بعد از حمد و صلوۃ یہ سوچتا رہا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی شخصیت کو اپنے مشاہدے کے تناظر میں بیان کروں یا اپنے تجربے کی روشنی میں ذکرکروں، ان کو ان کی مجالس کی رو سے لکھوں یا ان کے خطابات لیکچرز کی تہوں میں اتر کر رقم کروں یا ان کی سینکڑوں تصانیف میں ان کی قلم سے نکلے ہوئے موتیوں میں تلاش کروں پھر یہ خیال آیا ان کو ان کے دنیا بھر کے اسلامک سینٹرز، دعوتی و تبلیغی اور فلاحی، رفاعی مراکز اور تنظیمی دفاتر میں ڈھونڈوں یا پاکستان بھر میں تعلیمی، دعوتی اور تنظیمی نیٹ ورک میں غورکروں پھر دفعتاً اس خیال کو بھی ترک کیا اس لئے کہ خیال کو بھی کوئی سمت اور جہت ہی نہیں مل رہی اس بناء پر کہ خیال کو بھی ایک بحرے بے کنار سے واسطہ پڑا ہے۔ پھر اچانک اسی بحرے بے کنارے کے فیض سے ایک موج ذہن کی سطح پر تیرتی ہوئی آئی اور وہ یہ پیغام لائی انسان کی فضیلت اور فوقیت اور شرف و عزت اور انفرادیت و علوت وہی ہے جسے زمانے کے معاصرین، موافقین، مخالفین، ناقدین اور عدوین مانیں، جانیں، اعتراف کریں اور تسلیم کریں۔
اس لئے پھر دیکھا کہ کس کس نے انہیں کیا کہا ہے اور کیا لکھا ہے کیسے انہیں پرکھا ہے کیسے انہیں جانا ہے، کیسے انہیں دیکھا ہے اور کیسے انہیں محسوس کیا ہے، ان ساری ادراکی کیفیات کو بطور ٹائٹل یہ نام دیا ہے۔ کہتی ہے خلق خدا تجھے: کیا؟ کیا؟
اس حقیقت کا اظہار بھی ضروری ہے کہ خلق خدا کے حوالے سے کس کس کی بات نقل کی جائے اور کس کی بات کو اظہار میں لایا جائے اس بارے میں عربی کا یہ مشہور مقولہ راہنمائی کرتا ہے۔
والفضل ماشهدت به الاعداء.
حقیقی فضل و کمال وہ ہے جسے دشمن و مخالفین بھی مانیں اور گواہی دیں اس قول کی بناء پر ڈاکٹر طاہرالقادری کو ان کے معاصرین کس کس نگاہ اور زاویے سے دیکھتے ہیں ان کی آراء و افکار کا بطور خاص یہاں ذکر کیا گیا ہے۔
اس حقیقت کا اظہار بھی ضروری ہے اس سارے مواد کا ماخذ مجلہ منہاج القرآن کے دو شمارے سلور جوبلی نمبر2005ء اور خصوصی اشاعت دسمبر2014ء ہیں، مجلے کی انتظامیہ کا بھی شکریہ اور ان تمام شخصیات کا بھی جن کے خیالات سے ہزاروں مستفید ہوں گے، مجھے امید ہے ان شاء اللہ یہ کاوش عصر حاضر کی اس عظیم اور نابغہ عصر شخصیت کی جان و پہچان کے لئے ایک کتاب کے مقدمے کی اولین چند سطور کی حیثیت ضرور حاصل کرے گی۔ باری تعالیٰ راقم و مولف کو اپنی اور اپنے رسول مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا عطا فرمائے اور اپنے صالحین کی خوشنودی عنایت فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
1۔ علماء و مشائخ عظام کی رائے
1۔ اس بچے سے ایک جہاں مستفید ہوگا۔ شیخ الاسلام خواجہ قمرالدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ
شیخ الاسلام خواجہ قمرالدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ نے 1966ء میں سید ابوالبرکات رحمۃ اللہ علیہ ، پیر محمد کرم شاہ الازہری رحمۃ اللہ علیہ ، خواجہ غلام محی الدین بابو جی رحمۃ اللہ علیہ گولڑہ شریف، خواجہ خان محمد رحمۃ اللہ علیہ تونسہ شریف کی موجودگی میں جب ڈاکٹر طاہرالقادری کی عمر پندرہ سال تھی، دارالعلوم سیال شریف کی تقریب میں خواجہ صاحب کے حکم کے مطابق دس منٹ خطاب کیا اس کے بعد شیخ الاسلام خواجہ قمر الدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کی پیشانی چومتے ہوئے فرمایا:
’لوگو! آپ نے اس بچے کا خطاب تو سن لیا ہے، میں آپ کو گواہ بنانا چاہتا ہوں ہمیں اس بچے پر فخر ہے، ایک دن ایسا آئے گا کہ یہی بچہ عالم اسلام اور اہلسنت کا قابل فخر سرمایہ ہوگا۔ میں تو شاید زندہ نہ ہوں لیکن آپ میں سے اکثر لوگ دیکھیں گے کہ یہ بچہ آسمانِ علم وفن پر نیر تاباں بن کر چمکے گا۔ اس کے علم و فکر اور کاوش سے عقائد اہلسنت کو تقویت ملے گی اور علم کا وقار بڑھے گا۔ اہلسنت کا مسلک اس نوجوان کے ساتھ وابستہ ہے اور اس کی کاوشوں سے ایک جہاں مستفید ہوگا۔
2۔ اس نوجوان سے ایک عالم فیضیاب ہوگا۔ غزالی زماں علامہ سید احمد سعید کاظمی رحمۃ اللہ علیہ
اللہ پاک نے انہیں بہت صلاحیتیںعطا کررکھی ہیں، مجھے اس نوجوان سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں۔ آپ سب لوگ گواہ ہوجائیں اور میری یہ بات غور سے سن لیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے سینے میں فیوضاتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایسا نور رکھ دیا ہے جو وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھے گا اور ایک عالم کو فیضیاب کرے گا۔ کاش تم بھی اس نور کو پھلتا پھولتا دیکھ سکو، اللہ کرے ان کے اس علمی، فکری اور روحانی نور سے پورا عالم اسلام اور دنیائے اہلسنت روشن و منور ہوجائے۔ ان شاء اللہ ایسا ہوگا۔
3۔ یہ نوجوان ہمارا سہارا ہے۔ ضیاء الامت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری رحمۃ اللہ علیہ
خدائے قدوس کا ہم پہ احسان ہے کہ اس نے آج کے دور میں اس مرد مجاہد (ڈاکٹر طاہرالقادری) کو حسنِ بیان اور دردِ دروں کے ساتھ سوچ، ذہن اور دل کی وہ صلاحیتیں عطا فرمائی ہیں کہ جن کی بدولت سب طلسم پارہ پارہ ہوجائیں گے اور وہ دن دور نہیں جب غلامان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ میں کامیابی کا پرچم لہرا رہا ہوگا۔
اس دور پرفتن میں جب میں اس نوجوان کے بارے میں سوچتا ہوں تو میرا دل خدا کے حضور احساس تشکر سے بھرجاتا ہے۔ میری زبان پر بے ساختہ آتا ہے کہ مولا ہماری دولت، ہمارے نوجوان ہم سے چھن گئے تھے۔ یہ تیرا کرم ہے کہ تو نے اس مرد مجاہد سے ہمیں سہارا عطا کیا۔ نوجوانوں کو اس کے بیانات و خطبات سننے اور اس کی تحریریں پڑھنے سے تسکین ملتی ہے ہمارے دلوں سے دعا نکلتی ہے کہ اے خدا! اس مرد مجاہد کو عمر خضر عطا فرما۔
2۔ عالمی شخصیات کی رائے
1۔ منہاج القرآن دنیا کی بہترین تنظیم ہے۔ شیخ احمد دیدات۔ ساؤتھ افریقہ
میں ڈاکٹر طاہرالقادری کی احیائے اسلام اور دین مبین کی سربلندی کے لئے کی جانے والی کاوشوں اور خدمات سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ میں نے دنیا بھر میں کوئی بھی تنظیم یا تحریک، تحریک منہاج القرآن سے بہتر منظم اور مربوط نہیں دیکھی۔
2۔ ان کا علم و فکر پھلدار درخت کی مانند ہے۔ الشیخ السید محمد الیعقوبی۔ محدث شام
