سفرِ معراج کے عجائبات - نازیہ عبدالستار

سُبْحٰنَ الَّذِيْ اَسْرٰی بِعَبْدِه لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِيْ بٰـرَکْنَا حَوْلَه لِنُرِيَه مِنْ اٰيٰـتِنَاط اِنَّه هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُo

(الاسراء،17:1)

’’وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصيٰ تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندہِ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں، بے شک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے‘‘۔

سب سے پہلے اس آیت کریمہ کی لفظی تشریح درج ذیل بیان کی گئی ہے:

سُبْحٰنَ الَّذِيْ کا مطلب ہے پاک ہے وہ ذات۔

واقعہ معراج کو اللہ رب العزت نے اپنی پاکی سے شروع کیا۔ مطلب یہ ہے اللہ رب العزت کی ذات اس کمزوری سے پاک ہے کہ وہ اپنے محبوب کو رات کے تھوڑے سے حصے میں ان بلندیوں پرنہ لے جاسکے۔

اَسْرٰی بِعَبْدِہ ’’جو لے گیا اپنے خاص بندے کو‘‘، یہاں اللہ تعاليٰ نے اسريٰ فرمایا ہے کیونکہ اس لفظ سے تفریح اور مسرت و خوشی کا اظہار ہوتا ہے۔ عبدہ پر جو لفظ ’’ب‘‘ ہے یہ مصاحبت کے لئے ہے۔ اس میں اشارہ ہے کہ سیر کروانے والا سیر کرنے والے کے ساتھ تھا۔ یہ معیت اور سنگت بےکیف تھی جو سمجھ سے بالاتر ہے۔ عبد مضاف ہے ’’ہ‘‘ کی طرف ’’ہ‘‘ کی ضمیر متصل ہے گویا عبد اپنے معبود کی طرف اور معبود اپنے عبد کی طرف مائل تھا اور عبد سے مراد حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مقدسہ ہے۔

بعض لوگ عوام الناس میں غلط شبہ پیدا کردیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عبد اور نور ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ یہ شبہ سراسر غلط ہے کیونکہ اللہ تعاليٰ کے تمام فرشتے نوری ہیں جبکہ ان کے متعلق اللہ تعاليٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:

بل عبادمکرمون۔ ’’بلکہ وہ عزت والے عبد ہیں‘‘۔

غور فرمائیں کہ اللہ تعاليٰ نے فرشتوں کو جو کہ بلاشبہ نوری ہیں عبد فرمایا۔ جس سے ثابت ہوا کہ نور اور عبد ایک دوسرے کی ضد نہیں۔ عبد عبادت کرنے والے کو کہتے ہیں اور عبادت میں نوری، ناری، خاکی، حیوانات و جمادات سب شامل ہیں۔ ارشاد باری تعاليٰ ہے:

يُسَبِّحُ ِﷲِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ

(التغابن، 64: 1)

’’ہر وہ چیز جو آسمانوں میں ہے اور زمین میں ہے اللہ کی تسبیح کرتی ہے ‘‘۔

لَيْلًا ’’رات‘‘ حالانکہ یہ سیر اپنی خاص نشانیاں دکھانے کے لئے تھی اور دیکھنا اچھی طرح دن کو ہوتا ہے تو پھر رات کوکیوں کرائی اور پھر رات بھی ستائیس کی منتخب فرمائی جس میں چاند نظر ہی نہیں آتا۔ مطلب یہ ہے کہ سورج کی روشنی میں بلایا اور نہ ہی چاند کی روشنی میں بلایا جس سے بتانا مقصود تھا کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم چاند اور سورج کی روشنی کے محتاج نہیں بلکہ تمام کائنات آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محتاج ہے اور چاند اور سورج تو آپ ہی سے منور ہیں۔ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی فرماتے ہیں:

يٰاصَاحِبَ الْجَمَالِ وَيَاسَیِّدَ الْبَشَرْ
مِنْ وَّجْہِکَ الْمُنِيْرِ لَقَدْ نُوِّرَالْقَمَرْ

لَايُمْکِنُ الثَّنَاءُ کَمَا کَانَ حَقُّہ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلٰی الْمَسْجِدِ الْاَقْصٰی۔’’مسجد حرام سے مسجد اقصيٰ تک‘‘۔

