آرٹیکل 62، 63 اور 218 کانفاذ کر دیا جائے تو اسمبلی سے نوے فیصد نااہل لوگوں کا جھرلو پھر جائے گا: ڈاکٹر طاہرالقادری

پراَمن عوامی دھرنا مارچ تیسرے روز میں داخل
وزیراعظم کی گرفتاری کے فیصلہ تو دور کی بات، کیس کی سماعت کی تاریخ کا بھی علم نہیں تھا۔
عمران خان کو پھر دعوت دیتا ہوں کہ وہ اب بھی ہمارے ساتھ آ کر شریک ہو جائیں۔

ڈاکٹر طاہر القادری نے لانگ مارچ کے تیسرے روز پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے جناح ایونیو سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے وہی مطالبات ہیں جو 23 دسمبر کے مینار پاکستان کے جلسہ میں کیے تھے۔ سات نکاتی ایجنڈے میں حکومت سے بنیادی طور پر چار مطالبات ہیں جب کہ باقی تین نکات پہلے چار نکات پر عمل داری کا میکنزم ہے۔ انہوں نے کہا کہ کل سپریم کورٹ نے وزیراعظم سمیت سولہ افراد کی گرفتاری کا جو حکم دیا ہے اس بارے میں صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ مجھے اس فیصلے کا علم ہونا تو دور کی بات ہے بلکہ کیس کی سماعت کی تاریخ کا بھی علم نہیں تھا۔

ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ میں نے عمران خان اور تحریک انصاف کو پہلے بھی دعوت دی تھی، آج پھر میں دعوت دیتا ہوں کہ وہ یہاں آئیں اور ہمارے سنگ کھڑے ہوں کیونکہ یہ مارچ فقط میری تحریک کا نہیں بلکہ اٹھارہ کروڑ عوام کا ہے۔ عمران خان نے جو سات نکاتی ایجنڈا بیان کیا ہے، وہ پہلے ہی ہمارا ایجنڈا ہے۔ اس لیے جب ہمارے اور آپ کے ایجنڈے میں فرق نہیں تو پھر یہ فاصلے کیوں ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے مزید کہا کہ اگر آج الیکشن پرانے نظام کے تحت ہوجاتے ہیں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت ان بدمست ہاتھیوں کو ایوان اقتدار میں دوبارہ براجمان ہونے سے نہیں روک سکتی۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ مسائل پیدا کرنے والے ہوتے ہیں، وہ کبھی مسائل حل نہیں کر سکتے۔ اس لیے جنہوں نے اس ملک میں مسائل کو جنم دیا ہے تو وہ کیسے ہمارے مسائل حل کر سکتے ہیں۔ دنیا میں کوئی ایسا ملک نہیں ہے جس کی سپریم کورٹ نے وزیراعظم کو گرفتاری کے احکامات سنا دیے اور وہ کہہ کہ میں وزیراعظم ہوں۔ یہ لوگ عدالتوں پر حملہ کرنے والے ہیں۔ لیکن آج کی عدلیہ جرات مند اور طاقت ور ہے۔ اگر ان کے بس میں ہوتا تو یہ آزاد اور خودمختار عدلیہ کو کب کے فارغ کرچکے ہوتے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نہیں چاہتے کہ ٹیکس چوری کرنے والے اسمبلیوں کے رکن ہوں۔ آئین کہتا ہے کہ بجلی چور، پانی، سوئی گیس اور ٹیلی فون بل کے چور اسمبلی کا ممبر نہیں بن سکتا لیکن اس ملک میں سیکڑوں چور پارلیمنٹ بنے بیٹھے ہیں۔ آئین کہتا ہے کہ جس شخص کی سالانہ انکم پانچ لاکھ روپے ہو اور ماہانہ اکتالیس ہزار روپے ہو تو اس پر لازم ہے کہ وہ ٹیکس ادا کرے۔ لیکن ممبران اسمبلی نے قانون شکنی کی انتہاء کر دی۔

ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ آرٹیکل 62، 63 اور 218 کانفاذ کر دیا جائے تو اسمبلی سے نوے فیصد نااہل لوگوں کا جھرلو پھر جائے گا۔ آئین کہتا ہے کہ اگر کسی ممبر پارلیمنٹ یا اس کی بیوی نے بیس لاکھ روپے یا اس سے زیادہ کا قرض لیا ہو اور اس نے ایک سال بعد ادائیگی نہ کی ہو تو وہ ممبر پارلیمنٹ نہیں بن سکتا۔ ہمارا مارچ اسٹیٹ بنک آف پاکستان سے پوچھے گا، سنٹرل بورڈ آف ریونیو سے پوچھے گا، نیب سمیت تمام مالیاتی اداروں سے پوچھے گا کہ ایسے ڈیفالٹر کون کون ہیں کیونکہ اب دھاندلی کا نظام نہیں چلے گا۔ دوسری جانب عوام میں اگر کوئی بیس لاکھ تو کیا بیس ہزار کا قرض لے لے تو بینک اسے معاف کرتے ہیں؟ کیا قوم کے سارے خزانے ان لٹیروں کے لیے بنائے گئے تھے۔ جو حق غریبوں کو نہیں ملتا، وہ حق ان لٹیروں کو بھی نہیں ملنے دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ سپریم کورٹ نے جعلی ڈگری پر 91 اراکین اسمبلی کو نا اہل قرار دیا اور یہ وہ لوگ ہیں جو پکڑے گئے؛ لیکن جو پکڑے نہیں گئے وہ کتنے ہوں گے!

انہوں نے کہا کہ جمہوری اصلاحات کے لیے الیکشن ریفارمز کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ہم اس ملک میں پرامن، آئینی اور قانونی تبدیلی چاہتے ہیں اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کا نفاذ چاہتے ہیں۔

حکومتی ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ بلوچستان میں تین روز تک چھیاسی لاشیں بے گور و کفن پڑی رہیں۔ لیکن شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ حکومت کا کوئی بھی نمائندہ ان کے پاس نہ پہنچا۔ آج زمین پر حکومت نام کی کوئی چیز نہیں بلکہ بدامنی، تباہی، دھاندلی، دہشت گردی، مک مکا اور اندھیر نگری ہے۔

ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنے مطالبات پیش کرتے ہوئے کہا:

  1. ہم آئین کے آرٹیکل نمبر 62، 63 اور 218 کے مطابق اصلاحات کے ساتھ الیکشن چاہتے ہیں۔ الیکشن کمیشن تمام امیدواروں کی ایک ماہ میں مکمل جانچ پڑتال کرے۔ جو امیدوار اس کے معیار پر پورا اترے، اسے اہل قرار دیا جائے اور جو پورا نہ اترے اسے نااہل قرار دیا جائے۔ مزید یہ کہ عوامی نمائندگی ایکٹ 1976ء کے انتخابی اصلاحات والے حصہ صرف سیکشن 6 پر عمل درآمد کرایا جائے۔
  2. انتخابی اصلاحات کے لیے سپریم کورٹ کے فیصلہ بتاریخ 8 جون 2012ء پر عمل درآمد یقینی بناتے ہوئے اسے مکمل طور پر نافذ کیا جائے۔
  3. موجودہ الیکشن کمیشن کو ختم کر کے آئینی و قانونی طریقہ کار کے مطابق ایک غیر جانبدار الیکشن کمیشن تشکیل دیا جائے۔ اگرچہ چیف الیکشن کمشنر انتہائی نیک، دیانت دار اور صالح شخصیت ہیں تاہم چار صوبائی نمائندوں کی موجودگی میں وہ کسی کے خلاف فیصلہ نہیں کر سکتے کیونکہ ان کا ایک ووٹ ناکافی ہے اور ان کے پاس ویٹو کا حق بھی نہیں۔
  4. چوتھا اور آخری چارٹرڈ آف ڈیمانڈ: تمام قومی و صوبائی اسمبلیاں فوری تحلیل کر دی جائیں۔

ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ آئین و قانون میں ترمیم کرنے والے حکمران عوام کے حق میں کوئی ترمیم نہیں کرتے، یہ اپنے مفاد کے لیے ترامیم کر کے آئین کو اپنے تابع بنانا چاہتے ہیں۔ دوسری جانب میرے خلاف الزام لگانے والے کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں نگران سیٹ اپ میں وزیراعظم نہیں بننا چاہتا۔ مرکز کی طرح تمام صوبوں میں بھی صاف ستھرا نگران سیٹ اپ ہونا چاہیے۔

تبصرہ