مجھے ڈاکٹر صاحب کے آثار علمی جن میں ان کی کتب اور ان کے اداروں سے فارغ ہونے والے کثیر طلباء ہیں، دیکھ کر دلی اطمینان اور خوشی ہوئی۔ اس ادارے، کی مرکزی لائبریری، دفاتر اور تمام شعبے قابل تقلید اور قابل رشک انداز سے خدمت دین میں محو ہیں۔ میں نے اپنی آنکھوں سے یہاں ڈاکٹر صاحب کے علم وفکر کو قد آور و مفید پھلدار درخت کی طرح دیکھا ہے جس پر ہمہ وقت اللہ کے فضل وکرم سے فصلِ بہار کا اثر دکھائی دیتا ہے۔
3۔ میں انہیں دیکھ کر ورطہ حیرت میں ہوں۔ ڈاکٹر عبدالرحیم علی۔ رکن مجلس شوریٰ سوڈان
مجھے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو پہلی مرتبہ قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ میں نے جب ان کی تصانیف، دعوتی، علمی اور فکری مواد اور ان کی دیگر Productions دیکھیں اور پھر ان کی معلومات کی وسعت اور مختلف زبانوں میں ان کی مہارت کو ملاحظہ کیا تو ایک شخص میں اتنی زیادہ خوبیاں دیکھ کر میری عقل ورطہ حیرت میں گم ہوگئی ہے۔
4۔ وہ قابل رشک شخصیت ہیں۔ الشیخ اسعد محمد سعید الصاغرجی ۔ فقیہ دمشق
ہم نے منہاج القرآن کے مختلف شعبہ جات اور سرگرمیاں دیکھیں تو ہماری عقل دنگ رہ گئی۔ خاص طور پر اس تحریک کا دینی نیٹ ورک اور انتظام و انصرام جس کی سرپرستی اور دیکھ بھال خود شیخ الاسلام فرمارہے ہیں۔ یقینا قابل رشک ہے۔ اللہ تعالیٰ شیخ الاسلام کو عمر دراز عطا فرمائے اور انکے وجود مسعود سے مسلمانوں کو خاطر خواہ فائدہ پہنچائے ہم یہ تمنا کرتے ہیں کہ منہاج القرآن کی پوری دنیا میں شاخیں ہوں اور ہماری یہ خواہش ہے کہ ہم بھی اس تحریک کے سپاہی بن کر خدمت دین کا فریضہ سرانجام دیں۔
5۔ طاہرالقادری کی مثال مسلم دنیا میں کوئی نہیں۔ شیخ محمد ابوالخیر الشکری۔ شام
ہم نے منہاج القرآن کے تمام شعبہ جات دیکھے جن کے مشاہدے نے ہمارے سینوں کو ٹھنڈا اور ہمارے دلوں کو فرحت بخشی ہے اور ہمیں منہاج القرآن کے اس تمام نیٹ ورک کے پیچھے بہت زیادہ کاوشیں کارفرما نظر آئیں جس کی مثال عالم اسلام میں نہیں ملتی۔ہمارے اس دورے کا ماحصل شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی زیارت ہے۔ ان کی شکل میں ہم نے ایک سچے عالم اور ایک عظیم لیڈر کی جھلک دیکھی ہے۔ وہ ایک ایسے محقق ہیں جن کی مثال آج کی مسلم دنیا میں یقینا نہیں ملتی۔
6۔ وہ جدید و قدیم علوم کے جامع ہیں۔ ڈاکٹر شہاب الدین احمد۔ شام
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اور ان کی تحریک منہاج القرآن آج کے دور میں علوم عصریہ اور علوم دینیہ کو یکجا کررہے ہیں اور شریعت و حقیقت اور عقل و قلب کو بھی اس طرح جمع کر رہے ہیں جس سے انسان کو کمال نصیب ہوتا ہے اور یہ کمال اس زمانے میں ختم ہورہا ہے۔ جسے منہاج القرآن نے اب زندہ کردیا ہے اور شیخ الاسلام، امت محمدیہ کے اسی فرض کفایہ کو ادا کررہے ہیں۔
3۔ اہل قانون کی رائے
1۔ تم نے مجھے بہت زیادہ متاثر کیا ہے۔ اے کے بروہی۔ نامور ماہر قانون
پنجاب یونیورسٹی لاء کالج میں اجتہاد کے موضوع پر آپ کا لیکچر سننے کے بعد اے کے بروہی نے کہا:
بروہی اتنی آسانی سے کسی سے متاثر نہیں ہوتا لیکن
Gentleman you have realy impressed me
آج آپ کی گفتگو سے میں بہت خوش اور متاثر ہوا ہوں۔ میں آپ کے علمی مستقبل سے پرامید ہوں، آپ نے جس Depth میں باتیں کیں ہیں میں نے انہیں پا لیا ہے، بہر حال میں آپ کے ان خیالات کے شائع ہونے کا انتظار کروں گا اور اس کا ایک مرتبہ پھر مطالعہ کرنا چاہوں گا۔
ii۔ کاش لوگ تمہاری قدر کریں اور ساتھ دیں۔ اے کے بروہی
کراچی کے میریٹ ہوٹل میں Islamic Concept of State کے موضوع پر ہمدرد ملت حکیم محمد سعید مرحوم نے سیمینار کرایا۔ پروگرام کے اختتام پر اے کے بروہی بار بار ڈاکٹر طاہرالقادری کو کہہ رہے تھے۔
’’You have to protect your self in this country‘‘
ڈاکٹر صاحب اس ملک میں اپنی حفاظت خود کرنا۔ اس لئے کہ آپ کے خلاف بڑا حسد ہوگا۔ People will jalous، اہل علم حسد کریں گے اور عوام ناقادری کریں گے (الا ماشاء اللہ)، وقت کے ساتھ حسد اور عداوت بڑھتی جائے گی، دشمنی کا وطیرہ عام ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے جو نعمت علم وفکر آپ کو دے رکھی ہے اسے میری آنکھیں دیکھ رہی ہیں، کاش دوسرے لوگ بھی اسی بصیرت سے کام لیتے ہوئے آپ کے مقام و مرتبے کا اندازہ کریں اور آپ کا ساتھ دیں۔
2۔ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی بنیاد رکھی ہے۔ جسٹس انوارالحق۔ سابق چیف جسٹس پاکستان
مجھے ڈاکٹر طاہرالقادری سے ملنے اور ان کے خیالات اور تصورات سے زبانی اور تحریری صورت میں مستفید ہونے کا موقع ملا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں گہرے علم اور منفرد حکمت سے نوازا ہے اور انہیں ایسی صلاحیت حوصلہ اور عزت عطا کی ہے جس کا ایک ہی شخصیت میں پایا جانا آج کے دور میں نایاب ہے۔ عصر حاضر میں ڈاکٹر طاہرالقادری نے بڑی حکمت و دانائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تحریک منہاج القرآن کی صورت میں اسلام کی شمع کو فروزاں کردیا ہے اور امت کی ہمہ گیر اصلاح کرنے کی صورت میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی بنیاد رکھ دی ہے۔
3۔ طاہرالقادری کو جدید و قدیم علوم پر عبور حاصل ہے۔ جسٹس غلام مجدد مرزا۔ سابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ
ڈاکٹر طاہرالقادری کی ذاتی عظمت، انتھک جدوجہد، ان کے افکار و کردار کی خوبصورتی، ان کی پاکیزگی اور ان کا نیک سیرت کردار ہونا یہ سب چیزیں مل کر ان کو گلشن اسلام کا ایک منفرد پھول بنادیتی ہیں، ان کی زندگی کا مشن اسلام کی خدمت ہے، اللہ اور اس کے رسول کے پیغام کا ابلاغ و فروغ ہے، ڈاکٹر طاہرالقادری کو علوم جدیدہ و قدیمہ دونوں پر عبور اور ملکہ حاصل ہے۔ انہوں نے جس انداز اور طریق پر ادب و تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اتباع و اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تحریک کا آغاز کیا ہے۔ اس نے انسانیت کی قلب و روح کو ایک نئی خوبصورتی عطا کی ہے اور اللہ کے بندوں کو ایک نئی خوشبو سے معطر کردیا ہے۔
4۔ ہر موضوع پر گھنٹوں بول سکتے ہیں۔ جسٹس سید سجاد علی شاہ۔ سابق چیف جسٹس آف پاکستان