بعض احادیث میں آتا ہے کہ معراج کی ابتداء حطیم کعبہ سے ہوئی اور بعض احادیث میں ہے کہ آپ اپنی چچا زاد ہمشیرہ ام ہانی کے گھر آرام فرما تھے اور وہاں سے حطیم کعبہ میں تشریف لائے اور حطیم مسجد حرام کے اندر ہے گویا معراج کی ابتداء مسجد حرام سے ہوئی۔ پھر مسجد اقصيٰ تک پھر مسجد اقصيٰ سے ملاء اعليٰ تک سفر کیا۔ قرآن مجید میں سورۃ النجم میں بیان فرمایا گیا ہے۔ اقصيٰ کا مطلب ہے ’’دور‘‘ چونکہ وہ مسجد مکہ سے دور تھی اس لئے اس کو مسجد اقصيٰ کہا جاتا ہے۔

الَّذِيْ بٰـرَکْنَا حَوْلَہ وہ مسجد جس کے اردگرد ہم نے برکت عطا فرمائی یہ مسجد تمام انبیاء اسلام کا مرکز رہی ہے کہ اس کے آس پاس کو اللہ تعاليٰ نے ہر قسم کی برکت عطا فرمائی۔ حسی برکت جس میں باغات، سبزہ زار آبادیاں، چشمے، فصلیں، حدنگاہ تک لہلہاتے ہوئے کھیت ہی کھیت دکھائی دیتے ہیں اور روحانی برکتیں یوں کہ وہاں بے پناہ انبیاء کرام کے مزارات و آثار ہیں۔

اِنَّہ ھُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ۔ بے شک وہی سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔

اس سے مراد حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مراد ہے۔ ضمیر کا مرجع اللہ تعاليٰ کی ذات بھی ہوسکتی ہے مگر اس ضمیر سے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مراد لینا زیادہ صحیح ہے مطلب یہ ہے کہ ہمارے نبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سمیع اور بصیر بھی ہیں۔

واقعہ معراج

ہجرت سے تقریباً پانچ سال قبل رجب شریف کی ستائیسویں رات کو حضرت محمدمصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی چچا زاد ہمشیرہ حضرت ام ہانی کے گھر آرام فرما رہے تھے کہ جبریل علیہ السلام پچاس ہزار فرشتوں کی جماعت اور جنتی براق لئے حاضر ہوتے ہیں۔ حضور محوِ استراحت ہیں۔ جبریل ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ اگر آواز دے کر جگایا تو یہ بے ادبی ہے۔

يَا جِبْرِيْلُ قَبِّلْ قَدَمَيْہ۔ اے جبرئیل! میرے محبوب کے دونوں پاؤں چوم لے۔

حضرت جبریل امین نے اپنی کافوری آنکھیں اور ہونٹ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک قدموں پر رکھ دیئے۔ سید دو عالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بیدار ہوئے توحضرت جبریل نے عرض کی یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم !۔

ان اللّٰہ اشْتَاقَ اِليٰ لِقَائِکَ یارسول اللّٰہ۔ اللہ تعاليٰ آپ کی ملاقات کا مشتاق ہے۔

آپ اندازہ فرمائیں کہ جس کے پاؤں کو بوسے دینے والا جبریل امین ہو جو تمام فرشتوں کا سردار ہے اور مشتاق ملاقات تمام کائنات کا خالق و مالک ہو اس کی شان کا اندازہ کون کرسکتا ہے؟

