکیں گے۔ مجھے سوال کا جواب دیں جو مقتول ہوئے شہداء ہوئے، ان کے ورثا جس طرح کی JIT تفتیش کے لئے چاہتے ہیں پنجاب سے باہر کسی صوبہ پر مشتمل آپ وہ غیر جانبدار JIT کیوں نہیں بنانے دیتے؟ اگر آپ بے گناہ ہیں، اگر آپ نے قتل نہیں کیا اور آپ نے قتل نہیں کرایا اور آپ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے قتل عام کا حکم نہیں دیا۔ اگر آپ اس کے ذمہ دار نہیں ہیں تو آپ کیوں نہیں غیر جانبدار JIT بنانے دیتے؟ ہاں پاکستان میں تو ایسے واقعات بھی ہیں کہ قتل کے کیس میں انکوائری کے لئے سکاٹ لینڈ یارڈ سے بلوایا گیا۔ ہم نے مطالبہ نہیں کیا کہ سکاٹ لینڈ یارڈ سے بلواکر تفتیش کرے۔ ہم نے پاکستان کے اندر ہی سے KPK سے نمبر1 نام دیا تھا کہ اس صوبہ سے بلوالیا جائے کیونکہ ہم پنجاب کے کسی افسر سے تفتیش نہیں کروانا چاہتے۔ اگر سکاٹ لینڈ یاڈ آکر تفتیش کرسکتی ہے تو اپنے ہی ملک کے دوسرے صوبے سے تفتیش کیوں نہیں ہوسکتی؟
کیا دنیا کے کسی معاشرے میں کسی Society میں ایسا ہے کہ قاتل جو ملزم کی کرسی پر بیٹھے اور قاتل خود کہے کہ میں تفتیش کروں گا اور میں رپورٹ پیش کروں گا۔ میں قاتلوں کا فیصلہ کروں گا اور میں فیصلہ سناؤں گا۔ دنیا میں کہیں ہے کہ قاتل خود منصف بیٹھے۔ لہذا یہ قاتلوں کی JIT ہے مقتولوں کو انصاف دینے کے لئے نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر پولیس افسران نے خود گولی چلائی تو کتنوں کو برطرف کیا قتل کیا؟ اگر آپ کا Order نہیں تھا اور پولیس افسران نے خود کیا ہے تو وہ سارے Enjoy کررہے ہیں ساتھ جو میٹنگ کو ہیڈ کرنے والے تھے جن کو آپ نے برطرف کیا تھا۔ کیا عدالت نے فیصلہ سنادیا ہے ان کی بے گناہی کا کہ ان کو پھر سے وزیر قانون کے طور پر بحال کردیا ہے۔ Simple سوال ہے جن کو آپ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے فوری بعد برطرف کیا تھا وزیر قانون کے عہدے سے وہ دوبارہ وزیر قانون کیسے بن گئے؟ ان کی بے گناہی کا حکم کس نے دیا؟ یہ جو آپ کے اطوار ہیں، طور طریقے ہیں، شعار ہیں، یہ خود بتاتے ہیں کہ قاتل آپ ہیں۔ بقول وزیر اعلیٰ پنجاب کے بیان حلفی کے مطابق آپ کی بات مان لی جائے آپ نے کہا کہ 9 بجے مجھے تو قیصر شاہ نے اطلاع دی کہ یہ ہورہا ہے تو نوبجے تو آپ کے اقرار کے مطابق آپ کو اطلاع مل گئی۔ اب ہم کہتے ہیں کہ پوری دنیا کا میڈیا کہتا ہے کہ نو بجے جب آپ کو خبر ہوئی اس وقت تک ایک لاش بھی نہیں گری تھی۔ اس وقت تک گولی بھی نہیں چلی تھی۔ اس وقت تک شیلنگ تھی صرف آنسو گیس تھی۔ لاٹھی چارج تھا۔ پتھراؤ تھا آپ کو نوبجے خبر ہوئی آپ کا اقرار ہے جبکہ شہادتیں ہوئیں ساڑھے 11 بجے اور ساڑھے بارہ بجے لہذا جب تک آپ کو خبر نہ تھی تو پولیس شیلنگ کررہی تھی جب آپ براہ راست ملوث ہوگئے اس کے بعد شہادتیں ہوئیں۔ لہذا قاتل کوئی اور نہیں آپ خود ہیں۔