ڈاکٹر طاہرالقادری ایک عظیم اور ذہین انسان ہیں اور ایک شعلہ بیان مقرر ہیں۔ اپنی تنظیم کو نہایت ہی منظم انداز میں لیکر رواں دواں ہیں، سب سے اہم بات جو میں نے ان میں دیکھی ہے وہ وسیع المطالعہ ہیں۔ وہ ہر موضوع پر بغیر جھجک کے کئی کئی گھنٹے گفتگو کرسکتے ہیں۔ انہوں نے اپنی تحریک کو بڑے اچھے انداز میں آرگنائز کیا ہوا ہے، نہ صرف پورے ملک میں ان کی شاخیں ہیں بلکہ پوری دنیا میں ان کے بڑے بڑے اسلامک سنٹرز ہیں۔ جہاں مثبت انداز میں اسلام کو پیش کیا جارہا ہے اور تعلیم کو فروغ فروغ دیا جارہا ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے بہت بڑی منہاج یونیورسٹی بھی قائم کی ہے جہاں سائنس و ٹیکنالوجی کی تعلیم بھی دی جارہی ہے۔ علاوہ ازیں انہوںنے دین اسلام کی وسیع پیمانے پر خدمت کی ہے اور بہت سی کتابیں بھی لکھی ہیں۔
3۔ آرمی جرنیلوں کی رائے
1۔ طاہرالقادری ہمہ جہت رہبر و راہنما ہیں۔ مرزا اسلم بیگ۔ سابق چیف آف آرمی سٹاف
میرے خیال میں ڈاکٹر طاہرالقادری کے فکری مقام اور علمی وسعت کو ناپنا بہت مشکل کام ہے۔ ایک منفرد بات اور حیرت انگیز امر یہ ہے کہ ایک شخص اتنے مختصر عرصہ میں وہ سب کچھ کر ڈالے جو ڈاکٹر طاہرالقادری نے کیا ہے۔ 1951ء میں ڈاکٹر طاہرالقادری پیدا ہوئے اور اب اتنا بڑا علمی نام، بے شمار تصانیف اور اتنی زیادہ زمین پر نظر آنے والی عملی خدمات اور اتنے زیادہ ادارے اور دنیا کے بے شمار ممالک میں تنظیمی نیٹ ورک اور وہ بھی اتنے کم اور انتہائی مختصر عرصے میں یہ سب کچھ دیکھ کر انسان محو حیرت ہو جاتا ہے۔
ڈاکٹر طاہرالقادری روایتی علماء سے کلیتاً مختلف شخصیت کے مالک ہیں۔ وہ تنگ نظر نہیں ہیں اور ایک ہی سمت نہیں سوچنے ہیں، درحقیقت ڈاکٹر طاہرالقادری ایک متبحر عالم دین بھی ہیں، ایک مفکر بھی ہیں، ایک روحانی رہنما بھی ہیں، ایک معاشرتی مصلح بھی ہیں، ایک سیاسی مدبر بھی ہیں اور ساتھ ساتھ ایک عظیم قائد بھی ہیں۔
2۔ اسباب کو موافق بنانے کی غیر معمولی صلاحیت ہے۔ جنرل (ر) حمید گل۔ سابق سربراہ آئی ایس آئی
ڈاکٹر طاہرالقادری ایک (God Gifted) انسان ہیں آپ عظیم سکالر اور بہترین مقرر ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کا نمایاں پہلو یہ ہے کہ آپ کے پاس نہ صرف دینی علوم کا خزانہ موجود ہے بلکہ دنیاوی و سائنسی علوم پر بھی کامل دسترس ہے۔ نوجوان نسل ڈاکٹر طاہرالقادری سے اسی بناء پر بہت متاثر ہے۔
ڈاکٹر صاحب کو یہ کمال بھی حاصل ہے کہ آپ اسباب (Create) کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں اور آپ کی شخصیت میں (Diversity) اور تنوع ہے جس سے نوجوان نسل آپ کی جانب مائل ہوتی ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نوجوانوں کی علمی، فکری اور عملی، فکری تربیت کررہے ہیں۔ آپ کا علمی مقام مستند ہے جو اتحاد امت مسلمہ کا تصور دیتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے نوجوانوں کو سائنسی علوم کی ترغیب دی ہے جس کی وجہ سے وہ آپ کی شخصیت سے Inspire ہیں۔ بہر حال میں ڈاکٹر طاہرالقادری کے بارے میں اتنا کہوں گا کہ:
.He is an Intelligent, energetic, Honest, Honourable and Hardworking Leader
آپ نوجوانوں کے لئے Absorbing شخصیت کے مالک ہیں اور آپ ایک عظیم معلم، اعلیٰ مربی ہیں اور نوجوانوں کے لئے مشعلِ راہ ہیں۔
3۔ طاہرالقادری کی کال پر لاکھوں لوگ آگئے۔ جنرل (ر) پرویز مشرف۔ سابق صدر و چیف آف آرمی سٹاف پاکستان
ڈاکٹر طاہرالقادری نے جو دھرنا دیا ہے وہ ہمارے سامنے ہے ان کی ایک کال پر لاکھوں لوگ آگئے ہیں۔ اس لئے کہ لوگ موجودہ لیڈر شپ سے تنگ ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کے دھرنے کو حقائق کی روشنی میں دیکھنا چاہئے پہلی بات تو یہ ہے ان کا لانگ مارچ ایک بہت بڑا انقلاب مارچ ہے، قابل دید ڈسپلن ان کے ہاں دیکھنے کو ملا ہے میں نے آج تک اتنا منظم اور ڈسپلن سے بھرپور دھرنا پاکستان کی دھرتی میں نہیں دیکھا ہے۔
یہ تاثر قطعاً غلط ہے کہ طاہرالقادری کسی غیر ملکی ایجنڈے اور پیسے کے سہارے پاکستان میں آئے ہیں۔ اس دھرنے سے قبل ان کی کارکردگی دیکھیں ان کی تقاریر اور لیکچرز کو لوگوں کی بہت بڑی تعداد سنتی ہے۔ وہ مکمل تیاری اور ہوم ورک کے بعد پاکستان میں آئے ہیں اور ان کو دنیا بھر سے عام لوگ تحریک کے لئے عطیات دیتے ہیں جو کہ کروڑوں میں ہیں اس لئے میری رائے ہے ان کو کوئی غیر ملکی امداد نہیں ملتی اور نہ ہی کوئی ان کی مالی سپورٹ کرتا ہے۔
4۔ اہل سیاست کی رائے
1۔ چوٹی کے سیاستدان ہیں اور مخالفین ان سے خائف ہیں۔ فاروق احمد لغاری۔ سابق صدر پاکستان
ڈاکٹر طاہر القادری بہت سی خوبیوں کے مالک ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اکثر سیاستدان ان سے خائف بھی رہتے ہیں کیونکہ تقریر و تحریر اور مدلل گفتگو میں وہ چوٹی کے سیاستدانوں میں سے ایک ہیں۔ ہمارے ملک میں سیاست، دھن‘ دھونس اور دھاندلی کے ذریعے کی جاتی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ طاہر القادری نہ جاگیردار ہیں نہ سرمایہ دار ہیں دنیا ان کو ایک نامور سکالر، سیاستدان اور عالمی شخصیت کے روپ میں دیکھتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں ڈاکٹر طاہر القادری ایک کامیاب سیاستدان اور زیرک انسان ہیں۔ مستقبل میں ان کی حکمت عملی بجا طورپر انہیں عزت افزائی سے سر فراز کریگی۔
2۔ اسلام کو بطور رول ماڈل پیش کیا ہے۔ معراج خالد۔ سابق وزیراعظم
ڈاکٹر طاہر القادری کے بارے میں ساری دنیا جانتی ہے کہ وہ کتنی صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ انہوں نے ایک بہت بڑا تعلیمی اور تنظیمی نیٹ ورک پھیلا رکھا ہے۔ وہ اپنی تحریک کے ذریعے اندرون ملک اور بیرون ملک اسلام کو ایک بہترین رول ماڈل کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ تعلیمی میدان میں جدید تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے انہوں نے جو سلیبلس و کورس متعارف کرایا ہے وہ آج کی علمی اور عصری ضرورتوں کو پورا کررہا ہے۔ ان کی کامیابیاں قابل تحسین ہیں اور دنیا بھر میں منہاج القرآن کے بہت بڑے تنظیمی نیٹ ورک کا تمام تر کریڈٹ ان ہی کو جاتا ہے۔
3۔ ایک کرشماتی شخصیت کے مالک ہیں۔ میاں محمد اظہر۔ سابق گورنر پنجاب