براق پر سواری

حضور بیدار ہوئے تو حضرت جبریل علیہ السلام نے براق کی سواری پیش کی۔ یہ براق حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق میں رو رہا تھا۔ جبریل نے ستر ہزاربراق دیکھے۔ ہر براق کی آرزو تھی کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سواری کے لئے اسے منتخب کیا جائے۔ اسی اثناء میں حضرت جبریل کی نظر ایسے براق پر پڑی جو رو رہا تھا۔ جبریل علیہ السلام نے کہا تم کیوں رو رہے ہو۔ آج کی رات تو کائنات ارضی و سماوی کا ذرہ ذرہ جھوم رہا ہے۔ براق نے جواب دیا میری منزل بھی وہی ہے جس کے باقی طالب ہیں۔ منزل ایک ہے لیکن راستے دو ہیں۔ کوئی ہنس کر محبوب کو منالیتا ہے اور کوئی روکر۔ میں اپنی منزل کو پانے کے لئے رو رہا ہوں شاید میرا رونا ہی قبول ہوجائے۔ حضرت جبریل علیہ السلام نے اس براق کو خوشخبری دی کہ تمہیں حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سواری کے لئے منتخب فرمالیا ہے اور تمہارا حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں رونا اللہ تعاليٰ کو پسند آگیا ہے۔

امت کی یاد

حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے براق پر سوار ہونے سے پہلے رک گئے اور جبریل علیہ السلام نے توقف ہونے کا سبب دریافت کیا تو حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب ارشاد فرمایا کہ میں سوچ رہا ہوں کہ مجھ پر اتنی عنایات ہیں۔ ملائکہ میری خدمت کے لئے حاضر ہیں۔ براق میری سواری ہے تو حشر کے دن میری امت کا کیا حال ہوگا؟ پل صراط جو پچاس ہزار سال کی راہ ہے اور جو بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہے اور ہر ایک کو اس سے گزرنا ہے۔ میری امت اس سفر کو کیسے طے کرے گی اسی وقت اللہ تعاليٰ کی طرف سے بشارت دی گئی۔ اے محبوب! آپ امت کی ہرگز فکر نہ کریں۔ آپ کی امت کو پل صراط سے یوں گزاریں گے کہ انہیں معلوم تک نہیں ہوگا۔ اعليٰ حضرت حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں کچھ یوں گویا ہیں:

پل سے گزار دو راہ گزر کو خبر نہ ہو
جبریل پر بچھائیں تو پَر کو خبر نہ ہو

اس بشارت کے بعد حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم براق پر سوار ہوئے۔ براق کی رفتار کا یہ عالم تھا کہ جہاں تک نگاہ جاتی تھی وہاں براق کا قدم پڑتا تھا۔ ہماری نگاہ کا یہ عالم ہے کہ یونہی اوپر اٹھائی آن کی آن میں سورج، چاند اور ستاروں پر جاپہنچی ہے جو کہ کروڑوں میل دور ہیں جبکہ ہم خاکی ہیں اور ہماری آنکھوں میں تھوڑا سا نور ہے اور وہ تو سراسرنور ہیں تو ان کی نگاہ کا کیا عالم ہوگا۔ گویا وہ اللہ تعاليٰ کا بھیجا ہوا میزائل تھا جو سارا سفر آن کی آن میں طے کرگیا۔ آج روس اور امریکہ کے بنائے ہوئے راکٹ اور میزائل ہزاروں میلوں کا سفر منٹوں میں طے کررہے ہیں تو اللہ کا بھیجا ہوا سیارہ یہ سفر اس سے بھی زیادہ جلدی طے کرے تو کیا یہ بعید ہے۔

جلوس کی روانگی

حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سواری نہایت شان و شوکت سے ملائکہ کے جلوس میں مسجد حرام سے نکلی۔ اس کا کسی شاعر نے کیا خوب نقشہ کھینچا ہے:

باغ عالم میں باد بہاری چلی
سرور انبیاء کی سواری چلی

آسمان کے دریچے کھول دیئے گئے تاکہ ملاء اعليٰ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جلوس کے دیدار سے مشرف ہوسکے۔

مدینہ منورہ

زرقانی شرح مواہب اللدنیہ ص39 جلد6 میں ہے کہ ابتدائے سفر میں چند لمحوں ایک وادی آئی جس میں کھجور کے باغات تھے۔ جبریل نے عرض کی یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم یہاں اتر کر دو رکعت نفل ادا کریں یہ آپ کی ہجرت گاہ مدینہ طیبہ ہے۔

