صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا کمال یہ تھا کہ ان میں سے کسی نے کار بھی نہیں چھوڑا اور حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی نہیں پوچھا کہ کن کب آئے گا؟ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صلح حدیبیہ کے موقع پر عرض کیا یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اب کیا کریں؟ فرمایا: تعداد کم ہے اس لئے کن نہیں ہوا۔آگے چلو اور اس پیغام مصطفوی کو گلی گلی پھیلادو۔ کم و بیش 1400 صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پھر کار شروع کیا اور گلیوں، محلوں اور گھروں میں جاکر حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام پھیلاتے رہے اور حوصلوں کو بلند کرتے رہے۔ اس کی برکت یہ ہوئی کہ ڈیڑھ یا پونے دو سال بعد پھر آقا علیہ السلام کی جب کال آتی ہے تو 10 ہزار صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ اب فتح مکہ کے لئے جارہے ہیں جو انقلاب کی فکر کو پہنچاتے رہے جو آگے بڑھتے رہے کیونکہ ان کو یقین تھا کہ ہم کار کرتے رہیں گے تو کن ضرور ہوکر رہے گا۔
یقین محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں یہ ہیں مردوں کی شمشیریں
ڈیڑھ پونے دو سال ہوئے تھے کہ کفار نے خود غلطی کردی ایسی غلطی کی کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ معاہدہ ٹوٹ گیا۔ اب کن کی تلوار چل رہی ہے کیونکہ اللہ رب العزت فرماچکا تھا:
اِنَّا فَتَحْنَالَکَ فَتْحًا مُّبِيْنًا
(الفتح، 48: 1)
’’(اے حبیب مکرم!) بے شک ہم نے آپ کے لئے (اسلام کی) روشن فتح (اور غلبہ) کا فیصلہ فرمادیا۔ (اس لئے کہ آپ کی عظیم جدوجہد کامیابی کے ساتھ مکمل ہوجائے)‘‘۔
اب کن کی تلوار چلی تو کفار خود بخود گرتے چلے گئے اور آہنی تلوار چلانے کی ضرورت نہیں پڑی اور مکہ فتح ہوتا چلا گیا۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ سوا لاکھ کا اجتماع مکہ معظمہ میں حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کھڑا ہے۔ یہ کار کرنے والے کون تھے یہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کارکن تھے۔ آج بھی ہم اسی مصطفوی انقلاب کی بات کرتے ہیں۔ شیخ الاسلام مدظلہ نے فرمایا کہ یہ انقلاب پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں بھرا راستہ ہے جبکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ایک ہی دفعہ جائیں اور کن ہوجائے۔ ایسے اللہ رب العزت کن نہیں دیتا۔ اپنے زور بازو سے پہلے کار مکمل کرنا ہوگا۔ جب تک ہم کار اور کارکردگی والے کارکن نہیں بنیں گے، ہمت و حوصلے اور جرات والے نہیں بنیں گے تب تک کامیابی و کامرانی کی منزل پر فائز نہیں ہوسکیں گے۔