میں ڈاکٹر طاہر القادری کی شخصیت سے گذشتہ 20 سالوں سے واقف و متعارف ہوں اب یہ واقفیت ایک خوشگوار تعلق میں بدل چکی ہے۔ جہاں تک ان کی شخصی خوبیوں کا تعلق ہے تو بلاشبہ وہ ایک کرشماتی شخصیت کے مالک ہیں۔ آج کے دور میں جتنی محنت اور لگن سے انہوں نے اپنا نیٹ ورک بنایا ہے۔ یہ عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔ بلکہ میں یہاں تک کہوں گا کہ ایک عام آدمی اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ میری ان سے شناسائی ایک جید عالم اور عظیم مفکر کے طور پر تھی مگر اب اس کے ساتھ ساتھ میں ان کی سیاسی بصیرت کا بھی قائل ہوچکا ہوں اور میں ہمیشہ ان سے احترام اور محبت کا تعلق رکھتا ہوں۔
5۔ اہل صحافت کی رائے۔ انقلاب مارچ اور دھرنے کے تناظر میں
i۔طاہرالقادری میڈیا میں چھائے ہوئے ہیں۔ تنویر قیصر شاہد۔ روزنامہ ایکسپریس
سینکڑوں چھوٹی بڑی کتابوں کے مصنف، سیرت نگار اور یورپ و شمالی امریکہ اور ساری دنیا میں دہشت گردی اور خونخوار دہشت گردوں کے خلاف پہلی بار باقاعدہ فتویٰ مرتب اور پیش کرنے والے ڈاکٹر محمد طاہرالقادری پاکستان بھر کے میڈیا پر آج کل چھائے ہوئے ہیں۔ کوئی ایسا نمایاں نجی ٹی وی نہیں ہے جس نے ان کا انٹرویو نشر نہ کیا ہو۔ ان کے مصاحبوں کے مندرجات سے اتفاق یا عدم اتفاق کرنا سننے والوں کا بنیادی حق ہے لیکن اتنا ضرور ثابت ہوگیا ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی شخصیت اور ان کے افکار کو نظر انداز کرنااور ان سے اغماض برتنا ہمارا میڈیا افورڈ نہیں کرسکتا۔ ان کا کہا اور لکھا گیا کتاب ہے۔ ان کے دلائل کا جواب کوئی بھی مخالف دے نہیں پارہا ہے۔ البتہ وہ ان کو مشتعل اور بے توقیر کرنے کی ناکام کوشش ضرور کررہے ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے دین کی خدمت میں لاریب بے مثل کام کیا ہے۔ اب ڈاکٹر طاہرالقادری دلیل و برہان کی طاقت سے عوام کو زبان دینے کے لئے نکلے تو سٹیٹس کو کی حامی قوتیں چاروں اطراف سے ان پر حملہ آور ہونے لگی ہیں۔ لٹھ بازوں کا گروہ ان کی راہ میں رکاوٹ بننے کے لئے باہر نکل آیا ہے۔ مستقبل کے احوال تو صرف خدا کی بابرکت ذات ہی بہتر جانتی ہے لیکن اتنا ضرور نظر آرہا ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کا قافلہ اب رکنے اور تھمنے والا نہیں ہے۔
ii۔ طاہرالقادری کا دھرنا پاکستان کا منفرد اور طاقتور احتجاج تھا۔ تنویر قیصر شاہد۔ روزنامہ ایکسپریس
تقریباً پانچ ہفتوں سے ڈاکٹر طاہرالقادری اپنے چودہ مقتول ساتھیوں کے لئے انصاف کے حصول میں حکمرانوں کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں۔ ساڑھے چھ عشروں پر محیط پاکستان کی تاریخ کا یہ سب سے منفرد اور طاقتور احتجاج ہے۔ اس نے اہل زر اور اہل اقتدار کے قلعے میں دراڑیں ڈال دی ہیں۔ دونوں قائدین کے دھرنوں سے قبل اس قلعے کو ناقابل تسخیر اور ناقابل شکست کہا جاتا تھا مگر کپتان، ڈاکٹر قادری اور ان کے پیروکاروں نے کمٹمنٹ، جگرداری اور عزم کا ایسا متحدہ اور مستحکم مظاہرہ کیا ہے کہ قلعہ ہی اپنی بنیادوں تک لرز گیا ہے۔ اس پر ڈاکٹر طاہرالقادری اور ان کے پیروکار پوری قوم کی شاباشی کے مستحق ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کی انقلابی تحریک نے پاکستانی سیاست اور سماج پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ ان کی کوششوں، اعلانات اور خطابات نے ثابت کیا ہے کہ ان کی جماعت، پاکستان عوامی تحریک، صحیح معنوں میں عوام کی نمائندہ جماعت ہے انہوں نے آئین کی پہلی شق سے لے کر چالیسویں شق تک سب عوام کو یاد کرادی ہیں۔
iii۔ طاہرالقادری کے ہاتھ اتنے ہی صاف ہیں جتنے اوروں کے غلیظ ہیں۔ حسن نثار۔ روزنامہ جنگ
ابھی کل تک طاہرالقادری اور منہاج القرآن، سب کچھ یہیں تھا لیکن ’’بدنیتی‘‘ کو نہ ’’ٹیکس‘‘ یاد آیا نہ وہ مبینہ منی لانڈرنگ جس کی تلاش میں حکومتی گھوڑے دوڑائے گئے اور غیر ملکی حکومتوں نے انہیں بتایا کہ طاہرالقادری کے ہاتھ اتنے ہی صاف ہیں جتنے اوروں کے غلیظ ہیں۔ کمال ہے کہ جب تک ان کی دم پر پاؤں نہ آیا انہیں کسی ٹیکس اور منی لانڈرنگ کا خیال تک نہ آیا کہ پاکستان کے ساتھ جو مرضی ہوتا رہے، چند خاندان ہر قیمت پر محفوظ رہیں لیکن انسانی تاریخ میں ایسا ہوا ہے اور نہ ہوگا۔ طاہرالقادری پر مقدموں کی یلغار ہے ٹیکس چوری سے غداری تک کے الزام اس بات کا اہتمام ہیں کہ عوام اس درویش کی طرف مزید متوجہ نہ ہوں جو سردھڑ کی بازی لگاچکا ہے۔
iv۔ پاکستان کی بقاء، طاہرالقادری کے لبرل اسلام میں ہے۔ ایاز امیر روزنامہ جنگ
دہشت گرد صرف ایک فوجی طاقت ہی نہیں بلکہ ایک نظریئے کا بھی نام ہے۔ ان کے خلاف فوج اپنی توپوں اور بندوقوں سے کارروائی کرسکتی ہے مگر اس کے ساتھ ان کے نظریئے کو بھی مٹانے کی ضرورت ہے۔ اگر عسکری ادارے اس بات کو سمجھ لیں تو یقین کرلیں کہ پاکستان کو عراق یا شام بننے سے روکنے کا واحد طریقہ فوجی طاقت اور وہ لبرل اسلام ہے جس کا پرچار ڈاکٹر طاہرالقادری کرتے ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کے ہوتے ہوئے پاکستان کی سرزمین سے کوئی تکفیری فتنہ سر اٹھا ہی نہیں سکتا۔ ان کی کاوشوں کے بعد ہمارے ہاں چھ دہائیوں کے بعد تبدیلی و انقلاب کی لہر چل پڑی ہے۔
v۔عوامی تحریک کی خواتین کارکن بے مثال ہیں۔ ایاز امیر روزنامہ جنگ
جب پاکستان عوامی تحریک کے پنڈال پر نظر پڑتی ہے تو ان میں زیادہ تر لڑکیوں کے سر پر دوپٹہ ہے اور کچھ نے نقاب بھی پہنا ہوا ہے ان کی آنکھوں سے ہویدا عزم کی چمک دیکھنے کے لئے بہت بڑا دیدہ ور ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ صرف سیاسی تعصب کی عینک اتارنا ہوگی۔ پاکستان کی کوئی سیاسی طاقت، کوئی تنظیم، کوئی جماعت عوامی تحریک کی ان خواتین کارکنوں کی ہمسری کا دعوی نہیں کرسکتی، میں یہ بات اس لئے کہہ رہا ہوں کہ میں نے بذات خود انہیں قریب سے دیکھا ہے کہ جب وہ مصطفوی انقلاب کے لئے مکہ بلند کرکے نعرے لگاتی ہیں ان کے ہمالیہ جیسے عزم کے سامنے کنٹینر خس و خاشاک کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر زندگی کا احساس ہوتا ہے۔۔۔ ’’ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی‘‘۔ یقینا پاکستان کے سامنے ایک مستقبل ہے اور ہم ایک زندہ قوم ہیں۔
vi۔ طاہرالقادری کی آمد کا سن کر حکومت لرز اٹھی۔ ایاز میر روزنامہ جنگ