انبیاء کی امامت

دیکھتے ہی دیکھتے بیت المقدس آگیا وہاں حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسيٰ علیہ السلام تک تمام انبیاء اور رسول صفیں باندھ کر کھڑے تھے اور مصليٰ خالی تھا۔ نبیوں کے سردار حضرت محمد مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم مصلے پر جلوہ افروز ہوئے۔ جبریل امین علیہ السلام نے مقام ضحرہ پر اذان پڑھی۔ سبحان اللہ۔ جس کا موذن فرشتوں کا سردار ہو اور امام تمام رسولوں کا سردار ہو اور مقتدی حضرت آدم، حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسيٰ اور حضرت عیسيٰ علیہم السلام ہوں اس نماز کی شان کا کیا اندازہ ہوسکتا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انبیاء علیہ السلام کی امامت کیوں فرمائی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حضور سب مخلوق سے پہلے پیدا فرمائے گئے اور تمام انبیاء سے آخر میں تشریف لائے۔ یہاں ذہن میں یہ بات آسکتی تھی کہ آخر میں آنے والا شاید مرتبے میں بھی آخر میں ہو۔ اس لئے مسجد اقصيٰ میں حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام انبیاء کے آگے موجود تھے تاکہ کائنات دیکھ سکے کہ پیچھے آنے والا آگے ہے اور آگے آنے والا پیچھے موجود ہے تاکہ یہ ثابت ہوسکے کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اول بھی ہیں اور آخر بھی ہیں۔

ڈاکٹر علامہ محمد اقبال فرماتے ہیں:

نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآن وہی فرقاں وہی يٰسیں وہی طٰہٰ

عروج

مسجد اقصيٰ سے فراغت کے بعد بلندی کا سفر شروع ہوا۔ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ثم عرج بی

یہ سماں بھی بڑا عجیب تھا۔ ملائکہ کے ساتھ تمام انبیاء بھی صلوۃ و سلام میں مصروف تھے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اس شان کے ساتھ بلندی کی طرف محوِ پرواز ہوئے کہ پلک جھپکتے ہی آسمان اول پر پہنچ گئے۔ جبریل علیہ السلام نے دروازہ کھٹکھٹایا توپہلے آسمان پر حضرت آدم علیہ السلام نے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خوش آمدید کہا۔ دوسرے آسمان پر حضرت یحیيٰ اور عیسٰی علیہ السلام نے معراج کی مبارکباد دی۔ تیسرے آسمان پر یوسف علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ چوتھے آسمان پر حضرت ادریس علیہ السلام نے خوش آمدید کہا۔ پانچویں آسمان پر حضرت ہارون علیہ السلام اور چھٹے پر حضرت موسيٰ علیہ السلام ساتویں پر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی جن سے مبارکبادیاں وصول کرتے ہوئے سدرۃ المنتہيٰ تک پہنچ گئے۔

یہاں پر پہنچ کر حضرت جبریل امین علیہ السلام نے عرض کی: اگر میں ایک بال بھی آگے بڑھ جاؤں تو اللہ تعاليٰ کے انوارو تجلیات میرے پروں کو جلاکر رکھ دیں گے۔ یہ میرا مقام انتہاء ہے۔ میں اس سے آگے نہیں جاسکتا۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کوئی پیغام ہے تو دے دیں تاکہ میں اللہ تعاليٰ کی بارگاہ میں پہنچادوں۔

جبریل علیہ السلام نے عرض کیا حضور مجھے اس کی منظوری دلادیجئے کہ جب آپ کی امت پل صراط سے گزرنے والی ہو تو میں اپنے پروں کو بچھادوں تو آپ کی امت ان کے اوپر سے گزر جائے۔ پل صراط کا منظر بھی عجیب ہوگا۔ سید عالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم دعا فرمارہے ہوں گے۔

رَبِّ سَلِّمْ اُمَّتِيْ رَبَّ سَلِّمْ اَمَّتِيْ۔ یا اللہ! میری امت کو سلامتی سے گزار دے۔

