تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ پر شبِ برات کے روحانی اجتماع سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا خطاب
ترتیب و تدوین: محمد حسین آزاد
معاونت: محمد خلیق عامر
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ.
وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِيْبٌ ط اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيْبُوْا لِیْ وَلْيُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُوْنَo
(البقرة، 2: 186)
وَقَالَ اﷲُ تَبَارَکَ وَتَعَالیٰ فِي مقَامٍ آخَر: وََقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ط اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دَاخِرِيْنَo
(المؤمن، 40:60)
معزز حاضرین و ناظرین اور جمیع خواتین و حضرت! اللہ جل مجدہ کا شکر ہے جس کی توفیق سے ہم اس مبارک رات کی مبارک مجلس میں حاضر ہیں، ایسی مجالس اورایسے حلقات جن میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا ذکر ہو، عبادت ہو، اللہ کے حضور توبہ و استغفار ہو، اس کی تسبیح ہو، اس کے محبوب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلاۃ و سلام ہو اور ایسے اعمال صالحہ ہوں جو اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں قبولیت پاتے ہیں۔سو ایسی مجالس اور حلقات میں شریک ہونا یہ بھی اللہ تعالیٰ کی خاص توفیق سے ہوتا ہے، اگر توفیقِ الٰہی نہ ہو تو بندے کو ایسی مبارک مجلس اور حلقہ میں شریک ہونا نصیب نہیں ہو سکتا۔ سو مبارک ہیں وہ لوگ جو اللہ کے ذکر کے لیے مل بیٹھتے ہیں، مبارک اور خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اللہ کے حضور عبادت و استغفار کے لیے اور اللہ کی یاد کے لیے مل بیٹھتے ہیں۔ اور ان کا اجتماع اور ان کی مجالست یعنی مل کر اکٹھے بیٹھنا یہ سب کچھ خالصتاً اللہ کے لیے، اللہ کی رضا کے لیے، اللہ کے ذکر اور عبادت کے لیے اور حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ درود و سلام اور آپں کی خوشنودی کے لیے ہوتا ہے۔
آج کی اس رات اور مبارک مجلس کی مناسبت سے میں نے قرآن مجید کی دو مبارک آیتیں تلاوت کیں، پہلی سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر 186 ہے، جس میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اے حبیب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! جب میرے بندے آپ سے میری نسبت سوال کریں، میرے بارے میں پوچھیں تو آپ انہیں بتا دیا کریں کہ میں بہت نزدیک ہوں، دور نہیں ہوں۔ اور میں ہر پکارنے والی کی پکار کا جواب دیتا ہوں، جب بھی وہ مجھے پکارے۔ پس لوگوں کو چاہیے کہ سچے دل سے صدق و اخلاص کے ساتھ میری فرمانبرداری اختیار کریں، میری سچی بندگی اور اطاعت گزاری کو اپنائیں۔ اور مجھ پر پختہ ایمان رکھیں، کامل ایمان اور کامل یقین رکھیں۔ تا کہ وہ لوگ اپنی راہ مراد کو پا سکیں۔
اور دوسری آیت کریمہ جو میں نے تلاوت کی وہ سورۃ غافر کی آیت نمبر 60 ہے۔ ارشاد فرمایا: اور تمہارے رب نے فرمایا ہے کہ تم لوگ مجھ سے دعا کیا کرو۔ فرمایا: کہ یہ میرا حکم ہے کہ تم لوگ مجھ سے دعا کیا کرو۔ میں ضرور تمہاری دعاؤں کو قبول فرماؤں گا۔ سو جو لوگ میری بندگی سے سرکشی کرتے ہیں، تکبر کا طریقہ اختیار کرتے ہیں، مجھ سے بے نیاز ہوتے ہیں، وہ عنقریب ذلیل ہو کر دوزخ میں داخل ہو جائیں گے، ان کا داخلہ جہنم میں ہو گا۔