ڈاکٹر طاہرالقادری نے پاکستان میں اپنی آمد کا اعلان کیا تو حکومت بوکھلا گئی۔ ذرا تصور کریں دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت ایک شخص کی آمد کے اعلان سے لرز اٹھی۔ اس وقت پنجاب کے حکمرانوں نے فیصلہ کیا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کو سبق سکھانے کا وقت آگیا ہے لیکن سبق کی تکلیف دہ دھول چھٹی تو ماڈل ٹاؤن سانحہ اپنی تمام تر ہولناکی کے ساتھ حکمرانوں کے گلے کا پھندا بن چکا تھا۔ طاہرالقادری کے پیروکاروں نے استقامت اور نظم و ضبط کی مثال قائم کی ہے دھوپ اور بارش میں بھی وہ ثابت قدمی کے ساتھ اپنی جگہ پر موجود رہے ہیں۔
vii۔ طاہرالقادری آئین کا پاسباں ہے۔ ایاز میر روزنامہ جنگ
طاہرالقادری کوئی فاشسٹ، انارکسٹ یا نظام کو ختم کرنے والی، کوئی تباہ کن قوت نہیں بلکہ وہ آئین اور قانون کو سمجھنے اور اس کی پاسداری کرنے والے رہنما ہیں۔ وہ صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ عوام کی اکثریت کو سماجی انصاف اور زندگی گزارنے کے بہتر مواقع فراہم کئے بغیر جمہوریت صرف کاغذی کارروائی ہے کیونکہ یہ عوام کی بجائے صرف مراعت یافتہ طبقے کے مفادات کا ہی تحفظ کرتی ہے۔ طاہرالقادری کا تصور سیاست اسلامی فلاحی ریاست کے قریب تر ہے۔ اور اس کا اظہار اقبال کے ان اشعار کے ذریعے کرتے ہیں۔
اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخ امراء کے در و دیوار ہلا دو
viii۔ طاہرالقادری اولوالعزم لیڈر ہیں۔ ایاز میر روزنامہ جنگ
سیاست میں گفتار کے غازی طبقے جو خود کو سیاست میں اتھارٹی سمجھتے ہیں ان کے لئے طاہرالقادری کو برداشت کرنا بہت مشکل سہی لیکن حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری اس وقت ملک بھر میں پھیلے ہوئے سامعین و ناظرین کو سیاسی اقدار کی تعلیم دے رہے ہیں۔ اگرچہ وہ ایک فطرتی مقرر ہیں اور سامعین کو گھنٹوں تک سحر زدہ کرسکتے ہیں لیکن اپنے روزانہ کے ٹی وی خطاب کے لئے تیار ہوکر آتے ہیں۔ ان کے پاس ضروری نوٹس اور حوالہ جات موجود ہوتے ہیں۔ شروع میں بہت سے سیاسی مبصرین ان کا مذاق اڑایا کرتے تھے لیکن طاہرالقادری بہت اولوالعزم نکلے اور انکے پیروکار ان سے بھی بڑھ کر بے خوف دکھائی دیئے جو پنجاب پولیس کا بے جگری سے سامنا کرتے ہوئے اب تک ایک تاریخ رقم کرچکے ہیں۔
6۔ طاہرالقادری کے دلائل اور استدلال میں روانی ہے: (محمود شام روزنامہ جناح)
مرد ہوں یا خواتین، بزرگ ہوں یا نوجوان، لڑکے ہوں یا لڑکیاں، بچے ہوں یا بچیاں لوگ اپنا گھر چھوڑ کر یہاں اسلام آباد دھرنے میں آئے ہوئے ہیں ان کے چہروں پر تھکن نہیں، آنکھوں میں بیزاری نہیں، یہ پیشانی چمک ہے اور ایک جذبہ ہے اور ایک عزم ہے۔
جب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اپنا علم سے مملو، عوامی اور پرجوش خطاب کرتے ہیں تو ان کے کارکن اور عام شہری بہت غور سے اور بہت خلوص سے ہمہ تن گوش ہوکر انہیں سنتے ہیں۔ ان کی مرصع مسجع اردو، لہجے کا اتار چڑھاؤ۔ استدلال میں روانی، سارے پاکستانی سن رہے ہیں اور دیکھ رہے ہیں۔ قائد اور انکے کارکنوں کو مل کر اور دیکھ کر محسوس ہورہا ہے کہ عزائم پختہ ہیں اور ارادوں میں استقامت و جرات ہے۔
7۔ ’’دھرنا‘‘ طاہرالقادری نے سیاست میں ایک نئی روایت قائم کی ہے: (محمود شام روزنامہ جناح)
دھرنا، پاکستانیوں کے لئے یہ ایک بالکل نئی روایت قائم ہورہی ہے۔ پہلے لمبے جلوس نکلتے رہے ہیں اور کئی کئی گھنٹے جلسے چلتے رہے ہیں لیکن مسلسل ایک ہی جگہ دھرنے کا تجربہ کبھی نہیں ہوا تھا۔ حکومت، میڈیا اور عام پاکستانیوں کے لئے یہ ایک بالکل نیا منظر نامہ ہے۔ دھرنے کے شرکاء کی بھی ہمت ہے اور دھرنے کے دونوں قائدین کا بھی حوصلہ ہے۔ اسلام آباد میں پاکستان عوامی تحریک کا دھرنا موسلا دھار بارشوں، پولیس کی آنسو گیس شیلنگ، لاٹھی چارچ، تین کارکنوں کی شہادت اور 500 کے قریب کارکنوں کے زخمی ہونے کے باوجود جاری رہا اور یہ ہزاروں حتجاجی انقلابی کارکن دھرنے کے آخر تک اپنے اپنے خیموں میں ثابت قدمی کے ساتھ موجود رہے۔
8۔ طاہرالقادری نے خطابت میں سب لیڈروں کو مات دے دی ہے: (مظہر برلاس روزنامہ جنگ)
دھرنے کے دوران ریڈ زون میں ڈاکٹر طاہرالقادری کا خطاب پوری آب و تاب سے جاری رہتا ہے۔ انہوں نے خطابت میں سب لیڈروں کو مات دے دی ہے۔ ان کی تقریروں کا جادو سر چڑھ کے بول رہا ہے۔ ان کی آواز کا سحر اس قدر طاقتور ہے کہ مخالفین کی صف میں بھی کھلبلی مچادیتا ہے۔ اس حقیقت کا اظہار پچھلے دنوں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے بھی کیا ہے۔ چوہدری صاحب فرماتے ہیں کہ اگر میں بھی پندرہ منٹ قادری صاحب کا خطاب سن لوں تو میرا دل بھی چاہتا ہے کہ جاکے نعرے لگانا شروع کردوں۔
ایک زمانہ تھا جب میاں نواز شریف اور شہباز شریف دونوں بڑے شوق سے ڈاکٹر طاہرالقادری کے خطابات سنا کرتے تھے۔ عالم اسلام کے اس عظیم اسکالر کو خدا نے خطابت میں مرتبہ عالی سے نواز رکھا ہے اور علم کی روشنی بخش رکھی ہے اور اس نے اہل بیت کرام سلام اللہ علیہم سے محبت کو اپنے قلب میں جذب کررکھا ہے اور یوں سینے میں سموئی ہوئی محبت اکثرو بیشتر زبان پر رہتی ہے۔
9۔ طاہرالقادری نے ’’سٹیٹس کو‘‘ کو چیلنج کیا ہے: (اصغر عبداللہ۔ روزنامہ ایکسپریس)
ڈاکٹر طاہرالقادری کا ’’جرم‘‘ یہ ہے کہ انہوں نے سیاست میں ’’سٹیٹس کو‘‘ کو چیلنج کیا ہے۔ نتیجتاً پارلیمنٹ کے اندر اور باہر تمام سیاسی اور غیر سیاسی پارٹیاں جن کے مفادات ’’سٹیٹس کو‘‘ سے وابستہ ہیں، ان کے خلاف متحد ہوچکی ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی جو خود کو اسلامی انقلابی پارٹی کہتی ہے وہ بھی پیپلز پارٹی کے شانہ بہ شانہ مصالحت کاری کے نام پر ن لیگ کی حکومت کو ریسکیو کررہی ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان نے ’’سٹیٹس کو‘‘ کو چیلنج کرکے جو ’’جرم عظیم‘‘ کیا ہے وہ واقعتا ’’ناقابل معافی‘‘ ہے۔ ان کی حالیہ جدوجہد کا نتیجہ جو بھی ہو پاکستان کی اڑسٹھ سالہ تاریخ میں سٹیٹس کو کے خلاف ان کی یہ انقلابی جدوجہد تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے جب 23 سال پہلے پاکستان عوامی تحریک قائم کی، تب بھی ان کا یہی مطالبہ تھا اور آج بھی ان کا یہی مطالبہ ہے۔ یہ بات بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ پاکستان کی اڑسٹھ سالہ تاریخ میں ڈاکٹر طاہرالقادری پاکستان کے پہلے مذہبی رہنما ہیں جنہوں نے اپنی سیاست کی بنیاد اسلام کے سماجی مساوات اور انصاف کے تصور پر رکھی ہے۔