معارج النبوۃ ص152 میں ہے پھر حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں اکیلا روانہ ہوا اور بہت سارے حجاب طے کئے یہاں تک کہ ستر ہزار حجابوں سے گزرا۔ ہر حجاب کی موٹائی پانچ سو برس کی راہ تھی اور دونوں حجابوں کا فاصلہ پانچ سو برس کا تھا۔ ایک روایت میں ہے کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا براق یہاں پہنچ کر رک گیا۔ اس وقت سبز رنگ کا رفرف ظاہر ہوا جس کی روشنی سورج کی روشنی کو ماند کررہی تھی۔ مواہب اللدنیہ ص ۳4 میں ہے کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم عرش کے قریب پہنچے تو عرش نے آپ کے دامن کو تھام لیا۔

سلسلہ حجابات

آگے حجابات ہی حجابات تھے تمام پردے اٹھادیئے گئے آخر ایک مقام پر جس کے بارے میں سورہ النجم میں آیا ہے:

ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰی. فَکَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰی

(النجم،53: 8تا 9)

اُدْنُ مِنِّيْ

سفر شروع رہا ایک محبت بھری صدا آرہی تھی۔ ادن منی میرے قریب آیئے۔ مقام دنيٰ سے گزرے تو مقام فتدلی پر پہنچے۔ وہاں سے گزرے تو قاب قوسین تک پہنچے پھر او ادنيٰ۔ ادنيٰ اسم تفصیل ہے یعنی قربت میں بہت زیادتی مشکوۃ شریف ص68 میں ہے۔ حضرت عبدالرحمن فرماتے ہیں:

قال رسول الله صلیٰ الله عليه وآله وسلم رايت ربي في احسن صورة فوضع کفه بين کيفی فوجدت بردهابين ثديی فعلمت ما فی السموات والارض

رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں نے اپنے رب کو حسین صورت میں دیکھا پھر اس نے میرے دونوں کاندھوں کے درمیان اپنا ید قدرت رکھا اس سے میں نے اپنے سینے میں ٹھنڈک پائی اور زمین و آسمان کی ہر چیز کو جان لیا۔

علامہ اسماعیل حقی تفسیر روح البیان ص54 میں فرماتے ہیں۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کریم کریم کو اپنے گھر بلائے اور دوست دوست کی ضیافت کرے مگر خود اس سے چھپ جائے اور چہرہ نہ دکھائے؟

امت کے لئے تحفہ

اللہ تعاليٰ نے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے لئے بھی معراج کا تحفہ عطا فرمایا وہ معراج کا تحفہ ہے نماز جس کے لئے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: الصلوۃ معراج المومنین۔ ’’نماز مومن کے لئے معراج ہے‘‘۔ پہلے پچاس نمازیں عطا کی گئیں تو راستے میں حضرت موسيٰ علیہ السلام کھڑے تھے فرمایا آپ کی امت اتنی نمازیں نہیں پڑھ سکتی۔ اسی طرح حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بار بار اللہ رب العزت کے پاس گئے اور نمازیں کم کرواتے رہے۔ اللہ رب العزت نے فرمایا میرے محبوب یہ خیال نہ کرنا کہ نمازیں کم کی ہیں تو ثواب بھی کم کردیا جو پانچ نمازیں پڑھے گا اس کو پچاس کا ثواب ملے گا۔

اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر نمازیں پانچ ہی رہ جاتی ہیں تو پچاس کیوں عطا فرمائیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ رب العزت یہ چاہتے تھے کہ میرے حبیب کو بار بار معراج ہو اور موسيٰ (علیہ السلام) کا کام بھی ہوتا رہے۔ موسيٰ (علیہ السلام) وہ آنکھیں ہی دیکھتے رہیں جو محبوب حقیقی کا دیدار کررہی ہیں۔

امت کیلئے سلامتی

تین باتیں حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عرض کیں ’’التحیات للہ والصلوات والطیبات‘‘ ’’تین باتیں اللہ تعاليٰ نے ارشاد فرمائیں‘‘۔ ’’السلام علیک ایھا النبی ورحمتہ اللہ وبرکاتہ‘‘۔ حضور  صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سلام، رحمت اور برکت میں اپنی امت کو شامل کرتے ہوئے ’’السلام علینا وعلی عباد اللہ الصلحین‘‘۔

واپسی

علامہ سید محمود آلوسی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر روح المعانی ص12 ج4 اور علامہ اسماعیل حقی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر روح البیان ص404 ج 2 میں فرماتے ہیں: جب سید عالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم معراج سے واپس آئے تو زنجیر بھی ہل رہی تھی بستر بھی گرم تھا اور وضوکا پانی بہہ رہا تھا۔ سورہ النجم میں ہے:

وَالنَّجْمِ اِذَا هَوٰی. مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوٰی. وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰی.

