ویمن شہر اعتکاف 2012ء (پہلا دن)

الحمدللہ ہر سال کی طرح اس سال بھی ٹاؤن شپ لاہور میں حرمین شریفین کے بعد دنیا کا دوسرا بڑا شہرِ اعتکاف بسایا گیا۔ مورخہ 09 اگست 2012ء کو صبح سویرے معتکفات کی آمد اور رجسٹریشن کے سلسلے کا آغاز ہوا اور معتکفات کو انکے حلقہ جات کی الاٹمنٹ کی گئی۔ یہ سلسلہ عصر تک جاری رہا۔ بعد نمازِ عصر معتکفات کو مسنون/ نفلی اعتکاف کی نیت کروائی گئی اور متعلقہ دعائیں اور نوافل ادا کروائے گئے۔ بعد نمازِ مغرب تمام معتکفات نے اپنے اپنے حلقہ جات میں روزہ افطار کیا۔ بعد ازاں باجماعت نمازِ عشاء اور نمازِ تراویح کا اہتمام کیا گیا۔

صلوٰۃ التراویح کے بعد شہرِ اعتکاف میں پنڈال میں موجود معتکفات کوابتدائی بریفنگ دیتے ہوئے مرکزی ناظمہ ویمن لیگ محترمہ نوشابہ ضیاء نے شرکاء کو شہرِ اعتکاف میں خوش آمدید کہا۔ آپ نے معتکفات سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم آج اس اعتکاف گاہ یعنی تربیتی درس گاہ میں جمع ہیں جہاں ہمیں اپنی عبادات کے ساتھ ساتھ معمولات کو بھی Training process سے گزارنا ہوگا۔ ہمیں انفرادیت کو چھوڑ کر اجتماعیت کا سفر طے کرنا ہے تاکہ رب کی بارگاہ سے ایسا تعلق قائم ہوجائے کہ ہم جلوت میں بیٹھ کر بھی اللہ کے ذکر میں مشغول رہیں۔ آپ نے تربیتی معمولات پر معتکفات سے گفتگو فرمائی اور انہیں تمام معمولات پر عمل کرنے کی تاکید کی تاکہ یہ اعتکاف گاہ مکمل طور پر ایک تربیتی اور اصلاحی درس گاہ کا منظر پیش کرے۔ اسکے بعد Minhaj TV کے ذریعے محفلِ ذکر و نعت پیش کی گئی۔ بعد ازاں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے تمام معتکفین اور معتکفات سے مخاطب ہوتے ہوئے انہیں خوش آمدید کہا اور انکے جذبات اور استقامت کو سراہتے ہوئے فرمایا کہ آج آپ اللہ اور اسکے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا کے حصول کے لیے اس شہرِ اعتکاف میں جمع ہوئے ہیں۔

اس دوران آپ نے شرکائے اعتکاف کو اعتکاف کی 15 نیتیں کروائیں جو درج ذیل ہیں:

  • نفلی/ مسنون اعتکاف میں داخل ہونے کی نیت۔
  • نمازِ باجماعت کی ادائیگی کی نیت۔
  • سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مطابقت کی نیت۔
  • کثرتِ خیر کی نیت (اعمالِ صالح کی کثرت کے باعث اللہ کی رحمت کی بھی کثرت ہوگی)۔
  • ہر نماز کی ادائیگی کے بعد اگلی نماز کے انتظار کی نیت۔
  • پاکیزہ ماحول میں گناہوں اور نافرمانیوں سے حفاظت کی نیت۔
  • قرآن و سنت کے بیان کو سننے اور سمجھنے کی نیت۔
  • حلقاتِ ذکر میں شمولیت کی نیت۔
  • نیک صحبتوں میں سے نیک اور صالح دوست کی تلاش کی نیت۔
  • اللہ والوں کی زیارت کی نیت۔
  • صالحین کی موجودگی میں نزولِ رحمتِ الٰہی سے اپنے حصے کے انتظار کی نیت۔
  • روحانی سنگتوں اور صحبتوں کے سدقے ترکِ گناہ کی نیت۔
  • عذابِ الٰہی سے بچاؤ کی نیت۔
  • دین کی محبت اور معرفت کا حصول اور دورِ فتن میں دین کی حفاظت کے طریقے سیکھنے کی نیت۔
  • غلبہ شر کے دور میں تجدید و احیائے دین کے طرائق سیکھنے کی نیت۔

گفتگو کے اختتام پر حضور شیخ الاسلام نے تمام شرکائے اعتکاف کو نفوسِ سبعہ اور نسبتِ محمدیہ کے وطائف کے ساتھ ساتھ کثرت سے درودِپاک اور تلاوتِ قرآن مجید کی تلقین فرمائی۔ اس سیشن کے بعد تمام معتکفات کو وقفہء آرام دیا گیا۔

مورخہ 10 اگست 2012

تمام معتکفات کو نمازِ تہجد کی ادائیگی کے لیئے شب 2:30 بجے بیدار کیا گیا۔ بعدِ اذاں سحری تناول کی گئی۔ نمازِ فجر کی ادائیگی کے بعد 04:30 بجے شیخ الاسلام کا براہ راست خطاب نشر کیا گیا۔ آپ نے خلوص نیت کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے نیت کے معنی و مفہوم بیان کیے۔ آپ نے حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ مومن کی نیت اسکے عمل سے بہتر ہے۔ اور منافق کا عمل اسکی نیت سے بہتر ہے آپ نے مزید فرمایا کہ اخلاص صرف للٰہیت پر قائم ہے اور نیت بغیر عمل کے بھی درجہ و ثواب دیتی ہے جبکہ عمل بغیر نیت کے ثواب نہیں دیتا۔ جو عمل ارادے کے بغیر کیا جائے وہ فعل یا عادت کہلائے گا اور جو ارادے کے ساتھ کیا جائے وہ عمل ہے۔ اگر نیک اعمال بھی نیت کے بغیر کیے جائیں تو وہ عبادت نہیں بنتے۔

آپ نے مزید فرمایا کہ نیت کو خراب کرنے والے دو عوامل ہیں ایک باطنی یعنی نفسِ امارہ اور دوم ظاہری یعنی شیطان۔ خطاب کے اختتام پر تمام معتکفات کو نمازِ اشراق کی ادائیگی کے بعد آرام کا وقفہ دیا گیا۔ 12:00 بجے معتکفات کو تربیتی حلقہ جات کے لیئے بیدار کیا گیا۔ دوپہر 02:00 بجے یہ حلقہ جات اختتام پذیر ہوئے۔ نمازِ ظہر کی ادائیگی کے بعد معتکفات کو چار بجے تک انفرادی وظائف کا وقت دیا گیا۔ سہ پہر 04:00 بجے تمام معتکفات نے اپنے اپنے حلقہ جات میں صلوٰۃ التسبیح ادا کی۔ بعد ازاں نمازِ عصر کی ادائیگی کے بعد تمام حلقہ جات میں محافلِ ذکر و نعت کا اہتمام کیا گیا جو وقتِ افطار تک جاری رہیں۔ افطار و نمازِ مغرب کی ادائیگی کے بعد تمام معتکفات کو اپنے انفرادی معمولات کی ادائیگی کا وقت دیا گیا۔ 08:45 بجے باجماعت نمازِ عشاء اور صلوٰۃ التراویح اداکی گئیں۔

تبصرہ