10۔ طاہرالقادری رکاوٹوں کی پرواہ نہیں کرتے: (اصغر عبداللہ۔ روزنامہ ایکسپریس)
جب میں14 اگست کی صبح کو ماڈل ٹاؤن لاہور پہنچا تو اس کے اردگرد پولیس کا حصار دیکھا تو یہ تصور کرنا مشکل تھا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری یہ حصار توڑنے میں کامیاب ہوں گے لیکن وہ اس قدر پرسکون نظر آتے تھے جیسے ماڈل ٹاؤن کے اردگرد پولیس کا کوئی حصار اول تو سرے سے موجود ہی نہیں ہے اور اگر موجود ہے تو ان کے نزدیک وہ بالکل بے وقعت ہے۔ میں نے ایک دو شرکاء سے پوچھا کہ آپ کیسے باہر جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب قائد کا حکم ہوگا تو کوئی ہمارا راستہ نہیں روک سکے گا۔ حقیقتاً ہوا بھی یہی جیسے ہی ڈاکٹر طاہرالقادری نے باہر آکے اعلان کیا کہ ابھی تھوڑی دیر میں کاروان انقلاب، اسلام آباد کے لئے روانہ ہوجائے گا تو ماڈل ٹاؤن کے باہر تعینات پولیس تتر بتر ہوگئی اور کچھ ہی دیر میں وہاں پولیس کا نام و نشان تک نہ تھا۔
11۔ طاہرالقادری کی صرف خواتین ورکرز کا بھی کوئی جماعت مقابلہ نہیں کرسکتی: (زمرد نقوی۔ روزنامہ ایکسپریس)
پاکستان عوامی تحریک کی کارکن خواتین نے جس طرح سارے حالات کا خندہ پیشانی کے ساتھ مقابلہ کیا ہے وہ حیرت انگیز اور ناقابل یقین ہے اور اب یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی ان خواتین ورکرز کا مقابلہ شاید ہی کوئی دوسری سیاسی جماعت کرسکے۔ یہ خواتین نہ صرف منظم تھیں بلکہ ان کا سیاسی شعور بھی بہت بلند تھا۔ یہ ان سیاسی خواتین کی طرح نہیں تھی جنہیں بھیڑ بکریوں کی طرح ہانک کر کسی سیاسی جلسہ میں لایا جاتا ہے۔
12۔ لوگ طاہرالقادری کی آواز سنتے ہیں: (زمرد نقوی۔ روزنامہ ایکسپریس)
کچھ سادہ لوح دانشور اپنے اپنے تعصبات اور خیالات کا اسیر ہوکر ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان کو ظالم قرار دے دہے ہیں کہ وہ خود تو اپنے کنٹینر میں محفوظ بیٹھے ہیں اور ان کے کارکن بدترین موسمی شدائد کو برداشت کررہے ہیں۔ جب یہ دانشور سب کچھ لکھ اور بول رہے ہوتے ہیں تو بس صرف سینہ کوبی کی کسر ہی رہ جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا قادری اور عمران نے اپنے سیاسی ورکروں کے پاؤں میں زنجیریں باندھ رکھی ہیں۔ اگر ان کے کارکن جانا چاہیں تو انہیں کون روک سکتا ہے۔ کیا پاکستان کی تاریخ میں ایسا انوکھا احتجاج آج تک کسی نے نہیں دیکھا ہے جو ہر قسم کی موسمی سختیوں، بھوک پیاس اور جان کے خوف سے بے نیاز ہو۔ تاریخ میں اس انوکھے احتجاج اور اس کے شرکاء کا نام سنہری حرفوں سے لکھا جائے گا۔
جہاں تک لیڈروں کے کنٹینر میں ہونے کا تعلق ہے تو جب ان کے کارکنوں کو کوئی اعتراض نہیں تو آپ کون ہوتے ہیں اعتراض کرنے والے۔ نہ یہ کارکن گمراہ لوگ ہیں نہ یہ بکے ہوئے ہیں تو اس طرح کی بونگیاں مارنے سے بہتر یہ ہے کہ تھوڑی سی زحمت اٹھا کر پاکستانی سماج میں ہونے والی سماجی تبدیلیوں کا سائنسی تجزیہ کرلیں۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ پاکستان کے غریب عوام کی خاموش اکثریت کس کے ساتھ ہے اس کا اندازہ ان دونوں لیڈروں کی میڈیا کوریج سے لگالیں۔ میڈیاوہی دکھاتا ہے جو عوام دیکھنا چاہتے ہیں اور جب میڈیا ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان کی گھنٹوں طویل تقاریر دکھاتا ہے تو عوام اپنے انتہائی ضروری کاموں کو چھوڑ کر ان کی تقاریر کو سنتے ہیں کیونکہ یہ تقاریر انہیں اپنے دل کی آواز لگتی ہیں۔
13۔ پاکستان میں طاہرالقادری سے بڑا کوئی لیڈر نہیں: (زمرد نقوی۔ روزنامہ ایکسپریس)
2013ء کا ڈاکٹر طاہرالقادری کا لانگ مارچ انتہائی پرامن تھا جس میں لاہور سے لے کر اسلام آباد تک ایک پتا بھی نہیں ٹوٹا اور پنجاب حکومت نے بھی اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی کیونکہ مسلم لیگ ن بھی یہی چاہتی تھی کہ زرداری حکومت کا جلد از جلد دھڑن تختہ ہو جائے اور 2014ء کے انقلاب مارچ میں ڈاکٹر طاہرالقادری نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان میں ان سے بڑا لیڈر کوئی نہیں ہے۔ وہ دنیا کے چند بڑے لیڈروں میں سے ہیں۔ جنہیں انگریزی سمیت کئی زبانوں پر عبور حاصل ہے۔ وہ ایک ایسے مقرر ہیں جو کئی گھنٹوں بلاتکان تقریر کرسکتے ہیں۔ مجمع پر جادو کردیتے ہیں۔ مسلم دنیا میں اسلام پر ایک اتھارٹی کی حیثیت رکھتے ہیں اور عالم اسلام میں اس وقت ان سے بڑا سکالر شاید ہی کوئی اور ہو۔
14۔ طاہرالقادری عوام کیلئے ایک مسیحا ہے: (مطلوب وڑائچ۔ روزنامہ نوائے وقت)
امریکہ،کینیڈا، یورپ اور آسٹریلیا کی چند یونیورسٹیوں کی طرف سے مجھے آفر ملی کہ ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کو انٹرفیتھ کے موضوع پر ان کی خدمات کے لئے قائل کروں کہ وہ ان یونیورسٹیز میں ماہانہ کم از کم دو دو لیچرز دیں۔ میں نے اس سلسلے میں ڈاکٹر طاہرالقادری سے بات کی تو انہوں نے کمال بے نیازی سے عالمی یونیورسٹیوں کی اس آفرز کو یہ کہہ کر قبول کرنے سے انکار کر دیا کہ مطلوب وڑائچ میرے ملک کے بیس کروڑ عوام کو میری ضرورت ہے، مجھے اپنی قوم کے ان بیس کروڑ لوگوں کو ایجوکیٹ کرنا ہے۔یہی میری پہلی ترجیح ہے۔
15۔ طاہرالقادری کے کارکنوں نے انقلاب کی بنیاد اپنے خون سے رکھی: (مطلوب وڑائچ۔ روزنامہ نوائے وقت)
حکمرانوں سے اس بات کی قطعاً توقع نہ تھی کہ وہ 17جون کے دن ظلم کسے پہاڑ ڈھا کر انقلاب کی بنیادوں میں خون بھر دیں گے۔ اسی روز ڈاکٹر طاہرالقادری سے پھر مشاورت ہوئی تو پہاڑوں جیسا حوصلہ رکھنے والے اس عظیم انسان نے مجھے یہ خوبصورت الفاظ کہے ’’مشکلات ہمیشہ بہترین لوگوں کے حصے میں آتی ہیں کیونکہ وہی اسے بہترین طریقے سے نبرد آزما ہونے اور سرانجام دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