(النجم،53: 1تا3)

’’اس چمکتے پیارے تارے محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قسم جب یہ معراج سے اترے تمہارے صاحب نہ بہکے نہ بے راہ چلے اور وہ کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کہتے‘‘۔

تصدیق

آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس واقعہ کا ذکر سب سے پہلے ام ہانی سے کیا تو انہوں نے کہا اس کا ذکر لوگوں سے نہ کرنا وہ انکار کریں گے تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں حق بات ضرور کروں گا۔ ابوجہل نے یہ واقعہ سنا تو اس کی تصدیق کے لئے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس پہنچے اور کہا تو نے یہ سنا ہے محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ کہتے ہیں کیا یہ بات تسلیم کی جاسکتی ہے کہ اتنی جلدی بیت المقدس اور آسمان کا سفر کرلیا جائے؟ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا تسلیم تو نہیں کی جاسکتی لیکن اگر میرے آقا نے فرمایا ہے تو ضرور سچ فرمایا ہے کیونکہ ان کی زبان پر جھوٹ نہیں آسکتا۔

ابوجہل نے کفار کو بلایا۔ جب تمام قبائل جمع ہوگئے تو حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سارا واقعہ سنایا۔ انہوں نے تالیاں بجائیں اور تمسخر اڑایا۔ ایک کافر نے کہا ہمیں معلوم ہے کہ آپ آج تک بیت المقدس نہیں گئے بتایئے اس کے ستون اور دروازے کتنے ہیں؟ فوراً حضرت جبریل امین علیہ السلام نے بیت المقدس حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کردیا اور حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ستون، دروازے سب بتادیئے۔ کفار نے کہا ہوسکتا ہے کسی سے سن کر بتادیئے ہوں کوئی ایسی بات بتائیں جو نئی ہو۔ ایک کافر نے کہا ہمارے تجارتی قافلے آنے والے ہیں کیا آپ نے انہیں راستے میں دیکھا؟ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہاں۔ ان قافلوںکا ذکر سیرت حلبیہ ص621 ج1 میں ہے۔

پہلا قافلہ مقام روحا میں دیکھا ہے یہ قافلہ بدھ کے روز سورج غروب ہونے تک یہاں پہنچ جائے گا۔ میں نے دیکھا ان کا ایک اونٹ گم ہوگیا ہے وہ تلاش کررہے ہیں۔ وہ سخت پریشان تھے میں نے انہیں آواز دی کہ فلاں جگہ پر ہے۔ وہ حیران ہوئے کہ یہاں محمد( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز کیسے؟

دوسرا قافلہ مقام ذی فجا پر تھا یہ قافلہ بدھ کے روز دوپہر تک پہنچ جائے گا۔ ان کے دو آدمی اونٹ پر سوار تھے جب ان کے پاس سے میرا براق گزرا تو اونٹ ڈر گیا اور دونوں سواروں کو نیچے گرادیا۔ جس کی وجہ سے ایک کی ٹانگ ٹوٹ گئی تیسرا قافلہ مقام تنعیم پر دیکھا اس قافلے کے آگے آگے دھاری دار اونٹ چل رہا تھا۔ ایک شتر سوار کو سردی لگ رہی تھی۔ وہ اپنے غلام سے کمبل مانگ رہا تھا۔ یہ قافلہ قریب آگیا ہے۔ صبح طلوع ہونے تک ہی یہاں پہنچ جائے گا۔

چنانچہ جس طرح حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا بعینہ اسی طرح ہوا اور قافلوں کی آمد میں زرہ برابر بھی فرق نہ آیا پھر کفار نے قافلے والوں سے وہ نشانات دریافت کئے جو حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمائے تھے اور انہوں نے اس کی تصدیق کی جس کی وجہ سے بہت سے کفار نے اسلام قبول کیا۔

تبصرہ