رب ذوالجلال اس قتل کا بدلہ لے گا۔ ایک کو برطرف کیا سترہ جون کے قتل عام کے نتیجے میں۔ عدالت میں کیس کے فیصلے سے پہلے ہی ایک کو وزیر قانون لگادیا دوسرا آپ کا افسر پرنسپل سیکرٹری تھا اس کو برطرف کیا ابھی تک فیصلہ نہیں ہوا اس کو آپ نے سوئٹزر لینڈ میں World Trade Organization کا پاکستان کا سفیر بنادیا۔ کیوں؟ ہمیں علم ہے کیوں بنایا ایک کو پھر وزیر قانون اور دوسرے کو سوئٹزر لینڈ میں ایمبیسیڈر کیوں بنایا۔ اس لئے کہ خطرہ ہے آپ کو کہ وہ وعدہ معاف گواہ نہ بن جائیں۔ ان کو آپ کے سارے کرتوت کا علم ہے کہیں بات نکل نہ جائے۔ لیکن عمر بھر حکمران آپ نے نہیں رہنا۔
تم سے پہلے بھی یہاں کوئی شخص تخت نشین تھا
اسے بھی خد اہونے کا اتنا ہی یقین تھا
پہلے بھی جب آپ کا تخت الٹا تو آپ جیل میں گئے پھر معافی مانگ کر باہر گئے۔ اب بھی وہ وقت دور نہیں۔ اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ ہم تو کیونکہ ایمان رکھتے ہیں۔ واقعہ کربلا کے شہیدوں کی فتح ہے۔ ان کے بھی قاتلوں کو انجام تک پہنچانے میں وقت لگا تھا لیکن جب وقت لگا تو پھر سارے خاندان کی سلطنت بھی گئی انہوں نے 72 شہید کئے تھے تو بدلہ ایک لاکھ 40 ہزار کا ہوا۔ جب وقت آتا ہے تو پھر کوئی ناخدا نہیں رہتا۔ آپ کو اپنی دولت اور اقتدار پر یقین ہے۔ ہمیں رب ذوالجلال کی قدرت پر یقین ہے۔ حیرت ہے پاکستان کے سارے الیکٹرانک میڈیا نے دکھایا اپنی آنکھوں سے DiG آپریشن خود موجود ہے۔ ان کے خلاف بھی کوئی کاروائی ہوئی؟ پولیس کا ایک IG ہے اگر آپ بے گناہ ہیں تو کیا IG بھی برطرف ہوا؟ کتنے DSP تھے، SP تھے، کتنے SHO تھے کوئی برطرف ہوا؟ کیا کوئی جیل میں ہے؟ چودہ شہیدوں کو کسی کی گولی تو لگی ہے۔ میڈیا آپ کو گولیاں مارتے ہوئے دکھارہا ہے۔ بھئی کراچی میں شہادتیں ہوتی ہیں قاتل نظر نہیں آتے ان کو تلاش کرنا پڑتا ہے کہ قتل کس نے کیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت ہوئی تو قاتل دکھائی نہیں دیتے کہ کون شہید کرگیا۔ ماڈل ٹاؤن کا قصہ تو جداگانہ ہے یہاں تو قاتل 12 گھنٹے تک TV کیمرے کے سامنے رہے۔ دو چار، پانچ منٹ کی بات نہیں بارہ گھنٹے تھے میڈیا دکھاتا رہا۔ سیدھی بندوق کرکے گولیاں چلتی دکھارہا تھا۔ جن کے ہاتھوں میں بندوق ہے ان کے اسٹیکر بھی دکھا رہا ہے۔ یہاں تو قاتلوں کو تلاش کرنے کی حاجت نہیںقاتل تو سامنے ہیں صرف قتل کے منصوبہ ساز پردے کے پیچھے بیٹھے ہوئے ہیں۔
اور جنہوں نے قتل کیا وہ تو ساری دنیا کے سامنے ہیں ان میں سے کتنے جیل کے پیچھے ہیں؟ ایک شخص بتادے۔ آپ کو یہ بات کرتے ہوئے شرم نہیں آتی۔ شرم سے ڈوب مرو غیرت نام کی، حیا نام کی، ایمان نام کی کوئی شے آپ کے اندر موجود نہیں۔ جو آپ کے ساتھ شریک ہیں ٹکے ٹکے کے پیسے پر بکنے والے ہیں بے ایمان ہوجانے والے، بے ضمیر ہوجانے والے جو پیسے حکومت اور اقتدار کی خاطر قتل کرنے والے قاتل بننے والے جبر کرنے والے ان کا بھی آپ کے ساتھ یہی انجام ہوگا۔ جہاں آپ جائیں گے وہ بھی جائیں گے۔