شاید کچھ لوگ جوش عقیدت میں میری بات سے اتفاق نہ کریں مگر عمران خان کی محنت، لگن اور ڈاکٹر طاہرالقادری کا شعور اور ویژن اپنا اثر دکھا چکا ہے۔ گذشتہ 30دنوں سے جتنا ٹیلی ویڑن چینلز کو دیکھا گیا اور روزانہ دو سے تین دفعہ انقلابی قیادت کو لوگوں سے براہِ راست مخاطب ہونے کا موقع ملا۔ سیاست کا ایک ادنیٰ طالب علم ہونے کے ناطے یہ کہہ رہا ہوں کہ پاکستان کے کروڑوں گھرانوں میں ڈاکٹر طاہرالقادری کے نظریات سوچ اور فکر کو وہ پذیرائی اور رسائی حاصل ہو چکی ہے، جو دنیا کی تاریخ میں بانیان انقلابات نے حاصل کرنے کے لیے سال ہا سال صرف کیے تھے۔ انہوں نے وہ شہرت اپنے دھرنے میں حاصل کرلی ہے۔ آج وہ لینن، مارکس، امام خمینی اور نیلسن منڈیلا کی جدوجہد اور نتائج کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ اسی تناظر میں ایک موقع پر ڈاکٹر طاہرالقادری نے کیا خوب کہاکہ’’ قرضوں کے محل کا غلام ہونے سے بہتر ہے کہ انسان اپنی جھونپڑی میں حاکم ہو‘‘ آج وطن عزیز کا ہر طبقہ کسان، طالب علم، مزدور، سروس مین اور لوئرمڈل کلاس سمیت ارض پاک کے اہل ہنر اور کوالیفائیڈ طبقہ اس بات کو سمجھ چکے ہیں کہ ہمارے ملک میں چوروں کی انجمن کا نام جمہوریت رکھ دیا گیا ہے۔
16۔ طاہرالقادری کے کارکن پہاڑوں کو چیرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں: (مطلوب وڑائچ۔ روزنامہ نوائے وقت)
طاہرالقادری کے جانثاروں اور پِسے ہوئے محروم طبقے نے نہ صرف حکمرانوں کے عزم بلکہ شدید موسمی آفات و اثرات کو شکست دے دی ہے۔ ملک بھر میں موجود کروڑوں افراد کو اب یہ یقین ہو چلا ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی مصمم قیادت اب ان کے خوابوں کی نہ صرف رکھوالی کرے گی بلکہ انکو شرمندہء تعبیر بھی کرے گی۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے جس مکینیکل انداز میں اپنے کارکنان کی سیاسی و روحانی تربیت کی ہے اس تربیت کے نتیجے میں PAT اور منہاج القرآن کے کارکنان کسی بھی سیلاب کو روکنے اور پہاڑوں کو چیرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔
17۔ طاہرالقادری کی انقلابی جدوجہد وطن کی مٹی سے محبت کی دلیل ہے: (مطلوب وڑائچ۔ روزنامہ نوائے وقت)
بیرون ملک ہزاروں آسائشوں کے باوجود ڈاکٹر طاہرالقادری کے دل میں بھی وطن کی مٹی کی محبت کی امنگیں جوش مار رہی ہیں۔ وگرنہ پاکستان سمیت نوے ممالک میں منہاج القرآن سینٹرز پر مشتمل ایک بڑا سیٹ اپ ہونے کے باوجود وہ کونسی وجہ ہو سکتی ہے جو ڈاکٹر طاہرالقادری کو پاکستان آنے پر مجبور کرتی ہے؟
18۔ طاہرالقادری کا دھرنا دنیا کی سیاسی تاریخ کا ایک منفرد واقعہ ہے: (ظہیر اختر بیدری۔ روزنامہ ایکسپریس)
طاہرالقادری کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہزاروں مرد، عورتیں، بچے بچیاں کرائے پر لائے گئے کارکن نہیں بلکہ پختہ نظریاتی کارکن اور تحریکی طاقت ہیں اور کارکن جب نظریاتی طاقت میں بدل جاتے ہیں تو ریاستی مشینری ان کی جان تو لے سکتی ہے ان کے نظریات نہیں لے سکتی۔
پاکستان ہی کی تاریخ کا نہیں بلکہ یہ دھرنا دنیا کی سیاسی تاریخ کا منفرد واقعہ ہے کہ 20,25 ہزار لوگ جن میں خواتین اور بچوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہے، دو ماہ سے اس شاہراہ دستور پر پڑاؤ ڈالے ہوئے ہیں۔ خیال یہ تھا کہ عید کی وجہ سے دھرنے کے شرکاء میں بے چینی اور انتشار پیدا ہوجائے گا اور شرکاء عید منانے اپنے گھروں پر جانے کے لئے اصرار کریں گے۔ یوں یہ تاریخ کی طویل ترین تحریک اپنی موت آپ مرجائے گی لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔ دھرنے کے شرکاء نے ڈی چوک اور شاہراہ دستور پر ہی عید الاضحی منائی۔
19 اکتوبر کو مینار پاکستان لاہور پر طاہرالقادری نے جو جلسہ کیا اس میں تاحد نظر انسان ہی انسان نظر آرہے تھے۔ غالباً یہ جلسہ جلسوں کی سیریز کا سب سے بڑا جلسہ تھا۔ ہمارے حکمرانوں کی بوکھلاہٹ کا عالم یہ ہے انسانوں کے سمندر پر مشتمل اس جلسے کو چند ہزار لوگوں کا جلسہ کہہ کر اپنے دل کو تو تسلی دے رہے ہیں لیکن اس دروغ گوئی سے کیا ان کے ضمیر کی بھی تسلی ہوگی۔
19۔ طاہرالقادری حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق کہہ رہے ہیں: (منصور آفاق، روزنامہ جنگ)
چالیس سال سے جس کی راتیں بارگاہ ایزدی میں رکوع و سجود کرتے گزری ہیں اور دن رب قدوس و ذوالجلال اور پیغمبر انسانیت چارہ سازِ بیکساں کی تعریف و توصیف میں دفتر کے دفتر تحریر کرتے ہوئے گزرے ہیں وہ ڈاکٹر طاہرالقادری اس وقت گولیوں کی بوچھاڑوں میں اور آنسو گیس کے سلگتے ہوئے سمندر میں کھڑے ہوکر حکمران کے سامنے کلمہ حق کہے جارہے ہیں۔ میرے نزدیک وہ صاحب عرفان ہیں۔
20۔ طاہرالقادری جو کچھ ہیں اپنے بل بوتے پر ہیں: (منصور آفاق، روزنامہ جنگ)
مجھے قسم ہے کھجور کے تناور درخت کی ڈاکٹر طاہرالقادری لمحہ موجود کی وہ واحد شخصیت ہیں جن کی قامت آوری کسی بیساکھی کی مرہون منت نہیں۔ جن کے لباس پر نسبت کا کوئی پیوند نہیں۔ مجھے قسم ہے لوح و قلم پر لکھی ہوئی قسمتوں کی کہ وہ آج جو کچھ بھی ہیں اپنے بل بوتے پر ہیں۔ انہوں نے اپنی دنیا آپ پیدا کی ہے۔ سو ان کا شمار زندوں میں ہوتا ہے۔ میرے نزدیک بحیثیت ایک سکالر اور عالم اس وقت دنیا میں ڈاکٹر طاہرالقادری کے قدوقامت کی کوئی ایک شخصیت بھی موجود نہیں ہے۔
21۔ طاہرالقادری نے حکمرانوں کا چین و سکون رخصت کردیا ہے: (منصور آفاق، روزنامہ جنگ)
جس دن سے ڈاکٹر طاہرالقادری کی فلائٹ اسلام آباد کی بجائے لاہور ایئر پورٹ پر اتری ہے اس دن سے حکومت نے چین کا ایک سانس بھی نہیں لیا بلکہ ہر آنے والے دن حکومت اور زیادہ کمزور ہوئی اور اس وقت خستگی کا یہ عالم ہے کہ اس کچی دیوار کو ذرا سی بے موسمی بارش بھی کسی وقت گراسکتی ہے۔ حکومت کی شکستگی کی آخری حد یہ ہے کہ کل تک حکومت کی نظر میں آرمی چیف 22 گریڈ کا ایک سرکاری افسر تھا مگر آج وہ حکومت اور حقیقی اپوزیشن کے درمیان رابطے کا ایک اہم ترین پل بن چکا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب اس بائیس گریڈ کے افسر کے دفتر کے کئی چکر کاٹ چکے ہیں اور وزیراعظم نے اپنے اقتدار کا دورانیہ بڑھانے کے لئے دبے لفظوں میں اس سے مدد کی درخواست کرچکے ہیں دھرنوں سے پاکستان عوامی تحریک اور تحریک انصاف کو جس قدر فائدہ ہوا ہے اسکا کوئی اندازہ ہی نہیں کرسکتا۔ اسی تناظر میں اعتزاز احسن نے کیا خوب کہا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی باتیں لوگوں کے دلوں میں تیروں کی طرح اترتی جارہی ہیں۔
22۔ طاہرالقادری کا انقلاب ایوانوں کے باہر آچکا ہے: (ناصف اعوان، روزنامہ خبریں)