دوسری طرف ہم اپنے قائد کو اس قوم کی خاطر تڑپتا ہوا نہیں دیکھ سکتے۔ ان کے دل کو دکھی اور رنجیدہ نہیں دیکھ سکتے مگر اس لئے برداشت کرتے ہیں کہ یہ بھی حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور انبیاء کرام کی سنت ہے اور چونکہ وہ خود بھی برداشت کررہے ہیں لہذا ہمیں بھی برداشت کرنا ہوگا۔ آج ہمیں تکلیفیں پہنچتی ہیں، یہ تکلیفیں احد والے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو بھی پہنچی تھیں جب وہ لاشیں اٹھارہے تھے۔ بدر والے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنھم کو بھی پہنچی تھی جب وہ لاشیں اٹھارہے تھے۔ تمام غزوات میں بھی تکلیفیں پہنچی تھیں۔ مکہ کے دور میں بھی بے اور مدینہ کے دور میں بھی شمار تکالیف پہنچی تھیں کہ انہی کانٹوں بھرے راستے پر چلتے رہو گے تو ایک دن مقام اور منزل پر پہنچو گے۔ آج اسی عہد وفا کا دن ہے۔ کارکن کو اس فکر انقلاب کو سمجھنے کا دن ہے۔ اس نظام کو بدلنے کے لئے دوبارہ سے کارکن بننے کا دن ہے۔ آج تجدید وفا کا دن ہے اپنے قائد کی قیادت کی خاطر اپنی وفا کو ظاہر کرنے کا دن ہے۔ کیا ہم عہد کرتے ہیں ہم کارکن بنیں گے؟ وہ قائد اور کچھ نہیں چاہتا صرف یہ کہ ہم کارکن بنیں اور اس تسلسل کو روکنا نہیں بڑھتے جانا ہے۔ منزل کے لئے دستک دیتے چلے جانا ہے اور منزل پر پہنچ کر دم لینا ہے۔
اب آپ کی نگاہ پھلوں پر نہیں ہونی چاہئے کہ کون لے گیا؟ ارے جو لے گا اس سے کل کو کوئی اور لے جائے گا۔ آج پھل ادھر چلا گیا کل اس کے پاس بھی نہیں رہے گا۔ اس سے آگے چلا جائے گا اور پھر اس کا بھی نہیں رہے گا۔ ا س سے بھی آگے چلے جائے گا۔ آپ کے پاس اس لئے رہے گا کہ آپ کے پاس اصل ہے۔ وہ پھل چلا گیا مگر نئے بیج سے نیا پھل پھر اُگ جائے گا۔ پھر نئی بہار آئے گی، نئی کرنیں آئیں گی، نئی کونپلیں اگیں گی پھر وہ درخت شادابی کے ساتھ سائے دار بن جائیں گے۔ وہ انقلاب آئے گا جو مقدر ہے۔ وہ انقلاب قائد انقلاب مدظلہ کے ہاتھ سے اس قوم کا مقدر ہے۔ کارکنوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔
کارکن کے لئے ایک مثال یہ دوں گا جب جہاز اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہوتا ہے۔ بڑے آب و تاب سے بڑی ائیر بس فضاء میں اڑتی ہے وہ پائلٹ اپنے ریڈار کے مطابق اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے، پر عزم ہے، پراستقلال ہے، جرات سے معمور ہے اور چل رہا ہے۔ راستے میں آپ دیکھتے ہیں کبھی بادل آتے ہیں ہوا کا بہائو تیز ہوجاتا ہے۔ بعض اوقات اتنی تیزی سے Air Turbulence آتی ہیں جس کے نتیجے میں جہاز بھی متزلزل ہونے لگتا ہے۔ بڑے بڑے مسافر گھبرا جاتے ہیں۔ دلوں پر ہاتھ رکھ لیتے ہیں، سمجھتے ہیں کہ ابھی جہاز الٹ کر گر گیا مگر پائلٹ کو پتہ ہے کہ ہوا چلتی ہے اور چلی جائے گی۔ میری منزل وہ ہے میں وہاں پہنچ جائوں گا۔ اب یہ جہاز سب کو لے کر چل رہا ہے۔ اس میں بزنس کلاس، فرسٹ کلاس، اکانومی کلاس اکانومی پلس کلاس ہے اور ہر طرح کے مسافر ہیں۔ اس میں نواب بھی ہیں، امیر بھی ہیں، غریب بھی ہیں کوئی فرسٹ کلاس افوڈ کرتا ہے جہاز نے اس کو بھی سنبھالا ہے کوئی بزنس کلاس افوڈ کرتا ہے جہاز نے اسے بھی سنبھالا ہے۔ کوئی بزنس پلس افوڈ کرتا ہے اسے بھی سنبھال رکھا ہے۔ کوئی اکانومی پلس افوڈ کرتا ہے اسے بھی سنبھال رکھا ہے۔ کوئی اکانومی افوڈ کرتا ہے اسے بھی سنبھال رکھا ہے۔ کسی کو بیٹھنے کا طریقہ آتا ہے وہ بھی اسی میں ہے اور کوئی پہلی دفعہ آیا ہے وہ بھی اسی میں ہے، کوئی چوکڑی مارکر بیٹھا ہے وہ بھی اسی میں ہے، کوئی تہذیب اور کوئی بدتہذیبی سے بیٹھا ہے وہ بھی اسی میں ہے۔ کسی کا پہلا سفر ہے وہ بھی اسی میں ہے کسی کا 100 سفر ہے وہ بھی اسی میں ہے۔ جس کو سفر کی خبر ہے وہ بھی اسی میں ہے جو کسی کو دیکھ کر آگیا وہ بھی اسی میں ہے۔ جس نے خود ٹکٹ خریدی وہ بھی اسی میں ہے کوئی کسی کی ٹکٹ پر آرہا ہے وہ بھی اسی میں ہے۔ کوئی کسی کی دعوت پر جارہا ہے وہ بھی اسی میں ہے، کوئی کسی کے لئے جارہا ہے وہ بھی اسی میں ہے۔ ہر طرح کے شخص کو اس جہاز نے اپنے اندر سنبھال رکھا ہے۔ میں یہ پوچھتا ہوں جب Turbulenceآئی تو کیا وہ ایسی تھی کہ بزنس کلاس والوں کو چھوڑ گئی اور اکانومی والوں میں آگئی۔ جب Turbulence آئی تو اس Turbulence نے تمیز نہیں کی کہ میں بزنس کلاس کو ری ایکٹ کروں گی اور فرسٹ کلاس کو نہیں کروں گی یا ان غریب اکانومی والوں کو کروں گی۔ جہاز ایک ہے اب جب دروازے بند ہوگئے تو اب جو بھی ہوگا وہ بزنس والے کے لئے بھی وہی ہوگا اکانومی والے کے لئے بھی وہی ہوگا۔ پہلے مسافر کے لئے بھی وہی ہوگا اور آخری مسافر کے لئے بھی وہی ہوگا۔ مہذب شخص کے لئے وہی ہوگا غیر مہذب کے لئے بھی وہی ہوگا۔ جاننے اور پہچاننے والے کے لئے بھی وہی ہوگا اور نہ جاننے والے کے لئے بھی وہی ہوگا۔ کسی نسبت والے کے لئے بھی وہی ہوگا بغیر نسبت والے کے لئے بھی وہی ہوگا۔ گائوں والے کے لئے وہی ہوگا شہر والے کے لئے بھی وہی ہوگا۔ کسی کی دعوت پر جانے والے کے لئے بھی وہی ہوگا اور عام شخص کے لئے بھی کہ اگر پہنچ گئے تو سب اکٹھے پہنچیں گے اگر نہیں پہنچے تو اکانومی کیا بزنس والے بھی نہیں پہنچیں گے۔ اب سب کا مقدر بھی ایک ہے سب کی منزل بھی ایک ہے۔ سب کا سفر بھی ایک ہے سب کا کنبہ بھی ایک ہے سب کی پالکی بھی ایک ہے سب کا منہاج بھی ایک ہے۔ کوئی فرنچ بولتا تھا، کوئی انگلش بولتا تھا، کوئی یونانی بولتا تھا، کوئی ایرانی بولتا تھا، کوئی افغانی بولتا تھا، کوئی اردو بولتا تھا کوئی بلوچی بولتا تھا، کوئی پشتو بولتا تھا یا پنجابی۔ اب زبانیں کام نہیں آئیں گی۔ جب ڈوبیں گے اکٹھے ڈوبیں گے۔ ترجائیں گے تو اکٹھے تر جائیں گے۔ اب مزے کی بات یہ ہے کہ بیٹھنے والے ساڑھے تین سو چار سو ہیں مگر ان کو لے کر چلنے والا قائد ایک ہے۔ اب وہاں مجبوری ہے سب کی کیونکہ آپ کو ایمان اس پائلٹ پر لانا ہے۔ اب قیادت اس کے ہاتھ میں ہے جس کو پائلٹ بنایا ہے اب وہ چلا جارہا ہے اتنے بڑے جہاز کو لے کر چلا جارہا ہے۔ اب آپ دعائیں کرتے ہیں بھلا ہو اس پائلٹ کا اللہ اس کو سلامت رکھے کیونکہ یہ ہمیں لے جارہا ہے۔ ہر زبان والا یہی دعا کرتا ہے کیونکہ سب کو اللہ یاد آجاتا ہے۔ اب جہاز میں بیٹھ گئے اور دروازے بند ہوگئے۔ اب ایمان بھی ایک ہے۔ منزل بھی ایک ہے۔ اعتقاد بھی ایک ہے۔ منہاج بھی ایک ہے۔ منشور بھی ایک ہے۔ فکر بھی ایک ہے۔ قائد بھی ایک ہے اب پتہ ہے Turbulence آرہی ہے لہذا غریب سے بھی بناکر رکھنی پڑے گی کیونکہ امیر تمہیں نہیں بچائے گا وہ غریب ہی بچائے گا کیونکہ امیر تو فرسٹ کلاس میں بیلٹ لگاکر بیٹھا ہے۔ غریب آجارہا ہے۔ اب تمہیں غریب کارکن کو ساتھ رکھنا ہے۔ یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں اس کے پاس کیسے جائوں؟ اس کے پاس سے Smell آتی ہے۔ نہیں Smell آئے یا نہ آئے مرو گے تو اکٹھے مرو گے وہاں Smell کام نہیں آئے گی۔ اب خوشبو ہو یا بدبو، منزل ایک ہے کیونکہ جو فرسٹ کلاس میں بیٹھے ہیں انہوں نے پیچھے سے آکر تمہیں نہیں بچانا۔ اس غریب کارکن نے ہی تمہیں تھامنا ہے۔ لہذا پھر اسے ایسے دیکھو جیسے وہ ایک پائلٹ سب کو ایک بناکر لے کر چل رہا ہے کہ Turbulence آجائے تو کسی کو وہ لے جائے یا کسی کو چھوڑ دے۔ ایسا نہیں ہوگا بلکہ جب جہاز پہنچے گا تو سب ہی پہنچیں گے کیونکہ قائد کی نگاہ میں اکانومی سے لے کر فرسٹ کلاس تک سب ایک ہیں کیونکہ پائلٹ سب کی حفاظت کررہا ہے وہ دس پندرہ یا چند لوگوں کی حفاظت نہیں کررہا بلکہ وہ ساڑھے تین سو چار سو کی حفاظت کررہا ہے۔ قائد کی پہچان یہ ہوتی ہے کہ اس کی نگاہ میں اکانومی سے فرسٹ کلاس سب ایک ہوتے ہیں۔ وہ قائد ہے وہ سب کو ایک سمجھ کرلے کر چل رہا ہے۔ بچاتا ہے تو سب کو بچاتا ہے ڈبوتا ہے تو اپنے سمیت سب کو ڈبوتا ہے۔ اب تم اس قائد کی سیٹ پر بیٹھ کر دیکھو جب وہ کھلی فضا میں منظر دیکھ رہا ہو۔ اس کو عربی میں سید کہتے ہیں یعنی سردار مقاییس اللغہ میں ابن فارس سے پوچھا گیا سید کسے کہتے ہیں وہ کہتے ہیں سید اس شخص کو کہتے ہیں جس کی طرف سب کی نگاہیں ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہی ہوں اور اس کے علاوہ نگاہ کسی اور کو نہ دیکھے اس کو سید کہتے ہیں اور پھر جب لوگ مصائب میں پھنس جائیں اور دھنس جائیں پھر قوم جس کو اپنا مسیحا بنالے اس کو سید کہتے ہیں۔ آج قوم کے سید اور سردار بھی ہمارے قائد ہیں۔ اس جہاز کے پائلٹ بھی وہی ہیں۔ میں کہنا یہ چاہتا ہوں ان کارکنوں کو قائد کی نگاہ سے دیکھنا شروع کرو۔ فرسٹ اور بزنس کلاس والے جب وقت آیا خود تو بھاگ جائیں گے تمہاری خبر نہیں لیں گے اصل بچانے والی اکانومی کلاس ہے۔ جن سے بناکر رکھو گے تو جان دینے والے وہی ہوں گے جیسے 17 جون کو جان دینے والی وہی اکانومی کلاس تھی۔ میں پوچھتا ہوں بزنس اور فرسٹ کلاس کہاں تھی؟ کیونکہ جان دینے والے وہی کارکن ہوتے ہیں لہذا ان سے محبت کریں گے وہ محبت کریں گے۔ ان کی فکر کریں گے وہ فکر کریں گے۔ ان کا آسرا بنیں گے وہ آپ کا آسرا بنیں گے۔ ان کے لئے سوچیں گگے تو وہ آپ کے لئے جان دینے والے بنیں گے۔