وہ تو اگر آپ اس سانحہ سے اتنے لاتعلق ہیں تو 17 جون کو آپ نے پورا پنجاب کنٹینر لگاکر آپ نے کیوں سیل کیاْ یوں پورے پنجاب کو محصور کردیا گیا تھا۔ آپ کیوں کہتے ہیں کہ میں چوبیس گھنٹے جاگتا ہوں۔ عوام کی خدمت کرتا ہوں میں سوتا ہی نہیں۔ 17جون کی رات ہی نیند آگئی تھی آپ کو؟ جس رات آپ نے قتل کروائے تھے اور معصوموں کے خون بہانے تھے اس رات آپ نے سونا تھا۔ جس رات کربلا میں خون بہہ رہا ہوگا یزید بھی نہیں سویا ہوگا۔ ابن زیاد بھی نہیں سویا ہوگا۔ اس کو پتہ ہے کہ میں کیا کروارہا ہوں۔ جس رات آپ نے خون بہانے کی منصوبہ بندی کی ہو اس رات کون سوتا ہے؟ جس کا ضمیر زندہ ہو کیا وہ سو سکتا ہے؟ 100 ٹیبلٹ لے لیں اسے نیند کہاں آتی ہے؟ کچھ نہ سہی یہ تو پتہ ہے آپ کو دو دن پہلے رانا ثناء اللہ اور آپ کے پرنسپل سیکرٹری جو میٹنگ کو ہیڈ کررہے ہیں میٹنگ ہوئی ہے بقول آپ کے اور آپ اس کو Message کا نام دیتے ہیں۔ جب آپ کی میٹنگ ہوتی ہے تو توقیر شاہ یہاں کسی محکمے کے ہیڈ نہیں وہ اس میٹنگ میں کیوں بیٹھے ہیں؟ اس بات کا جواب دیں وہ اس میٹنگ میں کیوں آتے ہیں وہ تو کسی بھی محکمے کا نمائندہ نہیں۔ وہ صرف آپ کا پرنسپل سیکرٹری ہے۔ وہ پنجاب حکومت کے کسی محکمے کا سیکرٹری نہیں ہے۔ آپ کا ذاتی نمائندہ ہے ہمیشہ وزیراعلیٰ کا پرنسپل سیکرٹری اس کا ذاتی نمائندہ ہوتا ہے۔ اس میٹنگ میں بیٹھا ہوا ہے آپ نے پوچھا وہ کیا کرنے گیا ہے؟ آپ نے کہا مجھے خبر ہی نہیں اس میٹنگ میں وفاقی حکومت کے افسران بھی بیٹھے ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ نواز شریف کو خبر ہی نہیں۔ وفاقی حکومت کے افسران اسلام آباد سے یہاں آکر اس میٹنگ کو Attend کررہے ہیں۔ اس میں منصوبہ بن رہا ہے۔ پوری Planning ہورہی ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ میں بے خبر ہوں۔ میں سوگیا تھا۔ مجھے پتہ ہی نہیں۔ آپ کے محلے میں قیامت بپا ہو اور آپ کو نیند آجائے۔ اس کا مطلب ہے آپ انسان ہی نہیں ہیں۔ اور میرا آخری سوال یہ ہے کہ بتادیں اگر آپ قاتل نہیں تو پھر قاتل کون ہے؟ قتل تو ہوئے ہیں۔ لاشیں تو گری ہیں۔ 14 شہداء ہوئے ہیں پھر ان کا کوئی قاتل تو ہوگا اگر آپ نہیں تو پھر قاتل ہے کون؟ اور کس نے قتل کیا ہے؟ اگر وہ پولیس کے افسران ہیں تو اس کے ہیڈ آپ ہیں۔ وہ آپ کی منسٹری کے انڈر ہیں پھر بھی ذمہ دار آپ ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے یوم شہداء کے موقع پر ہم اپنا عزم پھر دہرا رہے ہیں اور ببانگ دہل کہہ رہے ہیں شریف برادران آپ سترہ جون کے شہداء کے قاتل ہیں۔ پنجاب پولیس قاتل ہے۔ JIT میں جو بیٹھے ہیں وہ قاتلوں کے نمائندے ہیں۔ یہ وقت ان شاء اللہ آئے گا مظلومیت کی آواز یزید بھی سمجھتا ہوگا ابن زیاد بھی سمجھتا ہوگا کہ میں نے سر نیزے پر چڑھا کے لاشوں کو پامال کرکے آواز دبادی ہے مگر حق کی آواز دبا نہیں کرتی۔ حق کی آواز کبھی اس طرح نہیں دبتی ان شاء اللہ تعالیٰ انصاف ملے گا اور حق کی فتح ہوگی۔ جاء الحق وزہق الباطل ان الباطل کان زہوقا باطل کو جانا ہے اور حق کو سربلند ہونا ہے۔
حوالہ: ماخوذ از ماہنامہ دختران اسلام، اگست 2015
تبصرہ