منہاج ویمن لیگ 8 مارچ کو ویمن سمٹ منعقد کرے گی: فرح ناز

لاہور ہائی کورٹ میں8 مارچ کے حوالے سے ہونے والے ’عورت مارچ‘ کے بارے میں اظہر صدیق ایڈووکیٹ، فرح ناز وغیرہ کی طرف سے ایک درخواست دائر کی گئی تھی کہ کچھ تنظیموں کی طرف سے عورت مارچ کیا جارہا ہے، گزشتہ سال عورت مارچ کے موقع پر انتہائی مخرب الاخلاق اور بیہودہ سلوگن نمایاں کیے گئے تھے جو کسی بھی حوالے سے ہماری قانونی، سماجی، مذہبی، ثقافتی روایات کے مطابق نہیں تھے اور ان مخرب الاخلاق سلوگن کی وجہ سے دنیا بھر میں پاکستان کے تشخص کو نقصان پہنچایا گیا۔

ان سلوگن کی وجہ سے پاکستان بھر کے تمام طبقات میں شدید غم و غصہ کی لہر دوڑی اور اس کا برملا اظہار بھی کیا گیا اور ان سلوگن کے حوالے سے میڈیا نے بھی انتہائی ذمہ دارانہ کردار ادا کیا۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ ہم نامعلوم، غیر شناخت شدہ تنظیموں، خواتین و حضرات کو اس بات کی اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ خواتین کے حقوق کے نام پر ہماری معاشرتی اقدار کا مذاق اڑائیں اور خواتین کی تذلیل کا باعث بنیں، درخواست میں کہا گیا کہ گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی سوشل میڈیا پر حقوق نسواں کی آڑ میں ایک غیر مہذب مہم چلائی جارہی ہے، جس سے خواتین کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا۔ البتہ پاکستان کے اسلامی، سماجی، ثقافتی تشخص کو نقصان پہنچ رہا ہے اور مغرب زدہ ایک مخصوص طبقہ جو آٹے میں نمک کے برابربھی نہیں ہے وہ حقوق نسواں کی آڑ لے کر مردوں کے خلاف نفرت اور تشدد آمیز رجحانات کو جنم دینے کی کوششوں میں مصروف ہے اور پاکستان کے خاندانی نظام کو برباد کرنے پر تلا ہوا ہے۔

درخواست میں کہا گیا اس ساری صورتحال کے پیش نظر آزادی اظہار کے قانون کے غلط استعمال کو روکنا ہو گا اور کسی بھی تنظیم، فرد یا عورت کو اس بات کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ مسلمہ روایات اور اقدار کو ملیا میٹ کرے یا کسی فرد، طبقہ یا کمیونٹی کے خلاف علی الاعلان نفرت انگیز تقاریر کرے۔

اس درخواست پر چیف جسٹس مامون رشید نے سماعت کی اور کہا کہ اظہار کا حق آئینی ہے تاہم آزادی اظہار کا مطلب ہرگز مادر پدر آزادی نہیں ہوتا، انہوں نے فریق مخالف کے وکیل سے کہا کہ مارچ سے تو نہیں روکا جا سکتا لیکن اس بات کو یقینی بنایا جانا چاہیے کہ اس میں نفرت آمیز، تشدد آمیز اور ہیجان انگیز رویے سے مکمل طور پر اجتناب کیا جائے اور سوشل میڈیا پر بھی خلاف اقدار و روایات مہمات نہیں چلنی چاہئیں۔ انہوں نے اس ضمن میں انتظامیہ کو بھی ہدایات دیں کہ وہ مارچ کو تحفظ دیں اور شرکائے مارچ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ مروجہ قانونی، اخلاقی، سماجی روایات کو نظر انداز نہ کریں۔

لاہور ہائیکورٹ میں ڈی آئی جی آپریشنز اور عورت مارچ کا کیس لڑنے والے ثاقب جیلانی بھی موجود تھے اور انہوں نے عدالت میں تحریری یقین دہانی کروائی کہ مارچ میں کچھ بھی خلاف قانون اور خلاف اخلاق و روایات نہیں ہو گا۔

اظہر صدیق ایڈووکیٹ، فرح ناز و دیگر درخواست گزاروں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کا فیصلہ انتہائی متوازن ہے، ہمارا بھی یہی موقف اور مطالبہ ہے کہ کسی بھی مارچ اور تحریک میں نفرت آمیز اور تشدد انگیز سلوگن اور تقاریر نہیں ہونی چاہئیں، اس سے تصادم کا بھی خطرہ ہے اور پاکستان کے تشخص کو بھی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔

فرح ناز نے کہا کہ عدالتی فیصلہ قابل قدر ہے، اس پر عمل ہونا چاہیے، فرح ناز نے تشویش کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ فیصلہ سننے کے بعد عورت مارچ کی کچھ منتظمین نے کمرہ عدالت سے باہر نکلتے ہی نفرت انگیز گفتگو کا آغاز کردیا تھا اور انہوں نے کمرہ عدالت کے باہر یہ برملا کہا ہے کہ جو سوچ رکھا ہے وہی کریں گے جس نے روکنا ہے روک لے۔ مذکورہ خواتین نے تحریری یقین دہانی کروانے پر اپنے وکیل پر بھی برہمی کا اظہار کیا۔

فرح ناز نے کہا کہ عورت مارچ والوں کی نیتوں میں فتور ہے، کسی بھی ناخوشگوار صورتحال سے بچنے کیلئے عدالتی فیصلہ پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمدکروانا حکومت اور انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔ عورت مارچ والے خواتین کے حقوق پر بات کرنے سے زیادہ ملکی قوانین، اخلاقیات و روایات کا مذاق اڑانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں اور بیرونی دنیا کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ پاکستان میں خواتین کے ساتھ ظلم ہوتا ہے اور ہر سال 8 مارچ کے دن پاکستان کی ایک بری تصویر دنیا کے سامنے پیش کرنے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے۔

فرح ناز نے کہا کہ عدالتی فیصلے کی روشنی میں ہم بھی اسلام آباد میں 8 مارچ کو ویمن سمٹ اور مارچ منعقد کریں گی۔

تبصرہ