آپ ہسٹری اٹھالیں سردار جان نہیں دیتے بلکہ جو کسی کو اپنے سروں کا سردار بنالیں جان وہی دیتے ہیں۔ آپ کا قائد تو وہ ہے جو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر چلے۔ کیونکہ وہ کن والے بعد میں بنے پہلے وہ کار والے تھے۔ قائد وہ ہوتا ہے جو پہلے خود کار (کرنے) والا ہوتا ہے پھر خدا اسے کن کراتا ہے لہذا قائد پہلے کارکن ہوتا ہے اور کارکن بننا سیکھتا ہے پھر کن کے مقام پر بیٹھتا ہے۔ اس لئے اصل پائلٹ اور قیادت کرنے والا اور رہبر و رہنما وہ شخص ہے جو کبھی خود بھی اکانومی میں بیٹھا ہو پھر اکانومی پلس میں بھی بیٹھا ہو، پھر بزنس میں بھی بیٹھا ہو، فرسٹ میں بھی بیٹھا ہو۔ اس کو پھر جہاں بھی بیٹھادیں اس کے لئے برابر ہے۔ اس کو فلسفہ حقیقت انسان کہتے ہیں کیونکہ اس کو پتہ ہے اکانومی اور فرسٹ کلاس کوئی آڑے نہیں آتی کوئی فرق نہیں کیونکہ وقتت مقررہ پر اکانومی والے نے بھی اترنا ہے فرسٹ والے نے بھی اترنا ہے۔ وقت تو وہی ہے بس صرف اندر کے نخرے ہیں وہ نکال دیں تو سفر وہی ہے۔ بس سیٹ میں فرق ہے وہ Comfortable ہے وہ دوسری نہیں ہے۔ جس قائد نے خود سائیکل پر سفر کیا ہو اس کے لئے پجارو اور لینڈ کروزر اور سوزوکی میں کوئی فرق نہیں۔ لیڈر وہی ہے جس نے صفیں خود سیدھی کی ہوں، جس کی جیبیں بھی کٹی ہوں، جو بسوں کی چھت پر خود بیٹھا ہو۔ جس کی چھت پر بیٹھے ہوئے کتابیں بھی گری ہوں، جس نے نوکری خود کی ہو، پھر اسے لات بھی خود ماری ہو، خود کسی کے آگے بکا ہو نہ دبا ہو، جس نے ہر مرحلہ میں اپنے ہاتھوں سے کام کیا ہو، جس نے خود کتابیں لکھی ہوں، جس نے خود اپنے خطابات تیار کئے ہوں، جس نے اپنے ہاتھ سے منہاج القرآن بنایا ہو۔ اسے اس کی فکر رہتی ہے جس نے خود ایک ایک کارکن جمع کیا اور تنکا تنکا کرکے یہ آشیانہ بنایا ہو۔ اس پر رہنے والوں کی بھی فکر ہوتی ہے اسے اگلی نسلوں کی بھی فکر ہوتی ہے۔ اب آپ کے لئے خود شیخ الاسلام کا سبق یہ ہے آپ کا کار یہ ہے کہ کارکن پیدا کرتے چلے جائیں اور کارکن سازی پر توجہ مرکوز رکھیں اور اسے منقطع نہ ہونے دیں۔کارکن پیدا کرتے چلے جائیں اور انہیں متحرک کرتے چلے جائیں۔ قائد کا کام یہ ہے کہ جو منزل انہوں نے دکھائی اس منزل تک آپ کو لے کر چلتے رہیں ے ان شاء اللہ تعالیٰ۔ آپ اپنا کام جاری رکھیں آپ کا کام اگر جاری رہے تو ان شاء اللہ وہ منزل دور نہیں اور وہ انقلاب دور نہیں۔ وہ دن ضرور آئے گا جب آپ کی کی گئی مساعی اور جدوجہد رنگ لائے گی اور پھل لائے گی اور ثمرات نظر آئیں گے اور مصطفوی انقلاب کا سورج جلد ططلوع ہوگا۔ ہم ان شاء اللہ منزل مقصود تک آپ پہنچیں گے۔ ہر کارکن اپنے ہاتھوں سے کی ہوئی محنت کے ثمرات اور نتیجہ اپنے قائد کی قیادت میں خود دیکھے گا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اور ہمت دے اور ہمارے قائد حضور شیخ الاسلام کو صحت کاملہ و عاجلہ عطا کرے۔ آمین
تبصرہ