اب پہلی اور دوسری آیت کریمہ دونوں کا مضمون دعا ہے اور میں نے آج کے گفتگو کے لیے موضوع بھی دعا کا منتخب کیا۔ اور خاص طور پر دعا کے بہت سے گوشے ہیں، اس مضمون کے بہت سے پہلو ہیں مگر آج کی مبارک نشست میں ہم آدابِ دعا پر بات کریں گے۔ دعا کی اہمیت کیا ہے اور اس کی قبولیت کے لیے آداب کیا ہیں۔ اس پر ہمارا فوکس ہو گا۔
پہلی آیت کریمہ پر اگر غور کریں تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس میں چار چیزیں بطور خاص بیان کی ہیں اور یہ چاروں چیزیں ایسی ہیں جنہیں ہمارے شعور میں اچھی طرح جاگزیں ہونا چاہیے۔ ہم شعوری طور پہ انہیں سمجھ لیں اور دل و دماغ میں انہیں بیٹھا لیں اور ہمہ وقت ہمارا شعور ان چیزوں سے آگاہ رہے اور پوری بیداری کے ساتھ ہمارا شعور ان چیزوں سے متعلق رہے، جڑا رہے، کسی وقت بھی ہمارے شعور سے یہ چیزیں جدا اور خارج نہ ہوں۔
پہلے یہ ارشاد فرمایا: اے میرے حبیب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلمجب بھی لوگ آپ سے میری نسبت سوال کریں، پوچھیں تو آپ انہیں بتا دیا کریں، کہ میں بہت ہی قریب ہوں، گویا بندے کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے قبولیت دعا کی پہلی شرط یہ رکھی اور پہلا ادب یہ سکھایا کہ بندہ اس یقین کو پختہ کر لے کہ اللہ ہم سے دور نہیں اور ہم اللہ سے دور نہیں ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ ہمارے اتنے قریب ہے کہ اسے ہماری ہر حاجت و ضرورت کا علم ہے، ہمارے نفع و نقصان کو ہم سے بھی بہتر جانتا ہے اور ہماری ہر مشکل کو آسان کرنے پر قادر بھی ہے۔ وہ ہر لحاظ سے ہمارے قریب ہے، اس چیز کا یقین بندے کے دل و دماغ میں راسخ ہونا ضروری ہے۔ یہ دعا کا پہلا ادب ہے جو قرآن ہمیں سکھا رہا ہے۔
فأنی قريب یعنی کبھی اللہ کو، اپنے مولا کو خود سے دور نہ سمجھو۔ اب کہنے کو کوئی شخص یہ نہیں مانے گا میں اللہ کو خود سے دور سمجھتا ہوں۔ زبان سے کہنے کی جب بات آئے گی وہ کہے گا ہاں میں جانتا ہوں کہ اللہ قریب ہے، مگر زبان کے کہنے سے بات نہیں بنتی، بات یہ ہے کہ اس کا شعور، اس کا دماغ، اس کی فکر، اس کی سوچ، اس کا ادراک ہر چیز اس بات کا کامل یقین کرے کہ اللہ میرے قریب ہے۔ گویا وہ اپنے شعور کی آنکھ سے اللہ کی قربت کا مشاہدہ کر رہا ہے۔ اس کا دل اور دماغ اللہ کی قربت کے آثار کو دیکھ رہا ہے، اس کے قلب و روح کی کیفیات ایسی ہوں کہ ان میں احساس ہو کہ بندہ اللہ کے قریب ہے اور اللہ بندے کے قریب ہے۔ یعنی یہ علم حقیقی احساس بن جائے، پورا ادراک بن جائے، بندے کے اندر احساس ہو اس چیز کا کہ اللہ قریب ہے میں اس سے دور نہیں ہوں۔ جب یہ احساس قائم ہو جاتا ہے کہ اللہ میرے قریب ہے۔ تو اس کی دلیل اور شہادت یہ ہے کہ وہ بندہ پھر اللہ کی نافرمانی نہیں کر سکتا۔ مثلاً ایک بچہ ہے اس کو پـتہ ہو کہ میرے ماں باپ یا ان دونوں میں سے کوئی ایک اسے دیکھ رہا ہے تو وہ شرارت نہیں کرے گا۔ بہن بھائی آپس میں لڑ رہے ہوں، نوک جھوک کر رہے ہوں اور انہیں پتہ ہو کہ ہمارے ماں باپ دونوں یا کوئی ایک ہمیں دیکھ رہا ہے تو وہ چھوڑ دیں گے نوک جھونک، لڑائی، جھگڑا، بالکل سیدھے مومن بن جائیں گے۔ اسی طرح سوسائٹی میں کسی شخص کو علم ہو کہ وہ حاکم جو سزا دینے پر قادر ہے وہ دیکھ رہا ہے تو آدمی قانون کو نہیں توڑے گا۔ بڑے ملکوں میں کیمرے لگے ہوتے ہیں سپیڈ کو چیک کرنے کے لیے، لوگوں کو جہاں پتہ ہو کہ اس جگہ پر کیمرہ ہے وہ ہماری سپیڈ کو ریکارڈ کر رہا ہے، دیکھ رہا ہے اور ٹکٹ آ جائے گی، جرمانہ لگ جائے گا، کوئی شخص تیز چلانے والا اس حصے میں گاڑی کو تیز رفتار نہیں رکھتا۔ وہ جو اس کی سپیڈ کی لمٹ فکسڈ ہوتی ہے اس کے اندر جاتا ہے۔ سٹرکوں پر لوگ جو سارجنٹس ہوتے ہیں وہ گاڑیوں میں کیمرے لے کر بھی بعض ملکوں میں بیٹھے ہوتے ہیں، کبھی کیمرے لگے ہوتے ہیں، جب اس کو شعور اور علم ہوتا ہے کہ یہاں کیمرہ لگا ہوتا ہے، یہاں آفیسر بیٹھا ہوتا ہے، وہ کیمرے سے میری سپیڈ کو دیکھ رہا ہے، میری ٹکٹ آ جائے گی، میرے پوائنٹس کٹ سکتے ہیں، مجھے جرمانہ آ جائے گا، میرا ڈرائیونگ کا لائسنس منسوخ ہوسکتا ہے۔ یہ اس احساس کے نتائج اور اثرات ہیں تو انسان بالکل اپنی سپیڈ کو کنٹرول کر لیتا ہے۔ پھر وہ ریڈلائٹ کو کراس نہیں کرتا۔ اس کو پـتہ ہے کہ یہاں سارجنٹ کھڑا ہے یا قانون توڑنے کے نتیجے میں دیکھنے والے دیکھ رہے ہیں، جاننے والے جان رہے ہیں کسی بھی طریق سے تو پھر گرین لائٹ کا انتظار کرتے ہیں اور ریڈ لائٹ کراس نہیں کرتے۔ کیوں؟ جہاں قانون سخت ہے اور آپ کو معلوم ہے کہ قانون کی نگاہ مضبوط ہے، آپ بچ نہیں سکتے، اس کے قریب ہونے کا آپ کو ادراک ہے تو آپ قانون شکن نہیں رہتے۔
پاکستان میں کیوں ایسا نہیں ہوتا؟ پاکستان میں ہر شخص کو معلوم ہے کہ قانون دور ہے، حاکم دور ہے، عدالت کمزور ہے، کرپٹ ہے، قانون میں کرپشن کے راستے ہیں۔ یعنی میری گرفت نہیں ہو سکتی، پیسے دے دلا کے میں ہر جگہ سے چھوٹ جاؤں گا۔ نچلی سطح سے لے کر اوپر تک عدالت خریدی جاتی ہے، جج خریدے جاتے ہیں، قانون خریدا جاتا ہے، قانون نافذ کرنے والے خریدے جاتے ہیں۔ تو جب آپ کو یہ علم ہوتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ قانون، حاکم اور عدالت دور ہے یعنی آپ اس کے مواخذے سے بچ سکتے ہیں، تو آپ قانون شکنی کرتے ہیں۔ ہر وقت ملک میں قانون شکنی ہوتی رہتی ہے، اس کو پـتہ ہے کہ قانون شکنی کی بنیاد پر اسے گرفت کوئی نہیں کر سکتا، یہ ہے دور اور نزدیک ہونے کا معنیٰ، اب اس معنیٰٰ کو ذہن نشین کر کے بندہ اپنے اور اپنے مولا کے درمیان تعلق کو سمجھنے کی کوشش کرے، بندہ اس لیے نافرمانی و گناہ کرتا ہے، اللہ کی حدود کو توڑتا ہے، اللہ کو ناراض کرنے والے اعمال کا مرتکب ہوتا ہے، اس لیے کہ اسے اس بات کا کامل شعور اور یقین نہیں اور اگر وہ ایمان اور یقین جو تھا اس کے علم میں وہ دبا ہوا ہے، اس کے شعور پر اس کا غلبہ نہیں، وہ ایک بیدار شعور کے ساتھ اس کے ذہن پر قائم نہیں۔ چونکہ اس کے دل و دماغ اور ذہن سے یہ شعور اتر گیا ہے، دب گیا ہے، غفلت کے پردوں میں ہے اس لیے وہ گناہ کرتا ہے۔ وہ غافل رہتا ہے۔ وہ اس کی عبادت میں بے پرواہی کرتا ہے۔ اس کی بندگی و اطاعت بجا نہیں لاتا۔ یہ ہماری روز مرہ کی زندگی ہے۔ آپس میں جھگڑے کرتا ہے، عورتیں جھگڑے کرتی ہیں، ایک دوسرے کی غیبت کرتی ہیں اور مرد بھی غیبت کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کی چغلی کرتے ہیں، بغض اور حسد کرتے ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ دل میں بغض ہے، حسد ہے، زبان پر غیبت و چغلی ہے مگر جب وہ غیبت کر رہا ہے اس وقت اس کا یہ شعور غیر حاضر ہے کہ اللہ سن رہا ہے۔ یہ یقین غائب ہے کہ وہ دیکھ رہا ہے۔ غفلت یا عدمِ التفات کے پردوں میں دبا ہوا ہے، اسے اس کا شعور نہیں ہے کہ میں جو زبان سے کیا کہہ رہا ہوں مولا سن رہا ہے، میں کیا عمل کر رہا ہوں مولا دیکھ رہا ہے۔ یہ شعور اس کا زندہ نہیں، بیدار نہیں۔ میرے دل میں حسد، بغض و عناد اور کیا کیا پلیدی ہے اس کا شعور بیدار نہیں ہے کہ میرا مولا میرے دل کے احوال و کیفیات سے واقف ہے۔
جب یہ شعور مکمل طور پر بیدار نہیں رہتا تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بندہ درحقیقت بالواسطہ خود کو اللہ سے دور سمجھ رہا ہوتا ہے اور اللہ کو اپنے آپ سے دور سمجھ رہا ہوتا ہے۔ یہ ہے اس آیت کریمہ کا معنیٰ۔ کہ میرے حبیب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! جب آپ سے بندے پوچھیں میں کہاں ہوتا ہوں؟ میری نسبت سوال کریں کہ میں ان سے کتنا دور ہوں، ان کے کتنا قریب ہوں، میں کہاں ہوں میرا بندہ کہاں ہے؟ کتنا فاصلہ ہے؟ میری نسبت جب سوال کریں تو ارشاد فرمایا: انہیں بتا دیں میرے محبوب کہ میں تمہارے اتنا قریب ہوں کہ تم سوچ بھی نہیں سکتے، تمہاری سوچوں سے بھی قریب ہوں، تمہارے تصور سے بھی قریب ہوں۔ تمہارے خیال اور تخیل سے بھی قریب ہوں۔ تمہاری زبان کے کلمات سے بھی قریب ہوں جو تم بول رہے ہو۔
بلکہ تمہارے اس فعل سے بھی قریب ہوں جو تمہارے جسم اور تمہارے ہاتھ اور قدموں سے صادر ہو رہا ہے اور تمہاری ان قلب کی کیفیات سے بھی قریب ہوں جو حسد، بغض و عناد اور دل کے گناہوں کی شکل میں جن کا تم ارتکاب کر رہے ہو۔ میں تمہاری ہر شے حتی کہ رگِ جاں سے بھی قریب ہوں۔ نحنُ أقربُ أليه من حبل الوريد {ق، 50:16} ہم تمہاری رگِ جاں سے بھی قریب ہیں۔ تو أنی قريب یہ فقط ایک عقیدے، ایک قول، ایک لفظ کی بات نہیں ہے اسے ایک زندہ شعور بنانے کی ضرورت ہے۔ دل میں، دماغ میں، قلب میں، روح میں، سوچ میں، فکر میں اور ہمہ وقت جس طرح ہمارے رگ و ریشے میں خون سرایت کرتا ہے أنی قريب، اسی طرح مولا ہمارے قریب ہے یہ تصور ہر وقت، صبح و شام، لمحہ بہ لمحہ خون کی طرح ہمارے اندر سرایت کر جائے، اتنا یقین ہو جائے کہ کبھی بھی اس میں غفلت نہ ہو اور اس سے بے خیالی پیدا نہ ہو، یہ معنیٰ ہے اس کا کہ میرے بندے جب میری نسبت تم سے پوچھیں تو محبوب ان کو بتا دیا کریں کہ میں قریب ہوں۔
اب دوسری بات سمجھائی أجيب دعوة الدّاع إذا دعان یہ نقطہ ذہن نشین کر لو کہ جب بھی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی پکار کا جواب دیتا ہوں۔ ایسا نہیں ہے کہ میں کسی پکارنے والے کی پکار کا جواب نہ دوں۔ نہیں، جب پکارتا ہے میں جواب دیتا ہوں۔ اب آج اس مجلس میں اس تصور کو بھی پختہ کر کے جائیے کہ آپ اللہ کو پکارنے والے بنیں، اللہ سے مانگنے والے بنیں، اللہ سے طلب کرنے والے بنیں، اللہ سے مکالمہ کرنے والے بنیں، اللہ سے ہمکلام ہوں، اللہ کی طرف ملتفت ہوں، متوجہ ہوں، اسے پکاریں، جانتے ہوئے کہ وہ قریب ہے۔ اب ساری شرطوں کو ساتھ ملاتے آئیں گے، چاروں شرائط جب ملیں گی تو ایک کامل تصور بن جائے گا۔ اسے قریب جانتے ہوئے اس کو پکاریں، اب اس لیے پکارنے سے پہلے اس نے اپنے قریب ہونے کے تصور کو ہمارے دل و دماغ میں بیٹھایا، جمایا، تب کہا کہ میں ہر پکارنے والے کی پکار سنتا ہوں جب بھی وہ پکارتا ہے۔ اب یہ الگ الگ ٹکڑے نہیں ہیں، ہم نے الگ الگ بنا دیا۔ یہ چار ٹکڑے جوڑ کر ایک عقیدہ، ایک یقین، ایک ایمان بنتا ہے، وہ دعا بنتی ہے اور اس کی قبولیت ہوتی ہے۔ جانتے ہوئے، یقین رکھتے ہوئے کہ مولا قریب ہے اور جو میں مانگ رہا ہوں وہ مجھ سے زیادہ جانتا ہے کہ یہ میری ضرورت ہے یا نہیں۔ اور میرے لیے بہتر ہے یا نہیں، مجھے کب چاہیے کب نہیں چاہئے، ممکن ہے میری اپنی ضرورت کے بارے میں میری assesment غلط ہو، چونکہ وہ قریب ہے، میری جان سے بھی زیادہ۔ سو اس کا جاننا میری assesment سے زیادہ صحیح ہے۔ اس کا علم میرے علم سے زیادہ درست اور بہتر ہے۔
دیکھیں ایک بندے کا اپنا علم ہے۔ آپ ایک دعا کر رہے ہیں، اللہ سے مانگ رہے ہیں، تو آپ کچھ تو جانتے ہیں کہ جو مانگ رہا ہوں یہ میرے لیے بہتر ہے، سو یہ شے میرے لیے بہتر ہے، اس شے کی مجھے اس وقت ضرورت ہے تو یہ آپ کا ایک knowledge ہے اور یہ knowledge base کرتا ہے آپ کی Personal assesment پر، آپ کی کیفیات پر۔ تو یہ جو آپ کا علم ہے کہ مجھے اس کی ضرورت ہے، یہ چیز میرے لیے فائدہ مند ہے، اتنی جلد چاہیے یہ سب کچھ جو آپ جانتے ہیں، تو وہ رب جو پہلے آپ کو بتا رہا ہے کہ میں تمہاری شہ رگ سے بھی اور جان سے بھی زیادہ قریب ہوں، وہ یہ بتانا چاہ رہا ہے کہ جب مجھ سے مانگو اور پکارو تو یہ جان کر پکارو کہ جو علم ہمیں ہے اپنی ضرورت کا اور اس کے فائدہ مند ہونے کا ہے اللہ کو تم سے بہتر علم ہے تمہاری حاجت کا، وہ تم سے بہتر جانتا ہے۔ یہ دوسری چیز ہے۔ جب آپ یہ تصور قائم کر لیتے ہیں کہ ہمارے احوال کا وہ ہم سے بہتر واقف ہے، ہماری ضروریات کا وہ ہم سے زیادہ بہتر واقف ہے، ہماری حاجات کا وہ ہم سے زیادہ بہتر واقف ہے، ہماری رغبات کا وہ ہم سے زیادہ واقف ہے، ہماری طلبات کا وہ ہم سے زیادہ واقف ہے، ہماری دعوات کا وہ ہم سے زیادہ واقف ہے، ہماری پکار کا وہ ہم سے بہتر واقف ہے، ہمارے نفع و نقصان کا وہ ہم سے بہتر جاننے والا ہے۔ جب آپ یہ تصور قائم کر لیتے ہیں اور یہ بھی زندہ و تابندہ، جاری ساری اور بیدار شعور بن جاتا ہے تو یہاں سے توکل جنم لیتا ہے۔
وہ پہلے یقین کی ایک برانچ تھی، فرع تھی کہ وہ ہمارے قریب ہے تا کہ یقین ہو جائے۔ اب وہ توکل اس کے ساتھ جڑ گیا کہ جب وہ ہمارے حال کو اور ہماری ضرورتوں کو ہم سے بھی بہتر جانتا ہے تو بندہ اس پر چھوڑ دیتا ہے، توکل کرتا ہے۔ مانگتا ہے اور اس کا نتیجہ مولا پر چھوڑ دیتا ہے کیونکہ وہ ہمارے حالات کا ہم سے بہتر جاننے والا ہے۔ ہمارے حالات سے آگاہ بھی ہے اور ہمارے امور کا کارساز بھی ہے اور ہم سے بہتر کارساز ہے۔ تو پھر وہ مانگتا بھی ہے اور توکل بھی کرتا ہے، اس پہ چھوڑ دیتا ہے۔ تو جب بندہ اس پہ چھوڑتا ہے، توکل کرتا ہے تو اس میں سے عجلت ختم ہو جاتی ہے، وہ تیزی ختم ہو جاتی ہے۔ خواتین کہتی ہیں ہائے اتنے دن ہو گئے دعائیں کر کر کے تھک گئی ہیں مگر دعا پوری ہی نہیں ہوئی، اللہ ہماری سنتا ہی نہیں ہے۔ مرد بھی یہی کہتے ہیں آج اللہ ہماری سنتا ہی نہیں، پـتہ نہیں کس کی سنتا ہے ، کب سنے گا۔ یہ سارے خیالات ان کے اندر دبا ہوا ایک شکوہ ہے، شکایت ہے اور جب یہ یقین قائم ہو جاتا ہے کہ وہ میرے حال کو مجھ سے بہتر جانتا ہے اور پھر میرے حالات کو مجھ سے بہتر کرنے والا ہے اور میری پرورش کرنے والا ہے اور اس نے میری پرورش کرنا اپنے ذمے لے رکھا ہے۔ وہ ہے بھی قریب اور ہے بھی قادر اور ہے بھی آگاہ و علیم اور خبیر اور پھر وہ توکل کرتا ہے تو اس کے اندر سے بے صبری ختم ہو جاتی ہے، عجلت ختم ہو جاتی ہے کہ اب تک ایسا کیوں نہیں ہوا، ویسا کیوں نہیں ہوا، یہ عجلت اور بے چینی ختم ہو جاتی ہے۔ یہ عجلت اور بے چینی جو بندے کو anxiety کی طرف لے جاتی ہے اور anxiety بڑھتے بڑھتے بندے کے اندر depression پیدا کرتی ہے۔ depression سے بندے میں negativity آ جاتی ہے، اس کی سوچیں منفی ہو جاتی ہیں اور رفتہ رفتہ ایمان ختم ہو جاتا ہے۔ ان ساری چیزوں اور ان تمام امور کا علاج دو نقطوں کے اندر ہے جو میں نے بیان کئے ہیں۔
تیسری چیز اسی آیت کریمہ میں اللہ پاک نے جو فرمائی وہ ہے: فَلْيَسْتَجِيْبُوْا لِی اے لوگو! جب یہ دو یقین اپنے اندر پیدا کر لو گے، ایک میں بہت قریب ہوں اور ایک میں تمہاری ہر پکار کو سنتا ہوں اور جانتا بھی ہوں جب یہ دو یقین پیدا کر لو گے اور چاہو گے کہ تمہاری دعائیں قبول ہوں تو اب اللہ پاک نے اس کا طریقہ سکھایا ہے کہ پھر میری فرمانبرداری اختیار کرو۔ صدق دل سے اور صالح عمل کے ساتھ میرے بندے بن جاؤ، میرے حکم کی تابعداری کرو، میرے احکامات کی اطاعت بجا لاؤ، میرے ساتھ بندوں جیسا تعلق رکھو، میرے فرمانبردار بندے بن جاؤ، نافرمانی چھوڑ دو، مجھ سے بے وفائی چھوڑ دو، حکم عدولی چھوڑ دو۔
معلوم ہوا کہ دعا کی قبولیت کے لیے اللہ کی فرمانبرداری، ایک ہمہ وقتی عمل ہے۔ اب اس فرمانبرداری اور دعا میں تعلق یہ ہے کہ دعا تو آپ اس وقت کریں گے جب آپ کی طلب ہو گی، آپ کی ضرورت ہو گی، آپ کو حاجت ہو گی۔ آپ پکاریں گے، آپ مانگیں گے اور دعا کریں گے۔ گناہوں کا بوجھ کندہوں پر محسوس ہو گا، اس کا احساس ہو گا تو آپ توبہ کریں گے اور گناہوں پہ معافی مانگیں گے۔ تنگی ہوگی تو رزق میں فراخی مانگیں گے، بیماری ہو گی تو شفا مانگیں گے، پریشانی ہو گی تو ازالہ مانگیں گے، مشکلات ہوں گی تو آسانیاں مانگیں گے۔ کوئی مقدمہ آ جائے گا تو اس میں فتح یابی مانگیں گے۔ الغرض جب بھی کسی قسم کی کوئی ضرورت و حاجت آپ کو پیش ہو گی تو اس وقت آپ اللہ کے حضور دعا مانگیں گے، تو دعا کے لیے situations ہوتی ہیں، دعا کے لیے اوقات ہوتے ہیں، Times ہوتے ہیں، moments ہوتے ہیں، خاص ساعات اور اوقات میں اور حاجات و ضروریات میں آپ مانگیں گے، یہ تو ہو گئی دعا۔ اب اس دعا کے قبول ہونے کی شرط اللہ رب العزت نے کیا لگائی، فَلْيَسْتَجِيْبُوْا لِی، میری فرمانبرداری اختیار کرو۔