طویل دھرنے سے انقلاب مارچ اور لانگ مارچ کے چہرے پر نقاہت کے آثار دکھائی نہیں دے رہے ہیں بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ چہرہ مزید تازہ و توانا ہورہا ہے۔ اور وہ لوگ جو اسے ایک ڈھونگ اور وقتی ابال قرار دے رہے تھے وہ بھی سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ کہیں واقعتا کوئی بڑی تبدیلی نہ آجائے۔ اگر یہ کہا جائے ان دنوں میں قوم کی شعوری بیداری اپنے نقطہ عروج پر پہنچ چکی ہے تو یہ غلط نہ ہوگا۔
ڈاکٹر طاہرالقادری عوام کے سامنے ایسے حقائق پیش کررہے ہیں کہ وہ حیران ہورہے ہیں اور متاثر بھی ہورے ہیں۔ دھرنوں کے دونوں سیاسی راہنما اپنے مقاصد میں کامیاب ہورہے ہیں۔
عوام کی سیاسی تربیت کا یہ نظارہ پاکستان کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ اب پورے ملک کے عوام اسے دیکھنے لگے ہیں بلکہ کچھ اس قدر تاثر لے رہے ہیں کہ باقاعدہ اس کا حصہ بنتے جارہے ہیں اور یوں لگتا ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کا انقلاب ایوانوں کے باہر آچکا ہے۔ اب یہ غیر محسوس انداز میں ایوانوں کے اندر بھی داخل ہوگا اگرچہ اسے دور بھگانے کی حکمت عملیاں اپنائی جارہی ہیں مگر جب نمود سحر کی روشنی میں یہ سب عیاں ہوگا تو انہیں عوامی طاقت کے سامنے سر جھکانا پڑے گا۔
23۔ طاہرالقادری کے للکارنے پر موجودہ نظام تھر تھر کانپ رہا ہے: (نسیم شاہد)
ڈاکٹر طاہرالقادری نے موجودہ نظام کو للکارا ہے تو یہ نظام تھر تھر کانپ رہا ہے اور پورا ملک بحرانی کیفیت سے دوچار ہے۔ عوامی نمائندے پارلیمنٹ میں کھڑے یہ دہائی دے رہے ہیں کہ نظام کو گرنے نہیں دیں گے، جمہوریت پر شب خون ان کی لاشوں پر گزر کر ہی مارا جاسکے گا۔ میں یہ باتیں برسوں سے سنتا چلا آرہا ہوں، جمہوریت کو گرنے نہیں دیں گے، جمہوریت کے لئے جان دیں گے، جمہوریت زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ جمہوریت نہ رہی تو ملک نہیں رہے گا وغیرہ وغیرہ لیکن اس قسم کے دعوؤں اور دھرنوں کے باوجود ہم نے یہ دیکھا ہے کہ ملک چار مرتبہ مارشل لاء کے عذاب سے گزرا جمہوریت مضبوط ہونے کی بجائے کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی گئی۔ جمہوریت کا تعلق جمہور سے ہوتا ہے لیکن یہ تلخ حقیقت بھی سامنے ہے کہ آمریت کے ادوار میں عوام کو زیادہ ریلیف ملا اور انہوں نے اپنی توقعات اس سے باندھ لیں۔
اس وقت ملک میں تبدیلی اور انقلاب کی جو ہوا چلی ہے وہ حکمرانوں یا حکومت کی تبدیلی کے لئے نہیں بلکہ طرز حکمرانی اور نظام کی تبدیلی کے لئے ہے۔ اب اس تبدیلی کو روکنا بے سود ہے۔ اس لئے اب اسی تبدیلی کو روکا نہیں جاسکتا اور نہ ہی اس تبدیلی کا انکار ممکن ہے کیونکہ انکار کا وقت اب گذر چکا ہے۔
24۔ طاہرالقادری، حکومتی ایوانوں میں ایک زلزلہ ہے: (سلمان عابد، روزنامہ ایکسپریس)
موجودہ حکومت کو یہ یقین نہیں تھا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری ان کی حکومت کے خلاف ایک بڑا بحران پیدا کرسکتے ہیں۔ اسلام آباد کے دھرنوں سے قبل حکومت اپنے آپ کو ایک مضبوط حکومت کے طور پر پیش کرتی تھی، اس کا خیال تھا کہ سیاسی طور پر دو تہائی اکثریت کے بعد اسے اگلے پانچ برسوں میں کسی بڑے بحران کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ یہ عجیب امتحان ہے کہ حکومت کو ایک بڑی اکثریت کے باوجود اقتدار کے ڈیڑھ برس بعد ہی ایک بڑی مزاحمت کا سامنا ہے۔
بنیادی طور پر حکومت کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ دھرنے کی سیاست کرنے والے ایک لمبے عرصہ کے لئے اسلام آباد کی حکومتی رٹ کو چیلنج کرسکتے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ کچھ دنوں میں دھرنے والے تھک ہار کر واپسی کی راہ لیں گے اور حکومتی نظام کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا لیکن جس انداز سے ڈاکٹر طاہرالقادری نے اسلام آباد میں بیٹھ کر روزانہ کی بنیاد پر حکومت اور بالخصوص وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کی سیاسی، اخلاقی اور قانونی حیثیت پر سیاسی تابڑ توڑ حملے کئے ہیں وہ واقعی حکومت کی مستقبل کی بقا کے لئے بڑا خطرہ ہیں۔ اس وقت دھرنا ختم ہوگیا مگر اس کے باوجود اگر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ حکومت اور وزیراعظم کی مشکلات ختم ہوگئی ہیں تو وہ غلطی پر ہے کیونکہ جس انداز میں ڈاکٹر طاہرالقادری نے حکومت کی حیثیت کو چیلنج کیا ہے اس سے حکومت کی مضبوطی کا تاثر کمزور ہوا ہے اور وہ دھرنوں کے بعد اب ایک کمزور وزیراعظم ہیں۔
25۔ طاہرالقادری پاکستان کے نمبر ون لیڈر ہیں: (قیوم نظامی، روزنامہ جنگ)
اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹر طاہرالقادری سے یہ کام ضرور لے لیا کہ اسلام آباد دھرنوں کی وجہ سے پاکستانی قوم جاگ اٹھی ہے۔ انقلاب اور تبدیلی کی سوچ ہر گھر میں پہنچ چکی ہے۔ جعلی جمہوریت اور غیر منصفانہ نظام بے نقاب ہوچکا ہے۔ عوام میں مزاحمت کا جذبہ پیدا ہوا ہے۔ اس مثبت بیداری کے لئے ڈاکٹر طاہرالقادری اور دھرنوں میں شریک ان کے کارکنان دلی خراج تحسین کے مستحق ہیں اور اس میں شک نہیں کہ قابلیت، صلاحیت اور اہلیت کے اعتبار سے ڈاکٹر طاہرالقادری پاکستان کے نمبرون لیڈر ہیں۔
اب تک ہم نے مختلف شخصیات کے مشاہدے، تجزیئے، مطالعے، تجربے، رائے اور ان کے خیال کو جانا ہے جو وہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے بارے میں رکھتے ہیں، بلاشبہ جو چیز ایک زندہ حقیقت ہے اس کو جس سمت، جس جہت اور جس طرف سے بھی دیکھیں وہ ہر سو ایک کھلی نشانی کے طور پر دکھائی دیتی ہے۔ بشرطیکہ دیکھنے والا خالصیت اور اخلاص کے جذبے سے دیکھ رہا ہو تو وہ حقیقت ثابتہ ہر پہلو سے روشن دکھائی دیتی ہے۔ باری تعالیٰ ایسے دیدہ ور ہر زمانے اور ہر دور میں پیدا کرتا ہے جو اپنے بچپن ہی سے عظمت و بلندی کے مسافر ہوتے ہیں اور جن کا وجود ہر گزرتے دن کے ساتھ بلندیوں کی جانب سفر کرتا ہے، ہر کوئی ان کی عظمت و علوت کا معترف ہونے لگتا ہے۔ اگر اب تک سب شخصیات کے تصورات، خیالات، تجربات، مشاہدات، نظریات اور افکار اور آراء کو جمع کرکے ایک عنوان دیا جائے اور ان سب چیزوں کو ایک شعر کے قالب میں ڈھالا جائے تو اس نابغہ عصر شخصیت کے لئے یہی کہا جائے گا۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
تبصرہ