صدر نے کرکٹ کا ذکر ضرور کیا مگر لوڈشیڈنگ کے اندھیروں میں بھٹکنے
والی قوم کو بھول گئے
صدرکا خطاب وزیراعظم کی طرف سے مختلف اوقات میں جاری ہونے والی پریس ریلیزوں کامجموعہ
تھا
صدر کو پوچھنا چاہیے تھا انتخابی مہم میں 6 ماہ میں لوڈشیڈنگ ختم کیے جانے کے وعدے
پر عمل کیوں نہیں ہوا؟
صدر نے قومی ایکشن پلان پر عمل نہ کرنے اور فوجی عدالتوں کے فنکشنل نہ ہونے کے آئینی
ایشوز کو نظر انداز کیا
این ایف سی ایوارڈ، بلدیاتی انتخابات، ریکارڈ غیر ملکی قرضے، ٹیکس چوری، برمی مسلمانوں
سے مظالم کا ذکر کیوں نہیں کیا؟
لاہور(4 جون 2015ء)پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے صدر مملکت کے خطاب پر اپنے ردعمل میں کہا کہ صدر کا خطاب وزیراعظم کی طرف سے مختلف اوقات میں جاری ہونے والی پریس ریلیزوں کا مجموعہ تھا، یہ صدر مملکت کا خطاب کم اور ن لیگ کے صدر کا خطاب زیادہ تھا، پوری قوم بدامنی، بیروزگاری اور غربت کی چکی میں پس رہی ہے، صدر نے حکومت کی شان میں قصیدہ گوئی کر کے غریب عوام کے زخموں پر نمک چھڑکا، صدر نے کرکٹ کا ذکر ضرور کیا مگر لوڈشیڈنگ کے اندھیروں میں بھٹکنے والے قوم کو بھول گئے، انہیں حکومت کا یاددلانا چاہیے تھا کہ آپ نے انتخابی مہم کے دوران 6 ماہ کے اندر لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا قوم سے وعدہ کیا تھا آج دو سال ہو گئے یہ وعدہ پورا کیوں نہیں ہوا؟ انہوں نے کہا کہ جہاں تک آپریشن ضرب عضب کی تعریف کا تعلق ہے تو یہ بات صدر مملکت کے پیش نظر رہنی چاہیے کہ ضرب عضب کا بہترین فیصلہ بھی حکومتی مزاحمت کے باعث ایک سال کی تاخیر سے ہوا، اگر ایک سال کی تاخیر نہ ہوتی تو یقیناً خطرناک دہشتگردوں کو بھاگنے کا موقع نہ ملتا۔
انہوں نے کہا کہ جہاں تک سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور کا تعلق ہے تو حکومت 6 ماہ گزرنے کے بعد بھی جوڈیشل کمیشن قائم کر سکی اور نہ ہی اس سانحہ کی کوئی سرکاری رپورٹ قوم کے سامنے نہ آ سکی اور نہ ہی یہ آج تک قوم کو بتایا گیا کہ اس سانحہ میں کون لوگ ملوث تھے، کہاں سے آئے اور کہاں غائب ہو گئے اور ان کے سہولت کار کون تھے اور ان کے ساتھ کیا قانونی برتاؤ ہوا؟ انہوں نے کہا کہ جہاں تک دہشت گردی کے خلاف قومی ایکشن پلان کا تعلق ہے تو آج بھی اسکا 70فیصد ایجنڈا نامکمل ہے۔ مدرسوں کی 100فیصد رجسٹریشن ہو سکی نہ پیس سلیبس تیار ہو سکا اور نہ ہی کالعدم اور دہشتگرد تنظیموں کی حتمی فہرست حکومت کے پاس ہے اور نہ ہی آج تک قوم کو یہ بتایا گیا کہ وہ کون سے گروپس ہیں جنہوں نے نام بدل کر اپنا کام جاری رکھا ہوا ہے۔ صدر مملکت کو اس حوالے سے حکومت سے ضرور باز پرس کرنی چاہیے تھی۔ انہوں نے کہا کہ صدر مملکت نے حکومت کی کارکردگی کو تسلی بخش قرار دیا حالانکہ صرف 5روز قبل عدالت نے بجلی کے بلوں کے ذریعے کروڑوں پاکستانیوں سے ظالمانہ چارجز کی وصولی کے خلاف فیصلہ دے کر حکومت کی شاندار عوامی خدمت کا پردہ چاک کیا، عالمی سطح پر پٹرول کی قیمتیں کم ہوں اور پاکستان میں بڑھا دی جائیں کیا یہ عوام کی خدمت اور حکومت کی کارکردگی ہے؟ انہوں نے کہا کہ عوام توقع کررہے تھے کہ صدر مملکت حکومت کو حال ہی میں بڑھائی جانے والی پٹرول کی قیمتیں واپس لینے کا مشورہ دینگے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔انہوں نے کہا کہ صدر مملکت کو حکومت سے بازپرس کرنی چاہیے تھی کہ 21ویں ترمیم کی روشنی میں چاروں صوبوں میں فوجی عدالتیں فنکشنل کیوں نہیں ہوئیں؟ این ایف سی ایوارڈ کا اجراء کیوں نہیں ہوا؟ چار صوبوں میں سے 2صوبوں میں تاحال بلدیاتی انتخابات کیوں نہیں ہوئے، افسوس ان اہم آئینی امورکو پاکستان کے آئینی کسٹوڈین نے نظرانداز کر دیا انہوں نے کہا کہ صدر نے کشمیر اور میانمار کے مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے مظالم پر حکومت پاکستان کو مؤثر آواز اٹھانے کا مشورہ نہ دے کر بھی 18کروڑ عوام کو مایوس کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ صدر مملکت کو حکومت کی معاشی ٹیم کو وارننگ دینی چاہیے تھی کہ ملکی اور غیر ملکی قرضے لینے بند کریں، ٹیکس چوروں کو پکڑیں اور آئی ایم ایف کی غلامی سے قوم کو نجات دلائیں۔ یہ اہم ایشوز بھی صدر مملکت نے نظر انداز کیے۔
تبصرہ