یعنی اگر چاہتے ہو کہ تمہاری دعائیں قبول ہوں تو میرے فرمانبردار بن جاؤ۔ اب فرمانبرداری کے لیے ساعات نہیں ہیں، لمحات نہیں ہیں، اوقات نہیں ہیں، یہ دائمی پوری زندگی کا ہر ہر لمحہ اس پر فرمانبرداری غالب ہے۔ تو پھر ہمہ وقت، رات ہو دن ہو، صبح ہو شام ہو، خوشی ہو غمی ہو، دکھ ہو سکھ ہو، فراخی ہو تنگی ہو، سفر ہو حضر ہو، دشمنی ہو دوستی ہو، بیماری ہو صحتمندی ہو۔ کوئی وقت، کوئی لمحہ، کوئی کیفیت، کوئی ساعت ہو ہر وقت اللہ کی فرمانبرداری رکھنا۔ نماز کا وقت آئے تو کبھی نماز نہ چھوٹے، روزے کا وقت آئے تو روزہ نہ چھوٹے، حج فرض ہو تو حج نہ چھوٹے۔ ہم حج چھوڑتے ہیں عمرے کرتے ہیں، یہ ہماری الٹی سوچ ہے۔ ہمارے پاس وسائل ہوں حج کرنے کے تو ہم فرض حج نہیں کرتے، ہم عمرے کرتے ہیں جو نفل ہے، بے شمار گھرانے میں نے دیکھے ہیں جو کئی بار عمرے پر جاتے ہیں تو ان سے پوچھو تو زندگی میں حج انہوں نے ایک بار بھی نہیں کیا ہوتا۔ اس عمرے کا کیا فائدہ جس میں حج جو اصل فرض تھا وہ آپ نے ادا نہیں کیا، نفل حج فرض کے بعد ہوتا ہے، یہ ایسے ہے جیسے کوئی نماز فرض چھوڑ دے اور نفلوں کی بھرمار کر دے۔ فرائض چھوڑ دے نوافل پڑھے، ایسے نوافل رد کر دئیے جائیں گے۔ ہم نے دین کے اصل concept کو نہیں سیکھا۔ لہٰذا فرمانبرداری اختیار کرو فَلْيَسْتَجِيْبُوْا لِی اس کا مطلب یہ ہے کہ جہاں بھی میرا حکم تمہیں جس کام کے لیے ملتا ہے، آتا ہے اس کو بجا لاؤ، اس میں تاخیر نہ کرو۔
ہمہ وقت مستعد رہو، ہمہ وقت منتظر رہو میرے حکم کو بجا لانے پر۔ اور سراپا میری بندگی میں رہو، میری اطاعت گزاری میں رہو، میری عبادت گزاری میں رہو، سراپا میری وفاداری میں رہو۔ یہ پہلی شرط بیان کی، ترتیب میں تیسرا ادب ہو گیا اور قبولیت کے لیے اگلی بات ہو گئی کہ عملی جو شرائط ہیں، پہلی دو یقین کی کیفیات تھیں، ایک یقین کرنا کہ اللہ قریب ہے اور دوسرا یقین کرنا کہ وہ سنتا اور جواب دیتا ہے۔ پہلی دو شرائط وہ قلبی کیفیات سے متعلق تھیں، قلب کی حالت سے متعلق تھیں۔ اب تیسری شرط عمل سے متعلق ہے کہ تمہارا کوئی عمل زندگی میں اللہ کے حکم اور اس کی رضا کیخلاف نہ ہو۔ اب آپ خود دیکھ لیں، شکوے کرتے ہیں کہ دعائیں قبول نہیں ہوتیں، آپ بیٹھ کے خود موازنہ کر لیں کیسے قبول ہوں؟
کیا ہماری زندگی صبح و شام اللہ کی رضا کے مطابق گزرتی ہے؟ اور اس کی عبادت گزاری میں گزرتی ہے؟ اللہ نے فرمایا لوگوں سے سخت طریقے سے پیش نہ آؤ، نرمی سے پیش آؤ، محبت سے پیش آؤ، دھوکہ بازی نہ کرو، خیانت نہ کرو، دجل و فریب نہ کرو، دھوکہ نہ کرو، بددیانتی نہ کرو، خیانت نہ کرو۔ اپنے وقت کو جس چیز کی تنخواہ لے رہے ہو اسی کے لیے استعمال کرو۔ ایمانداری سے کرو، یہ ساری شرائط عبادات کے علاوہ معاملات میں بھی اللہ کا حکم ہے۔
باہمی رویوں میں بھی اللہ کا حکم ہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ ڈیلنگ میں اللہ کا حکم ہے، شوہر ہے تو بیوی کے حقوق کی ادائیگی میں اللہ کے احکام ہیں۔ بیوی ہے تو شوہر کے حقوق کی ادائیگی میں احکام ہیں، اگر والدین ہیں تو اولاد کے حقوق ادا کرنے میں اللہ کا حکم ہے، اگر اولاد ہے تو والدین کے ادب و احترام میں اللہ کا حکم ہے۔ رشتہ داروں کے حقوق کی ادائیگی میں اللہ کا حکم ہے، پڑوسیوں اور سوسائٹی میں امیر و غریب کے حقوق کی ادائیگی میں حکم ہے۔ شاگرد ہیں تو اساتذہ کے حقوق کی ادائیگی کا حکم ہے۔ اساتذہ ہیں تو شاگردوں کے حقوق کی ادائیگی ہے۔ بہن بھائیوں کے حقوق کی ادائیگی ہے، یعنی عبادات ہی پر صرف بات ختم نہیں ہوتی اللہ کے حکم کی معاملات پر بھی بات جاتی ہے، اخلاق پر بھی جاتی ہے اور سوسائٹی کے اندر معاملات پر بھی جاتی ہے۔ سو ہم محاسبہ کریں گے کہ کیا زندگی کے تمام معاملات میں جہاں جہاں اللہ نے حکم دیا ہے کیا ہم اس کی فرمانبرداری کر رہے ہیں؟ اگر بندہ کاملاً اللہ کا فرمانبردار بن جائے تو دعا کی قبولیت کا راستہ ہموار ہو جاتا ہے۔ یہ بات اس آیت کریمہ میں سمجھائی۔ ہم نے فرمانبرداری کو الگ رکھ دیا ہے، الگ سبجیکٹ بنا دیا ہے اور اپنی ضرورتمندی کو اور اس میں دعا کی قبولیت کو الگ سبجیکٹ بنا دیا ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں چونکہ ہم بیمار ہوئے ہیں سو دعا سے ہمیں شفا ملنی چاہیے۔ ہماری حاجت ہے، پریشانی ہے، دکھ ہے، ہماری اولاد نہیں ہو رہی، ہمارے ہاں مشکل ہے، ہماری مشکل حل ہونی چاہیے، ہم سمجھتے ہیں جیسے اللہ ہمارا پابند ہے معاذ اللہ۔ ہم اپنی حاجت، اپنی ضرورت، اپنی مشکل کے اندر دعا کا قبول ہونا اس کو الگ سبجیکٹ سمجھتے ہیں اور پوری زندگی اللہ کی فرمانبرداری میں گزر رہی ہے یا نافرمانی میں اسے الگ سبجیکٹ بنا دیا ہے۔ جس کی وجہ سے ہماری زندگیوں میں یہ ربط اور جوڑ نہیں رہا اس لیے شکووں سے زندگی بھر گئی ، پریشانیوں سے زندگی بھر گئی، اس آیت کریمہ نے ان سارے حصوں کو، ان سارے ڈیپارٹمنٹس کو جوڑ دیا ہے اور یونیفائی کر کے ایک وحدت بنا دیا۔ اللہ پاک نے فرمایا اگر دعا کی قبولیت چاہتے ہو تو میری فرمانبرداری اختیار کرو۔ اور ایک حدیث پاک میں ہے آقاں نے فرمایا: کہ اگر کوئی شخص اللہ رب العزت کا اتنا فرمانبردار بن جائے، اتنا ذکر کرنے والا بن جائے، اتنا عبادت گزار بن جائے کہ وہ ہر وقت اللہ کے ذکر میں، اللہ کی یاد میں، اللہ کی عبادت میں اتنا مشغول رہے کہ اللہ کے ذکر، فرمانبرداری اور اطاعت میں اس کا جو مشغول رہنا ہے وہ اسے اللہ کے حضور اپنا سوال کرنے کی بھی فرصت نہ دے۔ اپنی پریشانی، حاجت اور ضرورت کے وقت دعا کرنے کی بھی فرصت نہ دے، مانگنے کی بھی فرصت نہ دے، اگر اللہ کے ذکر میں، اس کی اطاعت میں، اس کی فرمانبرداری میں ہر وقت اللہ کی بندگی اور غلامی میں بندہ اتنی تگ و دو کرتا رہے کہ اپنی حاجت بھول جائے، اپنا سوال بھول جائے، تو اللہ پاک نے فرمایا: میں ایسے بندے کو اس کے سوال کرنے سے زیادہ عطا کرتا ہوں۔
میں اس کے اس حال سے خوش ہوتا ہوں کہ دیکھو کہ میرا بندہ کتنا میرا وفادار ہے، کتنا میرا تابعدار ہے اور میری عبادت میں اس کو کتنی لذت آ رہی ہے اور میرے ذکر میں کتنا کھو گیا ہے اور میری یاد میں کتنا فنا ہے کہ میری یاد، میری محبت اور اطاعت میں اسے اپنی حاجت ہی یاد نہیں رہی، اسے اپنا سوال کرنا یاد نہیں رہا، اسے اپنی ضرورت یاد نہیں رہی، اس لیے مجھ سے مانگنا بھی بھول گیا ہے میرے ذکر، عبادت اور فرمانبرداری کی لذت میں اور سرور میں ہے تو اللہ فرماتا ہے اگر وہ مجھ سے مانگتا تو جو اسے عطا کرتا اس سے کہیں زیادہ ایسے بندے کو بن مانگے دیتا رہتا ہوں، اس کی جھولیاں بھرتا رہتا ہوں۔ چونکہ اس نے بندگی اختیار کر لی، چونکہ اس نے تابعداری اور فرمانبرداری اختیار کر لی، تو دوستو! فرمانبرداری کے اندر قبولیت کا راز ہے کہ مالک اس بندے کا خود بخود کار ساز ہو جاتا ہے۔
ماخوذ از ماہنامہ دختران اسلام، مئی 2016
تبصرہ